غیرشفاف پانی کا سنگین مسئلہ

پانی کی شفاف فراہمی ریاست کی اولین ترجیح ہونی چاہیے کیونکہ پانی کی آلودگی قیمتی انسانی جانوں کو نگل جاتی ہے


Shabnam Gul February 09, 2017
[email protected]

پانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔ پانی کی شفاف فراہمی ریاست کی اولین ترجیح ہونی چاہیے کیونکہ پانی کی آلودگی قیمتی انسانی جانوں کو نگل جاتی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔اسی تیزی سے بیماریوں کی شرح بڑھی ہے۔ ہم بڑے پراجیکٹس کی بات کرتے ہیں جب کہ بنیادی مسائل نظرانداز ہوجاتے ہیں۔گڈ گورننس کا سوال ہر دور حکومت میں دہرایا جاتا ہے مگر انتظامی ڈھانچے کی اصلاحات اور فعالیت کے حوالے سے ابھی تک خاطرخواہ نتائج نہیں مل سکے ہیں۔

دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے بے شمار مسائل ہیں۔ جن میں پانی کا مسئلہ سنگین نوعیت اختیار کرچکا ہے۔ہماری زمین ستر فیصد پانی کے گھیرے میں ہے، مگر اہل زمین کوفقط تین فیصد تازہ پانی دستیاب ہے۔ باقی پانی جمے ہوئے گلیشیئر میں محفوظ ملتا ہے۔

گلوبل وارمنگ کی وجہ سے انسانی زندگی براہ راست متاثر ہوئی ہے۔ پانی کے ذخائر کم ہورہے ہیں۔ جو موجود ہیں وہ بری طرح آلودگی کا شکارہوچکے ہیں۔ سات سو پچاس ملین لوگ صاف پانی کی سہولت سے محروم ہیں۔ یونیسف کی رپورٹ کے مطابق تین ملین لوگ ہر سال پانی کی آلودگی کا شکار ہوجاتے ہیں جن میں چالیس فیصد لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔

آبادی مستقل بڑھ رہی ہے، مگراس ضمن میں کوئی واضح حکمت عملی وضع نہیں کی گئی۔ عوام کو شفاف پانی ودیگر بنیادی ضروریات میسر نہیں ہیں۔ پانی کی آلودگی کی وجہ صنعتی،اسپتال و دیگر آبادی کا ویسٹیج جسے دریاؤں یا سمندر کے حوالے کیا جاتا ہے۔ اس تمام تر مہلک مواد کو ٹھکانے لگانے کے لیے مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہمیشہ محسوس کی جاتی رہی ہے۔ آبپاشی نظام کو ازسرنو تعمیرکی ضرورت ہے۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سندھ کے مختلف شہروں میں پانی کے تجزیے سے جو نتیجہ سامنے آیا، اس کے مطابق اکثر علاقوں کے پانی میں آرسینک (سنکھیا) کی بڑی مقدار شامل تھی۔ جس کے نتیجے میں چمڑی، پھیپھڑوں،گردوں ومثانے کے کینسرکے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔پانی، مٹی اور ہوا میں آرسینک فطری طور پر موجود رہتا ہے۔ زیادہ تر غذا کے توسط سے یہ انسانی جسم تک رسائی حاصل کرلیتا ہے اورجسم کا مدافعتی نظام ناقص ہوجاتا ہے۔ علاوہ ازیں چمڑی کھردری اور اس پر دھبے نمودار ہونے لگتے ہیں۔ یورپ اور انڈیا کے انجینئرز نے مل کر ڈاکٹر بھاسکر سین گپتا کی نگرانی میں Subterranean Arsenic Removal کے نام سے ایسا طریقہ کار ایجاد کیا ہے جس میں بغیر کسی کیمیائی آمیزش کے پانی کو آرسینک کے اثرات سے شفاف بنایا جاتا ہے۔ یہ پلانٹ بیس سال تک موثر قرار دیے گئے ہیں اور بغیرکسی مشینی دیکھ بھال کے بٹن آن کرنے سے اپنی کارکردگی دکھانے لگتے ہیں۔

ترقی یافتہ ملکوں میں آرسینک فلٹر ٹیکنالوجی گھروں کومہیا کی جاتی ہے جو دو تین سال تک فعال رہتی ہے۔گزشتہ سال سندھ میں 150,000 ڈائیریا کے کیس سامنے آئے۔ ہر سال 25,000 زندگیوں کو یہ بیماری نگل جاتی ہے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق 80,000 بچے ہر سال لقمہ اجل بنتے ہیں، جس میں تیس فیصد بچوں کا تعلق سندھ سے بتایا جاتا ہے۔ پانی کی آلودگی کی وجہ سے کالرا، ٹائیفائیڈ اور یرقان کے مریضوں میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ شعبہ صحت کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے لوگ علاج کی مناسب سہولت سے محروم رہتے ہیں۔ شعبہ صحت کو پانی سے ہونے والی بیماریوں کا مفت علاج فراہم کرنا چاہیے اوراس ضمن میں مفت کیمپس کے انعقاد کی کوششیں کرنی چاہئیں اور لوگوں کو ڈائیریا سے بچنے کے لیے تربیتی ورکشاپس، الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے ذریعے باہم معلومات فراہم کرنے کی ذمے داری ادا کرنی چاہیے۔

صورتحال یہ ہے کہ پانی سے ہونے والی بیماریوں کا شکار غیر ترقی یافتہ ملک زیادہ تر رہتے ہیں مگر امریکا میں بھی یہ خطرہ بدرجہ اتم موجود ہے، لیکن وہاں پر منصوبہ بندی کے تحت اس مسئلے کا سامنا کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں چند باتیں زیر غور ہیں۔

منرل واٹر کی افادیت میعاد ختم ہوجانے کے بعد غیر موثر ہوجاتی ہے۔ ان بوتلوں کو خشک جگہ پر سورج کی روشنی سے دور رکھنا ہے۔ جسم کا مدافعتی نظام کمزور ہونے کی ضرورت میں پانی کا انتخاب احتیاط سے کرنا چاہیے۔ پانی کی یہ بوتلیں جن میں کیمیکل Bisphenol (BPA) کا استعمال کیا جاتا ہے، صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ان بوتلوں کو جلانے کی صورت میں ان کا اثر ہوا میں شامل ہوجاتا ہے۔ دریاؤں میں پھینکنے کی صورت میں پانی آلودگی کا شکار ہوجاتا ہے۔ منرل واٹر جسم کے ایسٹروجن اور اینڈروجن کی فعالیت پر منفی اثر ڈالتا ہے۔

پوری دنیا میں ٹیپ واٹر (نلکے کے پانی) کے استعمال کرنے کا رجحان عام ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں شفاف پانی تو مل جاتا ہے البتہ تیسری دنیا کے ملکوں میں پینے کے صاف پانی کی شدید قلت ہے۔ کیونکہ پانی کو خالص بنانے کی ٹیکنالوجی نہ فقط مہنگی ہے بلکہ اس کی دیکھ بھال مشکل اور ذمے داری کا کام ہے۔ یہ کام ہر وقت معائنے و نظرداری کا متقاضی ہے۔ پانی کے حوالے سے Reverse Osmosis Technology کو متعارف کروانے کی بات اکثر کی جاتی ہے۔ جس کے لیے ایک طرف ماہر عملہ درکار ہے۔ دوسری طرف پانی حد درجہ آلودہ ہونے کی وجہ سے مشینوں کی کارکردگی تک متاثر ہوجاتی ہے۔ ہمارے ملک میں بہت سے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچنے کے بعد نظرداری نہ ہونے کی وجہ سے تعطل کا شکار ہوجاتے ہیں یا کامیاب نہیں ہوپاتے۔ کچھ شعبے ایسے ہیں، جن کا تعلق براہ راست انسانی صحت و زندگی سے ہے۔ ان شعبوں کو جدید خطوط پر آراستہ کیا جانا چاہیے۔ چائنا سلک روٹ،گوادر پورٹ یا موٹرویز کی اپنی ایک اہمیت ہے، مگرغیر شفاف پانی پینے والی غیر صحت مند نسلیں بہتر مستقبل کا خیر مقدم کس طرح کرسکتی ہیں۔ بیمار جسم ملکی معیشیت کے لیے کس حد تک فعال ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی سنجیدہ اورغورطلب مسئلہ ہے۔

جب تک انسان کا زمین سے ذہنی وروحانی رابطہ قائم تھا، زندگی فطری خوشیوں کے قریب تر تھی۔ ہر طرف رابطے فعال دکھائی دیتے۔ اندرکی دنیا اطمینان سے بہرہ ور تھی، مگر مادیت پرستی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے اس رشتے کا تقدس متاثر ہوا ہے۔ ولیم ورڈز ورتھ نے زمین کو ماں، نرس اور رہبرکے القابات سے نوازا ہے۔ زمین کی توانائی انسان کے ذہن و روح کو تحرک عطا کرتی ہے۔ اسے وجدانی قوت ودیعت کرتی ہے۔ دھرتی سے مربوط تعلق کے باعث انسان کو حسیاتی عرفان عطا ہوتا ہے،کیونکہ زمین ہمیں نہ صرف غذا فراہم کرتی ہے بلکہ انسان کو فطری مشاہدے کے مواقعے فراہم کرتی ہے۔

مگر آج کا انسان کس طرح زمین کو خواہشوں کے جال میں لپیٹ کر آلودہ کر رہا ہے۔ جو رویہ ہم زمین کے ساتھ روا رکھتے ہیں وہی ناآسودگی و بیماری کی صورت ہماری طرف لوٹ کر آتا ہے۔کیونکہ ہم نے زمین کو ماں اور رہبر سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں