خاندانی سیاست کا کلچر
خاندانی قیادت، خاندانی حکمرانی کا کلچر بدقسمتی سے مسلم ملکوں میں زیادہ مستحکم رہا ہے
ہماری سیاست میں خاندانی قیادت کا جو کلچر مستحکم ہورہا ہے اس کے اسباب میں ایک بڑا سبب سیاسی پارٹیوں میں موجود سیکنڈ لائن قیادت کا غلامانہ کردار ہے۔ یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ سیاسی پارٹیوں میں موجود مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی قیادت جو اپنی عمر، تجربے اور صلاحیتوں کے حوالے سے اپنی مرکزی قیادت سے کئی گنا بہتر ہوتی ہے وہ محض اس وجہ سے کسی سیاسی پارٹی کی قیادت سے محروم ہے کہ اس کا تعلق مڈل کلاس سے ہے اور اس کلچر کا عالم یہ ہے کہ اس سیاست کے ولی عہدی نظام میں کل کے بچے محض اس لیے مرکزی قیادت کی جگہ لے رہے ہیں کہ وہ ان سیاسی اوتاروں کی اولاد ہیں جو اہلیت کے بجائے اپنی دولت کی بنیاد پر سیاسی پارٹیوں پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں اور اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ سیاست اور سیاسی خدمات میں اپنے بال سفید کرنے والے یہ بدقسمت لوگ سیاسی اجارہ داروں کی اس نوعمر ناتجربہ کار اولاد کو سر پر اٹھائے پھر رہے ہیں، ان کی تعریف و توصیف میں اپنا حلق خشک کر رہے ہیں۔
ہماری روایتی سیاست کی صف اول میں شامل ہونے کے لیے سیاسی کارکنوں کو سیاسی جدوجہد، سیاسی قربانیوں کی طویل آزمائشوں سے گزرنا پڑتا تھا پھر کہیں انھیں صف اول کی قیادت میں شمولیت کا حق حاصل ہوتا تھا۔ اسی طرح عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی پارٹیوں میں صدارت یا وزارت عظمیٰ پر نامزدگی بھی صلاحیتوں اور قربانیوں کی بنیاد پر ہوتی تھی اس میں دولت اور خاندانی وجاہت کا کوئی دخل نہیں ہوتا تھا لیکن اب جس سیاسی کلچر میں ہم سانس لے رہے ہیں یہاں کسی ملک کی صدارت یا وزارت کا حق موروثی بن گیا ہے۔ اہلیت، قربانیوں، صلاحیتوں اور تجربات کی آج کی سیاست میں کوئی اہمیت نہیں۔
خاندانی قیادت، خاندانی حکمرانی کا کلچر بدقسمتی سے مسلم ملکوں میں زیادہ مستحکم رہا ہے، خاص طور پر پاکستان میں تو خاندانی قیادت، خاندانی حکمرانیوں کی مضبوطی کا عالم یہ ہے کہ آنے والی کئی نسلوں تک کے لیے ولی عہد کی فوج تیار کی جارہی ہے اور انھیں سیاست میں متبادل جمہوری بادشاہوں کی حیثیت سے اس طریقے سے متعارف کرایا جارہا ہے کہ باہر سے آنے والے مہمان حکمران بھی اس کو دیکھ کر منہ بناتے دیکھے جاتے ہیں۔
آج ملک میں موجودہ حکومت کے پانچ سال مکمل کرنے، جمہوریت کی گاڑی کو ڈی ریل ہونے سے بچانے اور انتخابات کو ملک کے مسائل کا واحد حل بتانے والے خاندانی سیاستدانوں کا تو اس حوالے سے جمہوریت کی دہائی دینے کا مقصد سمجھ میں آتا ہے کہ یہ لوٹ مار کے زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل کرنا اور اپنی اولاد کے حق حکمرانی کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں، لیکن حیرت ان مڈل کلاس کے سیکنڈ لائن رہنماؤں پر ہوتی ہے جو میڈیا میں اس خاندانی حکمرانی کے کلچر کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں جب کہ انھیں اچھی طرح اس بات کا علم ہے کہ اس خاندانی حکمرانی کے کلچر میں انھیں کبھی صدر، وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل ہوسکتا ہے نہ کسی سیاسی جماعت کی سربراہی کا۔
بعض مخصوص حالات میں ہوسکتا ہے کہ کسی مڈل کلاس کو بڑے عہدوں پر لایا جائے، لیکن ایسے ناگوار فرض ادا کرتے ہوئے بھی اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ جسے اس قسم کے اعلیٰ عہدوں پر لایا جارہا ہے اس میں خاندانی غلامی کی خوبیاں، جی حضوری کی صلاحیت کے ساتھ کرپشن کی خوبیاں بھی موجود ہوں۔
ہندوستان اور پاکستان ایک ہی وقت میں آزاد ہوئے اور وجود میں آئے، لیکن بات یہ ہے کہ ہم سے دس گنا اس بڑے ملک میں نہ خاندانی سیاست کو مستحکم ہونے کا موقع دیا گیا نہ خاندانی حکمرانی کے کلچر کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی۔ آج ہندوستان کی سیاسی جماعتوں کی قیادت ہی نہیں بلکہ صوبائی مرکزی حکومتوں اور قانون ساز اداروں میں بھی مڈل اور لوئر مڈل کلاس مستحکم اور مضبوط ہے۔
ایسا کیوں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ پاکستان جن علاقوں پر مشتمل ہے یا جو علاقے پاکستان کے حصے میں آئے وہ انتہائی پسماندہ قبائلی سرداری اور وڈیرہ شاہی نظام کی گندگی میں آلودہ تھے اور ان نظاموں میں موروثی حکمرانی سب سے بڑا اور اہم عنصر تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ تحریک پاکستان میں بھی یہی طبقے پیش پیش تھے اور پاکستان بننے کے بعد انھی طبقات نے اقتدار پر قبضہ کیا۔ 1970 تک وہ محلاتی سازشوں کے ذریعے اقتدار سے پیوست رہے اور 1970 کے بعد ان طبقات نے اشرافیائی جمہوریت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ جمالیا۔
مشرق وسطیٰ ہزاروں سال سے ملوکیت کے کیچڑ میں دھنسا رہا۔ ان ملکوں میں اکیسویں صدی تک انسانی حقوق، سیاسی آزادیوں کا کوئی تصور موجود نہ تھا، کیونکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد مشرق وسطیٰ کے بیشتر ملکوں میں بادشاہتوں کی جگہ جن فوجی حکومتوں نے لی وہ بھی آہستہ آہستہ خاندانی حکمرانیوں کے راستے پر چل پڑے۔ اس قابل شرم خاندانی حکومتوں کے تسلسل نے آخرکار مشرق وسطیٰ کے عوام کو اس نظام سے بغاوت پر مجبور کردیا اور پھر اس خطے میں وہ باغیانہ تحریکیں چلیں جو خاندانی حکمرانیوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے گئیں۔
ان تحریکوں کو مغرب نے ''عرب بہار'' سے تعبیر کیا، ان بہاروں کو کس طرح خزاؤں میں بدلا گیا یہ ایک الگ کہانی ہے۔ لیکن اب ان علاقوں میں خاندانی حکمرانیوں کا احیاء بہت مشکل ہے اور مذہب اور قبیلوں کے نام پر اب جو بادشاہتیں باقی ہیں ان کے خلاف بھی عوام میں اضطراب بڑھتا جارہا ہے اور امید ہے کہ عرب عوام ماضی کی ان یادگاروں کو بھی جلد مٹا دیں گے۔
پاکستان میں خاندانی سیاست، خاندانی حکمرانی کی مخالفت کا مطلب کسی مخصوص رہنما کسی مخصوص خاندان کی مخالفت نہیں ہے بلکہ اس کلچر کی مخالفت کی وجہ یہ ہے کہ اس کلچر کی وجہ سے پاکستانی معاشرہ جمود کا شکار ہوکر رہ گیا ہے۔ عوام ایک ہی طبقے کے سیاستدانوں اور حکمرانوں کو 65 سال سے دیکھ دیکھ کر اکتا گئے ہیں۔ آج ہمارے معاشرے، ہمارے ملک میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک جو بے چینی اور اضطراب دیکھا جارہا ہے ہوسکتا ہے اس کی ظاہری وجوہ مختلف نظر آئیں، لیکن اس کی اصل وجہ وہی خاندانی سیاست، خاندانی حکمرانی کا کلچر ہے۔ اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ خاندانی سیاستدانوں، خاندانی حکمرانوں نے اپنے اپنے دور حکومت میں عوام کی طرف توجہ دینے، عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے اپنا سارا وقت زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے میں لگایا، دولت جمع کرنے کی اسی دوڑ کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارا ملک کھربوں روپوں کی اعلیٰ سطح کی کرپشن کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں میں بڑے بڑے نامور رہنماؤں کی اربوں روپوں کی کرپشن کے کیس زیر سماعت ہیں۔ میڈیا اس اعلیٰ سطح کی خاندانی کرپشن کی داستانوں سے بھرا پڑا ہے، بیرون ملک ہماری پہچان کرپشن، بدعنوانیاں، بددیانتیاں بنی ہوئی ہیں۔
آج ہر طرف سے یہ بے معنی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ فوری انتخابات ہی ہمارے مسائل کا حل ہیں۔ یہ آوازیں ان حلقوں سے اٹھ رہی ہیں جو انتخابات کے ذریعے دوبارہ لوٹ مار کے مواقع حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ بلاشبہ عوام کے پاس انتخابات کے ڈرامے کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں، لیکن سیاسی جماعتوں خاص طور پر پارلیمانی جماعتوں میں موجود سیکنڈ لائن مڈل کلاس قیادت اپنی غلامانہ ذہنیت ترک کرکے اور احساس کمتری سے باہر نکل کر اپنی سیاسی خدمات، سیاسی تجربے، سیاسی قربانیوں اور سیاسی صلاحیتوں کی بنیاد پر اس خاندانی حکمرانی، خاندانی سیاست کے خلاف بغاوت کرے تو یقیناً اسے سیاسی کارکنوں ہی کی نہیں بلکہ عوام کی بھی زبردست حمایت حاصل ہوسکتی ہے۔
اگر مڈل کلاس پر مبنی سیکنڈ لائن قیادت آگے آتی ہے اور سیاست اور اقتدار پر قابض ہوتی ہے تو ایک طرف خاندانی سیاست، خاندانی حکمرانی کا کلچر ختم ہوجائے گا، دوسری طرف اس قیادت کے آگے آنے سے عوامی مسائل حل ہونے کی راہ ہموار ہوگی اور ہمارے سیاسی اوتار ولی عہدی کے جس نظام کو مضبوط کرنے کے لیے طرح طرح کے نفسیاتی حربے استعمال کر رہے ہیں وہ سب ملیا میٹ ہوجائیں گے۔
ہماری روایتی سیاست کی صف اول میں شامل ہونے کے لیے سیاسی کارکنوں کو سیاسی جدوجہد، سیاسی قربانیوں کی طویل آزمائشوں سے گزرنا پڑتا تھا پھر کہیں انھیں صف اول کی قیادت میں شمولیت کا حق حاصل ہوتا تھا۔ اسی طرح عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی پارٹیوں میں صدارت یا وزارت عظمیٰ پر نامزدگی بھی صلاحیتوں اور قربانیوں کی بنیاد پر ہوتی تھی اس میں دولت اور خاندانی وجاہت کا کوئی دخل نہیں ہوتا تھا لیکن اب جس سیاسی کلچر میں ہم سانس لے رہے ہیں یہاں کسی ملک کی صدارت یا وزارت کا حق موروثی بن گیا ہے۔ اہلیت، قربانیوں، صلاحیتوں اور تجربات کی آج کی سیاست میں کوئی اہمیت نہیں۔
خاندانی قیادت، خاندانی حکمرانی کا کلچر بدقسمتی سے مسلم ملکوں میں زیادہ مستحکم رہا ہے، خاص طور پر پاکستان میں تو خاندانی قیادت، خاندانی حکمرانیوں کی مضبوطی کا عالم یہ ہے کہ آنے والی کئی نسلوں تک کے لیے ولی عہد کی فوج تیار کی جارہی ہے اور انھیں سیاست میں متبادل جمہوری بادشاہوں کی حیثیت سے اس طریقے سے متعارف کرایا جارہا ہے کہ باہر سے آنے والے مہمان حکمران بھی اس کو دیکھ کر منہ بناتے دیکھے جاتے ہیں۔
آج ملک میں موجودہ حکومت کے پانچ سال مکمل کرنے، جمہوریت کی گاڑی کو ڈی ریل ہونے سے بچانے اور انتخابات کو ملک کے مسائل کا واحد حل بتانے والے خاندانی سیاستدانوں کا تو اس حوالے سے جمہوریت کی دہائی دینے کا مقصد سمجھ میں آتا ہے کہ یہ لوٹ مار کے زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل کرنا اور اپنی اولاد کے حق حکمرانی کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں، لیکن حیرت ان مڈل کلاس کے سیکنڈ لائن رہنماؤں پر ہوتی ہے جو میڈیا میں اس خاندانی حکمرانی کے کلچر کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں جب کہ انھیں اچھی طرح اس بات کا علم ہے کہ اس خاندانی حکمرانی کے کلچر میں انھیں کبھی صدر، وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل ہوسکتا ہے نہ کسی سیاسی جماعت کی سربراہی کا۔
بعض مخصوص حالات میں ہوسکتا ہے کہ کسی مڈل کلاس کو بڑے عہدوں پر لایا جائے، لیکن ایسے ناگوار فرض ادا کرتے ہوئے بھی اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ جسے اس قسم کے اعلیٰ عہدوں پر لایا جارہا ہے اس میں خاندانی غلامی کی خوبیاں، جی حضوری کی صلاحیت کے ساتھ کرپشن کی خوبیاں بھی موجود ہوں۔
ہندوستان اور پاکستان ایک ہی وقت میں آزاد ہوئے اور وجود میں آئے، لیکن بات یہ ہے کہ ہم سے دس گنا اس بڑے ملک میں نہ خاندانی سیاست کو مستحکم ہونے کا موقع دیا گیا نہ خاندانی حکمرانی کے کلچر کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی۔ آج ہندوستان کی سیاسی جماعتوں کی قیادت ہی نہیں بلکہ صوبائی مرکزی حکومتوں اور قانون ساز اداروں میں بھی مڈل اور لوئر مڈل کلاس مستحکم اور مضبوط ہے۔
ایسا کیوں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ پاکستان جن علاقوں پر مشتمل ہے یا جو علاقے پاکستان کے حصے میں آئے وہ انتہائی پسماندہ قبائلی سرداری اور وڈیرہ شاہی نظام کی گندگی میں آلودہ تھے اور ان نظاموں میں موروثی حکمرانی سب سے بڑا اور اہم عنصر تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ تحریک پاکستان میں بھی یہی طبقے پیش پیش تھے اور پاکستان بننے کے بعد انھی طبقات نے اقتدار پر قبضہ کیا۔ 1970 تک وہ محلاتی سازشوں کے ذریعے اقتدار سے پیوست رہے اور 1970 کے بعد ان طبقات نے اشرافیائی جمہوریت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ جمالیا۔
مشرق وسطیٰ ہزاروں سال سے ملوکیت کے کیچڑ میں دھنسا رہا۔ ان ملکوں میں اکیسویں صدی تک انسانی حقوق، سیاسی آزادیوں کا کوئی تصور موجود نہ تھا، کیونکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد مشرق وسطیٰ کے بیشتر ملکوں میں بادشاہتوں کی جگہ جن فوجی حکومتوں نے لی وہ بھی آہستہ آہستہ خاندانی حکمرانیوں کے راستے پر چل پڑے۔ اس قابل شرم خاندانی حکومتوں کے تسلسل نے آخرکار مشرق وسطیٰ کے عوام کو اس نظام سے بغاوت پر مجبور کردیا اور پھر اس خطے میں وہ باغیانہ تحریکیں چلیں جو خاندانی حکمرانیوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے گئیں۔
ان تحریکوں کو مغرب نے ''عرب بہار'' سے تعبیر کیا، ان بہاروں کو کس طرح خزاؤں میں بدلا گیا یہ ایک الگ کہانی ہے۔ لیکن اب ان علاقوں میں خاندانی حکمرانیوں کا احیاء بہت مشکل ہے اور مذہب اور قبیلوں کے نام پر اب جو بادشاہتیں باقی ہیں ان کے خلاف بھی عوام میں اضطراب بڑھتا جارہا ہے اور امید ہے کہ عرب عوام ماضی کی ان یادگاروں کو بھی جلد مٹا دیں گے۔
پاکستان میں خاندانی سیاست، خاندانی حکمرانی کی مخالفت کا مطلب کسی مخصوص رہنما کسی مخصوص خاندان کی مخالفت نہیں ہے بلکہ اس کلچر کی مخالفت کی وجہ یہ ہے کہ اس کلچر کی وجہ سے پاکستانی معاشرہ جمود کا شکار ہوکر رہ گیا ہے۔ عوام ایک ہی طبقے کے سیاستدانوں اور حکمرانوں کو 65 سال سے دیکھ دیکھ کر اکتا گئے ہیں۔ آج ہمارے معاشرے، ہمارے ملک میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک جو بے چینی اور اضطراب دیکھا جارہا ہے ہوسکتا ہے اس کی ظاہری وجوہ مختلف نظر آئیں، لیکن اس کی اصل وجہ وہی خاندانی سیاست، خاندانی حکمرانی کا کلچر ہے۔ اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ خاندانی سیاستدانوں، خاندانی حکمرانوں نے اپنے اپنے دور حکومت میں عوام کی طرف توجہ دینے، عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے اپنا سارا وقت زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے میں لگایا، دولت جمع کرنے کی اسی دوڑ کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارا ملک کھربوں روپوں کی اعلیٰ سطح کی کرپشن کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں میں بڑے بڑے نامور رہنماؤں کی اربوں روپوں کی کرپشن کے کیس زیر سماعت ہیں۔ میڈیا اس اعلیٰ سطح کی خاندانی کرپشن کی داستانوں سے بھرا پڑا ہے، بیرون ملک ہماری پہچان کرپشن، بدعنوانیاں، بددیانتیاں بنی ہوئی ہیں۔
آج ہر طرف سے یہ بے معنی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ فوری انتخابات ہی ہمارے مسائل کا حل ہیں۔ یہ آوازیں ان حلقوں سے اٹھ رہی ہیں جو انتخابات کے ذریعے دوبارہ لوٹ مار کے مواقع حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ بلاشبہ عوام کے پاس انتخابات کے ڈرامے کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں، لیکن سیاسی جماعتوں خاص طور پر پارلیمانی جماعتوں میں موجود سیکنڈ لائن مڈل کلاس قیادت اپنی غلامانہ ذہنیت ترک کرکے اور احساس کمتری سے باہر نکل کر اپنی سیاسی خدمات، سیاسی تجربے، سیاسی قربانیوں اور سیاسی صلاحیتوں کی بنیاد پر اس خاندانی حکمرانی، خاندانی سیاست کے خلاف بغاوت کرے تو یقیناً اسے سیاسی کارکنوں ہی کی نہیں بلکہ عوام کی بھی زبردست حمایت حاصل ہوسکتی ہے۔
اگر مڈل کلاس پر مبنی سیکنڈ لائن قیادت آگے آتی ہے اور سیاست اور اقتدار پر قابض ہوتی ہے تو ایک طرف خاندانی سیاست، خاندانی حکمرانی کا کلچر ختم ہوجائے گا، دوسری طرف اس قیادت کے آگے آنے سے عوامی مسائل حل ہونے کی راہ ہموار ہوگی اور ہمارے سیاسی اوتار ولی عہدی کے جس نظام کو مضبوط کرنے کے لیے طرح طرح کے نفسیاتی حربے استعمال کر رہے ہیں وہ سب ملیا میٹ ہوجائیں گے۔