ٹڈاپ اسکینڈل مرکزی کردار اور وعدہ معاف گواہ کو 70 کروڑ روپے کی ادائیگیاں
فریٹ سبسڈی کی مد میں کی جانیوالی 7 ارب سے زائدکی خورد برد کے مالیاتی اسکینڈل کی تحقیقات نے نیارخ اختیار کر لیا
ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان (ٹی ڈاپ) میں فریٹ سبسڈی کی مدمیں کی جانے والی 7 ارب روپے سے زائد کی خورد برد کے مالیاتی اسکینڈل نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے۔
مالیاتی اسکینڈل کے مرکزی کردار اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کیخلاف وعدہ معاف گواہ بننے والے بروکرمحمد فردوس کی 22 کاغذی کمپنیوں کو 70 کروڑ روپے کی غیرقانونی سبسڈی دی گئی جبکہ اعلی افسران کے دباؤ پر ملزم کے خلاف تاحال کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
ادھر ایف آئی اے کرائم سرکل کراچی نے چندسال قبل ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے کاغذی کمپنیوں کو دی جانے والی اربوں روپے کی فریٹ سبسڈی کی تحقیقات شروع کی تھیں اور دوران تحقیقات انکشاف ہوا تھا کہ چند سالوں میں مجموعی طور پر7ارب روپے کاغذی ایکسپورٹ کمپنیوں کو فریٹ سبسڈی کی مدمیں ادا کیے گئے تھے۔
ایف آئی اے نے تحقیقات کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے ٹی ڈاپ کے اعلی افسران، کاغذی کمپنیوں کے مالکان، بروکرز، بینک افسران اور آڈٹ کمپنیوں کے ذمے داروں کے خلاف 80 سے زائدمقدمات درج کیے جبکہ ٹی ڈاپ کے اعلی افسران سمیت متعدد افراد کو ان مقدمات میں گرفتار بھی کیا گیا۔
تحقیقات کے دوران ایک اہم موڑ آیا جب مالی اسکینڈل کے مرکزی کردار اور بروکر محمد فردوس سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق وفاقی وزیر تجارت مخدوم امین فہیم (مرحوم) کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کا فیصلہ کیا اور عدالت کے روبرو بیان حلفی دیاکہ دونوں اعلی شخصیات کوان کے فرنٹ مینوں فیصل صدیق خان اوردیگرکے ذریعے خطیررقوم ادا کی گئیں۔ جس کے عوض سیکڑوں کاغذی کمپنیوں کواربوں روپے کی جعلی فریٹ سبسڈی کی ادائیگی کو یقینی بنایا گیا۔
محمد فردوس کے اقبالی بیان کی روشنی میں ایف آئی اے نے سابق وزیراعظم اور سابق وفاقی وزیر کے خلاف کرپشن کے 12 مقدمات درج کیے جوعدالتوں میں زیرسماعت ہیں جوکہ انسداد رشوت ستانی کی وفاقی عدالت میں زیر سماعت ہیں۔
ذرائع کے مطابق محمد فردوس مالی اسکینڈل کے مرکزی کردار تھے، انہوں نے خود اپنے اقبالی بیان میں اعتراف کیاہے کہ انہوں نے بطور ماسٹر مائنڈ پورے مالی اسکینڈل کے تانے بانے بنے اور تقریباً ایک ارب روپے سے زائد کی رقم براہ راست یا بالواسطہ انھیں ملی۔
ذرائع نے بتایا کہ محمد فردوس مالیاتی اسکینڈل کے ماسٹر مائنڈ ہونے کی وجہ سے وعدہ معاف گواہ بننے کے اہل نہیں تھے اورٖصرف ان کے بیان کو بنیاد بنا کرسابق وزیراعظم اور سابق وفاقی وزیر کو مقدمات ملزم بنایا گیا۔
ذرائع نے بتایا کہ اس وقت ایف آئی اے کے اعلی افسران اور بااثر افراد کا دباؤ تھاکہ محمد فردوس کو مقدمات میں ملزم نہیں بنایاجائے اور اس کا راستہ یہ نکالا گیا کہ انھیں اہلیت پرپورا نہ اترنے کے باوجود وعدہ معاف گواہ بنا کرکلین چٹ دے دی گئی جبکہ حال ہی میں ایف آئی اے کی جانب سے ٹی ڈاپ کے فریٹ سبسڈی اسکینڈل کی جانچ پڑتال کی گئی تو انکشاف ہوا کہ محمد فردوس کی تقریباً 22 کاغذی کمپنیوں کو 70 کروڑ روپے کی فریٹ سبسڈی کی ادائیگی کی گئی تاہم ایف آئی اے محمد فردوس کی ایک بھی کمپنی کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا۔
دوسری جانب ایف آئی اے کی تفتیشی حکام نے اس سلسلے میں محمدفردوس کوطلبی کے نوٹس جاری کیے تووہ روپوش ہوگئے اورسابق اعلی افسران کی مددسے تفتیشی افسران پر ایک مرتبہ پھر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ سامنے آنے والے حقائق کومنظر عام پرنہ لائیں۔
ذرائع نے بتایا کہ محمد فردوس کی جن کاغذی کمپنیوں کو غیرقانونی طور پر فریٹ سبسڈی کی ادائیگی کی گئی۔ سارہ انٹرپرائزز، ایکوا میرینز، زیڈ اے امپیکٹس، سنی انٹرپرائزز، سنی اوشین، علی انٹرنیشنل، نیہا ٹریڈرز، ایریل امپیکٹس، محمد ٹریڈرز، اسامہ انٹرپرائزز، تراب اینڈ کو، اے ایف انٹرپرائزز، آغا اینڈ کو، ایریکسین انٹرنیشنل، این بی پی اینڈ کو، جوبلی امپیکس، تاج امپیکس، نواب امپیکس، حمید سنز، ایل بی اے انٹرنیشنل، ڈی یو ٹریڈرز اور الحسین ٹریڈرز شامل ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ محمد فردوس انفرادی طور پر مالی اسکینڈل سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا اور مجموعی طور پر تقریباً ایک ارب روپے محمد فردوس اور ان کی کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں منتقل ہوئے،جس میں ان کی اہلیہ اور دیگر اہل خانہ کے نام پر بنائی جانے والی کمپنیاں بھی شامل ہیں تاہم ایف آئی اے نے نئے حقائق سامنے آنے کے بعد مالی اسکینڈل کی تحقیقات کو ایک نیا رخ ملا ہے اور امکان ہے کہ وعدہ معاف گواہ کے خلاف جلد مقدمات درج کیے جائیں گے۔
مالیاتی اسکینڈل کے مرکزی کردار اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کیخلاف وعدہ معاف گواہ بننے والے بروکرمحمد فردوس کی 22 کاغذی کمپنیوں کو 70 کروڑ روپے کی غیرقانونی سبسڈی دی گئی جبکہ اعلی افسران کے دباؤ پر ملزم کے خلاف تاحال کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
ادھر ایف آئی اے کرائم سرکل کراچی نے چندسال قبل ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے کاغذی کمپنیوں کو دی جانے والی اربوں روپے کی فریٹ سبسڈی کی تحقیقات شروع کی تھیں اور دوران تحقیقات انکشاف ہوا تھا کہ چند سالوں میں مجموعی طور پر7ارب روپے کاغذی ایکسپورٹ کمپنیوں کو فریٹ سبسڈی کی مدمیں ادا کیے گئے تھے۔
ایف آئی اے نے تحقیقات کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے ٹی ڈاپ کے اعلی افسران، کاغذی کمپنیوں کے مالکان، بروکرز، بینک افسران اور آڈٹ کمپنیوں کے ذمے داروں کے خلاف 80 سے زائدمقدمات درج کیے جبکہ ٹی ڈاپ کے اعلی افسران سمیت متعدد افراد کو ان مقدمات میں گرفتار بھی کیا گیا۔
تحقیقات کے دوران ایک اہم موڑ آیا جب مالی اسکینڈل کے مرکزی کردار اور بروکر محمد فردوس سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق وفاقی وزیر تجارت مخدوم امین فہیم (مرحوم) کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کا فیصلہ کیا اور عدالت کے روبرو بیان حلفی دیاکہ دونوں اعلی شخصیات کوان کے فرنٹ مینوں فیصل صدیق خان اوردیگرکے ذریعے خطیررقوم ادا کی گئیں۔ جس کے عوض سیکڑوں کاغذی کمپنیوں کواربوں روپے کی جعلی فریٹ سبسڈی کی ادائیگی کو یقینی بنایا گیا۔
محمد فردوس کے اقبالی بیان کی روشنی میں ایف آئی اے نے سابق وزیراعظم اور سابق وفاقی وزیر کے خلاف کرپشن کے 12 مقدمات درج کیے جوعدالتوں میں زیرسماعت ہیں جوکہ انسداد رشوت ستانی کی وفاقی عدالت میں زیر سماعت ہیں۔
ذرائع کے مطابق محمد فردوس مالی اسکینڈل کے مرکزی کردار تھے، انہوں نے خود اپنے اقبالی بیان میں اعتراف کیاہے کہ انہوں نے بطور ماسٹر مائنڈ پورے مالی اسکینڈل کے تانے بانے بنے اور تقریباً ایک ارب روپے سے زائد کی رقم براہ راست یا بالواسطہ انھیں ملی۔
ذرائع نے بتایا کہ محمد فردوس مالیاتی اسکینڈل کے ماسٹر مائنڈ ہونے کی وجہ سے وعدہ معاف گواہ بننے کے اہل نہیں تھے اورٖصرف ان کے بیان کو بنیاد بنا کرسابق وزیراعظم اور سابق وفاقی وزیر کو مقدمات ملزم بنایا گیا۔
ذرائع نے بتایا کہ اس وقت ایف آئی اے کے اعلی افسران اور بااثر افراد کا دباؤ تھاکہ محمد فردوس کو مقدمات میں ملزم نہیں بنایاجائے اور اس کا راستہ یہ نکالا گیا کہ انھیں اہلیت پرپورا نہ اترنے کے باوجود وعدہ معاف گواہ بنا کرکلین چٹ دے دی گئی جبکہ حال ہی میں ایف آئی اے کی جانب سے ٹی ڈاپ کے فریٹ سبسڈی اسکینڈل کی جانچ پڑتال کی گئی تو انکشاف ہوا کہ محمد فردوس کی تقریباً 22 کاغذی کمپنیوں کو 70 کروڑ روپے کی فریٹ سبسڈی کی ادائیگی کی گئی تاہم ایف آئی اے محمد فردوس کی ایک بھی کمپنی کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا۔
دوسری جانب ایف آئی اے کی تفتیشی حکام نے اس سلسلے میں محمدفردوس کوطلبی کے نوٹس جاری کیے تووہ روپوش ہوگئے اورسابق اعلی افسران کی مددسے تفتیشی افسران پر ایک مرتبہ پھر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ سامنے آنے والے حقائق کومنظر عام پرنہ لائیں۔
ذرائع نے بتایا کہ محمد فردوس کی جن کاغذی کمپنیوں کو غیرقانونی طور پر فریٹ سبسڈی کی ادائیگی کی گئی۔ سارہ انٹرپرائزز، ایکوا میرینز، زیڈ اے امپیکٹس، سنی انٹرپرائزز، سنی اوشین، علی انٹرنیشنل، نیہا ٹریڈرز، ایریل امپیکٹس، محمد ٹریڈرز، اسامہ انٹرپرائزز، تراب اینڈ کو، اے ایف انٹرپرائزز، آغا اینڈ کو، ایریکسین انٹرنیشنل، این بی پی اینڈ کو، جوبلی امپیکس، تاج امپیکس، نواب امپیکس، حمید سنز، ایل بی اے انٹرنیشنل، ڈی یو ٹریڈرز اور الحسین ٹریڈرز شامل ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ محمد فردوس انفرادی طور پر مالی اسکینڈل سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا اور مجموعی طور پر تقریباً ایک ارب روپے محمد فردوس اور ان کی کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں منتقل ہوئے،جس میں ان کی اہلیہ اور دیگر اہل خانہ کے نام پر بنائی جانے والی کمپنیاں بھی شامل ہیں تاہم ایف آئی اے نے نئے حقائق سامنے آنے کے بعد مالی اسکینڈل کی تحقیقات کو ایک نیا رخ ملا ہے اور امکان ہے کہ وعدہ معاف گواہ کے خلاف جلد مقدمات درج کیے جائیں گے۔