انفرادی سوشل ورک
ہر کام اور اپنے ہر مسئلے کے حل کے لیے حکومت وقت اور ریاستی اداروں پر مکمل انحصار کرنا کسی طور پر بھی درست اقدام نہیں
اس ملک کے حالات ہر دور میں ہی دگرگوں رہے ہیں، کبھی انارکی و دہشت گردی تو کبھی بے روزگاری، مہنگائی، غربت اور بھوک کا عفریت معاشرے کو نگلتا نظر آتا ہے، اس پر مستزاد رحم، ہمدردی، خلوص و محبت جیسے مثبت جذبے اس معاشرے سے ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان دم توڑتے خوبصورت جذبوں کو معاشرے میں دوبارہ پنپنے کا موقع دیا جائے تا کہ ملک میں پھیلتی انارکی کا توڑ ہو سکے۔
ہر کام اور اپنے ہر مسئلے کے حل کے لیے حکومت وقت اور ریاستی اداروں پر مکمل انحصار کرنا کسی طور پر بھی درست اقدام نہیں، کئی مسائل ایسے ہیں جو عوام انفرادی طور پر خود بھی حل کر سکتے ہیں، کم از کم اپنی اخلاقی اقدار جو مشرقی روایات کا خاصا ہیں انھیں اپنی شخصیت کا حصہ بنا کر عوام اس سنہری دور کی جانب لوٹ سکتے ہیں جب خاندانی نظام اس معاشرے میں مستحکم تھا اور پاس پڑوس محلے میں ایک دوسرے کی خبر گیری کا رواج عام تھا۔ لیکن عام مشاہدہ ہے کہ
اپنی خرابیوں کو پسِ پشت ڈال کر
ہر شخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے
سب سے پہلے اخلاقی گراوٹ کے شکار معاشرے کا تذکرہ کرتے ہیں، وجوہات پہلے بھی کئی بار ان ہی صفحات پر بیان کی جا چکی ہیں کہ کس طرح بڑوں کی لاپرواہی اور ٹوٹے پھوٹے خاندانی نظام کے باعث ہمارے معاشرے کو اخلاقی طور پر زوال کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ بچوں کی تربیت میں لاپرواہی اور بڑوں کا اپنے مشاغل میں انہماک معاشرتی انحطاط کا باعث بن رہا ہے۔
اگر آج سے ہر شخص مصمم ارادہ کر لے کہ وہ ذاتی طور پر اپنے اطراف، اپنے خاندان اور بطور خاص اپنے گھرانے کے بچوں کی اخلاقی تربیت پر اپنا کچھ وقت صرف کرے گا تو یقیناً بہت جلد اس کے مثبت اثرات معاشرے میں ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گے۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ ہی یہ ہے کہ ہم باتیں تو بہت بناتے ہیں لیکن عمل سے کوسوں دور رہتے ہیں۔ ہمارے ہی معاشرے میں کئی ناصح ایسے ہیں جو محافل کو اپنی شعلہ بیانی سے گرماتے نظر آئیں گے لیکن خود ان کے گھروں کا حال ان کی تقاریر کے برعکس دکھائی دیتا ہے۔ اس لیے بہتر ہو گا کہ زمانے کی خرابیوں کا رونا رونے کے بجائے خود اپنے گریبان میں جھانکتے ہوئے اصلاح کی کوشش کی جائے۔
آج کا موضوع خاص اس لیے انفرادی سوشل ورک کو بنایا گیا ہے کہ اگر معاشرے کا ہر شخص ذاتی طور پر اپنی ذمے داریاں سمجھتے ہوئے تھوڑا بہت سوشل ورک اپنے ذمے لے لے تو معاشرے سے بہت سی خامیاں اور خرابیاں دور کرتے ہوئے بہتری کی جانب گامزن ہوا جا سکتا ہے۔ اکثر لوگ سوشل ورک کا نام سنتے ہی مالی پریشانیوں کا عذر پیش کریں گے لیکن سوشل ورک صرف مالی طور پر ہی نہیں بلکہ کئی اخلاقی پہلوئوں کے لحاظ سے بھی کیا جا سکتا ہے، جس میں آپ کا ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہو گا البتہ اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ حصہ ضرور صرف کرنا پڑے گا۔ بچوں کی تربیت کا تذکرہ تو کیا ہی جا چکا ہے لیکن اپنے گھر کے علاوہ اپنے اڑوس پڑوس اور محلے کی خبر گیری بھی اہم ہے۔
آج کے دور میں خود غرضی، بے حسی و بے اعتنائی اپنے پنجے گاڑ رہی ہے۔ ہمیں علم نہیں ہوتا کہ ہمارے پڑوس میں کون آباد ہے، اس کے کیا مسائل ہیں، پڑوس کے لوگ کن مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، جب کہ ہمارا مذہب پڑوسیوں کے حقوق پر بھی زور دیتا ہے۔ کیا ہم سب اپنی زندگی میں واقعی اتنا ہی مصروف ہیں کہ دس پندرہ منٹ پڑوسی کی خیریت دریافت کرنے میں بھی خرچ نہیں کر سکتے؟ آج ہم گھنٹوں ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر تو اپنا وقت ضایع کر لیں گے لیکن محلے میں کیا ہو رہا ہے اس سے لاعلم یا دانستہ لاپروا رہیں گے۔ اگر آپ تھوڑی سی خوش اخلاقی کا مظاہرہ کریں اور اپنے اچھے خیالات کا پرچار کریں تو اپنے محلے میں وہی روایات دوبارہ لاسکتے ہیں جو ستر اور اسی کی دہائی میں ہمارے معاشرے کا حسن ہوا کرتی تھی۔
آج کے دور میں بے روزگاری بھی اہم مسئلہ ہے، جس کی کئی وجوہات میں سے ایک قابل لوگوں کے پاس کسی سفارش کا نہ ہونا بھی ہے۔ بے شک سفارش کے ذریعے نوکری حاصل کرنا صحیح نہیں لیکن بطور مدد آپ جس ادارے میں کام کر رہے ہیں اگر وہاں کوئی جگہ خالی ہوتی ہے تو کسی اہل فرد کو وہاں متعارف تو کروا سکتے ہیں، بے شک آپ اس کی سفارش نہ کریں لیکن آپ کے توسط سے ہو سکتا ہے اس اہل بے روزگار کو اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کا موقع مل سکے۔
انفرادی سوشل ورک کا موضوع کافی وسیع ہے اور ایک کالم میں اس کا احاطہ ممکن بھی نہیں اس لیے چیدہ چیدہ نکات ہی زیر بحث ہیں۔ ایک اور اہم مسئلہ جسے شاید مسئلہ سمجھا ہی نہیں جاتا، لڑکیوں کے رشتے کا ہے اور صرف لڑکیاں ہی نہیں آج کل لڑکوں کی شادی بھی ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ جب تک خاندانی سسٹم اپنی اصل حیثیت میں برقرار تھا نوجوان لڑکے لڑکیوں کی شادی اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھی۔
خاندان ہی میں صحیح جوڑ میسر ہوتے تھے، اخلاقی پاسداری تھی اس لیے اسٹیٹس کو بھی اہمیت نہیں دی جاتی تھی، اگر لڑکے کی تنخواہ کم بھی ہوتی تو گھر کے بڑے اپنی ذمے داری پر رشتہ پکا کر دیا کرتے تھے، یہی صورت لڑکی کے ساتھ ہوتی کہ اگر تعلیم کم بھی ہے تو اس بات کو اہمیت نہیں دی جاتی تھی کہ لڑکی کو گھر داری ہی کرنی ہے لیکن اب لڑکے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور جاب کرنے والی لڑکی دیکھتے ہیں جب کہ عمر بھی کم ہونے کی ڈیمانڈ کی جاتی ہے اور لڑکی والے بھی لڑکے کے اخلاق و اطوار سے زیادہ اہمیت اس کی کمائی کو دیتے ہیں۔
نتیجتاً کئی لڑکیاں رشتوں کے انتظار میں شادی کی عمر سے گزر جاتی ہیں اور لڑکے بھی زیادہ کمانے کے لیے ادھیڑ عمر تک شادی نہیں کرتے۔ اس غلط رجحان کی وجہ سے معاشرے میں اخلاقی برائیوں کا شرمناک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، آئے روز اخبارات اور میڈیا میں لوگوں کی غلط کاریوں اور جرائم کی کہانیاں سامنے آتی ہیں۔ اگر نوجوان لڑکے لڑکیوں کی شادیاں صحیح عمر میں کر دی جائیں تو معاشرے کو ان غلط رجحانات اور گناہوں سے پاک کیا جا سکتا ہے۔
آپ جس جگہ رہتے ہیں، جہاں کام کرتے ہیں یقیناً آپ کے بہت سے لوگوں سے روابط ہوں گے، آپ کے محلے کا شریف گھرانہ ہو یا آفس کا کوئی ساتھی، اگر آپ کی نظر میں کوئی اچھا رشتہ ہو تو اسے آگے متعارف کرواتے ہوئے کسی بھی جھجک سے کام نہ لیں۔ ہو سکتا ہے آپ کے ساتھی حضرات آپ کا مذاق اڑائیں یا مشورہ دیں کہ یہ کام شادی دفتر والوں کا ہے لیکن یاد رکھیں یہ ایک نیکی اور ثواب کا کام ہے۔ آپ خود سے متعلقہ لوگوں کو رشتوں کی بابت سمجھا سکتے ہیں اور ان کے غلط رجحانات اور خیالات کو دور کر سکتے ہیں، ساتھ ہی اپنے متعلقین اور گھرانے جو ایک دوسرے سے انجان ہوں رشتوں کے سلسلے میں ان کی ملاقات کروا سکتے ہیں۔
یقین مانیے، ایک اچھے اقدام سے آپ کو روحانی مسرت بھی حاصل ہو گی اور آپ ثواب بھی حاصل کر سکیں گے۔ زندگی کی مختلف جہتوں میں انفرادی طور پر سوشل ورک کرنے کے کئی پہلو موجود ہیں۔ آج سے اپنے اطراف میں نگاہ ڈالیے، آپ کو معاشرے سے جو شکایات ہیں انھیں پہلے خود میں تلاش کر کے ختم کرنے کی کوشش کیجیے، مسائل کے حل میں اپنا حصہ ڈالیں اور سب سے اہم تبدیلی کا عمل اپنے گھر بلکہ اپنی ذات سے شروع کیجیے، یقیناً ایک سنہری معاشرہ ہم سے زیادہ دور نہیں۔