جمہوریت سے بڑھتی ہوئی بے زاری
پاکستانی موجودہ جمہوریت سے فوجی جنرلوں کے دورِ حکومت کو اچھا سمجھتے ہیں
عالمی سطح پر ہونے والے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں موجود جمہوریت سے 98 فیصد لوگ بے زار ہوچکے ہیں اور حال ہی میں ملتان میں سابق وزیراعظم گیلانی کی نشست پر ان کے صاحبزادے عبدالقادر گیلانی نے ضمنی انتخاب میں تقریباً 41 فیصد ووٹ لیے ہیں اور یہ وہ حلقہ ہے جہاں سابق وزیراعظم نے اربوں روپے کے ترقیاتی کام کرائے تھے۔ امریکی سفیر کیمرون منٹر کے حوالے سے اخبارات میں جو خبریں شایع ہوئی ہیں، ان کے مطابق پاکستانی موجودہ جمہوریت سے فوجی جنرلوں کے دورِ حکومت کو اچھا سمجھتے ہیں اور وہ جمہوری حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔
ملک میں قائم سوا چار سالہ جمہوریت میں ملک میں جو کچھ ہوا ہے، اس سے مایوس ہو کر لوگ سابق صدر جنرل پرویز کے دور کو موجودہ حکومت سے بہتر سمجھنے لگے ہیں۔ عوام کا زیادہ تعلق ملک میں بدامنی، بے روزگاری اور مہنگائی سے زیادہ ہوتا ہے اور جنرل پرویز اور اس سے قبل نواز شریف حکومت میں جو مہنگائی بڑھی تھی اس کی وجہ سے عوام ان کی حکومتوں سے بھی بے زار ہوگئے تھے اور موجودہ جمہوری حکومت سے توقع کیے بیٹھے تھے کہ یہ عوام کو ریلیف دیں گے، مہنگائی کم کرائیں گے اور انتخابی مہم میں عوام سے کیے گئے وعدے پورے کیے جائیں گے مگر سب کچھ اس کے برعکس ہوا۔ یہ ان سے بدتر ثابت ہوگئے۔
موجودہ حکومت نے عوام کو کچھ نہیں دیا بلکہ جمہوری دور میں عالمی سطح اور ملکی سطح پر بینکوں سے قرضے لینے، سب سے زیادہ وزیر، مشیر، معاونین خصوصی بھرتی کرنے، مہنگائی بڑھانے، حکومتی اتحادیوں کو کھلی چھٹی دے کر قومی ادارے زوال پذیرکرانے، اپنوں کو نوازنے، نکالے گئے وزیروں کو دوبارہ وزیر بنانے کا ریکارڈ قائم کردیا ہے۔ ایسا ریکارڈ ماضی میں کوئی بھی حکومت قائم نہیں کرسکی تھی جب کہ ملک میں ہونے والی مبینہ کرپشن کے تو عالمی سطح پر بھی بہت چرچے ہیں۔
موجودہ حکومت کے پہلے وزیراعظم گیلانی کو متفقہ طور پر منتخب ہونے کا اعزاز ملا تھا تو انھیں ملک میں پہلی بار نااہل قرار دیے جانے کی غیر متوقع سزا بھی بھگتنا پڑی۔ موجودہ حکومت میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کی جو انتہا ہوئی، اس کے نتیجے میں صنعتیں بند، ہزاروں مزدور بے روزگار تو ہوئے ہی مگر عام آدمی بھی بہت بری طرح متاثر ہوا۔ مہنگائی، بدامنی کے بعد جب ہر شخص محنت کرکے اپنے گھر پہنچتا ہے تو اسے بجلی نہ ہونے سے رات کی نیند بھی میسر نہ آئے تو لامحالہ وہ حکومت کو برا بھلا ہی کہے گا۔
لوگوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ ملک کی معاشی تباہی کا رونا رونے والی حکومت کے اپنے اخراجات تو کم ہونے کے بجائے بڑھتے جاتے ہیں اور حکومت اپنے اخراجات پورا کرنے کے لیے قرضوں پہ قرضے لیے جارہی ہے۔ ایسی افواہیں بھی گردش کررہی ہیں کہ حکومت نے صرف 6 روز میں مرکزی بینک سے 51 ارب روپے قرضہ لیا، حقیقت کیا ہے، اس کا تو پتہ نہیں لیکن اخبارات میں ایسی خبریں آرہی ہیں کہ حکومت نے 1200 ارب روپے کا ملکی تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ لینے کا بھی ریکارڈ قائم کردیا ہے۔
ہر شخص اپنی آمدنی کے مطابق خرچ کرتا ہے مگر موجودہ حکومت اپنی سب سے بڑی کابینہ، صدر اور وزیراعظم کے غیر ملکی شاہانہ دوروں کے اخراجات پورے کرنے کے لیے قرضے لے کر ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھاتی آرہی ہے، جس کے نتیجے میں ہماری پیدا ہونے والی نسل بھی مقروض پیدا ہوگی اور جمہوریت کو کوسے گی۔
لوگ اب جمہوری اور فوجی حکومتوں کی کارکردگی کا موازنہ کرتے ہیں تو انھیں فوجی آمروں کی حکومتیں جمہوری حکومتوں سے بہتر نظر آتی ہیں۔ فوجی حکومت میں فوجی جنرل اپنی من مانی کرتا رہا ہے تو سیاسی رہنما بھی صدر اور وزیراعظم بن کر خود کو مطلق العنان تصور کرنے لگتے ہیں۔
تاہم فوجی حکمران اپنے اقتدار میں خود کو جی ایچ کیو اور ایوانِ صدر تک محدود رکھتے ہیں، اپنے آبائی علاقوں میں، اپنے گھر کو سرکاری فنڈ سے اپنی متبادل رہایش گاہ نہیں بناتے جب کہ سیاسی صدر اور وزیراعظم کی نجی رہایش گاہوں کو ایوانِ صدر اور پرائم منسٹر ہائوس کے متبادل کا درجہ سرکاری فنڈ سے تزئین و آرایش کرکے اس طرح دے دیا جاتا ہے جیسے وہ ساری عمر عہدے پر رہیں گے۔ سیاسی حکمران اپنے نجی گھروں کے قریب دیواریں کھڑی کراکر خود کو ایسا محفوظ بنالیتے ہیں جیسے ان کی جان ہی سب سے قیمتی ہو اور بعد میں اقتدار سے الگ ہو کر ان کی جان کو لاحق خطرہ ختم ہوجاتا ہے اور پھر ان کی سیکیورٹی دیکھنے میں نہیں آتی۔
جمہوری حکومت عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتی ہے تو عوام یہ توقع رکھنے میں حق بجانب ہوتے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے خود قلعہ نما جگہوں میں نہیں رہیں گے،عوام کو سیکیورٹی مہیا کریں گے، اورحکومت انھیں سہولتیں اور ریلیف اور ملک کو ترقی و خوش حالی دے گی، مگر حکمران خود کو بادشاہ سلامت تصور کرلیتے ہیں اور من مانیوں، اقربا پروری، اپنوں کو غیر قانونی طور پر نوازنے کے لیے تمام قانونی اور اخلاقی حدود پار کرجاتے ہیں اور عوام سے ایسے لاتعلق ہوجاتے ہیں جیسے آیندہ کبھی ان کا عوام سے واسطہ ہی نہیں پڑے گا اور وہ ساری عمر اقتدار میں رہیں گے۔ فوجی اور سیاسی حکمرانوں میں ایک چیز قدر مشترک ہوتی ہے اور وہ خود کو عقل کل سمجھتے ہیں اور صرف اپنی پسند کی بات اور خوشامد سننا چاہتے ہیں۔ ان کی مرضی کے خلاف بات کرنے والا ان کا مخالف سمجھ لیا جاتا ہے۔
وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کا کہنا ہے کہ سیاست دانوں نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ لیا ہے اور وہ دوبارہ ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے۔ کہنے کی حد تک وزیراعظم کی باتیں درست ہیں مگر عملی طور پر بالکل نہیں۔ موجودہ ارباب اقتدار نے اپنی حکومتوں کی ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اپنے اقتدار کے باعث ضمنی الیکشن کی کامیابی کو وہ اپنی مقبولیت سمجھ رہے ہیں۔
اقتدار والوں کو پجاری بہت مل جاتے ہیں مگر اقتدار ختم ہونے کے بعد یہ بھی جنرل پرویز جیسا شکوہ کرتے نظر آئیں گے جب تک اقتدار کے پجاری ان سے دور جاچکے ہوں گے اور الیکشن میں جب یہ عوام کے پاس جائیں گے تو کس منہ سے یہ عوام کا سامنا کریں گے۔ سیاسی حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کے باعث ہی لوگ جمہوریت سے بے زار ہورہے ہیں اور فوجی آمروں کو کیوں اچھا کہنے پر مجبور ہوئے ہیں یہ کوئی سیاسی حکمران نہیں سوچتا۔