مائنڈ سیٹ کی بات

ہمارے ہاں طاقت، اختیار اور دولت کی فراوانی ہوجائے تو چھچھورا پن موسلا دھار برستا ہے

ISLAMABAD:
چادر دیکھ کے پائوں پھیلانے والی بات اگر کسی عقل مند نے کہی تھی تو آپ خود ہی سوچ لیں کہ آج کی دنیا میں کیسی کھوپڑی والوں کا راج ہے، جتنے بھی ذرایع ہیں اور جتنے بھی وسائل ہیں ان کی چادر پھٹی ہوئی ہے اور پائوں گھٹنوں تک باہر۔ حکومت کی گدڑی میں جو لعل چھپے ہیں وہ تو آپ ساڑھے چار برس سے دیکھ ہی رہے ہیں۔

حکومت اور سیاست سے باہر والوں کے کرتوت بھی انھی جیسے ہیں۔ ایک کا ''موٹو'' اگر ''لٹو تے پھٹو'' ہے تو دوسرا بھی خود کو شہنشاہ بابر سے کم نہیں جانتا۔ بس فٹا فٹ عیش کرلو کہ عالم دوبارہ نیست۔ یہی آج کا چلن ہے اور سب کی سہولت کے لیے عیاشی کے نت نئے پیکیج بھی دستیاب ہیں۔

کسی نے اپنی صحت درست کروانی ہو تو اس کے لیے ایک طریقہ تو بیرونِ ملک علاج کروانے کا ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ اتنا ہی خرچ کرنے کا شوق اپنے ملک میں پورا کرسکتے ہیں، ہر طرح کے پیکیج دستیاب ہیں۔ وی آئی پی بھی اور وی وی آئی پی بھی۔ سارے مزے فائیو اسٹار ہوٹل کے ہوں گے۔ آپ پورا فلور بھی بک کرواسکتے ہیں۔ بیماری کو حسب منشا طوالت بھی دے سکتے ہیں۔ حرام کی اور سرکار کی کمائی ہو تو پھر جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔

شادی کی بورژوائی تقریبات کے پیکیجز سے تو گھر گھر واقف ہے۔ مکروہ تقریبات کی ایسی لین ڈوری جن میں تہذیب ابکائیاں لیتی ہے اور لوگ ناچتے ہیں۔ خدا کی پناہ، میں نے چھ ہزار روپے کا دعوت نامہ دیکھا تو میری چیخ نکل گئی۔ جو صاحب لے کے آئے تھے معلوم ہوا کہ ان کی جیپ میں ایک وقت میں صرف اٹھارہ دعوت نامے لے جائے جاسکتے ہیں۔ یہی حال حج اور عمرہ پیکیجز کا ہے۔ معاملہ لاکھوں سے بڑھ کے ملینز تک جاپہنچا ہے۔ جاتے تو سب لوگ ایک ہی جگہ ہیں۔ کچھ کا قبلہ شاید کوئی اور ہوگا۔

یہ سب بزنس کی باتیں ہیں۔ کاروبار نے ہر کام کو پکنک کی شکل دے دی ہے۔ ایسی شکل جس سے اصلی کام پیچھے رہ گیا ہے اور کاروبار آگے نکل گیا۔ گزشتہ برس میں نے اخبار میں دیکھا کہ خود کاروبار نے بھی یہی کام شروع کردیا تھا۔ اسے بھی احساس ہوگیا تھا کہ عالم دوبارہ نیست والی بات بابر نے کن معنوں میں کہی تھی اور کیوں کہی تھی۔ سو ان سے بھی اس باب میں جو ہوسکا، انھوں نے کرنا شروع کردیا۔

پاکستان کی تمام کمپنیوں اور فرموں کا ایک انتظامی ادارہ ہے، اس کے قواعد کے مطابق کمپنیاں ہر تین ماہ کے بعد اپنے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی ایک میٹنگ میں کمپنی کے حسابات کی منظوری دیتی ہیں اور نفع و نقصان کا اعلان کرتی ہیں۔ یہ ایک عام سی میٹنگ ہوتی ہے جو کسی بھی کمپنی کے اپنے ڈائریکٹرز اور چند دیگر ملازمین پر مشتمل ہوتی ہے۔


اسے باآسانی کمپنی کے اپنے کسی میٹنگ یا کانفرنس روم میں کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ہوا یہ کہ جب کمپنیاں مستقلاً نفع کمانے لگیں تو ان میں بعض نے یہ میٹنگز قدرے بہتر جگہوں پر یعنی پانچ ستارہ ہوٹلوں میں کرنا شروع کردیں۔ پھر ذرا اور کھلے تو اپنا شہر چھوڑ کے پرفضا مقامات کی طرف چل دیے۔ لیکن ایسا عموماً کمپنی کی سالانہ میٹنگ کے موقعے پر کیا جاتا تھا۔

پھر یہ ہوا کہ پیکیج بنانے والے بیچ میں آن کودے۔ انھوں نے ملک سے باہر کے پرفضا اور پرتعیش مقامات کے پرلطف ہوٹلوں میں کانفرنسیں کرنے کے پیکیجز بنائے اور گاہک پھنسانا شروع کردیے۔ ہماری مال دار کمپنیوں کے ''باذوق'' لوگوں کو بھی یہ بات دھیرے دھیرے بھانے لگی اور انھوں نے بھی زمین دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ گنگنانا شروع کردیا۔ ملک سے باہر، کمپنی اور حصّے داران کے خرچے پر میٹنگوں کا لطف آنے لگا تو کچھ کمپنیوں کو سال میں ایک میٹنگ باہر کرنا ناکافی دِکھائی دیا۔ انھوں نے سہ ماہی اجلاس بھی باہر رکھنا شروع کردیے۔

یہاں میں ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ ہمارے ملک کے ریٹائرڈ سورمائوں کا ایک ادارہ ہے جس کی کمپنیاں زیادہ تر کھاد بنانے کا کام کرتی ہیں۔ کارکردگی کے اعتبار سے ان کا شمار بہترین کمپنیوں میں ہوتا ہے، لیکن جب مسلسل منافع کا خمار چڑھا تو وہ بھی ہر تیسرے مہینے پورا جتھہ لے کے ایک نئے ملک کو نکلنے لگے۔ گزشتہ برس انھوں نے اپنے بورڈ کی میٹنگز اسپین کے شہر میڈرڈ، میکسیکو کے میکسیکو سٹی، امریکا کے شہر لاس اینجلس اور پانی کی گلیوں والے، اٹلی کے خوبصورت شہر وینس میں کر ڈالیں۔

میں سوچتا تھا کہ آخر ان کو کوئی روکتا کیوں نہیں۔ یہ تو صریحاً پیسے کی بربادی ہے اور وہ بھی بلاوجہ۔ یہی سوچ کے میں نے ایسی ہی ایک ''غیر ملکی میٹنگ'' سے پہلے اپنے ایک ایسے جاننے والے عہدے دار کو فون کیا جس سے اچھی خاصی دوستی اور بے تکلفی ہے۔ وہ اس وقت ایئرپورٹ جارہا تھا۔ میں نے کہا ''یار مبارک ہو۔ تم لوگ بہت نفع کمارہے ہو۔ سنا ہے اس دفعہ بھی بہت اچھا رزلٹ آرہا ہے لیکن تم لوگ اتنی عیاشی کیوں کرتے ہو۔ ہر تیسرے مہینے پورا ٹولہ لے کے شیئر ہولڈرز کا پیسہ برباد کرنے ٹور پر نکل جاتے ہو۔''

میں نے تو یہ بات بے تکلفی میں کہی تھی لیکن وہ آگے سے لڑپڑا۔ ''تم لوگ ناشکرے ہو۔ پانچ سال پہلے جس کے پاس ہمارے ایک لاکھ روپے کے شیئرز تھے آج ان کی ویلیو پانچ لاکھ ہے۔ جو نفع کماکے دیا وہ الگ ہے۔ یار اتنی اچھی پرفارمنس دینے والے لوگ اگر ذرا ریلیکس ہونے کو باہر چلے جائیں تو اس میں رونے کی کیا بات ہے۔'' وہ غصّے میں بہت دیر تک بولتا رہا۔

پھر چند ماہ پہلے یوں ہوا کہ اس کمپنی نے ایک بڑا سخت قسم کا نوٹس جاری کیا اور ان کمپنیوں کے اس غیر ملکی سیر سپاٹے پر پابندی لگادی جن کے مالکان یا ڈائریکٹرز غیر ملکی نہیں ہیں۔ یوں یہ عیاشی ختم ہوئی۔ لیکن اس سے قبل یہ مائنڈ سیٹ تو ظاہر ہوچکا کہ ہمارے ہاں طاقت، اختیار اور دولت کی فراوانی ہوجائے تو چھچھورا پن موسلا دھار برستا ہے۔
Load Next Story