حضور اکرم ﷺ بہ حیثیت داعی حق

نبی کریمؐ نے کمال صبر و حکمت سے اسلام کی تبلیغ کو جاری رکھا، اور ﷲ کے دین کو غالب کرکے رہے۔


Abdul Qadir Sheikh February 10, 2017
یہ آپؐ کی تبلیغ کی برکت اور صدقہ ہی ہے کہ آج روئے زمین پر کوئی ایسا خطہ نہیں جہاں اسلام کے پیروکار نہ ہوں۔ فوٹو : فائل

قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : '' اے رسول جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل ہوا ہے، اسے کامل طور سے (لوگوں تک) پہنچا دیجیے اور اگر آپ نے (ایسا) نہ کیا تو گویا آپ نے اس کا ( کوئی) کار رسالت سرانجام ہی نہیں دیا اور خداوند تعالیٰ آپ کو لوگوں کے (ان تمام خطرات) سے ( جن کا احتمال ہے) محفوظ رکھے گا اور خداوند تعالی ٰ(ہٹ دھرم) کفار کی ہدایت نہیں کرتا۔''
(سورہ المائدہ آیت67)

اس آیۂ مبارکہ میں ایک لفظ بلّغ استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی اﷲ تعالیٰ کا پیغام دوسرے لوگوں تک پہنچانا ہیں۔ تبلیغ کے لیے ایک اور لفظ ''ابلاغ'' بھی استعمال ہوتا ہے۔ قرآن حکیم میں یہ لفظ استعمال کرکے گویا حکم دیا جارہا ہے کہ جو کچھ آپؐ پر نازل کیا گیا ہے بلا کم و کاست اور بلا خوف لوگوں تک پہنچادیں۔ فقہاء اس سے یہی مراد لیتے ہیں کہ جس چیز کا حکم پیغمبر کو دیا جاتا ہے، وہ امت کے لیے بھی فرض بن جاتا ہے۔ جس کی دلیل عقائد اور عبادات ہیں، جو احکامات ہی کی شکل میں ہیں، جنہیں آنحضورؐ نے امت مسلمہ کو پہنچا کر حق نبوت ادا کردیا۔

ایک مرتبہ کسی نے حضرت علیؓ سے سوال کیا، کیا آپ کے پاس قرآن کے علاوہ وحی کے ذریعے سے نازل شدہ کوئی بات ہے ؟ تو انہوں نے قسم کھا کر نفی فرمائی اور فرمایا، البتہ قرآن کا فہم ہے، جسے اﷲ تعالیٰ کسی کو بھی عطا فرما دے۔ (صحیح بخاری)

حجتہ الوداع کے موقع پر آپؐ نے صحابہ کرامؓ کے ایک لاکھ سے زاید کے جم غفیر میں فرمایا تم میرے بارے میں کیا کہو گے؟ لوگوں نے کہا ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے اﷲ کا پیغام ہم تک پہنچا دیا اور خیر خواہی فرمائی۔ اس کے بعد آپؐ نے آسمان کی جانب انگلی اٹھائی اور تین مرتبہ فرمایا، یا اﷲ میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا، تو گواہ رہ! تو گواہ رہ! تو گواہ رہ۔

(صحیح مسلم، کتاب الحج)

تبلیغ کے اسیر مسلمان ہی نہیں بل کہ غیر مسلم بھی رہے ہیں۔ پروفیسر ملر لکھتے ہیں، '' اسلام، دراصل ایک تبلیغی مذہب ہے، جس نے اپنے آپ کو تبلیغ کی بنیادوں پر قایم کیا، اسی کی قوت سے ترقی کی اور اسی پر اس کی زندگی کا انحصار ہے۔ تبلیغ غیر مسلم اور مسلم دونوں ہی کو ہوسکتی ہے۔''

تبلیغ اسلام کے لیے ان کے یہ الفاظ خراج عقیدت سے کم نہیں، بل کہ ان لوگوں کو دعوت فکر بھی ہے کہ جن کا یہ متعصبانہ بیان کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا۔

اسلام روحانی ہی نہیں مادی فلاح کا بھی ضامن ہے، اس لیے ہر دور میں تبلیغ کی ضرورت رہی ہے۔ تبلیغ کے دو اجزاء اہم ہیں، نیکی کی دعوت اور برائی سے روکنا۔ تبلیغ کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے کچھ احکامات نازل فرمائے اور ارشاد فرمایا : '' تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے، جو نیکی کی دعوت دے، بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روکے اور وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔'' (سورہ آل عمران )

قرآن مجید میں ایک اور مقام پر فرمایا : '' تم سب سے اچھی جماعت ہو، جو لوگوں کے لیے ظاہر کی گئی ہے، تم اچھے کاموں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو۔''

(سورہ آل عمران )

قرآن حکیم میں گیارہ مقامات پر تبلیغ کا ذکر واضح طور پر آیا ہے۔ جب کہ 25 سورتوں کی37آیتوں میں ضمناً بھی آیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : '' پیغمبر کے ذمے تو صرف خدا کا پیغام پہنچانا ہے اور جو کچھ تم ظاہر اور مخفی کرتے ہو خدا کو سب معلوم ہے۔'' (المائدہ)

آنحضورؐ نے تبلیغ کی بہت تاکید فرمائی ہے، آپؐ کا ارشاد مبارک ہے: ''مجھ سے پیغام سن کر آگے پہنچاؤ، چاہے یہ ایک آیت ہی ہو۔'' (ترمذی)

آنحضور ؐ کو سب سے زیادہ عزیز تبلیغ تھی، اس کی خاطر آپؐ نے بڑے دکھ جھیلے۔ پہلی وحی کے بعد دوسری وحی کا وقفہ 3 سال رہا اور اس عرصے میں آپؐ خفیہ طور پر تبلیغ کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ مگر اب وہ وقت آچکا تھا کہ آپؐ علی الاعلان تبلیغ کریں۔ چناں چہ ارشاد ہوا : '' اور آپ کو جو حکم دیا گیا ہے واشگاف کردیجیے۔'' (سورہ الحجر )

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : '' اور اپنے نزدیک کے خاندان والوں کو خدا سے ڈرائیے۔''

(سورہ الشعراء )

احادیث و تاریخ سے ہمیں جس پہلے تبلیغی اجتماع کا ذکر ملتا ہے، وہ یہ ہے کہ ایک دن آنحضرت ؐ کو ہ صفاء پر چڑھے اور لوگوں کو پکارا: ''اے اہل القریش'' اس پکار پر قریش جمع ہوگئے تو آپؐ نے فرمایا: اے لوگو! اگر میں تم سے یہ کہوں کہ پہاڑی کے عقب سے ایک لشکر آرہا ہے، جو تم پر حملہ کر دے گا، تو کیا تم یقین کرلو گے۔۔۔ ؟

سب نے بہ یک آواز ''یقینا '' کہا، کیوں کہ آپؐ روز اول سے ہی صادق اور امین ہیں۔

اس پر آپؐ نے فرمایا: اب میں یہ کہتا ہوں کہ ایک اﷲ پر ایمان لاؤ ورنہ تم پر بھی گزشتہ امم کی طرح عذاب نازل ہوگا۔ یہ سن کر لوگ بہ شمول ابولہب برہم ہوکر واپس چلے گئے۔

(صحیح بخاری)

چند روز کے بعد آنحضور ؐ نے حضرت علی ؓ جو کہ اس وقت نوعمر تھے، فرمایا کہ دعوت کا بندوست کرو۔ پھر خاندان عبدالمطلب کو مدعو کیا گیا جن میں حمزہ، ابوطالب اور عباس سب شریک تھے۔ کھانے سے فراغت کے بعد آپؐ نے فرمایا کہ میں وہ چیز لے کر آیا ہوں جو دین اور دنیا دونوں ہی کے لیے کافی ہے (یعنی اسلام ) تو اس کوہ گراں کو اٹھانے میں کون میری مدد کرے گا۔۔۔

آنحضورؐ کی اس تبلیغی دعوت سے مکہ کے لوگ متنفر ہوگئے، یہ لوگ ابتدا ہی سے بت پرست تھے، ہبل ان کا خدائے اعظم تھا جو خانۂ کعبہ میں تین سو ساٹھ بتوں کے ساتھ بلند ترین سطح پر نصب کیا گیا تھا۔ یہی بت ان کے حاجت روا اور پیشوا تھے، تو وہ خدائے واحد کی عبادت کو کیسے قبول کر لیتے۔۔۔ ؟

اس تبلیغ کے بعد مشرک معاشرہ تو آپؐ کی جان کے درپے ہوگیا اور آپؐ کو ایذائیں دینے کے نت نئے طریقے اور منصوبے بنانے لگا۔ ان ایذاؤں اور مصائب کی جھلکیاں ان تاریخی واقعات میں دیکھیے جو سیرت النبیؐ سے ماخوذ ہیں۔ عقبہ بن معیط حضورؐ کا بڑا جانی دشمن تھا اس نے خانہ کعبہ میں آپؐ کو نماز پڑھتے دیکھ کر شانوں پر اونٹ کی اوجھ لاکر رکھ دی، یہ عقبہ ابوجہل کی شہ پر آیا تھا۔ ایک مرتبہ آنحضورؐ ذوالمجاز کے بازار میں تبلیغ دین کر رہے تھے تو ابوجہل آپؐ پر مسلسل خاک پھینکتا رہا اور کہتا رہا اس کے فریب میں نہ آنا یہ جھوٹ کہتا ہے۔ حرم کعبہ میں نماز کے دوران عقبہ نے آپؐ کی گردن پر چادر سے پھندا لگا کر زور سے کھینچنا شروع کردیا۔ اتفاقاً اس وقت ابوبکر ؓ حرم میں داخل ہوئے اور عقبہ سے آپؐ کو چھڑاتے ہوئے کہا کہ تم اس شخص کو مارتے ہو، جو تمہیں کہتا ہے کہ صرف ایک خدا کی عبادت کرو؟

ابوجہل، ابولہب، اسود بن یغوث، حارث بن قیس، ولید بن مغیرہ، امیہ بن خلف، نصر بن حارث یہ تمام لوگ آپؐ کے پڑوسی تھے اور صاحب اقتدار بھی، اہل مکہ پر آپؐ کی تبلیغ کا اثر نہ ہوا تو آپؐ نے ارادہ فرمایا کہ تبلیغ کا کام کسی اور شہر میں کیا جائے۔ چناں چہ آپؐ طائف تشریف لے گئے۔ آپؐ کے ساتھ صرف زید بن حارثہ ؓ تھے جو آپؐ کے متبنیٰ یعنی منہ بولے بیٹے تھے۔ طائف میں بڑے بڑے امراء اور رئیس رہا کرتے تھے۔ ان میں عمیر کا خاندان سب سے زیادہ بااثر تھا۔ وہ تین بھائی تھے، عبد یالیل، مسعود اور حبیب، آپؐ ان تینوں کے پاس علیحدہ علیحدہ گئے اور دین کی دعوت پیش کی، ان تینوں ہی نے آپؐ کو بہت نازیبا جواب دیے۔

ایک نے کہا کہ اگر تجھے اﷲ نے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے تو، تو کعبے کا پردہ چاک کر رہا ہے۔ دوسرے نے کہا کیا خدا کو تیرے سوا کوئی اور نہیں ملا تھا کہ جسے پیغمبر بنایا جا سکے۔ تیسرے نے کہا کہ میں بہ ہرحال تجھ سے کوئی بات نہیں کرسکتا، کیوں کہ اگر تو خدا کا رسول ہے تو بات خلاف ادب ہے اور اگر تو جھوٹا ہے تو، تو گفت گو کے قابل نہیں۔ ان تینوں بھائیوں نے اسی پر اکتفا نہ کیا، بل کہ انہوں نے آپؐ پر چاروں طرف سے پتھر برسانے شروع کردیے، جس سے آپؐ لہولہان ہوگئے، جو تے خون سے بھرگئے۔ آخر کار آپؐ نے عتبہ بن ربیعہ کے انگوروں کے باغ میں پناہ لی۔

اس واقعہ پر سر ولیم میور نے خوب صورت تبصرہ کیا ہے، اس نے لکھا ہے کہ یہ محمدؐ کا زور اعتماد تھا کہ وہ باوجود مکہ میں تمام ناکامیوں کے تنہا ایک مخالف شہر میں آگئے۔

اسلام بہ تدریج طلوع ہورہا تھا۔ سرداران قریش خائف تھے کہ کہیں ان سے یہ سرداری اور مال و ثروت نہ چھن جائے۔ چناں چہ انہوں نے طے کیا کہ آپؐ کو خاندان کے ہم راہ شعب ابوطالب میں محصور کردیا جائے۔ چناں چہ آپؐ تین سال تک وہاں محصور رہے۔ اس دوران سختی کا یہ عالم تھا کہ اعلان کیا گیا کہ جو شخص محمدؐ کو کھانے پینے کی اشیاء فراہم کرے گا، اسے قتل کردیا جائے گا۔ روض الانف میں لکھا ہے کہ سعد بن وقاصؓ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ سوکھا ہوا چمڑا ہاتھ آگیا، میں نے اس کو دھویا، پھر آگ پر بھونا اور پانی میں ملا کر کھا لیا۔ کچھ صحابہؓ کا بیان ہے کہ ہم نے طلح کے پتے کھا کر گزارہ کیا۔

آنحضرت ؐ کا معمول تھا جب حج کا زمانہ آتا اور ہر طرف سے مکہ میں آنے والے قبائل کے پاس جاتے اور ان پر اسلام کی تبلیغ کرتے نیز عرب میں جہاں جہاں میلے لگتے ان میں آئے ہوئے قبائل پر اسلام کی تبلیغ فرماتے۔ ان مقامات پر آپؐ کے ساتھ ہمیشہ ہتک آمیز رویہ اور ایذا رسانیوں کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ ایسے ہی ایک موقع پر حضرت خباب ؓ نے عرض کیا حضور آپؐ ان کے لیے بددعا کیوں نہیں فرماتے؟ یہ سن کر آپؐ کا چہرہ سرخ ہوگیا اور فرمایا تم سے پہلے وہ لوگ گزرے ہیں، جن کے سر پر آرے چلائے جاتے اور وہ چیرے جاتے تھے، لیکن وہ اپنے فرض سے باز نہ آئے، خدا اس کام کو پورا کرے گا، یہاں تک شتر سوار صنعاء سے حضرِموت تک سفر کرے گا اور اسے خدا کے سوا کسی کا ڈر نہ ہوگا۔

حضور اکرم ﷺ نے کمال صبر و حکمت سے اسلام کی تبلیغ کو جاری رکھا، اور اﷲ کے دین کو غالب کرکے رہے۔ یہ رسالت مآب ﷺ کی تبلیغ کی برکت اور صدقہ ہی ہے کہ آج روئے زمین پر کوئی ایسا خطہ نہیں، جہاں اسلام کے پیروکار نہ ہوں۔ ہمیں بھی اسلام کی تبلیغ صبر و حکمت سے کرنا چاہیے اور آپؐ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا چاہیے کہ اسی میں ہماری دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں