اماں جی رخصت ہوگئیں
قانون کی پوری پوری پاسداری کرو اور اگر ایسا کروگے تو کوئی پولیس والا تمہارے دروازے پر کبھی نہیں آئے گا
قیام پاکستان کے وقت گوکہ اماں جی کی عمرعزیز 20 برس رہی ہوگی مگر وہ اس وقت کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتی تھیں کہ ''جب سکھ یہاں سے گئے تھے اورانڈیا سے مسلمان ہجرت کرکے آئے تھے۔ اسی لمحے وہ آبدیدہ ہوکر قیام پاکستان کے وقت ہجرت کرکے آنے والوں کے مصائب وتکالیف کا بیان کرتیں وہ بتاتیں کہ کس طرح یہ لوگ بے سروسامانی کی حالت میں آئے، کس طرح مقامی لوگوں نے اپنے ان مصیبت زدہ بھائیوں کے لیے کھلے دل و کھلے ہاتھوں سے ان کی مدد کی۔ جب یہ لوگ ہجرت کرکے آئے تو گاؤں کے بزرگوں نے گاؤں کے میراثی کے ذریعے پورے گاؤں میں یہ اعلان کروادیا کہ گاؤں کا ہر مقامی خاندان ان ہجرت کرکے آنے والے بھائیوں کے لیے ایک ایک من گندم وایک ایک بستر عطیہ کرے۔
پھرکیا تھا کہ گاؤںکا ہر ایک خاندان بساط بھر ان امدادی کاموں میں جُت گیا کبھی کبھی وہ اپنی ہم عمر سکھ لڑکیوں کو نم آنکھوں سے یاد کرتیں۔ اماں جی نے اپنے ہوش میں اپنی سگی والدہ کو تو نہ دیکھا تھا البتہ اپنی سوتیلی والدہ کا تذکرہ اماں جی بڑے احترام سے کرتیں کہ ہم تینوں بہنوں کی تربیت سوتیلی والدہ نے اچھے طریقے سے کی، ہماری ضروریات کا پورا پورا خیال رکھا۔ سوتیلی والدہ کی کوکھ سے جنم لینے والے احد بھائی تھے جو 27 برس ہوئے انتقال کرچکے تھے۔ سوتیلی والدہ کی قیام پاکستان کے چار برس بعد شادی والد صاحب سے انجام پائی اور خداوند کریم نے ہمارے والدین کو سات اولادیں عطا فرمائیں جن میں تین بیٹے بڑے ہیں، جب کہ راقم سب سے چھوٹا ہے چار بیٹیوں میں سے دو شیر خواری کے زمانے میں جب کہ ایک بیٹی 1976ء میں 14 برس کی عمر میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئیں۔
اماں جی نے ہماری تربیت کچھ اس انداز سے کی کہ بچپن کا زمانہ تھا کہ میں اپنی دو چھوٹی بہنوں کے ساتھ گلی میں کھیل رہا تھا کہ گلی میں بلی ہمیں نظر آئی ہم وہ بلی اٹھاکر گھر لے آئے، اماں جی نے دیکھا تو سخت ناراض ہوئیں کہ دوسرے کی چیز بلا شبہ وہ گلی میں پڑی تھی کیوں لائے؟ مزید یہ کہ جان لو کہ جو چیز تمہاری نہیں اس پر تمہارا کوئی حق نہیں اگرچہ وہ چیز گلی یا سر راہ ہی کیوں نہ رکھی ہو پھر جب ہم نے تھوڑے شعور کی دنیا میں قدم رکھا تو ایک جملہ وہ بار بار ادا کرتیں کہ دیکھو کبھی تمہارے دروازے پر نا تو کوئی قرضہ لینے والا آئے اور نا ہی کوئی پولیس والا۔ اپنی ضروریات کو محدود رکھو تاکہ قرضہ لینے کی نوبت ہی نہ آئے۔
اور قانون کی پوری پوری پاسداری کرو اور اگر ایسا کروگے تو کوئی پولیس والا تمہارے دروازے پر کبھی نہیں آئے گا۔ فقط اپنی مادری زبان پنجابی میں گفتگو کرنے والی اماں جی نے ایک بڑا ہی خوبصورت و فلسفیانہ جملہ ادا کیا یہ جملہ میں شاید کبھی فراموش نہ کرپاؤں۔ اماں جی نے کہا کہ جو کوئی مال و اسباب جائز و ناجائز طریقے سے جمع کرتا ہے یوں جانو کہ وہ مال و اسباب اسے استعمال کرنا نصیب نہیں ہوتا البتہ اس مال و اسباب کا حساب اسے ضرور خداوند کریم کو دینا ہوگا۔ یہ آخری جملہ انھوں نے اپنے مشاہدے کی بنیاد پر کہا تھا کیونکہ دنیاوی تعلیم سے وہ یکسر محروم تھیں البتہ قرآن پاک اماں جی نے چھوٹی عمر ہی میں پڑھ لیا تھا جس کی تلاوت کرنا ان کے صبح کے معمولات میں باقاعدگی سے شامل تھا۔
اب اماں جی کی عمر عزیز 90 برس کے لگ بھگ تھی ان کے شوہر و ہمارے والد محترم 2010ء میں ہی دنیا فانی سے کوچ فرماچکے تھے۔ اب اماں جی نے کوئی 20 برس سے اپنا قیام اپنے بڑے صاحبزادے و میرے بڑے بھائی بزرگوار اصغر علی کے درِ دولت ہی کو مستقل بنالیا تھا کیونکہ ضعیف العمری کے باعث سفر کرنا ان کے لیے ناممکن سا ہوچکا تھا۔
بڑے بھائی بزرگوار کا در دولت ظفر ٹاؤن قائد آباد میں ہے اور یہ خاکسار راقم مہران ٹاؤن کورنگی میں مقیم ہے اس لیے میری کوشش ہوتی کہ ہفتہ عشرہ میں والدہ سے مل کر اور دو چار گھنٹے گزار کر آجاتا۔ کوئی دو ماہ سے کیفیت یہ تھی کہ اماں جی بستر سے لگ چکی تھیں، گوکہ بڑی بھابی صاحبہ زوجہ میرے بزرگوار اصغر علی، شب و روز خدمت میں مصروف تھیں اور حق تو یہ ہے کہ بھائی صاحب جنھیں ہم آپا کہا کرتے ہیں گویا اماں جی کی خدمت کرنے کا حق ادا کردیا مگر قدرت کے کاموں میں کسی کو کیا دخل ہوسکتا ہے کہ اتوار 29 جنوری2017 کو شب 11 بجے اماں جی نے دنیا فانی کو الوداع کہا اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں یوں وہ سوگواران میں تین بیٹے، ایک بیٹی تین بہوئیں و پوتے پوتیوں و نواسے نواسیوں کو چھوڑگئیں۔
راقم چونکہ اماں جی کا سب سے چھوٹا بیٹا ہے اسی باعث وہ راقم کو میرا ''نِکا'' کہہ کر بلاتیں۔ گوکہ اماں جی کا نِکا خود ایک سفید ریش بزرگ کا روپ دھار چکا ہے، ہر اولاد کا یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ اس کی ماں اسے سب سے زیادہ چاہتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ماں کا پیار تمام اولاد کے لیے یکساں ہی ہوتا ہے ۔ البتہ میرا یہ دعویٰ ہے کہ میری اماں جی سب سے زیادہ مجھے پیار کرتی تھیں واقعہ یہ ہے کہ کوئی 50 برس قبل جب ہمارا بچپن کا زمانہ تھا تو اس دور میں پاس پڑوس کے لوگ بہت خیال رکھتے تھے اور جب کسی گھر میں کوئی اچھا طعام تیار ہوتا تو کوشش ہوتی کہ پڑوس کے ہاں بھی تھوڑا بھیج دیا جاتا ، چنانچہ اسی سلسلے میں پڑوس سے آلو گوشت کا سالن آیا تو اماں نے رکابی میں سے ایک بوٹی نکال کر مجھے دی اور بولیں کہ لو اسلم آلو کھالو راقم نے وہ بوٹی کھائی اور جلدی سے اماں جی سے کہا اماں وہ آلو نہیں تھا بوٹی تھی جو آپ نے مجھے دی تھی۔
اس پر تمام بھئی بہنوں نے یہ تصور کرلیا کہ اماں جی اپنے نکے بیٹے کو ہم سے زیادہ پیار کرتی ہیں، بہر کیف 30 جنوری 2017ء بروز پیر اماں جی کی تدفین کا عمل شروع ہوگیا، لحد کے لیے مقام کا انتخاب مجھ پر بھائی اصغر علی نے چھوڑدیا تھا۔ لحد کا انتخاب کرنے کے بعد لحد کی کھدائی کا مشکل ترین عمل شروع ہوا جو اہل محلہ نے امداد باہمی کے تحت بحسن و خوبی ادا کیا خوش آیند بات یہ تھی کہ لحد کی تیاری میں حصہ لینے نوجوانوں میں تمام ہی زبانیں بولنے والے و مسلک کے لوگ شامل تھے۔
لحد کی کھدائی کے دوران ایک بڑی چٹان بھی حائل ہوئی مگر باہمت نوجوانوں نے اس چٹان کو ریزہ ریزہ کرکے لحد تیار کردی، نماز جنازہ میں اہل محلہ کے ساتھ ساتھ شرکت کرنے والوں میں نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن سیکریٹری جنرل ناصر منصور، مشتاق علی شان، رشید تاج، مزدور کسان پارٹی کے ممتاز رہنما ظفر اسلم صاحب نے خصوصی شرکت فرمائی جب کہ سماجی رہنما زہرا خان لاہور سے مزدور کسان پارٹی کے سیکریٹری جنرل و سنگر تیمور الرحمن ، صادق جتوئی نے فون کر کے اظہار تعزیت کیا تمام احباب کا شکریہ کہ میری ہمت بڑھائی یوں اماں جی سپرد خاک ہوئیں۔
ایکسپریس کے پیارے قارئین سے التماس ہے کہ اماں جی کے درجات کی بلندی کے لیے دعا فرمائیں۔