خون آلود پنجے
چارلسی ایگرو مارکیٹ پلیس کی تفتیش کار ٹیم کی اہم ممبر ہیں
ISLAMABAD:
یہ ایک ویٹرس کے خون آلود پنجوں کی تصویر تھی۔گزشتہ برس جب ویٹرس کی دوست نکولاگیونز نے فیس بک پر یہ تصویر لگائی تو اِس کا بڑا شُہرہ ہوا۔یہ تصویر ایک ہفتے میں 11500سے بھی زائد مرتبہ شئیرکی گئی۔وہ ویٹرس کینیڈین ریسٹورنٹس کے سلسلے کی ایک شاخ جوئے ریسٹورنٹ میں ملازم تھی۔یہاں ایک خاص طرزکے (ہماری آپ کی زبان میں تو بے ہودہ) لباس پہننا ملازمت کا لازمہ ہے۔
مثلاً ٹائٹ اینڈ شارٹ اسکرٹ، ہائی ہیل اورہیوی میک اپ۔کینیڈین براڈ کاسٹ کارپوریشن، سی بی سی کی ایوارڈ یافتہ ٹیلی وژن سیریز ہے مارکیٹ پلیس۔ مارکیٹ پلیس کے تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ کینیڈا کے اعلیٰ ترین ریسٹورینٹس اور ہوٹلزکی ملازمائیں (ویٹریسز)یہ بتاتی ہیں کہ اگر وہ نیم عریاں لباس نہ پہنیں تو انھیںاگلی شفٹ کے لیے فارغ کردیا جاتا ہے۔
چارلسی ایگرو مارکیٹ پلیس کی تفتیش کار ٹیم کی اہم ممبر ہیں آپ نے اونٹاریو میں ایک بدھ مونک کی جعل سازیوں کا انکشاف کرکے شہرت پائی۔ موصوفہ درست معلومات کے حصول کے لیے ،4 بڑے ریسٹورنٹس میں ملازمت کے لیے خود پیش ہوئیں موکسز،جیک ایسٹورز،ارلز اور جوئے ریسٹورنٹ۔ یہاں نہ صرف خوبروئی کی بنا پر ملازمت دی جاتی ہے بلکہ لباس پر بھی خصوصی توجہ ہوتی ہے۔ بے لباسی والا لباس ازبس ضروری ہے، لباس ''دیدہ'' زیب ہو، یعنی تنگ، چست اورمہین کہ زیرجامے تک نظر آئیں۔یہ کہلاتا ہے ڈریس کوڈ۔وہاں کام کرنے والیاں خود کو بے دست وپا محسوس کرتی ہیں۔لاچاری کی حد ہے کہ وہ خود پر روا رکھے جانے والے ظلم پراحتجاج بھی نہیں کرسکتیں۔
وہ واقف ہیں کہ انکار تو دورکی بات ہے اک ذرا احتجاج بھی انھیں بیروزگاری اور فقروفاقے تک لے جا سکتا ہے۔ غلامی کی یہ قِسم قدیمی دورِ غلامی سے بھی بدتر ہے۔ترقی یافتہ ممالک کی ترقیاں جاننے کے لیے اورمزید چشم کُشا انکشافات اورمعلومات کے لیے سی بی سی کی گزشتہ برس کی رپورٹس میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
ایک اورشرمناک بات یہ ہے کہ ان جگہوں پرکھانے اور پینے والے کتنے بے حس افراد ہوتے ہیں کہ انھیں کبھی کسی ویٹرس کا کرب محسوس نہیںہوا کہ وہ گھنٹوں اونچی ایڑی کے جوتے پہنے گاہکوں کے لیے بھاگم بھاگ کام کرتی رہتی ہے۔ یہاں یہ گمان نہ کیا جائے کہ وہ آزاد ممالک کی آزاد شہری ہیں۔ ویٹرسز کی مرضی کے بر خلاف اُن سے کام نہیں لیا جاسکتا۔ وہاں کے قوانین ہی آڑے آجائیں گے۔ ہم اِس مغالطے میں بھی رہتے ہیں کہ پارلیمنٹ اچھے اچھے قانون بنادے بس پھرکیا ہے تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔آپ دیکھیں اِسی قسم کے مطالبات آپ کو اکثروبیشتر نظر آئیں گے۔فلاں مسئلے پر قانون سازی کی ضرورت ہے، فلاں مسئلے سے نبٹنے کے لیے تو قانون ہی نہیں، فوراً بل پا س ہونا چاہیے، وغیرہ۔اِس مسئلے کو ایک آسان مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔
بھارت اور چین میں والدین کی خدمت کا قانون پاس ہوا ہے۔اِس قانون کا ایک سامنے کا مطلب تو یہ ہے کہ لوگ جو روایتی طور پر والدین کے خدمت گزار تھے، ترقی کے بعد والدین سے اتنے بے پروا ہوگئے ہیں کہ قانون سازی کی ضرورت پیش آگئی۔ افسوس کہ اِن معاشروں میں اصل سوال، یعنی یہ کہ افراد والدین کی خدمت کیوں نہیں کررہے؟اِس سے گریز کرتے ہوئے۔والدین کی خدمت کا قانون پاس ہو گیا۔اب؟کیا اب وہاں کے لوگ خدمت کرنے لگے؟ظاہر ہے کہ نہیں پھر ایسے قوانین سے حاصل؟وہ کون سا قانون ہے جو محبت اور خدمت کے بے پناہ جذبات کِسی قلب میں موجزن کرسکتا ہے؟اگر اولاد ناخلف ہو تو؟اور فرض کریں آپ عدالت جا کر اپنا مقدمہ ثابت بھی کردیتے ہیں۔
آپ جس بیٹے یا بیٹی کے گھر میں رہ رہے ہیں فرض کرلیں اُسے سزا ہوگئی۔اُسے چند ماہ توکیا چند گھنٹے بھی جیل میں رہنا پڑا تو اب کیا وہ آپ کا تابع فرمان ہوکرآئے گا؟اُس کی سزا کے عرصے میں اُس کی بیوی بچے کیسا سلوک کریں گے؟قانون کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن محض قانون ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ ویٹرسزکے معاملے میں بھی جان لیںکہ وہ ایک حد تک تواحتجاج کرسکتی ہیں، لیکن جب ایک بات اصول کے طور پر طے ہوگئی کہ ویٹرس بے ہودہ لباس ہی پہنے گی تو اب وہ کیا کرسکتی ہے۔اُس کا احتجاج انڈسٹری کے اصول تو تبدیل نہیں کرسکے گا۔ہاں البتہ یہ ہوگا کہ اُس کا مینجر کسی بھی بہانے سے اُسے نوکری سے نکال دے گا۔یا اُس کی شفٹ ایسی جگہ لگا دی جائے گی کہ اُسے ٹِپ ہی نہ ملے یا بہت کم ملے۔یہ اُس کے معاشی قتل کے مترادف ہو جائے گا۔کیا وہ بیروزگاری کی زندگی بسر کر پائے گی؟
آزادی تو ہے،اُسے ملازمت چھوڑدینے کی آزادی ہے، اُسے احتجاج کی آزادی ہے وغیرہ لیکن کیا وہ غلام نہیں؟آزادی کے غلام ایسے ہی ہوتے ہیں۔دیکھیں میں اخبار میں کالم لکھتا ہوں۔ایکسپریس کی مہربانی ہے وہ میری لکھت شایع کردیتا ہے۔میں کالم لکھنے میں آزاد ہوں وہ کالم شایع کرنے یا نہ کرنے میں آزاد۔ اسی طرح کوئی بھی کالم لکھ سکتا ہے۔سب کو مساوی مواقعے حاصل ہیں۔اب فرض کریں میرے من میں یہ سودا سمائے کہ میں جو لکھنا چاہتا ہوں وہ لکھنے کے لیے مجھے اپنا اخبار نکالنا چاہیے۔ میں اِس کے لیے بھی آزاد ہوں، سب کو یکساں مواقعے ملے ہوئے ہیں۔کوئی بھی درخواست دے کر چند سو یا زیادہ سے زیادہ چند ہزار میں ڈیکلریشن لے کر اخبار نکال سکتا ہے، لیکن کیا واقعی کوئی بھی اخبار نکال سکتا ہے؟یکساں مواقعے ہونا اور بات ہے،اُن کا حصول اور بات۔بعینہٖ آزادی کا استعمال بھی ہرکس وناکس کے لیے نہیں۔
یہاں دنیا بھر میں جاری بخشش کے نظام پر بات کرنے کا موقع نہیں کہ ویٹروں کو جو بخشش (ٹِپ)دی جاتی ہے ، وہ کیا ہے اورکیوں ہے۔یہ بخششیں کیسی شخصیت تشکیل دیتی ہیں۔ترقی یافتہ ممالک میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد جزوقتی بیراگیری سے ہی اپنی عملی زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔آگے چل کر اُن کا کیا کردار بنتا ہوگا۔
ہوٹل، ریسٹورنٹ، بار، پب، کیسینو یہاں بیرا گیری اور دیگر خدمات کے لیے اولین ترجیح خاتون ہی ہو اکرتی ہیں۔تحریکِ نسواں کے تحت یہ ہوا ہے کہ عورتیں آزاد ہوئیں۔وہ تمام کام جو وہ گھر کی چاردیواری میں اپنے باپ،بھائی،خاوند اوربیٹوں کے لیے کرتی تھیںاب غیر مردوں کے لیے نمائشی تبسم کے ساتھ کرنے پڑتے ہیں۔ریسٹورنٹ انڈسٹری میں کسی بھی انڈسٹری کے مقابلے میں جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات5گُنا زیادہ ہیں۔ اِس انڈسٹری میں70فی صد خواتین اور 30فی صد مردوں کا تناسب ہے۔ امریکا کی 7فی صد خواتین ریسٹورنٹس میں ملازمت کرتی ہیں۔اُن میں سے30فی صد کو جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔
25جنوری کو برطانوی ارکانِ پارلیمنٹ کہتے ہیں کہ برطانیہ میں سیکڑوں ملازمت پیشہ خواتین کو اونچی ہیل اورنیم عریاں لباس پہننے، بال رنگنے اورمسلسل میک اپ کرتے رہنے پر اُن کے آجروں کی جانب سے مجبورکیا جاتا ہے۔یہ ڈریس کوڈ ہے۔گزشتہ دنوںبرطانیہ میں 27برس کی نکولا تھروپ کا کیس بہت مشہور ہوا تھا جب اُسے ملازمت سے اُس وقت ہاتھ دھونے پڑے جب اُس نے اونچی ہیل پہننے سے انکارکردیا تھا۔ تھروپ نے ایک پٹیشن فائل کی ہے، جس میں حکومت سے یہ استدعا کی گئی ہے خواتین کو کام پر سادہ جوتے پہننے کی رخصت ہونی چاہیے۔اپنی حمایت میں انھوں نے ہزاروں خواتین سے دستخط کروائے ہیں۔آپ لندن کی اکاونٹینسی کی ایک فرم پی ڈبلیو سی میں ملازم تھیں۔
افسوس کہ آج کی عورت آزادی اورخود مختاری کے جھانسے میں اپنی مرضی کے کپڑے اورجوتے پہننے سے بھی محروم ہوئی۔آج کارپوریٹ کلچر یہ طے کرتا ہے کہ اُسے کیا پہننا ہے اورکیا نہیں۔یہ آزادی ہے یا آزادی کا جبر۔