ڈونلڈ ٹرمپ کا امتحان
ڈونلڈ ٹرمپ یوں تو جیتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں مگر وہ جن لوگوں کے نمایندہ ہیں وہ لوگ غیر سنجیدہ ہیں
ڈونلڈ ٹرمپ کی مثال ایک ایسے کرکٹر کی ہے جو نام کے اعتبار سے بڑا نامور تھا مگر جب وکٹ پر کھڑا ہوا اور گیند آئی تو اپنے ہی بیٹ سے وکٹیں اڑا دیں۔ یہ تھا ان کا پہلا ایگزیکٹو آرڈر جو ریاست ہائے متحدہ کے دستور سے میل نہ کھاتا تھا بلکہ متصادم تھا، لہٰذا امریکا کے فیڈرل ججوں نے خود اس کو نابود کردیا۔ مشیران وہائٹ ہاؤس نے سفر پر قدغن لگانے کی شق پر کسی نے بھی کوئی توجہ نہ دی بلکہ مشیروں نے تو ان کے احکامات کی قصیدہ خوانی کرنا ہوتی ہے، سو یہ بھی قصیدہ کی نظر سے دیکھا گیا۔ یہ کیا عام طور پر مشیران قصیدہ خوان ہوتے ہیں، بہت کم ہی مشیر ایسے ہوں جو اس کے احکامات کے مضمرات کا جائزہ لیتے ہوں اور اس کے اثرات پر نظر رکھتے ہوں۔
ڈونلڈ ٹرمپ یوں تو جیتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں مگر وہ جن لوگوں کے نمایندہ ہیں وہ لوگ غیر سنجیدہ ہیں، کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ شوبز، مقابلہ حسن، کشتی، دنگل جیسے موضوعات کے چیمپئن رہے ہیں، غور و فکر کی دنیا سے ان کا دور کا بھی تعلق نہ تھا، ہاں انھوں نے روپیہ کمانے میں حد کمال کو چھو لیا۔ اس چیز سے یہ ظاہر ہوا دولت کا انبار عقل کی دلیل نہیں بلکہ دولت وہی شخص کماتا ہے جو ہر مسئلے کو روپیہ کی نگاہ سے دیکھتا ہو اور ہر چیز میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اس کے معاشی پہلوؤں کو نہ دیکھتا ہو اور انھی لوگوں کی صحبت میں وقت گزارتا ہو جو دولت کو ہر چیز پر مقدم سمجھتے ہوں، اسی لیے ڈونلڈ ٹرمپ اپنے پہلے ایگزیکٹو آرڈر کا مذاق نہ بننے دیتے، اس آرڈر کے جاری ہونے سے قبل اس کے داخلہ اور خارجہ اثرات کے ردعمل پر غور تو کرتے اس کے کاروباری اثرات، ایئرلائن کے کاروبار پر اس کے منفی اثرات مسلم ممالک میں اس کے ردعمل اور سب سے بڑھ کر خود اس ملک کے قوانین سے متصادم عمل کیونکر نافذ ہوسکتا ہے، اس سے بڑھ کر ایک اور مذاق جو اسی کم عقلی سے جڑا ہوا ہے، جیسے ہی سات مسلم ممالک کے لوگوں کی آمد و رفت پر امریکا نے پابندی لگائی ویسے ہی بھارت میں فوری ردعمل کے طور پر ہندو انتہاپسندوں نے ٹرمپ سینا یعنی ٹرمپ ملیشیا بنائی جو ٹرمپ کے مسلم مخالف خیالات کی عکاسی کرتے ہیں۔
ان انتہا پسندوں نے چند دنوں کا بھی انتظار نہ کیا، آخرکار یہ عمل تو مسترد ہوگیا۔اب تک ڈونلڈ ٹرمپ نے جو بھی باتیں کیں ان کا بین الاقوامی سطح پر کوئی اثر نہ تھا بلکہ مشرقی یوکرین میں جو جنگ بندی تھی وہ چکناچور ہوئی اور روس کے حامی رضاکار یوکرین میں داخل ہونے شروع ہوگئے ہیں اور یوکرین کی مزاحمت کمزور پڑ رہی ہے جب کہ امریکا اور روس کے راستے دوسری جنگ عظیم کے دوران ہی الگ تھلگ تھے، مگر مشترکہ دشمن ہٹلر کے لیے ایک تھے، اس کے بعد کولڈ وار چلتی رہی۔ درمیان میں 25-20 سال کچھ خاموشی تھی، پھر گزشتہ 5 برس سے کولڈ وار کی کیفیت اور خصوصاً بشار الاسد کے معاملے میں دونوں حکومتوں میں تناؤ بام عروج پر تھا، پھر امریکی انتخاب کا دور آیا، دونوں کے راستے الگ تھے، اوباما پوتن کے خلاف نظر آئے اور ٹرمپ نے دوستانہ پہلو نمایاں کیا۔ غرض اب تک ٹرمپ کا سیاسی پہلو واضح نہیں ہے، کیونکہ انتخاب کے دوران وہ اسرائیل اور سعودی عرب سے واضح دوستانہ گفتگو نہ کرتے تھے مگر اب ان کے لہجے میں تناؤ نہیں ہے اور اب ایران اور شام ان کے اول اہداف ہیں مگر شام اور ایران روس کے قریبی ساتھی ہیں، پھر بھی ٹرمپ کی آرا ان کے متعلق الگ ہے۔
اگر جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ٹرمپ کسی بھی قسم کی مربوط اور منطقی سوچ سے عاری ہیں۔ اب تک منظر عام پر ان کے دو افکار سامنے آئے، ایک میکسیکو کی دیوار کا مسئلہ جو میکسیکو کے صدر نے واضح طور پر انکار کردیا اور ملاقات کا بھی کوئی وقت نہ دیا۔ دوسرا سفری بندش کا جو امریکی عدالت نے ہی ان کے موقف کو ٹھکرا دیا، خود مغربی میڈیا اور یہاں تک کہ امریکی میڈیا بھی صدر ٹرمپ کو اہمیت نہیں دے رہے، بلکہ اگر آپ سی این این کی اسکرین کو دیکھیں تو انھوں نے ٹرمپ کے 100 دنوں کی کارکردگی کا عندیہ دیا ہوا ہے کہ ان کے 100 روز کیسے گزرنے والے ہیں، جس پر سی این این کو شک ہے کہ کوئی ایسی حماقت مسٹر ٹرمپ سے آگے ہونے کو ہے کہ جس سے امریکا کو سیاسی طور پر بڑا نقصان ہوسکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر بش سے لے کر اوباما کے دور تک کی مشرق اوسط لیبیا اور شام کی پالیسی میں امریکا کو شکست ہوئی اور داعش بھی امریکا کا بغل بچہ تھا، جو اس نے اسرائیل کی حمایت سے تیار کیا تھا، کیونکہ اس نے مسلم ممالک میں تو انصاف کا بگل بجایا مگر اسرائیل پر ایک گولی بھی نہ چلائی اور اسرائیل نے بھی داعش کو نقصان نہ پہنچایا۔ بقول سنوڈین (وکی لیکس کے خالق) کے اصل ابوبکربغدادی جو داعش کے روح رواں ہیں وہ امریکا میں ہیں اور موصل عراق میں ان کے ہم شکل کو امریکا نے بٹھا رکھا ہے۔ حقیقت کیا ہے، یہ راز تو اب فاش ہونے سے رہا۔ چونکہ امریکا کی سیاست شرق اوسط اور افریقہ سے رخصت کے قریب ہے۔ مسٹر ٹرمپ نے جب سے وہ وہائٹ ہاؤس میں براجمان ہوئے ہیں عالمی سیاست پر انھوں نے کوئی بیان نہیں دیا ہے، صرف ایک بیان امریکا کی جانب سے یمن کے متعلق آیا ہے کہ یمن میں جو القاعدہ کے رہنما تھے انھوں نے اس کو نشانہ بنایا ہے۔ آج کل جو کچھ بھی امریکا میں وہائٹ ہاؤس میں ہو رہا ہے۔
اس پر لوگوں کو حیران ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ انھوں نے ایسے آدمی کو چنا ہے جو دولت جمع کرنے کا دھنی ہے اور تمام وہ کام کرتا ہے جس کا اس کی ذات کی تشہیر سے تعلق ہے۔ جو شخص نجی محفلوں میں یہ کہے کہ میں الیکشن جیتنے کے بعد ہیئر اسٹائل چینج کردوں گا، آپ اس کی شو بزنس کی روح کو کس قدر سمجھ سکتے ہیں۔ آپ کو شاید وہ وقت یاد ہو جب عمر شریف جو ہمارے ملک کے مزاحیہ اداکار ہیں، وہ آرٹس کونسل کراچی میں انتخابات لڑے تھے مگر وہ ہار گئے۔ اگر وہ کہیں صوبائی اسمبلی میں خود کو کھڑا کرتے تو یقیناً جیت جاتے۔ مگر امریکا میں ٹرمپ نے کم پڑھے لکھے لوگوں کو ٹارگٹ کیا اور وہاں کے اسٹیبلشمنٹ نے دو بار ڈیموکریٹ کو موقع دیا، لہٰذا اس بار ایک ایسے شخص کو موقع دیا جس کو جس سمت ہانکنا چاہیں ہانک سکیں، مگر اس کے ماضی پر غور و فکر نہ کیا کہ اس کی زندگی قدر معاملے اور مقدمے میں گزری ہے۔
ایک رسالے یو ایس ٹو ڈے جو جون 2016 میں شایع ہوا بقول اس کے ٹرمپ اور اس کے کاروبار سے متعلق 3500 مقدمات نمٹانے باقی ہیں۔ ٹرمپ کا کیسینو سے بھی خاصا واسطہ اور کاروباری سلسلے ہیں۔ ٹرمپ کے دور میں سیاسی نشیب و فراز یوں ہی چلتے رہیں گے۔ سفری پابندیاں اور اس قسم کے احکامات کی تنسیخ کے باوجود ٹرمپ مسلسل ججوں کے خلاف بیان دے رہے ہیں اور جج کو مورد الزام ٹھہرانے کی ذمے داری سونپ رہے ہیں۔ اگر امریکا میں کوئی حادثہ جانکاہ ہوتا ہے ممکن ہے ٹرمپ معاملات کو سپریم کورٹ تک لے جانے کی کوشش کریں مگر عالمی سیاست میں جو ملک امریکا کے رفیق ہیں یہ سمجھیے کہ وہ اب سیاسی طور پر یتیم ہوگئے کیونکہ امریکا اپنے اندرونی معاملات اور یورپی اتحادیوں میں ہی الجھا رہے گا اور ٹرمپ نے کاروباری عروج جو حاصل کیا وہ امریکا کو سیاسی طور پر ناکام کردیں گے، ان کی صدارت میں روس عملی طور پر سپرپاور کہلانے لگے گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ یوں تو جیتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں مگر وہ جن لوگوں کے نمایندہ ہیں وہ لوگ غیر سنجیدہ ہیں، کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ شوبز، مقابلہ حسن، کشتی، دنگل جیسے موضوعات کے چیمپئن رہے ہیں، غور و فکر کی دنیا سے ان کا دور کا بھی تعلق نہ تھا، ہاں انھوں نے روپیہ کمانے میں حد کمال کو چھو لیا۔ اس چیز سے یہ ظاہر ہوا دولت کا انبار عقل کی دلیل نہیں بلکہ دولت وہی شخص کماتا ہے جو ہر مسئلے کو روپیہ کی نگاہ سے دیکھتا ہو اور ہر چیز میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اس کے معاشی پہلوؤں کو نہ دیکھتا ہو اور انھی لوگوں کی صحبت میں وقت گزارتا ہو جو دولت کو ہر چیز پر مقدم سمجھتے ہوں، اسی لیے ڈونلڈ ٹرمپ اپنے پہلے ایگزیکٹو آرڈر کا مذاق نہ بننے دیتے، اس آرڈر کے جاری ہونے سے قبل اس کے داخلہ اور خارجہ اثرات کے ردعمل پر غور تو کرتے اس کے کاروباری اثرات، ایئرلائن کے کاروبار پر اس کے منفی اثرات مسلم ممالک میں اس کے ردعمل اور سب سے بڑھ کر خود اس ملک کے قوانین سے متصادم عمل کیونکر نافذ ہوسکتا ہے، اس سے بڑھ کر ایک اور مذاق جو اسی کم عقلی سے جڑا ہوا ہے، جیسے ہی سات مسلم ممالک کے لوگوں کی آمد و رفت پر امریکا نے پابندی لگائی ویسے ہی بھارت میں فوری ردعمل کے طور پر ہندو انتہاپسندوں نے ٹرمپ سینا یعنی ٹرمپ ملیشیا بنائی جو ٹرمپ کے مسلم مخالف خیالات کی عکاسی کرتے ہیں۔
ان انتہا پسندوں نے چند دنوں کا بھی انتظار نہ کیا، آخرکار یہ عمل تو مسترد ہوگیا۔اب تک ڈونلڈ ٹرمپ نے جو بھی باتیں کیں ان کا بین الاقوامی سطح پر کوئی اثر نہ تھا بلکہ مشرقی یوکرین میں جو جنگ بندی تھی وہ چکناچور ہوئی اور روس کے حامی رضاکار یوکرین میں داخل ہونے شروع ہوگئے ہیں اور یوکرین کی مزاحمت کمزور پڑ رہی ہے جب کہ امریکا اور روس کے راستے دوسری جنگ عظیم کے دوران ہی الگ تھلگ تھے، مگر مشترکہ دشمن ہٹلر کے لیے ایک تھے، اس کے بعد کولڈ وار چلتی رہی۔ درمیان میں 25-20 سال کچھ خاموشی تھی، پھر گزشتہ 5 برس سے کولڈ وار کی کیفیت اور خصوصاً بشار الاسد کے معاملے میں دونوں حکومتوں میں تناؤ بام عروج پر تھا، پھر امریکی انتخاب کا دور آیا، دونوں کے راستے الگ تھے، اوباما پوتن کے خلاف نظر آئے اور ٹرمپ نے دوستانہ پہلو نمایاں کیا۔ غرض اب تک ٹرمپ کا سیاسی پہلو واضح نہیں ہے، کیونکہ انتخاب کے دوران وہ اسرائیل اور سعودی عرب سے واضح دوستانہ گفتگو نہ کرتے تھے مگر اب ان کے لہجے میں تناؤ نہیں ہے اور اب ایران اور شام ان کے اول اہداف ہیں مگر شام اور ایران روس کے قریبی ساتھی ہیں، پھر بھی ٹرمپ کی آرا ان کے متعلق الگ ہے۔
اگر جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ٹرمپ کسی بھی قسم کی مربوط اور منطقی سوچ سے عاری ہیں۔ اب تک منظر عام پر ان کے دو افکار سامنے آئے، ایک میکسیکو کی دیوار کا مسئلہ جو میکسیکو کے صدر نے واضح طور پر انکار کردیا اور ملاقات کا بھی کوئی وقت نہ دیا۔ دوسرا سفری بندش کا جو امریکی عدالت نے ہی ان کے موقف کو ٹھکرا دیا، خود مغربی میڈیا اور یہاں تک کہ امریکی میڈیا بھی صدر ٹرمپ کو اہمیت نہیں دے رہے، بلکہ اگر آپ سی این این کی اسکرین کو دیکھیں تو انھوں نے ٹرمپ کے 100 دنوں کی کارکردگی کا عندیہ دیا ہوا ہے کہ ان کے 100 روز کیسے گزرنے والے ہیں، جس پر سی این این کو شک ہے کہ کوئی ایسی حماقت مسٹر ٹرمپ سے آگے ہونے کو ہے کہ جس سے امریکا کو سیاسی طور پر بڑا نقصان ہوسکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر بش سے لے کر اوباما کے دور تک کی مشرق اوسط لیبیا اور شام کی پالیسی میں امریکا کو شکست ہوئی اور داعش بھی امریکا کا بغل بچہ تھا، جو اس نے اسرائیل کی حمایت سے تیار کیا تھا، کیونکہ اس نے مسلم ممالک میں تو انصاف کا بگل بجایا مگر اسرائیل پر ایک گولی بھی نہ چلائی اور اسرائیل نے بھی داعش کو نقصان نہ پہنچایا۔ بقول سنوڈین (وکی لیکس کے خالق) کے اصل ابوبکربغدادی جو داعش کے روح رواں ہیں وہ امریکا میں ہیں اور موصل عراق میں ان کے ہم شکل کو امریکا نے بٹھا رکھا ہے۔ حقیقت کیا ہے، یہ راز تو اب فاش ہونے سے رہا۔ چونکہ امریکا کی سیاست شرق اوسط اور افریقہ سے رخصت کے قریب ہے۔ مسٹر ٹرمپ نے جب سے وہ وہائٹ ہاؤس میں براجمان ہوئے ہیں عالمی سیاست پر انھوں نے کوئی بیان نہیں دیا ہے، صرف ایک بیان امریکا کی جانب سے یمن کے متعلق آیا ہے کہ یمن میں جو القاعدہ کے رہنما تھے انھوں نے اس کو نشانہ بنایا ہے۔ آج کل جو کچھ بھی امریکا میں وہائٹ ہاؤس میں ہو رہا ہے۔
اس پر لوگوں کو حیران ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ انھوں نے ایسے آدمی کو چنا ہے جو دولت جمع کرنے کا دھنی ہے اور تمام وہ کام کرتا ہے جس کا اس کی ذات کی تشہیر سے تعلق ہے۔ جو شخص نجی محفلوں میں یہ کہے کہ میں الیکشن جیتنے کے بعد ہیئر اسٹائل چینج کردوں گا، آپ اس کی شو بزنس کی روح کو کس قدر سمجھ سکتے ہیں۔ آپ کو شاید وہ وقت یاد ہو جب عمر شریف جو ہمارے ملک کے مزاحیہ اداکار ہیں، وہ آرٹس کونسل کراچی میں انتخابات لڑے تھے مگر وہ ہار گئے۔ اگر وہ کہیں صوبائی اسمبلی میں خود کو کھڑا کرتے تو یقیناً جیت جاتے۔ مگر امریکا میں ٹرمپ نے کم پڑھے لکھے لوگوں کو ٹارگٹ کیا اور وہاں کے اسٹیبلشمنٹ نے دو بار ڈیموکریٹ کو موقع دیا، لہٰذا اس بار ایک ایسے شخص کو موقع دیا جس کو جس سمت ہانکنا چاہیں ہانک سکیں، مگر اس کے ماضی پر غور و فکر نہ کیا کہ اس کی زندگی قدر معاملے اور مقدمے میں گزری ہے۔
ایک رسالے یو ایس ٹو ڈے جو جون 2016 میں شایع ہوا بقول اس کے ٹرمپ اور اس کے کاروبار سے متعلق 3500 مقدمات نمٹانے باقی ہیں۔ ٹرمپ کا کیسینو سے بھی خاصا واسطہ اور کاروباری سلسلے ہیں۔ ٹرمپ کے دور میں سیاسی نشیب و فراز یوں ہی چلتے رہیں گے۔ سفری پابندیاں اور اس قسم کے احکامات کی تنسیخ کے باوجود ٹرمپ مسلسل ججوں کے خلاف بیان دے رہے ہیں اور جج کو مورد الزام ٹھہرانے کی ذمے داری سونپ رہے ہیں۔ اگر امریکا میں کوئی حادثہ جانکاہ ہوتا ہے ممکن ہے ٹرمپ معاملات کو سپریم کورٹ تک لے جانے کی کوشش کریں مگر عالمی سیاست میں جو ملک امریکا کے رفیق ہیں یہ سمجھیے کہ وہ اب سیاسی طور پر یتیم ہوگئے کیونکہ امریکا اپنے اندرونی معاملات اور یورپی اتحادیوں میں ہی الجھا رہے گا اور ٹرمپ نے کاروباری عروج جو حاصل کیا وہ امریکا کو سیاسی طور پر ناکام کردیں گے، ان کی صدارت میں روس عملی طور پر سپرپاور کہلانے لگے گا۔