ٹرمپ ’’اسلامی دہشتگردی‘‘ کے تعاقب میں
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے یکے بعد دیگرے جو بھی حکم نامے سامنے آرہے ہیں اس پرکسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے یکے بعد دیگرے جو بھی حکم نامے سامنے آرہے ہیں اس پرکسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے، ٹرمپ کے انتخاب سے حکم ناموں کے اجرا تک اورپھر عملدرآمد بھی سب طے شدہ ہے۔ جن صاحبان کا خیال تھا کہ متعصبانہ نعرے صرف ٹرمپ کی انتخابی مہم کا ایجنڈا ہیں اور مسند اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد وہ ذمے دارانہ طرز عمل کا مظاہرہ کریں گے انھیں اپنی اس خوش گمانی سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹرمپ کے عزائم کا اندازہ آپ ان کے اس حالیہ بیان سے بخوبی لگاسکتے ہیں کہ ''میں اوباما جیسا رحمدل نہیں'' اوباما اگر رحمدل تھا تو پھر ٹرمپ سے تو اللہ ہی کی پناہ مانگی جاسکتی ہے۔
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں دشمن کے خلاف جنگ کا جو نعرہ لگایا تھا اس پر اب پوری شدومد کے ساتھ آغازہوا چاہتا ہے۔ ٹرمپ کی نظر میں کون دشمن ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں وہ اپنی انتخابی مہم میں کھل کر اظہارکرچکے ہیں۔ ٹرمپ کے مزاج میں مسلم دشمنی رچی بسی ہے، اب مسلمانوں کے حالات مزید خراب سے خراب ترکرنے کی برق رفتارکوششیں کی جائیں گی اور مسلمان ان سازشوں سے خودکو اس وقت تک محفوظ نہیں کرسکتے جب تک تمام مسلم ممالک آپس کے اختلافات ختم کرکے باہم متحد نہیں ہوجاتے نیزکشکول توڑ کر ترقی اورسائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں خودکفیل نہیں ہوجاتے اگرچہ یہ بہت مشکل ہے تاہم ناممکن نہیں۔
ٹرمپ کے اعلانات اور ان پرعملدرآمد جرم ضعیفی کی وہ سزا ہے جو عالم اسلام و مسلم امہ کو اپنی زبوں حالی پر سوچنے اور مستقبل کو بہتر بنانے کی پہلے سے کہیں زیادہ دعوت فکرفراہم کرتے ہیں، آج مسلمانوں کا لہو اتنا ارزاں ہوچکا ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی آگ وخون کا کھیل جاری ہے، انسانی جانوں کا ضیاع اورتباہی وبربادی نظرآرہی ہے ان میں بیشتر ممالک اسلامی ہیں اور یہ ساری انسانی جانیں زیادہ تر مسلمانوں کی ہیں، مسلمان آبادیوں کو ہرجگہ ظلم وستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، ہنستے بستے شہرکھنڈر، ویران اور قبرستان کا منظر پیش کر رہے ہیں۔گلیوں میں لاشیں اور خون بکھرا پڑا ہے، زخمیوں کے لیے ادویات ہیں نہ ڈاکٹر، عورتوں اور بچوں تک سے رعایت نہیں، ماؤں کی آہ و بکا اور بچوں کی لاشوں تک کا کوئی پرسان حال نہیں، کشمیر، فلسطین، برما اور شام میں ایسے مناظر عام ہیں کہ ہر دردمندانہ دل اور آنکھ پرنم ہوجائے۔ اس کے علاوہ عالم اسلام کے دیگر ممالک کی صورتحال بھی کچھ حوصلہ افزا نہیں، ان تمام حالات میں بھی عالم اسلام خواب غفلت سے بیدار ہونے کو تیار نہیں، جو مسلم ممالک کبھی عراق اور افغانستان کی صورتحال دیکھ کر خودکو محفوظ اور پرامن خیال کرتے تھے اب وہاں بھی دھیرے دھیرے موت کے سائے پھیلتے جا رہے ہیں وہ بھی بتدریج غیر محفوظ ہو رہے ہیں۔ یہ تمام حالات دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے عظیم المیہ ہیں جن پر قابو پانے کے لیے جامع منصوبہ بندی اور حکمت عملی کی اشد اورفوری ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ سے کوئی امید عبث ہے۔
ٹرمپ اپنے ایجنڈے کے تحت ''سب سے پہلے امریکا'' کے نعرے کے ساتھ امریکا کو جس سمت میں اور جہاں لے جا رہے ہیں یہ سب پر واضح ہے۔ اپنی انتخابی مہم میں انھوں نے عالمی امن، اسلام، دہشتگردی، لسانی، نسلی اور صنفی تعصبات، پرانے اتحادیوں سے تعلقات مضبوط بنانے اور نئے اتحادی تلاش کرنے، امریکا میں تارکین وطن خصوصاً مسلمانوں کا داخلہ روکنے، عالم اسلام کے سینے میں گھونپے جانے والے خنجر اسرائیل کی حمایت اور بین الاقوامی اہمیت کے کئی دوسرے موضوعات پر جو زہر اگلا اس پر کئی ممالک اور لاکھوں افراد سراپا احتجاج ہیں۔ تاہم ٹرمپ اپنے انتہا پسند اور نامعقول نظریات پر نظرثانی کرنے کے لیے قطعی تیار نہیں۔ ٹرمپ نے سات اسلامی ممالک کے شہریوں پر چاہے وہ گرین کارڈ ہولڈر ہوں یا درست ویزوں کے حامل امریکا کے دروازے بند کردیے ہیں نیز پاکستان جیسے اسٹریٹیجک اتحادی کو بھی ایسے ملکوں کی فہرست میں شامل کرنے کا عندیہ دیا ہے، بقول امریکی صدر وہ یہ سب کچھ اسلامی دہشتگردی روکنے کے لیے کر رہے ہیں۔
ٹرمپ کا سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر کھلا دعویٰ ہے کہ امریکا میں داخلے پر پابندی کے حکم نامے پر کوئی کچھ بھی کہے، وہ ''برے لوگوں'' کو امریکا میں نہیں آنے دیں گے۔ اس ضمن میں مذکورہ حکم نامے کے خلاف عدالتوں سے رجوع کرنے والی انسانی حقوق اورتارکین وطن کے تحفظ کی تنظیموں نیزخود امریکیوں کی بڑی تعداد کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا حکم نامہ امریکی آئین کے منافی ہے جو مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے نیز یہ امتیازی نوعیت کا حامل، مسلمانوں کو رسوا کرنے کے مترادف، خانہ جنگی سے جان بچا کر آنے والے پناہ گزینوں کے لیے تشددکے برابر اور بین الاقوامی قوانین کے بھی منافی ہے۔ علاوہ ازیں امریکا جوکہ پناہ گزینوں کا ملک تصورکیا جاتا ہے ٹرمپ کے اس اقدام سے امریکا اپنے سب سے بڑے اثاثے یعنی دنیا بھرکے ذہین اور ہنرمند افراد کو اپنے ملک میں جمع کرنے اوران کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے عمل سے محروم ہوجائے گا۔
ٹرمپ انتظامیہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی بے مثال وبے شمار قربانیوں کے باوجود بھارتی سرکار پر انتہائی مہربان ہے اور بھارت کو اپنا حقیقی دوست قرار دے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا نے بھارت کی دلجوئی اور خوشنودی کے لیے بھارتی ہمنوا بن کر تحریک آزادی کشمیرکی اہم آواز حافظ محمد سعیدکو ان کی نظربندی کی صورت میں خاموش کرادیا ہے۔ امریکا اور بین الاقوامی برادری اپنی ذمے داریوں سے صرف نظرکرتے ہوئے آج تک مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں بھارت کو تو عملدرآمد کرا نہ سکی تاہم پاکستان نے خود ہی عالمی دباؤکے تناظر میں ناگزیر کارروائی تصورکرتے ہوئے اقوام متحدہ کی ایک قراردادکے تقاضے پورے کرتے ہوئے جماعت الدعوۃ اور اس کے امیر پر پابندی عائد کردی۔
بھارت حریت پسندوں کو دہشتگرد قرار دے کر ''اسلامی دہشتگردی'' کے خاتمے کے لیے ٹرمپ کی توجہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ حافظ محمد سعید کی نظربندی اس سلسلے میں اس کی پہلی کامیابی تصورکی جا رہی ہے حالانکہ ٹرمپ کو اسلامی دہشتگردی کے ہمراہ کشمیر میں بھارتی دہشتگردی، ہندوؤں کی انتہا پسندی، فلسطین میں یہودی دہشتگردی، میانمار میں شدت پسند بودھوں کی دہشتگردی اور دنیا کے مختلف حصوں میں دوسرے مذاہب اور نسل کے ہتھیار بند گروہوں کی تخریب کاری بھی نظر آنی چاہیے کہ تاریخ گواہ ہے اور اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مسلمان آج پوری دنیا میں مجموعی طور پر متاثر اورمظالم کا شکار ہیں لیکن ٹرمپ کو تعصب کی عینک سے اسلامی دہشتگردی تو نظر آرہی ہے لیکن خود ظلم وستم کا شکار مسلمان نہیں۔
لہٰذا صدر ٹرمپ اور ان کے حواریوں کو پوپ فرانسس کے اس نصیحت آموزاظہار خیال پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے اپنے آیندہ کے لائحہ عمل کو طے کرنا چاہیے کہ ''ہٹلر بھی ایک منتخب اور مقبول لیڈر تھا لیکن اس کے نسلی تعصب پر مبنی رویے نے جرمنی کو شکست اور تقسیم سے دوچار کردیا'' امریکا کو اس انجام بد سے محفوظ رکھنے کے لیے نئی امریکی قیادت کو اپنی پالیسیوں پر لازماً نظرثانی کرنی چاہیے۔