ہر چیز سائنس نہیں
جب شراب کی حرمت کا حکم آیا تو کون سی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آئے تھے؟
گزشتہ دنوں ''صوفیوں'' سے متعلق ایک کالم نظر سے گزرا جس کے مندرجات سے اندازہ ہوتا ہے کہ کالم نگار نے لفاظی کا سہارا لیتے ہوئے اپنے خیالی گھوڑے بے سمت دوڑائے ہیں، جس سے موصوف کی ذہنی کج روی کا اظہار ہوتا ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر، یہی حال ہوا ہے موصوف کالم نگار کا، سائنس اور ٹیکنالوجی کے حوالہ سے انھوں نے ہر چیز کی سائنٹیفک تشریحات کر لی ہیں، حد تو یہ ہے کہ اب ان کو مذہب بھی سائنٹیفک والا چاہیے، مذہب کی ہر اصطلاح کا سائنسی نام چاہیے اور گاڑی، موبائل کے نئے ''ماڈلوں'' کے بعد ان کو آنے والے برسوں میں صوفی بھی نئے ماڈل کا چاہیے۔ بیزاری کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ چھپائے نہیں چھپتی، کسی نہ کسی صورت عیاں ہو جاتی ہے۔
مُلا اور مولوی کو دیوار سے لگانے کے بعد لوگ مطمئن تھے کہ جان بچ گئی ہے، جدید تعلیم کی فتح ہو گئی ہے، اب نہ کوئی آخرت کے ڈرائونے قصے ہوں گے بلکہ اب تو مغرب کی طرح خدا کو تجربات کے ذریعے تلاش کیا جائے گا، جنت اور دوزخ کے ''حقیقی'' ہونے پر سوالات اٹھائیں جائیں گے اور جس طرح عیسائیت کو جواب نہیں ملے اور وہاں کے پادریوں اور فلسفیوں نے ان سوالات کا ہی انکار کر دیا، جن کا جواب ان کی عقلوں میں نہ سما سکا، اس طرح یہاں بھی کچھ ہو ہی جائے گا۔ لیکن جب سکون سے بند ہونے والی آنکھیں کھولیں تو معاملہ الٹا نظر آیا، انسانوں میں کچھ تبدیلی تو نظر آئی مگر صرف ظاہری، اندر سے پھر وہ ہی مولوی حضرات نکل آئے جن کو غیر موثر کرنے کے لیے اتنے پاپڑ بیلے تھے۔ تو اب کیا کریں؟
اندازہ لگایا گیا کہ اتنی آسانی سے تو یہ ختم ہونے والے نہیں۔ ہاں ایک کامیابی تو ملی ہے اور وہ یہ کہ اب ان سب کا ایمان کچھ نا کچھ حد تک سائنس پر تو آ ہی گیا ہے، کیوں نا اس کو چند نئی خوبصورت اصطلاحات کے ساتھ نئے ماڈل کی تعریفیں دے دی جائیں تا کہ دل کا بوجھ ہلکا ہو اور کچھ ہمارے 'کام کے لوگ' پیدا ہوں۔ تو طے یہ پایا کے ایسے صوفی پیدا کرو جو آسانیاں پیدا کرنا جانتے ہوں، علم کے لیے کوشش کرنے والے ہوں، کچھ ایسا ایجاد کرنے والے ہوں جس سے قانون کے رکھوالوں کو فائدہ پہنچ سکے۔ کچھ اس نوع کے بشر تیار ہوں جو لوگوں کو موسموں کے اثرات سے بچا سکیں اور سب سے پرانا مسئلہ جس کے وجہ سے ساری دنیا پریشان ہے یعنی نا ختم ہونے والی ''بھوک'' کا کوئی علاج کر سکیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کے صوفی پیدا ہو سکتے ہیں؟
لگتا ہے یہ حضرت سائنس سے ناواقف ہیں یا پھر صوفیوں سے۔ یہ دو الگ الگ انتہائیں ہیں، صوفی جس چیز کو آسانی سے تعبیر کرتے ہیں، وہ صرف وہ آسانیاں پیدا کرنا چاہتے ہیں جس کے ذریعے لوگ آخرت میں کامیاب ہو سکیں، ان کا مقصد دنیا کے حصول کے طریقہ بتانا نہیں ہوتا بلکہ وہ تو یہ بتاتے ہیں دنیا میں ایسے کون سے اعمال انجام دیے جائیں کہ انسان آخرت میں خدا کے غضب سے بچ سکے۔ ان جدید حضرات کو اس بات پر اعتراض ہے کہ یہ صوفی عذاب کی پیش گوئیاں کرتے ہیں اور خود کچھ کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کرنے والے کو کچھ کرنے دیتے ہیں۔ جناب وضاحت عرض ہے کہ یہ پیش گوئی کرنے سے پہلے اس کی مکمل تیاری بھی کرواتے ہیں، ہر عذاب سے بچنے کا طریقہ بھی بتاتے ہیں۔ صوفیوں کا اپنا پیدا کردہ کوئی طریقہ نہیں ہے بلکہ قرآن و سنت کا اخذ کردہ ہے۔
مسلمان ہونے کی مجبوری معترضین سے 'صوفیوں' پر اعتراض تو کروا سکتی ہے فی الحال مذہب پر نہیں۔ ان حضرت کی معصوم سی خواہش ہے کہ ہمارے صوفی بزرگ کچھ ایسے قالین ایجاد کر لیں جس کے ذریعے چوروں کو پکڑا جا سکے۔ مذہب کے دائرے میں رہنے والے افراد اور بزرگ وہ معاشرہ پید ا کرتے ہیں جہاں پر چوری ہی نہ ہو سکے، اس طرح کا عدل قائم ہوتا ہے کہ لوگوں کو چوری جیسے مکروہ عمل تک جانا ہی نہ پڑے اور اگر یہ عمل سرزد بھی ہو جائے تو اس کی سزا آج بھی جن معاشروں میں قائم ہے وہاں کے حالات معلوم کیے جا سکتے ہیں۔ تمام مذاہب اس طرح کا معاشرہ پیدا کرتے ہیں جہاں ان کو اس اَن دیکھی قوت کا معترف کرایا جاتا ہے جو جزا اور سزا کا مالک ہے، جس کے سامنے حاضر ہونے کا خوف اور شوق دونوں مل کر انسانوں کو ہر غلط اور برے کام سے روک لیتے ہیں۔
جب شراب کی حرمت کا حکم آیا تو کون سی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آئے تھے؟ کس نے یہ سوچا کہ اس طرح کی مشین ایجاد کریں جس میں پھونک مار کر اندازہ لگایا جائے کہ کس نے شراب پی ہے؟ جہاں مذہب کی طاقت ہو وہاں روحانی اور اخلاقی بنیادوں پر معاشرے قائم کیے جاتے ہیں۔ ایسی مشین ایجاد تو ان ہی لوگوں نے کی ہے جنہوں نے پہلے اپنے معاشروں سے خدا کو نکالا ہے۔ اب کوئی صوفی یہ کام کس طرح کر سکے گا؟ ایک اور بہت حسین خواب وہ یہ کہ صوفی حضرات کوئی ایسا جدید نظام پیدا کریں۔
جس کے ذریعے ساری دنیا کے علوم ڈیجیٹل ہو جائیں اور ترقی کی راہ ہموار کی جا سکے، ساری دنیا کی کتابیں ان کی پہنچ میں آ جائیں تا کہ انسانیت اس سے فائدہ اٹھا سکے۔ لیکن یہ بات بھول جاتے ہیں جنھوں نے کروڑ ہا کتابیں چھاپ لی ہیں وہ خود اس انسانیت سے کتنا دور نکل آئے ہیں، جس کا درس یہ تمام دنیا کو دیتے ہیں۔ جس مواد کے ذریعے آپ انسانی دماغوں کو تسخیر کرنا چاہتے ہیں، صوفیوں کے پاس تو اس کا کوئی علاج ہی نہیں ہے کیوں کہ وہ دل کی دنیا بسانا جانتے ہیں، وہ تو دلوں کے ذریعے لوگوں کی اصلاح کرتے ہیں، ان کے پاس تو جو طریقہ کار ہوتے ہیں وہ تو 'عقلوں' میں آتے بھی نہیں اور یہ حضرات کہتے ہیں کہ ''دماغوں'' میں ڈیٹا ڈالیں۔
اور سب سے اہم چیز جس کی خواہش لے کر یہ معترض حضرات جوانی سے قبر تک جا پہنچتے ہیں ''غذا'' کا مسئلہ ہے۔ اب جب کہ ان کے جاری ساری نظام بھی دنیا کو اس پریشانی سے نجات نہ دلا سکے تو یہ کام بھی بے چارے صوفیوں کے سر مار دیا ہے اور عرض کی کہ آپ لوگ ہی اس کا بھی کچھ حل کریں گے۔ یہ آم کے بیج سے نیم کا پیڑ لگانے کی سادہ سی کو شش ہے، جن کا تصور زندگی اور زندگی برتنے کا اصول ہی فاقہ، قناعت اور ریاضت ہو اس بات کی توقع رکھی جائے کہ وہ دنیا میں کھانے پینے کے جدید مواقع پیدا کریں یا اس کی تعلیم دیں، احمقوں کی جنت والی بات ہے۔ جن کی زندگیاں دو کپڑوں میں گزرتی ہوں، ان سے اس بات کی توقع کہ گھر ایسے تعمیر کریں جس میں درجہ حرارت کا پتہ چل سکے ؟
اندازہ یہ ہوتا ہے ان حضرات نے بنا کسی تحقیق کے محض اعتراض برائے اعتراض کی بنیاد پر اپنے خیالی گھوڑے دوڑائے ہیں۔ کاش کسی حساس موضوع پر قلم آرائی سے پہلے تھوڑا اپنے دماغ کو متحرک کرنے کی زحمت دی جائے۔