بغیر پھاٹک ریلوے کراسنگ پر ایک اور حادثہ

ملک میں جابجا موجود بغیر پھاٹک ریلوے کراسنگ پر حادثات اب معمول بنتے جارہے ہیں

۔ فوٹو فائل: اے پی پی

ملک میں جابجا موجود بغیر پھاٹک ریلوے کراسنگ پر حادثات اب معمول بنتے جارہے ہیں اور حکومتی بے حسی و انتظامی لاپروائی کا عالم 'بندر کی بلا طویلے کے سر' والا ہے۔ بدھ کو بصیرپور کے نواحی علاقے اختر آباد کے قریب کھلے ریلوے کراسنگ پر ٹرین کی ٹکر سے موٹر سائیکل رکشا میں سوار 5 افراد جاں بحق ہوگئے۔ وزیر ریلوے کی جانب سے اس حادثے پر بھی ایک روایتی سا اظہار افسوس اور تحقیقات کا حکم جاری کردیا گیا اور ابتدائی رپورٹ کے مطابق بھی موٹر سائیکل رکشا کے ڈرائیور کی غیر ذمے داری کو حادثے کا موجب ٹھہرا دیا گیا۔


حادثہ صبح 11 بج کر 10 منٹ پر ہوا اس لیے دھند کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ بلاشبہ رکشا ڈرائیور نے جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہوگا لیکن کیا کراسنگ پر اگر پھاٹک کا انتظام ہوتا تو بھی کوئی ڈرائیور جلد بازی میں ہی سہی اپنی گاڑی ٹریک پر لانے کی 'غلطی' کرتا؟ بات وہی ہے کہ نظام کی درستی کے لیے صحیح ٹریک پر چلنے کی روش کب اختیار کی جائے گی۔ گزشتہ دنوں جو بغیر پھاٹک ریلوے کراسنگ پر سنگین حادثات ہوئے جس میں کئی قیمتی جانیں ضایع ہوئیں، اس کے بعد بھی وزارت ریلوے کی جانب سے یہ بیان داغا گیا کہ بغیر پھاٹک والی ریلوے کراسنگ کو محفوظ بنانا صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے۔

ان مینڈ لیول ریلوے کراسنگ کے حادثات پنجاب میں بھی ہورہے ہیں،یہاں اسی جماعت کی صوبائی حکومت ہے جس کا وزیر ریلوے خود ایک حصہ ہیں، وہ اپنی جماعت کی حکومت سے ان راستوں کو محفوظ بنانے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کررہے ہیں؟ جب تک باضابطہ طور پر ان غیر محفوظ کراسنگ پر پھاٹک نصب نہیں کیا جاتا، اس طرح کے حادثات کو یکسر ختم کرنا ممکن نہیں۔کیا عجب امر ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی پاکستان ریلوے کا نظام فرسودہ اور انیسویں صدی کی باقیات رکھتا ہے۔ راست ہوگا کہ بتدریج ریلوے نظام کی درستی کے لیے اقدامات کیے جائیں اور پہلے مرحلے میں بغیر پھاٹک ریلوے کراسنگ کو محفوظ بنایا جائے۔
Load Next Story