پروفیسر غفور اور جمہوری جدوجہد

جماعت کے امیر میاں طفیل محمد کو پنجاب کے گورنر غلام مصطفیٰ کھر کے حکم پر گرفتار کیا گیا۔

tauceeph@gmail.com

پروفیسر غفور کے انتقال سے شفاف سیاست، وضع داری اور برداشت کا ایک دور اختتام پذیر ہوا۔ پروفیسر غفور نے ساری زندگی جماعت اسلامی میں گزاری مگر وہ جماعت کے واحد رہنما تھے جو جماعت سے زیادہ دوسرے سیاسی حلقوں میں مقبول تھے۔ پروفیسر غفور 50 کی دہائی میں جماعت اسلامی میں شامل ہوئے، انھوں نے جنرل ایوب خان اور بھٹو کی حکومتوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور 50 کی دہائی سے 2002 تک نافذ ہونے والے جمہوریت کی مختلف اقسام کے تحت ہونے والے انتخابات میں حصہ لیا۔ جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت میں 9 ماہ تک وفاقی وزیر رہے۔

پروفیسر غفور سید مودودی کی تعلیمات سے متاثر تھے، وہ اسلامی انقلاب کے نعرے پر یقین رکھتے تھے مگر عملی طور پر وہ جمہوری طرز فکر کے تحت تبدیلی کے حامی تھے۔ 1957 میں اجلاس عام کے موقع پر جب مولانا مودودی نے جماعت اسلامی کو سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا، یہ وہ وقت تھا جب مولانا امین اصلاحی، ڈاکٹر مسعود عثمانی، ڈاکٹر اسراراحمد اور ارشاد احمد حقانی جماعت سے علیحد ہوگئے۔ پروفیسر غفور نے اس نازک مرحلے پر بھی مولانا مودودی کا ساتھ دیا۔ پروفیسر غفور 1970 تک نسبتاً غیر معروف سیاسی رکن تھے۔ 1970 میں انھیں قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کا موقع ملا۔

اس سال جماعت نے شوکت الاسلام کا جشن مناکر بظاہر انتخابات میں اپنی کامیانی کا اعلان کردیا تھا مگر انتخابات میں جماعت کو صرف چار نشستیں ملیں جن میں سے دو کراچی کی تھیں، ان کے ساتھ سینئر رہنما محموداعظم فاروقی کامیاب ہوئے تھے۔ پروفیسر غفور پارلیمانی پارٹی کے چیئر پرسن منتخب ہوئے، قومی اسمبلی میں آئین کا مسودہ تیار کرنے کے لیے جو کمیٹی قائم ہوئی پروفیسر غفور اس کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے۔ اس وقت بلوچستان کے رہنما غوث بخش بزنجو نیشنل عوامی پارٹی کی جانب سے آئین ساز کمیٹی کے رکن تھے۔

انھوں نے آئین کا ابتدائی مسودہ تیاری کرنے کے لیے بنیادی نکات طے کرائے تھے، نیب کی مرکزی کمیٹی میں موجود کمیونسٹوں اور پختون قوم پرستوں نے میر بزنجو پر عدم اعتماد کردیا۔ جمہوریت کے استحکام کے لیے آئین کا نفاذ ضروری تھا۔ پاکستان میں آئین سازی کی تاریخ خاصی بری تھی، پہلی آئین ساز اسمبلی 1954 تک آئین بنانے میں ناکام رہی تھی۔ دوسری اسمبلی نے 1956 کا جو آئین بنایا تھا فوجی آمر نے اس کو منسوخ کردیا تھا پھر جنرل ایوب خان نے 1962 کا صدارتی آئین نافذ کرکے اکثریت کو مایوس کیا تھا اور 1968 میں اقتدارسے رخصتی کے وقت اپنے ہی آئین کو منسوخ کردیا تھا۔

جنرل یحییٰ خان نے اگرچہ 1970 میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات منعقد کرائے تھے مگر انتخابات کے نتائج کو فوج اور مغربی پاکستان کی اکثریتی جماعت پیپلزپارٹی نے تسلیم نہیں کیا تھا۔ اگرچہ جماعت اسلامی نے اس تنازعے میں فوج کی حمایت کی تھی مگر اب ملک ٹوٹنے کے بعد پھر سیاستدانوں کو آئین کی تیاری کا جو موقع مل رہا تھا، پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کی ماضی کی چپقلش اور پیپلزپارٹی کی حکومت کے جماعت اسلامی کے خلاف اقدامات کے باوجود پروفیسر غفور احمد نے پیپلزپارٹی سمیت تمام جماعتوں کے درمیاں اتفاق رائے کی کوشش کی۔

ذوالفقار علی بھٹو، ولی خان، میر بزنجو، ،غفور احمد، مفتی محمود، شاہ احمد نورانی اور مولانا ظفر احمد نصاری، سردار شیر باز خان مزاری کی کوششوں سے ایک جامع آئین تیار ہوا، جو آیندہ ہر آمر کے لیے ایک ایسی دیوار بن گیا جس کو مسمار کرنا تقریباً ناممکن ہوگیا۔

بھٹو دور حکومت میں جماعت اسلامی انتقام کا نشانہ بنی۔ جماعت کے امیر میاں طفیل محمد کو پنجاب کے گورنر غلام مصطفیٰ کھر کے حکم پر گرفتار کیا گیا۔ جماعت اسلامی نے سندھ اسمبلی سے منظور شدہ سندھی زبان کو سندھ کی سرکاری زبان قرار دیے جانے کے بل کے خلاف احتجاجی مظاہروں کو منظم کیا۔ ملک بھر میں شہروں کی دیواروں کو بھٹو مخالف اور جنرل ٹکا خان کو مدعو کرنے کے نعروں سے بھر دیا گیا، اس ماحول میں سات مخالف جماعتوں نے پاکستان قومی اتحاد قائم کیا۔


مفتی محمود پی این اے کے سربراہ اور رفیق باجوہ اس کے سیکریٹری جنرل مقرر ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو لاڑکانہ سے بلا انتخاب منتخب ہوئے، ان کے مخالف جماعت اسلامی کے مولانا جان محمد عباسی اغوا کر لیے گئے، چاروں وزرائے اعلیٰ بھی بلامقابلہ منتخب ہوئے۔ اس ماحول میں قومی اسمبلی کے انتخابات میں بڑے شہروں میں پی این اے نے بہتر کامیابی حاصل کی مگر پی این اے نے دھاندلیوں کے الزامات کی بناء پر صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ پی این اے نے احتجاجی مہم شروع کردی، اس دوران جنرل رفیق باجوہ کی ذوالفقار علی بھٹو سے خفیہ ملاقات ہوئی۔

کسی خفیہ ایجنسی نے اس ملاقات کی خبر اخبارات میں شایع کرادی، یوں رفیق باجوہ مستعفی ہوئے اور پروفیسر غفور احمد پی این اے کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔ اس بگڑتی صورتحال میں وزیر اعظم بھٹو نے پی این اے کے رہنمائوں کو مذاکرات کی دعوت دی۔ پی این اے کے رہنما اصغر خان، شیر باز مزاری، بیگم نسیم ولی خان مذاکرات کے خلاف تھے۔ غفور صاحب نے پیپلزپارٹی کی حکومت کی جماعت مخالف پالیسیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے مذاکرات کی حمایت کی، مفتی محمود اور نصر اﷲ خان بھی مذاکرات کے حق میں تھے۔

بھٹو اور پی این اے کی ٹیم میں مذاکرات ہوئے، بھٹو کے ساتھ مولانا کوثر نیازی اور حفیظ پیر زادہ تھے، پی این اے کی ٹیم مفتی محمود، نصر اﷲ خان اور پروفیسرغفور پر مشتمل تھی۔ ان مذاکرات میں ایک وقت ایسا آیا کہ فوج کے سربراہ جنرل ضیاء الحق نے بلوچستان میں فوج بلانے کی مخالفت کی مگر پروفیسر غفور اور دوسرے رہنمائوں نے جنرل ضیاء الحق کے دلائل کو مسترد کیا۔ پروفیسر غفور نے ہمیشہ یہ بات کی کہ بھٹو اور پی این اے کے رہنمائوں میں معاہدے کے بعد فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا۔

پروفیسر غفور احمد سیاستدانوں کے فوج سے قریبی روابط کو غلط سمجھتے تھے، اگر چہ انھیں جماعت کے فیصلے کی بناء پر وزارت قبول کرنی پڑی مگر انھوں نے جماعت کے اعلیٰ ادارہ میں اپنے اختلافات کا بھی اظہار کیا۔ پروفیسر غفوراحمد کے بعض قریبی معاونین کہتے ہیں کہ پروفیسر غفور 80 کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق کے خلاف ایم آر ڈی کے اتحاد میں جماعت اسلامی کی شرکت کے حق میں تھے مگر جماعت کے امیر میاں طفیل محمد کی فوج کی حماعت میں پالیسی کی بنا پر یہ ممکن نہیں ہوا۔ ان کا خیال تھا کہ سیاسی جماعتوں کی مشترکہ جدوجہد سے جمہوریت بحال ہوگی۔

ایک اہم مرحلے پر پروفیسر غفور نے یہاں تک کہا کہ اگر فوج آگئی تو جمہوریت کی گاڑی پٹری سے اتر جائے گی اور نتیجے میں مارشل لاء لگے گا اور پی این اے کے رہنمائوں کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ ان کی دانشمندانہ رائے قبول نہ کرنے کے نتیجے میں جنرل ضیاء کا مارشل لاء آگیا اور دس سال تک ملک مارشل لاء کے استبداد کے پنجے میں پھنسا رہا۔

پروفیسر غفور جماعت اسلامی کے وہ شاید پہلے رہنما تھے جنہوں نے حقیقت کا انکشاف جنرل ضیاء کے دور حکومت میں کہا کہ حکومت (بھٹو حکومت) اور پی این اے میں معاہدہ ہوچکا تھا جس پر اس وقت کے جنرل ضیاء کی حکومت میں شامل لوگوں نے اس ''حق'' اور سچ کو بیان کرنے پر پروفیسر صاحب کو اندرونی طور پر معاف نہ کیا۔ پروفیسر غفور جماعت اسلامی کے وہ پہلے رہنما تھے جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو شہید جمہوریت قرار دینے کے علاوہ بھٹو صاحب کی مدبرانہ قیادت کو خراج تحسین پیش کیا تھا۔

پروفیسر غفور کے قریبی معاونین کہتے ہیں کہ قاضی حسین احمد اور پروفیسر غفور 1988 میں پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر سیاسی اتحاد بنانا چاہتے تھے کہ نادیدہ قوتوں نے IJI بنوادی۔ معاونین کہتے ہیں کہ آئی جے آئی کی تشکیل ہورہی تھی تو قاضی حسین احمد نے بے نظیر بھٹو سے ملاقات کے لیے پروفیسر غفور کو نامزد کیا اور اس وقت آج کے پاکستانی ہائی کمیشن واجد شمس الحسن کے ذریعے بی بی سے مذاکرات کی کوشش کررہے تھے، جب وہ واپس جماعت اسلامی کے دفتر پہنچے تو معلوم ہوا کہ اچانک آئی جے آئی کی تشکیل عمل میں آچکی ہے اس پر وہ بھونچکا رہ گئے۔

غفور صاحب نے ایم کیو ایم سے بھی تعاون کی کوشش کی تھی تاکہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور بربادی کو روکا جائے۔ پروفیسر غفور جماعت اسلامی میں متوسط طبقے کے نمایندہ تھے وہ اپنی فکر اور محنت کی بناء پر جماعت کے مخالفین میں مقبول تھے ان جیسی دوسری شخصیت اب جماعت میں نظر نہیں آتی۔
Load Next Story