امریکی تاریخ کے متنازع ترین اٹارنی جنرل کا تقرر
امریکی سینیٹ میں رائے شماری کے دوران 52 سینیٹروں نے جیف سیشنز کے حق جبکہ 47 نے ان کے خلاف ووٹ دیا
امریکی سینیٹ میں دو دن تک جاری رہنے والی تند و تیز بحث اور ہنگامے کے بعد متنازع شہرت رکھنے والے جیف سیشنز کو امریکا کا 84 واں اٹارنی جنرل مقرر کردیا گیا ہے۔
ان کی تقرری امریکی سینیٹ میں رائے شماری کے بعد عمل میں آئی جس میں 52 سینیٹروں نے ان کے حق میں جبکہ 47 نے ان کے خلاف ووٹ دیئے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فوراً ہی سیشنز کےلیے مبارکباد کا ٹویٹ بھی کردیا۔
واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ 30 جنوری 2017 کے روز قائم مقام اٹارنی جنرل سیلی ییٹس کو سات ملکوں کے شہریوں کی امریکہ آمد پر پابندی سے متعلق صدارتی حکم نامے کی خلاف ورزی پر برطرف کرچکے تھے اور تب سے یہ عہدہ خالی تھا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: ٹرمپ نے حکم عدولی پر اٹارنی جنرل کو برطرف کردیا
اٹارنی جنرل جیف سیشنز جو امریکی محکمہ انصاف کے سربراہ بھی ہوں گے، ٹرمپ کی مجوزہ 15 رکنی کابینہ کے وہ چھٹے رکن ہیں جنہوں نے نامزدگی سے تقرری تک کا سفر کامیابی سے پورا کرلیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے سیشنز کو بطورِ خاص ان کی متعصبانہ اور نسل پرستی پر مبنی سوچ کی وجہ سے پسند کیا ہے۔
اپنے قانونی کیریئر میں ایک نجی وکیل اور بعد ازاں امریکی ریاست الاباما میں اسسٹنٹ اٹارنی جنرل اور اٹارنی جنرل کے عہدوں پر فائز رہنے والے جیف سیشنز کی شہرت انتہائی متنازعہ رہی ہے۔ وہ نہ صرف نسل پرست امریکیوں کی جانب سے مقدمات لڑتے رہے بلکہ سفید فام نسل پرست امریکی تنظیموں کی حمایت بھی کرتے رہے ہیں۔
1986 میں فیڈرل جج کے طور پر سیشنز کی تقرری بھی اس وقت کھٹائی میں پڑگئی تھی جب عوامی حقوق کے امریکی علمبردار مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی بیوہ کوریٹا اسکاٹ کنگ نے سینیٹ کی کمیٹی برائے انصاف کے سربراہ کو ایک خط لکھا جس میں بتایا گیا تھا کہ سیشنز نے اسسٹنٹ اٹارنی جنرل الاباما کے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کس طرح امریکی سیاہ فاموں کو انتخابات میں ووٹ دینے کے حق سے محروم رکھا تھا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ اٹارنی جنرل جیف سیشنز کی صورت میں ٹرمپ کے ہاتھ میں ایک خطرناک ہتھیار آجائے گا کیونکہ وہ عدالتوں میں صرف ٹرمپ کے صدارتی حکم ناموں کا دفاع ہی نہیں کریں گے بلکہ مستقبل میں مزید ایسی قانون سازی میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی معاون ہوں گے جس کا مقصد متعصبانہ اور تشدد پر مبنی سوچ کو پالیسی کا روپ دے کر عملی جامہ پہنانا ہوگا۔
ان کی تقرری امریکی سینیٹ میں رائے شماری کے بعد عمل میں آئی جس میں 52 سینیٹروں نے ان کے حق میں جبکہ 47 نے ان کے خلاف ووٹ دیئے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فوراً ہی سیشنز کےلیے مبارکباد کا ٹویٹ بھی کردیا۔
واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ 30 جنوری 2017 کے روز قائم مقام اٹارنی جنرل سیلی ییٹس کو سات ملکوں کے شہریوں کی امریکہ آمد پر پابندی سے متعلق صدارتی حکم نامے کی خلاف ورزی پر برطرف کرچکے تھے اور تب سے یہ عہدہ خالی تھا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: ٹرمپ نے حکم عدولی پر اٹارنی جنرل کو برطرف کردیا
اٹارنی جنرل جیف سیشنز جو امریکی محکمہ انصاف کے سربراہ بھی ہوں گے، ٹرمپ کی مجوزہ 15 رکنی کابینہ کے وہ چھٹے رکن ہیں جنہوں نے نامزدگی سے تقرری تک کا سفر کامیابی سے پورا کرلیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے سیشنز کو بطورِ خاص ان کی متعصبانہ اور نسل پرستی پر مبنی سوچ کی وجہ سے پسند کیا ہے۔
اپنے قانونی کیریئر میں ایک نجی وکیل اور بعد ازاں امریکی ریاست الاباما میں اسسٹنٹ اٹارنی جنرل اور اٹارنی جنرل کے عہدوں پر فائز رہنے والے جیف سیشنز کی شہرت انتہائی متنازعہ رہی ہے۔ وہ نہ صرف نسل پرست امریکیوں کی جانب سے مقدمات لڑتے رہے بلکہ سفید فام نسل پرست امریکی تنظیموں کی حمایت بھی کرتے رہے ہیں۔
1986 میں فیڈرل جج کے طور پر سیشنز کی تقرری بھی اس وقت کھٹائی میں پڑگئی تھی جب عوامی حقوق کے امریکی علمبردار مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی بیوہ کوریٹا اسکاٹ کنگ نے سینیٹ کی کمیٹی برائے انصاف کے سربراہ کو ایک خط لکھا جس میں بتایا گیا تھا کہ سیشنز نے اسسٹنٹ اٹارنی جنرل الاباما کے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کس طرح امریکی سیاہ فاموں کو انتخابات میں ووٹ دینے کے حق سے محروم رکھا تھا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ اٹارنی جنرل جیف سیشنز کی صورت میں ٹرمپ کے ہاتھ میں ایک خطرناک ہتھیار آجائے گا کیونکہ وہ عدالتوں میں صرف ٹرمپ کے صدارتی حکم ناموں کا دفاع ہی نہیں کریں گے بلکہ مستقبل میں مزید ایسی قانون سازی میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی معاون ہوں گے جس کا مقصد متعصبانہ اور تشدد پر مبنی سوچ کو پالیسی کا روپ دے کر عملی جامہ پہنانا ہوگا۔