عوام سپریم ہیں
علم و دانش کے یہ علم بردارکلیسا کی تلواروں سے ڈرجاتے توآج انسان کس حالت میں ہوتا
KARACHI:
سولہویں اور سترہویں صدی میں یورپ کے ہر ملک میںفلسفیوں اورسائنس دانوں پر الحاد اور بغاوت کے الزام لگا کر انھیں زندہ جلا دیاجاتا تھا اورکبھی انھیں جیل کے تنگ وتاریک کمروں میں سسک سسک کر مرنے کے لیے چھوڑدیا جاتا، علم وحکمت کی ان قندیلوں کو جہالت کے دامن سے بچھانے کی کوشش ناکام رہی ، برونوکو روم میں زندہ جلا دیا گیا لیکن اس کے خیال کو جلانے کے لیے ساری دنیا کا ایندھن ناکافی تھا اگر علم و دانش کے یہ علم بردارکلیسا کی تلواروں سے ڈرجاتے توآج انسان کس حالت میں ہوتا۔
یورپ کا احتساب عالموں کو زندہ جلانے میں کامیاب ہوگیا لیکن احتساب انسانی غوروفکرکو زنجیروں میں نہ جکڑ سکا۔ یورپ کے اس عہد کی اگر تعزیری تاریخ پر غور کیا جائے تو وہ بھیانک اور لرزہ خیز سزائوں کا ایک مسلسل عہد دکھائی دے گا اس عہد میں انسا نی ذہن کو قید کرنے کی کوشش میں انسانی جسم کو زندہ جلایاگیا جسم جل گیا ذہن زندہ رہا۔ جرم و سزا کے اس دور کے بعد خیالات باقی رہے کیونکہ خیال نہیں مٹایا جاسکتا ۔ خیالات کو قید نہیں کیا جاسکتا خیال آزاد ہے، فوج کے حملوں کی روک تھام کی جاسکتی ہے لیکن خیالات کے حملوں کو نوک سنگین سے نہیں روکا جاسکتا ۔
وحشت اور بربریت سے تہذیب وتمدن تک کا یہ سارا سفر راتوں رات طے نہیں ہوا، انسان کو یہ سفر طے کرنے میں صدیاں لگیں ۔ قربانیوں اور جدوجہد کی بہت طویل داستان ہے اس سارے سفر نے ایک بات ثابت کردی کہ انسان عظیم ہے اور عوام سپریم ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں کرشمے عوام نے ہی کرکے دکھائے ہیں، یہ ہی عوام ہیں جنہوں نے آمروں، بادشاہوں کے تاج وتخت اچھال دیے جنہوں نے اپنے خالی ہاتھوں سے بڑے بڑے ٹینک الٹ کر رکھ دیے، بڑے بڑے ظالم ،جابر بادشاہ اور آمر ان ہی عوام کے ڈر اور خوف کی وجہ سے ملک چھوڑ کر فرار ہو گئے ۔
دنیا بھر کے عوام نے خوشحالی اور ترقی کی منزلیں،جمہوریت اور ووٹ کی طاقت کے ذریعے طے کی ہیں۔ پاکستان کا قیام ایک عوامی جدوجہد کا نتیجہ ہے نہ کہ عسکر ی جدوجہد کا اوریہ جمہوریت ہی ہے جس کا وعدہ ان کے آبائو اجداد سے کیاگیا تھا ان سے کہاگیا تھا کہ وہ ایک جمہوری ملک میں رہیں گے۔ جمہوری ملک وہ ہوتا ہے جہاں عوام سپریم ہوتے ہیں جہاں ہرشہری بلاکسی جبر اپنے ووٹ کا آزادانہ استعمال کرسکے ،جہاں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں پارلیمنٹ کا قیام عمل میں آتا ہے جو با اختیار ہوتی ہے۔
پارلیمنٹ کو لامحدود اختیارات حاصل ہوتے ہیں، وہ عدلیہ کے اختیارات میں کمی سمیت ہر طرح کی قانون سازی کی مجاز ہے، پارلیمنٹ کی منظورکردہ ترمیم کسی عدالت میں چیلنج نہیں کی جاسکتی، پارلیمنٹ آئین میں جو چاہے ترمیم کرسکتی ہے ۔قائداعظم نے نئی دہلی میں رائٹر کے نمایند ے ڈون کیمپل کو انٹرویو دیتے ہوئے 1946 میں کہا '' نئی ریاست ایک جدید جمہوری ریاست ہوگی جہاں حاکمیت اعلیٰ عوام کے پاس ہوگی '' 11 اگست 1947 کو پاکستان بننے سے 3 دن قبل پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کے صدر کی حیثیت سے کیے گئے اپنے تاریخی خطاب میں انسانوں پرمشتمل آئین ساز اسمبلی کو بار بار پاکستان کا مقتدر اعلیٰ کہہ کر مخاطب کیا۔
روسوکہتا ہے '' میں کیسا آدمی ہوں، اس کا فیصلہ کوئی شخص یا چنداشخاص نہیںکرسکتے بلکہ یہ فیصلہ کرنے کاحق فقط عوام ہی کو حاصل ہے اور میں اس کا فیصلہ کرنے کا حق عوام ہی پر چھوڑتا ہوں۔'' تو ملک کے اہم فیصلے کسی شخص یا چند اشخاص پرکیسے چھوڑے جاسکتے ہیں اس لیے کہ کوئی شخص یاچند اشخاص غلط ہوسکتے ہیں لیکن عوام کبھی غلط فیصلے نہیں کرتے۔ملک عوام کے لیے ہوتے ہیں نہ کہ عوام ملک کے لیے عوام سے زیادہ سمجھ دار اور عقل مند کوئی بھی نہیں ہو سکتا ۔
ریاست ایک منفردکلیت ہوتی ہے آپ اس میں جانبداری تلاش نہیں کرسکتے ،کیونکہ اس میں آئین سب سے افضل ہوتا ہے اور یہ نہ صرف ذہنی قوتوں کی نمایندگی کرتا ہے بلکہ اس میں تمام اخلاقی اور علمی ہمہ گیریت کی صورت پذیری بھی ہوتی ہے ،آئین میں سب سے اہم بات تو عوام کی سیاسی صورت حال کی نمود ہے ۔ ہیگل کہتا ہے '' ہرآئین اپنے دورکا غماز ہوتا ہے اور وہ سیاسی اصولوں کی کلیت ہوتا ہے ہم پرانی تاریخ کے کسی عظیم آئین سے جدید آئین کے بارے میں کچھ نہیں سیکھ سکتے ۔
وہ کہتا ہے '' اب ریاست اور عوام کا تعلق کیا ہے ریاست ، اس کے قوانین ، اس کی انتظامیہ،شہریوں کے حقوق اس کی طبعی خصوصیات اس کے پہاڑ ، آب و ہوا ، ملک ، شہریوں کی جائیداد ، تاریخ ، ریاست ، اسلا ف کے کارنا مے ، ان کی یاد، ان سب کا تعلق عوام سے ہے اور ان کی زندگی میں رواں دواں ہے۔ یہ سب ان کا ہے جیسے وہ خود اس کے ہیں کیونکہ ان کی ہستی (Being) ہے یہ سب مل کر روح عصر بنتی ہے اور ہر شہری اس کا نمایندہ ہے اس سے اس نے جنم لیا ہے اور وہ اسی میں بستا ہے ۔''
آخری اور قطعی آزادی جسے انسان سے چھینا نہیں جاسکتا۔ ''نہ '' کہنے کی آزادی ہے اور یہ ہی سارتر کے نظریہ قدرت و اختیار کا سنگ بنیاد ہے۔ سارتر کہتا ہے کہ انسان کی آزادی یہ ہے کہ وہ ''نہ '' کہے ۔ ہر انسان اپنی اخلاقی قدریں خود تخلیق کرتا ہے اس لیے وہ اپنے اعمال میں مطلق العنان ہے اور جس راہ عمل کو چاہے بلا روک ٹوک انتخاب کر سکتا ہے۔ جے جی فریزر کردار پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے ''کسی قوم یافرد میں استحکام کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ وہ حال کو مستقبل پر قربان کردے یہ خصوصیت جس فرد میں جتنی زیادہ ہوگی اتنا ہی اس کا کردار مستحکم ہوگا۔
جب ایک انسان اپنی زندگی کی آسائشیں بلکہ خود زندگی کو قربان کردیتا ہے تاکہ مستبقل بعید میں آنے والی نسلوں کو آزادی اورصداقت کی برکات میسر آسکیں ۔ یہ ہی انسان کی عظمت ہے ۔ سقراط ، برونو،وکلف ، شیخ الاشراق سہروردی نے اپنی جانیں کسی ذاتی فائد ے کے حصول کے لیے قربان نہیں کی تھیں بلکہ اپنے عقائد واصول کی پاسبانی کرتے ہوئے موت کو خندہ پیشانی سے دعوت دی تھی۔ سقراط کے دوستوں نے کہا '' ہم محافظوں کو رشوت دے کر آپ کو بھگانے کی کوشش کررہے ہیں '' ۔
سقراط نے بھاگنے سے انکار کردیا اور کہا '' میں ایتھنز والوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ انسان اپنے اصولوں کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھ سکتا ہے ۔سقراط، برونو وکلف نے '' نہ '' کہا اور اپنی جان دے دی ۔ اورصرف ''نہ '' کہنے کی وجہ سے یہ سب صدیوں بعد آج بھی زندہ ہیں ۔ لیکن ان کے قاتلوں کے نام سے آج کوئی بھی واقف نہیں ہے ۔ عوام طاقت کا اصل سر چشمہ ہوتے ہیں طاقت اور فیصلے کر نے کا محور شخصیات نہیں بلکہ عوام ہوتے ہیں عوام اپنا معاشرہ بدلنے کی مسلسل کوششیں کررہے ہیں کیونکہ وہ عقل اور شعور کے مالک ہیں مثالی معاشرہ قائم کر نے میں شاید کئی سال اور لگ جائیں لیکن عوام کو اپنی کامیابی پر یقین ہے کیونکہ ان پر یہ حقیقت آشکار ہوگئی ہے کہ صرف مثالی معا شرہ قائم کر نے سے ہی مثالی انسان کا ظہور ممکن ہے ۔