وینچی اور کیلر‘ چشم کشا حقائق
پاکستان میں 70 لاکھ بچے پرائمری پاس کرنے سے قبل ہی تعلیم کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔
''وینچی'' (wenchi) افریقا کے ایک انتہائی غریب اور پسماندہ ملک ایتھوپیا کا ایک دور افتادہ گائوں ہے جو سطح سمندر سے 3400 میٹر بلند ہے۔ وینچی جھیل سے گائوں تک کا فاصلہ ایک گھنٹے کا ہے، یہاں نہ تو بجلی ہے اور نہ پانی، قریب ترین پانی کا کنواں ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے جب کہ قریب ترین اسکول بارہ کلو میٹر دور ہے۔ تفریح اور سکون کی تلاش میں ایک امریکی' میٹ کیلر' وینچی جھیل کی سیر کو آیا۔ لیکن دنیا کے اس کونے میں گھاس پھوس سے بنے کچھ گھروں پر مشتمل گائوں کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ کیلر کہتا ہے کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہاں بھی کوئی رہتا ہو گا۔ وہ وہاں رہنے والوں سے ملا جو جدید دنیا کی سہولتوں سے قطعی نا واقف تھے اور ان کے بچے تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولتوں سے یکسر محروم۔ وہ مغربی دنیا کا واحد شخص تھا جو افریقا کے اس دور دراز گائوں میں پہنچا تھا۔ کیلر میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ میں استاد اور محقق ہے۔ وہ ایک ایسے پروجیکٹ پر کام کر رہا ہے جس کا مقصد بچوں کو استاد کی عدم موجودگی میں بنیادی تعلیم سے بہرہ ور کرنا ہے۔ کیلر کا خیال ہے کہ اس طرح امیروں اور انتہائی غریب افراد کے درمیان فرق کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ چنانچہ جاتے ہوئے وہ کچھ بچوں کو تجرباتی طور پر لمبے عرصے تک بیٹری سے چلنے والے 'ٹیبلٹ پی سی' (ٹچ اسکرین موبائل کمپیوٹر) دے گیا۔
اکتوبر 2012ء میں جب امریکا کی مختلف ریاستوں میں سینڈی طوفان نے تباہی مچائی تو امریکی ریاست میساچوسٹس بھی بری طرح متاثر ہوئی جہاں کیلر کی رہائش تھی۔ کیلر کو دو دن اپنی گاڑی میں گزارنا پڑے۔ اس کے چاروں طرف پانی ہی پانی تھا۔ اس دوران کیلر کو احساس ہوا کہ دنیا سے حقیقت میں الگ تھلگ رہنا کتنا دشوار ہوتا ہے۔ اس وقت اسے وہی افریقی گائوں وینچی اور اس کے رہنے والے شدت سے یاد آئے۔ دنیا سے رابطے کا کیلر کے پاس صرف مو بائل فون ہی واحد ذریعہ تھا جسے اس نے سگریٹ لائٹر کے ذریعے چارج کیا۔ وہ دو دن کیلر کے لیے انتہائی دشوار تھے۔
دسمبر میں کیلر ایک بار پھر وینچی پہنچا۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ بچوں نے ان ٹیبلٹ پی سی کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ کیلر وہاں پہنچا تو بچوں نے دوڑ کر اسے خوش آمدید کہا۔ وہ سب ننگے پیر تھے۔ آٹھ سالہ کیلبیسا میلے جسم لیکن چمکتی آنکھوں کے ساتھ ایک بڑی سی مردانہ جیکٹ پہنے ہوئے تھا۔ جو اس کے پائوں تک آ رہی تھی۔ دس سالہ بچی ابیبک جس نے ماچس کی تیلیوں کو جیولری بنا کر اپنے کانوں پر چپکایا ہوا تھا اور کمر پر لٹکتے ہوئے ایک تھیلے میں اپنے چھوٹے بھائی کو سنبھالے ہوئے تھی، لیکن اس کے ہاتھ میں چمڑے کا ایک خوبصورت بیگ تھا، جس میں وہ ٹیبلیٹ پی سی تھا جو کیلر نے اسے دیا تھا۔ ابیبک نے بیگ سے وہ ٹیبلیٹ پی سی نکالا اور کیلر کے سامنے اسے آن کیا۔ اسکرین پر اے بی سی حرف روشن تھے اور اسپیکر سے تیز آواز میں انگریزی حروفِ تہجی پر مشتمل ایک نغمہ گونج رہا تھا اور وہ بچی بھی لہک لہک کر وہ نغمہ گا رہی تھی۔ وہ ہاتھ کی پشت سے اپنی بہتی ناک پونچھتی اور پھر وہ انگلی کی مدد سے ٹیبلٹ کی ٹچ اسکرین پہ انگریزی حروف لکھتی۔ پھر کیلبیسا نے اپنے ٹیبلیٹ پی سی میں وہ ویڈیو دکھائی جو اس نے خود بنا ئی تھی جس میں اس کی بہن اور جھونپڑی نظر آ رہی تھی اور اس کے دادا اپنے مویشی چراتے نظر آ رہے تھے اور کیلبیسا کے اس کارنامے پر اس کے ساتھ ساتھ کیلر بھی بہت خوش دکھائی دے رہا تھا۔
کیلر چاہتا ہے کہ دنیا کے ان پسماندہ ممالک اور علا قوں میں جہاں بچوں کو بنیادی تعلیم دینے والا بھی کوئی نہیں وہاں بچوں کو سستے اور چھوٹے موبائل کمپیوٹر فراہم کیے جائیں تا کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت اپنی فطری صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے خود لکھنا پڑھنا سیکھ سکیں۔ self learning کا یہ آئیڈیا دراصل مشہور امریکی کمپیوٹر سائنسدان نیگرو پونٹے کا ہے۔ کیلر کے ابتدائی تجربہ کے کچھ ماہ بعد نیگرو پونٹے خود بھی وینچی کی ایک جھونپڑی میں بچوں کے ہمراہ بیٹھا ہوا تھا۔ بچے نہیں جانتے تھے کہ وہ کون ہے۔ وہ صرف یہ جانتے تھے کہ اس شخص نے جو چیز (ٹیبلٹ پی سی) انھیں کھیلنے کے لیے دی ہے وہ دس ہفتے کے لیے دی گئی ہے۔ پونٹے نے دس ہفتے تک ان کو زیرِ مشاہدہ رکھا۔
کچھ عرصے بعد نیگرو پونٹے انتہائی مسرت اور نم آنکھوں کے ساتھ وینچی سے دس ہزار کلو میٹر دور کیمبرج میں ایک کانفرنس سے خطاب کے دوران حاضرین کو اپنے کامیاب تجربے اور مشاہدات سے آگاہ کر رہا تھا کہ ان بچوں نے جنھیں کچھ بتائے اور سمجھائے بغیر وہ پیک شدہ ٹیبلٹ پی سی دیے گئے تھے تو کس طرح انھوں نے صر ف چار منٹ میں وہ پیکنگ کھول کے پاور بٹن تلاش کر لیا اور کس طرح صرف پانچ دن بعد ان بچوں نے جنھوں نے کبھی حروف نہیں دیکھے تھے مختلف کمپیوٹر پروگرامز کھول رہے تھے۔ دو ہفتوں میں حروفِ تہجی والا نغمہ یاد کر لیا تھا اور صرف پانچ ہفتوں میں وہ حروفِ تہجی پڑھنے اور لکھنے کے قابل ہو گئے تھے۔ ایتھوپیا میں بچے ٹیبلٹ پی سی کے ذریعے کامیابی سے ابتدائی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ پونٹے پرامید ہے کہ اس کی محنت رنگ لائے گی اور دنیا کے غریب اور پسماندہ ممالک میں بھی تعلیم عام ہو سکے گی۔
پاکستان میں 70 لاکھ بچے پرائمری پاس کرنے سے قبل ہی تعلیم کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے تعلیم، سائنس اور ثفافت سے متعلق ادارے یونیسکو کی 'نوجوان اور مہارت' کے عنوان سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں پانچ سے نو سال کی عمر کے 50 لاکھ بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں جن میں سے 63 فیصد لڑکیاں ہیں۔ شعبہ تعلیم کے لیے یونیسکو کے خصوصی معاون ارشد سعید خان نے بتایا کہ پرائمری تعلیم سے محروم بچوں پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں خواندگی کی شرح اور پرائمری (تعلیم کی) شرح خطے کے باقی ممالک سے کم ہے۔ جو بچے اسکول میں داخلہ لیتے ہیں ان میں سے صرف 62 فیصد پرائمری پاس کرتے ہیں اور باقی یا تو چھوڑ جاتے ہیں یا پھر فیل ہو جاتے ہیں۔
تعلیم کا مسئلہ پاکستان کے مسائل میں اولیت رکھتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس مسئلے کی سنگینی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومتوں کی ترجیح میں تعلیم کو کبھی بھی اولیت حاصل نہیں رہی ہے۔ اسی طرح عالمی قوتوں کو بھی پاکستان میں فروغ تعلیم سے کوئی دل چسپی نہیں رہی ہے۔ 1973ء کے دستور کے تحت میٹرک تک ہر بچے کو مفت تعلیم فراہم کرنا حکومت کا فرض ہے، لیکن کسی بھی حکومت نے تعلیم بالخصوص غریبوں کے بچوں کی تعلیم تک رسائی کے لیے کوئی کوشش نہیں کی ہے۔
گھوسٹ اسکول پاکستان کا ہمیشہ سے بڑا مسئلہ ہے، پاکستان کے قبائلی علاقوں میں محکمہ تعلیم کے حکام کے مطابق گزشتہ پانچ برس کے دوران پانچ سو کے قریب تعلیمی ادارے شدت پسندوں کی کارروائیوں میں تباہ ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے پانچ لاکھ سے زیادہ بچے تعلیم کے حصول سے محروم ہو گئے ہیں۔ بلوچستان اور قبائلی علاقے برسوں سے پسماندگی کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ان علاقوں میں تعلیم کی شرح انتہائی کم رہی ہے۔ بالخصوص قبائلی ایجنسیوں میں خواتین کی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے۔ آج بھی فاٹا میں ایسے علاقے موجود ہیں جہاں لڑکیوں میں تعلیم کی شرح ایک یا دو فیصد ہے جب کہ بعض علاقوں میں یہ شرح اس سے بھی کم یعنی صفر فیصد تک بتائی جاتی ہے۔
طالبان اور شدت پسند تنظیمیں الزام لگاتی ہیں کہ پاکستان کے سرکاری اسکول اور تعلیمی ادارے مغربی تعلیم کی ترویج کر رہے ہیں جو ان کے بقول غیر اسلامی ہے اور اسی وجہ سے وہ ان کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس تمام تر صورتحال میں غربت، دہشت گردی، عدم تحفظ، اسکولوں اور اساتذہ کی کمی، بے پردگی اور مخلوط تعلیمی نظام جیسے مسائل جن کے باعث پاکستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ قابل شرم حد تک ناخواندگی کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے۔
حکومت اور محب وطن فلاحی تنظیموں کو وینچی گائوں جیسی مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیم سے محروم بچوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے جدید تعلیمی ذرایع و آلات کی فراہمی جیسے اقدامات پر سنجیدگی سے عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں پاکستانی کمپیوٹر انجینئرز کو چاہیے کہ وہ ماہرین تعلیم کے اشتراک سے ایسے سستے اور پائیدار کمپیوٹر آلات اور ایسے آسان تعلیمی پروگرام ڈیزائن کریں جو ہماری اقدار اور معاشرتی ضرورت کے عین مطابق ہوں۔ تا کہ اسکول اور اساتذہ کی عدم موجودگی کی وجہ سے ایک پوری نسل کو جہالت کی تاریکی میں گم ہونے سے بچایا جا سکے۔