تعلیم و صحت کے شعبوں میں انحطاط
صحت کے شعبے کو دیکھیں تو حال یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں مراکز صحت کی بڑی تعداد عملے اور دوائوں سے محروم ہے۔
وطن عزیز میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں روز بروز سنگین تر ہونے والی صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اچھی تعلیم اور اچھا علاج پاکستان میں ایک خواب بنتا جا رہا ہے۔ تعلیم اور صحت کے میدانوں میں ترقی کے لیے ایمرجنسی لگا کر فنڈز مہیا کرنے سمیت ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی، عدم برداشت، معاشی مشکلات اور ملکی وسائل سے فائدہ اٹھانے میں ناکامی جیسے بیشتر مسائل انھی دو شعبوں میں انحطاط کی کیفیت سے جڑے ہوئے ہیں۔
تعلیم اور صحت کے شعبوں میں اس گرتی ہوئی صورتحال کی وجہ صرف وسائل کی کمی ہی نہیں بلکہ حکمرانوں کی طبقاتی ذہنیت بھی صورتحال کی بہتری کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ قیام پاکستان کے وقت اگرچہ مملکت نوزائیدہ تھی تاہم مشکل حالات میں بھی تعلیم اور صحت کے شعبوں کے لیے وسائل مہیا کیے گئے تھے۔ نو آموز پاکستان میں جتنے بھی سرکاری اسپتال میسر تھے ان میں جذبہ خدمت خلق کے تحت غریبوں کا علاج مفت کیا جاتا تھا، صرف یہی نہیں بلکہ داخل مریضوں کو دوائوں، خوراک، ٹیسٹ اور آپریشن سمیت تمام سہولتیں مفت فراہم کی جاتی تھیں۔
علاوہ ازیں غریبوں کی بستیوں میں گشتی شفاخانوں کے ذریعے علاج و معالجے کا اہتمام بھی تھا۔ اسی طرح سرکاری اسکولوں کی پہچان قابل اساتذہ، کھیل کے میدانوں اور ڈسپنسری کی سہولتوں سے ہوتی تھی۔ پڑھائی لکھائی کے علاوہ طبی معائنوں، دوائوں کی فراہمی، جسمانی تربیت اور کھیلوں کی سرگرمیوں کو تعلیم کا حصہ تصور کیا جاتا تھا جب کہ پرائمری اسکولوں میں تعلیم مفت تھی اور بڑی کلاسوں میں معمولی فیسیں ہوا کرتی تھیں، وظائف کی سہولت اس کے علاوہ تھی۔
بعد میں جب آنے والی حکومتوں کی ترجیحات تبدیل ہوئیں اور ہر شعبے پر طبقاتی مفادات کی چھاپ لگتی گئی تو تعلیم اور صحت کے شعبوں سے بھی سوتیلی ماں والا سلوک برتا گیا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مذکورہ شعبہ جات کو، جنھیں مہذب ممالک میں اولین ترجیح حاصل ہوتی ہے، ہمارے ملک میں بری طرح نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ملکی بجٹ میں جی ڈی پی کے تناسب سے ان شعبوں کے لیے مختص کی جانے والی رقم پسماندہ کہلانے والے کئی ممالک سے بھی کم ہے۔ یہی نہیں بلکہ جب بھی ہمارے حکمرانوں کو شاہ خرچیوں کے لیے رقم کی ضرورت پڑتی ہے تو انھی دو کلیدی شعبوں کے فنڈز پر کٹوتی کی چھری چلائی جاتی ہے۔ اساتذہ کا تقرر سفارش اور سیاسی وابستگی کے ذریعے کر کے اور کتنے ہی اسکولوں کو عمارتوں اور اساتذہ سے محروم کر کے رہی سہی تعلیم کا جنازہ نکال دیا گیا ہے۔
ایک ایک عمارت میں کئی کئی اسکول منتقل کر کے سرکاری اسکول رفتہ رفتہ ختم کیے جا رہے ہیں۔ آج تعلیمی اداروں کی حالت زار کچھ اس طرح نظر آتی ہے کہ کہیں ایڈھاک بنیادوں پر بھرتی ہونے والے اسکول و کالج اساتذہ سراپا احتجاج ہوتے ہیں تو کہیں ڈاکٹرز اسپتالوں کو تالے لگا رہے ہوتے ہیں۔ اساتذہ کسی بھی قوم کے لیے باعث فخر ہوتے ہیں لیکن گزشتہ کئی برسوں سے اساتذہ کے حالات سے حکومت کی لاپرواہی نے یہ صورتحال پیدا کر دی ہے کہ نہ تعلیمی ادارے پہچان قائم رکھ پا رہے ہیں نہ تعلیم ہی اپنے پیروں پر کھڑی ہو پا رہی ہے۔
جب کہ پرائیویٹ اسکولوں اور انگلش میڈیم کے نام پر والدین سے لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا گیا ہے۔ دیہی علاقوں میں وڈیروں اور جاگیرداروں نے اسکولوں کی عمارتوں کو مویشی خانوں میں تبدیل کر کے دیہاتوں کے تنخواہ دار اساتذہ کو اپنی ذاتی خدمت پر مامور کر رکھا ہے۔
صحت کے شعبے کو دیکھیں تو حال یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں مراکز صحت کی بڑی تعداد عملے اور دوائوں سے محروم ہے۔ ڈرگ افسران سب اچھا ہے کے نام پر جیبیں بھر رہے ہیں اور میڈیکل اسٹورز پر زائد المیعاد سیرپ فروخت ہو رہے ہیں جن کے استعمال سے لوگ اپنی قیمتی جانیں گنوا رہے ہیں۔ شہروں میں بھی چند ایک سرکاری اسپتالوں کو چھوڑ کر بیشتر سرکاری اسپتالوں کی حالت غیر تسلی بخش ہے۔ نو زائیدہ بچوں کو با آسانی اسپتالوں سے غائب کر دینا اسپتالوں کی ناقص سیکیورٹی کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہے۔
بعض سرکاری اسپتالوں کو ملنے والی مفت دوائیں اسپتال سے ملحقہ میڈیکل اسٹوروں پر فروخت کی جا رہی ہوتی ہیں اور غریبوں کوکئی کئی گھنٹوں لمبی قطاروں میں کھڑے ہوکر معمولی مکسچر پر ٹرخا دیا جاتا ہے۔ مریضوں کی تعداد کے تناسب سے ڈاکٹرز ناکافی ہیں جب کہ ایم بی بی ایس کی ڈگری لینے والے طلبا کی ایک بڑی تعداد بیروزگار ہے یا حکومتی بے حسی کے باعث اپنے ذاتی شفاخانوں کو فروغ دے رہی ہے۔ تعلیم جیسے شعبے کا حال یہ ہے کہ کہیں امتحانات کے نتائج میں تاخیر نظر آتی ہے تو کہیں تعلیمی ادارے طلبا کو رخصت دے کر شادیوں کی تقریبات کے لیے مستعار دیے جا رہے ہیں۔ تعلیمی کیلنڈر بر وقت شروع کرنے میں تا حال ہماری حکومتیں ناکام دکھائی دیتی ہیں۔
ملک میں اس وقت جو انداز حکمرانی نظر آ رہا ہے اس میں اگرچہ حوصلہ افزا امکانات نظر نہیں آتے مگر اپوزیشن جماعتوں، دانشوروں اور سول سوسائٹی کا دبائو ہو تو شاید صاحبان اقتدار اس حقیقت کا ادراک کرنے لگیں کہ عوام کی سماجی بہبود کے تقاضوں کو نظر انداز کرنے والے حکمران اختیارات کے استعمال کا جواز کھو بیٹھتے ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کی سب سے بنیادی ضرورت بہتر صحت اور اچھی تعلیم ہوتی ہے جس پر بدقسمتی سے ہمارے ہاں کبھی بھی سنجیدگی سے توجہ نہیں دی گئی۔
دنیاوی تعلیم کا بیڑہ غرق تو ہوا ہی ساتھ ہی دینی مدارس پر بھی حکومتی عتاب نازل ہوتے رہے، یہاں تک کہ گزشتہ حکومتوں نے تو ان طلبا کو ملک بدر کرنے کی بات بھی کر ڈالی جو وطن عزیز پاکستان کے دینی مدارس میں تعلیم کی غرض سے داخل ہوئے تھے۔ حالانکہ تقسیم برصغیر سے قبل بھی غیر ممالک سے طلبا یہاں کے دینی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے آیا کرتے تھے، بالکل اسی طرح جیسے ہمارے ہاں سے طلبا غیر ممالک میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے جاتے ہیں۔ ہمارے حکمران ایک طرف تو کہتے ہیں کہ دنیا گلوبل ولیج بن رہی ہے اور دوسری طرف پاکستان سے غیر ملکی طلبا کے انخلا کی بات بھی کی جاتی ہے۔
جو دنیا سمٹ کر قریب ہو رہی ہے اس میں دوری کے اسباب کیوں پیدا کیے جاتے ہیں؟ تعلیم کے شعبے پر قرار واقعی توجہ دی گئی ہوتی تو آج معاشرتی صورتحال مختلف ہوتی، کون نہیں جانتا کہ تعلیم انسان کو فرش سے عرش پر لے جاتی ہے۔ آج کا مغرب تعلیم کے پھیلائو کا کریڈٹ لے رہا ہے جب کہ ہم طرز کہن پر اڑ کر رہ گئے۔
تعلیم سے دوری ماضی بعید میں بھی متحدہ ہندوستان میں ہمارے زوال کا باعث بنی جب ہر جگہ مسلمان مغلوب اور غیر مسلم غالب آنا شروع ہو گئے۔ مسلمان ملکوں کی بندر بانٹ ہوتی رہی اور ہندوستان جیسے ملک پر ایسٹ انڈیا کمپنی قابض ہو گئی۔ پھر تعلیم اور تعلیم یافتہ عظیم رہنمائوں کی بدولت ہی ہم نے اپنا کھویا ہوا ملک اور تشخص حاصل کر لیا۔ شہید لیاقت علی خان کے دور تک حکومت مہاجرین کی آبادکاری اور ملک کو مضبوط جڑوں پر استوار کرنے میں مصروف تھی کہ بدقسمتی سے ان کی شہادت کے بعد سازش کے ذریعے برسراقتدار آنے والوں نے اس بنیادی ضرورت کی طرف توجہ نہیں دی۔
کس کس چیز کا رونا رویا جائے، ہر حکومت صرف اپنا اقتدار مضبوط کرنے کے جوڑ توڑ میں مصروف رہی اور یہ بنیادی شعبے انحطاط پذیر ہوتے چلے گئے۔ آج ہمارا طبقہ اشرافیہ اپنا معمول کا چیک ا پ کرانے یورپ جاتا ہے اور اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا و برطانیہ کے تعلیمی اداروں میں داخل کراتا ہے۔
کوئی حکمران ایسا نہیں آیا جس نے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ایسا اثر انگیز کارنامہ انجام دیا ہوتا کہ نہ انھیں علاج کے لیے غیر ممالک جانا پڑتا نہ ہی اپنی اولاد کو اعلی تعلیم کے لیے وہاں بھیجنا پڑتا۔ وطن عزیز پاکستان کو ہی تعلیم اور صحت کے حوالے سے ایسا ملک کیوں نہیں بنا دیتے کہ یورپ کا طبقہ اشرافیہ ان امور کے لیے پاکستان آنے کو ترجیح دیتا جیسے ہمارے حکمران وہاں جایا کرتے ہیں۔