ڈارک ویب امریکی حکومت مُجرموں کے تعاقب میں
تجارتی و کاروباری ادارے، جامعات وغیرہ ڈیپ ویب کا استعمال کرتی ہیں۔
ورلڈ وائٹ ویب (www) انٹرنیٹ کی سب سے معروف شکل ہے جہاں موجود معلومات تک ہر کوئی بہ آسانی رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ اسی لیے ورلڈ وائڈ ویب کو اصطلاحاً surface web بھی کہا جاتا ہے۔
ورلڈ وائڈ ویب کے دو جزو اور ہیں جہاں موجود معلومات تک بلارکاوٹ رسائی ممکن نہیں۔ ان میں سے ایک ڈیپ ویب ( Deep web ) اور دوسرا ڈارک ویب ( Dark web ) ہے۔ ورلڈ وائڈ ویب پر موجود تمام معلومات 'انڈیکسڈ' ہوتی ہیں۔ بہ الفاظ دیگر سرچ انجنز سے جُڑی ہوتی ہیں۔ تلاش کرنے پر یہ معلومات سرچ انجنز کے نتائج میں ظاہر ہوجاتی ہیں۔ اس کے برعکس ڈیپ ویب پر موجود معلومات تک براہ راست رسائی ممکن نہیں ہے۔ ان معلومات تک پہنچنے کے خواہش مندوں کے لیے لاگ اِن کی شرط لگائی جاتی ہے۔ تجارتی و کاروباری ادارے، جامعات وغیرہ ڈیپ ویب کا استعمال کرتی ہیں۔
ڈارک ویب، ورلڈ وائڈ ویب کا وہ حصہ ہے جس میں داخل ہونے کے لیے مخصوص سوفٹ ویئر، عام طور پرTor کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہاں موجود معلومات، ویب سائٹس وغیرہ سرچ انجنز کی رسائی سے باہر ہوتی ہیں۔ بہ الفاظ دیگر ڈارک ویب ایک چھپی ہوئی دنیا ہے جہاں کوئی بھی گُم نام رہتے ہوئے کسی بھی قسم کی سرگرمیاں انجام دے سکتا ہے۔ اسی خاصیت کی وجہ سے یہ دنیا مجرمانہ سرگرمیوں کا گڑھ بن چکی ہے۔ جرائم پیشہ افراد ڈارک ویب ہی کو رابطے کا ذریعہ بناتے ہیں۔ منشیات، انسانوں اور ہتھیاروں کے اسمگلروں سے لے کر دہشت گرد اور اُجرتی قاتلوں تک ان گنت جرائم پیشہ ڈارک ویب کے ذریعے ہی اپنی سرگرمیاں مربوط کرتے اور جاری رکھتے ہیں۔
Torویب براؤزر امریکی محکمہ دفاع نے تیار کیا تھا۔ اس کی تیاری کا مقصد حساس معلومات کا تحفظ تھا۔ 2004 ء میں یہ سوفٹ ویئر عام لوگوں کے لیے جاری کردیا گیا تھا۔ ویٹس ایپ میسیجنگ ایپ کی طرح بیشتر محفوظ نظاموں کی طرح Tor بھی مثبت مقاصد کے لیے وضع کیا گیا تھا مگر یہ مجرموں کے لیے بھی اتنا ہی مفید ثابت ہوا ہے۔
امریکی حکومت کئی برسوں سے ڈارک ویب میں جاری مجرمانہ سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے کوششیں کررہی ہیں۔ اس مقصد کے لیے محکمہ دفاع کی ماتحت تحقیقی ایجنسی '' ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹس ایجنسی '' (DARPA) نے 2014ء میں Memex کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا تھا۔ بنیادی طور پر اس پروگرام کی ابتدا انسانی اسمگلنگ اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کے سدباب کے لیے کی گئی تھی۔ یہ ایک وسیع پروگرام ہے سرکاری ملازمین اور سائنس دانوں کے علاوہ کمپیوٹر کے ماہرین سے لے کر دانش وَر تک جس کا حصہ ہیں۔
Memex کی ٹیم ڈارک ویب کی دنیا میں مجرموں سراغ لگانے کے لیے جس ہتھیار سے کام لے رہی ہے وہ Apache Tika ہے۔ یہ دراصل ڈارک ویب پر بنائی گئی ان گنت ویب سائٹس کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کرنے اور اس کا تجزیہ کرنے کا ایک فریم ورک ہے۔ ایک فائل تک رسائی حاصل کرنے کے بعد یہ فریم ورک اس کا جائزہ لیتا ہے کہ فائل کی نوعیت کیا ہے۔ مثلاً یہ آڈیو فائل ہے، ویڈیو یا پھر امیج۔ فائل کی شناخت کرلینے کے بعد مخصوص ٹولز کی مدد سے یہ اس کے مشتملات یا ڈیٹا تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ ایک بار سرا ہاتھ میں آجانے کے بعد یہ سوفٹ ویئر آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور فائل سے جُرے تمام لِنکس تک جا پہنچتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ پاناما پیپرز کا اسکینڈل طشت ازبام کرنے میں اس سوفٹ ویئر کا بھی اہم کردار رہا ہے۔
ڈارک ویب میں سرگرم عمل مجرموں کی سرکوبی کے لیے امریکی ماہرین Apache Tika کو مزید مؤثر بنانے پر کام کررہے ہیں، تاہم ابھی تک کوئی ایسی اہم پیش رفت نہیں ہوسکی جس سے ڈارک ویب ان ماہرین کے لیے ' سرفیس ویب' میں تبدیل ہوجائے۔
ورلڈ وائڈ ویب کے دو جزو اور ہیں جہاں موجود معلومات تک بلارکاوٹ رسائی ممکن نہیں۔ ان میں سے ایک ڈیپ ویب ( Deep web ) اور دوسرا ڈارک ویب ( Dark web ) ہے۔ ورلڈ وائڈ ویب پر موجود تمام معلومات 'انڈیکسڈ' ہوتی ہیں۔ بہ الفاظ دیگر سرچ انجنز سے جُڑی ہوتی ہیں۔ تلاش کرنے پر یہ معلومات سرچ انجنز کے نتائج میں ظاہر ہوجاتی ہیں۔ اس کے برعکس ڈیپ ویب پر موجود معلومات تک براہ راست رسائی ممکن نہیں ہے۔ ان معلومات تک پہنچنے کے خواہش مندوں کے لیے لاگ اِن کی شرط لگائی جاتی ہے۔ تجارتی و کاروباری ادارے، جامعات وغیرہ ڈیپ ویب کا استعمال کرتی ہیں۔
ڈارک ویب، ورلڈ وائڈ ویب کا وہ حصہ ہے جس میں داخل ہونے کے لیے مخصوص سوفٹ ویئر، عام طور پرTor کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہاں موجود معلومات، ویب سائٹس وغیرہ سرچ انجنز کی رسائی سے باہر ہوتی ہیں۔ بہ الفاظ دیگر ڈارک ویب ایک چھپی ہوئی دنیا ہے جہاں کوئی بھی گُم نام رہتے ہوئے کسی بھی قسم کی سرگرمیاں انجام دے سکتا ہے۔ اسی خاصیت کی وجہ سے یہ دنیا مجرمانہ سرگرمیوں کا گڑھ بن چکی ہے۔ جرائم پیشہ افراد ڈارک ویب ہی کو رابطے کا ذریعہ بناتے ہیں۔ منشیات، انسانوں اور ہتھیاروں کے اسمگلروں سے لے کر دہشت گرد اور اُجرتی قاتلوں تک ان گنت جرائم پیشہ ڈارک ویب کے ذریعے ہی اپنی سرگرمیاں مربوط کرتے اور جاری رکھتے ہیں۔
Torویب براؤزر امریکی محکمہ دفاع نے تیار کیا تھا۔ اس کی تیاری کا مقصد حساس معلومات کا تحفظ تھا۔ 2004 ء میں یہ سوفٹ ویئر عام لوگوں کے لیے جاری کردیا گیا تھا۔ ویٹس ایپ میسیجنگ ایپ کی طرح بیشتر محفوظ نظاموں کی طرح Tor بھی مثبت مقاصد کے لیے وضع کیا گیا تھا مگر یہ مجرموں کے لیے بھی اتنا ہی مفید ثابت ہوا ہے۔
امریکی حکومت کئی برسوں سے ڈارک ویب میں جاری مجرمانہ سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے کوششیں کررہی ہیں۔ اس مقصد کے لیے محکمہ دفاع کی ماتحت تحقیقی ایجنسی '' ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹس ایجنسی '' (DARPA) نے 2014ء میں Memex کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا تھا۔ بنیادی طور پر اس پروگرام کی ابتدا انسانی اسمگلنگ اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کے سدباب کے لیے کی گئی تھی۔ یہ ایک وسیع پروگرام ہے سرکاری ملازمین اور سائنس دانوں کے علاوہ کمپیوٹر کے ماہرین سے لے کر دانش وَر تک جس کا حصہ ہیں۔
Memex کی ٹیم ڈارک ویب کی دنیا میں مجرموں سراغ لگانے کے لیے جس ہتھیار سے کام لے رہی ہے وہ Apache Tika ہے۔ یہ دراصل ڈارک ویب پر بنائی گئی ان گنت ویب سائٹس کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کرنے اور اس کا تجزیہ کرنے کا ایک فریم ورک ہے۔ ایک فائل تک رسائی حاصل کرنے کے بعد یہ فریم ورک اس کا جائزہ لیتا ہے کہ فائل کی نوعیت کیا ہے۔ مثلاً یہ آڈیو فائل ہے، ویڈیو یا پھر امیج۔ فائل کی شناخت کرلینے کے بعد مخصوص ٹولز کی مدد سے یہ اس کے مشتملات یا ڈیٹا تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ ایک بار سرا ہاتھ میں آجانے کے بعد یہ سوفٹ ویئر آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور فائل سے جُرے تمام لِنکس تک جا پہنچتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ پاناما پیپرز کا اسکینڈل طشت ازبام کرنے میں اس سوفٹ ویئر کا بھی اہم کردار رہا ہے۔
ڈارک ویب میں سرگرم عمل مجرموں کی سرکوبی کے لیے امریکی ماہرین Apache Tika کو مزید مؤثر بنانے پر کام کررہے ہیں، تاہم ابھی تک کوئی ایسی اہم پیش رفت نہیں ہوسکی جس سے ڈارک ویب ان ماہرین کے لیے ' سرفیس ویب' میں تبدیل ہوجائے۔