رشوت معاشرتی بگاڑ و انتشار کا سبب

انسان کی ضرورت پوری ہوسکتی ہے مگر ہوس کسی کی پوری نہیں ہوتی، یہاں تک کہ بادشاہوں کی بھی نہیں۔

اعلیٰ افسران قومی سودوں، خریداریوں، اسکیموں، منصوبوں، پرمٹ اور الاٹ منٹوں میں گھپلے کرتے ہیں۔ فوٹو : فائل

BARCELONA:
رشوت، شرعاً حرام، اخلاقاً ظلم اور قانوناً جرم ہے۔ جس کا لینے، دینے اور درمیان میں پڑنے والا سب جہنمی ہیں۔

رشوت ایک ایسا گناہ ہے کہ جب کوئی قوم اس میں مبتلا ہو جاتی ہے تو وہ دُشمن سے مرعوب ہوجاتی ہے اور دُشمن آسانی سے اسے روندتا ہوا ان پر فتح حاصل کرلیتا ہے۔

رشوت، وہ گناہ ہے جس کے مرتکب پر اﷲ تعالیٰ کی لعنت ہے، اس کے رسولؐ کی لعنت ہے۔ اﷲ کی لعنت ہے اس لیے وہ نظر رحمت نہیں فرمائیں گے اور رسولؐ کی لعنت ہے اس لیے وہ سفارش سے گریز فرمائیں گے۔ ہمارے معاشرے کو اب یہ ناسور لگ گیا ہے اور اس کے رگ و پے اور انگ انگ میں سرایت کرگیا ہے۔

حدیث شریف کے مطابق جس جسم کی پرورش حرام غذا سے ہو اس کے لیے جہنم کی آگ ہی بہتر ہے۔ آج جب کہ زمانہ ترقی پر ہے اور ہر علم و فن میں ترقی ہو رہی ہے تو اس کے ساتھ جرائم کی بھی نت نئی شکلیں سامنے آرہی ہیں۔ رشوت اب نئے انداز اور بدلے ہوئے روپ میں لی اور دی جارہی ہے۔ سب سے پہلے راشی افسر کے مزاج اور عادت اور اس کے شوق و ذوق کو دیکھا جاتا ہے اور پھر اس کی من پسند فرمائش پوری کی جاتی ہے۔

صدقۂ جاریہ کا نام تو ہم سنتے رہتے ہیں، بعض جگہوں میں ''رشوت جاریہ'' بھی ہوتی ہے۔ رشوت کسی کی ذات کو نہیں بل کہ عہدے اور منصب کو ملتی ہے۔ جو بھی اس منصب پر فائز ہوتا ہے۔ رشوت لینا اس کا فطری حق سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض عہدوں کے لیے باقاعدہ بولیاں لگتی ہیں۔ ہمارے ہاں کے بعض محکمے اس سلسلے میں کافی '' نیک نام '' ثابت ہوئے ہیں۔

زیادہ افسوس ناک یہ ہے کہ مقدس اور قابل احترام پیشے بھی اب ناپاک کمائی سے پاک نہیں رہے۔ پہلے طبیب ''بسم اﷲ'' پڑھ کر اور ''ہوالشافی'' لکھ کر نسخہ لکھتے تھے۔ مریض کی آواز سن کر، اس کی شکل دیکھ کر اور نبض پر ہاتھ رکھ کر اپنی فراست سے مرض کی تشخیص کرلیا کرتے تھے۔ آج ٹیسٹوں کی بھرمار ہوتی ہے، گھر پر دیکھنے اور کلینک پر دیکھنے میں فرق ہوتا ہے کیوں کہ فیس میں فرق ہوتا ہے، عام مریضوں اور پرائیویٹ مریضوں کو امتیاز سے دیکھا جاتا ہے۔

بعض جگہ ڈاکٹر آپریشن کو ضروری بتاکر مزید رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔ بڑے اسپتالوں میں کیش کی صورت میں آپریشن کے لیے پیشگی رقم جمع کرانا ضروری ہے اگرچہ مریض تڑپ رہا ہو، مگر رحم دل مسیحا کا دل پسیجتا نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ جو بڑے بڑے ہاتھی انہوں نے پال رکھے ہیں ان کا پیٹ بھرنے کے لیے کثرت سے آپریشن ضروری ہیں۔ ان دنوں بھی دل میں ناقص اور غیر ضروری طور پر، سستے اسٹنٹ منہگے داموں میں فروخت کا چرچا ہورہا ہے۔

اعضاء چوری ہونے، گردے غائب ہونے کی خبریں آئے دن اخبارات میں چھتی رہتی ہیں ظاہر ہے کہ یہ کام کسی نیم حکیم یا معمولی سرجن کا نہیں ہوسکتا، بل کہ اس کے لیے اَعلیٰ مہارت، ضروری آلات اور منظم طریقۂ کار کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹری اور طبابت کے ساتھ معلمی کا پیشہ بھی اِنحطاط کا شکار اور رُو بہ زوال ہے۔ اسلامی معاشرے میں معلم کا مقام بادشاہِ وقت سے زیادہ ہوتا ہے، مگر جب سے علم کو تول کر فروخت کرنے کا عمل شروع ہوا ہے اور علم کا مقصد صرف پیٹ کی آگ بجھانا رہ گیا ہے، اس وقت سے علم سے نور اور برکت ختم ہوگئی ہے۔ ڈاکا صرف ہتھیار کے ذریعے زبردستی مال چھیننے کا نام نہیں ہے، جو لوگ قلم کے ذریعے لاکھو ں کروڑوں اِدھر سے اُدھر کردیتے ہیں وہ بھی ڈاکا ہی ڈالتے ہیں۔

آج ہم قوانین کے ذریعے اس لعنت کی روک تھام چاہتے ہیں، اس لیے قانون پر قانون بنایا جاتا ہے مگر جوں ہی کوئی نیا قانون آتا ہے رشوت کا نیا دروازہ چوپٹ کھل جاتا ہے۔ بنانے والے جان بوجھ کر قانون میں ابہام رکھتے ہیں۔ قانون مادر زاد نابینا ہوتا ہے اور خود کچھ نہیں دیکھ سکتا، اس لیے بڑی سے بڑی برائی عین قانون کی موجودی میں بل کہ اس کی روشنی میں ہوتی ہے۔ قانون بہ ذات خود بے حس و بے حرکت ہوتا ہے، اسے حرکت میں لانا پڑتا ہے اور رشوت کا کام چوں کہ باہمی رضامندی سے ہوتا ہے، اس لیے سخت سے سخت قوانین بے اثر رہتے ہیں۔

اگر کوئی قانون طویل غور و فکر کے بعد بنایا گیا ہو اور اس میں معاشرے کے رسم و رواج اور عادات و مزاج کی بھرپور رعایت ہو اور خود قانون منصفانہ اور غیر جانب دارانہ ہو تو بھی رشوت کا انسداد اس کے ذریعے ممکن نظر نہیں آتا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ خود قانون اتنا اہم نہیں ہوتا، جتنا وہ ہاتھ اہم ہوتے ہیں، جن میں وہ قانون دیا جاتا ہے۔ آج قانون کو نافذ کرنے والے ہاتھ چوں کہ کرپٹ ہیں، اس لیے اچھا قانون بھی بے اثر ہے۔


اگر قانون سے جرائم کا انسداد ممکن ہوتا تو آج کی دنیا سب سے بڑی عابد و زاہد ہوتی کیوں کہ جتنے قوانین آج رائج ہیں اس سے پہلے کبھی نہ تھے۔ ایک جمہور ی ریاست کے تین ستون ہوتے ہیں۔ مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ۔ مقننہ کا کام ہی قانون سازی ہے۔ خود مملکت خداداد پاکستان میں ہزاروں قوانین نافذ ہیں۔ ہر محکمے کے قوانین جدا اور اس کے لیے الگ عدالتیں ہیں۔ بینکنگ کی، فیملی کی، کمپنیوں کی، دیونی اور فوج داری جرائم کی عدالتیں الگ الگ ہیں۔ مگر انصاف کتنا ہے، مظلوم کو کتنی داد رسی ملتی ہے، عوام کا اعتماد ان اداروں پر کس قدر ہے؟ سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ کسی کو بددعا دینی ہو تو اسے کورٹ کچہری کی بددعا دی جاتی ہے۔

عملی صورتِ حال یہ ہے کہ لوگ ان عدالتوں کا رُخ نہیں کرتے ہیں بل کہ باہر ہی ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، کیوں کہ ایک تو وقت بہت لگتا ہے، انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے، مگر ہوتا یہ ہے کہ دادا کے دائر کیے ہوئے مقدمے کا پوتے کے حق میں بھی بسا اوقات فیصلہ نہیں ہوتا ہے۔ خرچ اتنا ہوتا ہے کہ مرغی کے متعلق انصاف درکار ہو تو اس کے لیے بھینس قربان کرنی پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ قانون کی زبان ایسی ہے جو یہاں کے اَسّی فی صد کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ اب اسے انصاف کی فراہمی کہا جائے گا یا انصاف کا خون، یہ مظلوم کی اشک شوئی ہے یا اس کے حقوق کی پامالی، یہ نظام عدل ہے یا نظام جور و ظلم، فیصلہ ہم ان پر چھوڑتے ہیں جو بینا آنکھیں، کان اور سوچنے والا دل رکھتے ہیں۔

بہ ہر حال قوانین اور قوانین کے نفاذ کے لیے مزید افراد کی بھرتیوں کے ذریعے اس لعنت سے نجات ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ جو قوانین ہیں وہ سب کے سب انسان کے بنائے ہوئے ہیں، اور انسان میں خامیاں ہیں تو اس کے بنائے ہوئے قوانین میں کیوں خامیاں نہ ہوں گی؟ حل یہی ہے کہ قانون بلاشبہ نافذ کیا جائے۔ مجرمانہ ذہن رکھنے والے افراد کو قانون کی گرفت سے آزاد رکھنا، درندوں کو آزاد چھوڑنا ہے۔ مگر قانون ایسا اختیار کیا جائے جو ان نقائص سے پاک ہو جن کا تذکرہ ہم پیچھے کر آئے ہیں اور ایسا قانون جو ہر عیب سے خالی، ہر خامی سے پاک اور ہر نقص سے منزہ ہو وہ صرف وحی پر مبنی قانون ہوسکتا ہے۔

ہمارے پاس یہ نعمت موجود ہے مگر ہم نے اس کی طرف سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ ہمارے پاس روشن سورج ہے مگر ہم دوسروں کے ٹمٹماتے ہوئے چراغ پر رشک بھری نگاہ ڈالتے ہیں۔ ہمارے دستر خوان پر ہر قسم کی نعمت، دنیا کا ہر لذیذ پکوان اور تمام انواع کے ذائقے موجود ہیں مگر ہم ہیں کہ دوسروں کے دستر خوان پر رکھی ہوئی چوسی ہوئی ہڈیوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

اس سے بڑی ناقدری اور اس سے زیادہ احسان فراموشی اور اس سے زیادہ اپنی جانوں پر ظلم اور کیا ہوگا۔۔۔ ؟ زہر پی رہے ہیں، آگ اُگل رہے ہیں، وجود ہمارا بھسم اور زندگی ہماری جہنم بن چکی ہے، مگر ہم اس نسخۂ کیمیا، اکسیر نجات اور دوائے شافی سے پرہیز کر رہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ٹھنڈے دل و دماغ سے اس مسئلے پر غور و فکر کریں، مرض کے علاج سے پہلے اس کی تشخیص اور اسباب و وجوہات کا پتا چلائیں اور پھر حزم و احتیاط سے کوئی قدم اُٹھائیں۔

آسان علاج، سادہ تدبیر اور مفت حل یہ ہوسکتا ہے کہ ہم ذرا اپنے ماضی پر نظر ڈالیں اور اسلاف کی زندگیوں سے راہ نمائی حاصل کریں۔ آخر وہ بھی انسان تھے، بھوک، سردی اور گرمی انہیں بھی ستاتی تھی۔ خواہشات ان کے دل میں بھی مچلتی تھیں اور اپنے بیوی بچوں کو قابل رشک حالت میں دیکھنا تو انسان کی فطری خواہش ہوتی ہے، اس لیے یقینا وہ یہ خواہش بھی رکھتے تھے مگر اس کے باوجود وہ کس طرح اس سے محفوظ اور ہم کیوں مبتلا ہیں۔۔۔ ؟

اس سوال کا دو اور دو چار کی طرح جواب یہ ہے کہ ان کی زندگی سادہ اور معاشرت روحانی تھی، وہ کھانے، پینے، لباس اور مکان پر بہت کم خرچ کرتے تھے۔ اس کے ساتھ انہیں اپنی خواہشات پر کنٹرول اور اپنے نفس پر ضبط حاصل تھا، ان کے سامنے ہر آن یہ حقیقت پیش نظر رہتی تھی کہ اصل حیات آخرت کی حیات ہے۔ وہ دنیا کو خواہشات کی تکمیل اور آرزوؤں کی تسکین کی جگہ نہیں سمجھتے تھے۔ انہوں نے اپنی بہت سی خواہشات ، اپنی دلی اُمنگیں اور قلبی چاہتیں آخرت کے دن کے لیے سنبھال رکھی تھیں۔ اس لیے وہ ہر حالت میں راضی بہ رضا رہتے تھے، بہت کم ان کے لیے کافی ہوجاتا تھا ، قناعت کی دولت سے وہ مالامال اور محبت اِلٰہی کے جذبے سے سرشار تھے، اس لیے دنیا ان کو دھوکا نہیں دے سکتی تھی۔

اب حال یہ ہے کہ روحانیت مادیت میں بدل گئی ہے، دنیا نے آخرت پر ترجیح حاصل کرلی ہے، ایمانی قوت کم زور بل کہ نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ سینے یقین سے خالی، دِل کی دُنیا اُجڑی ہوئی اور جسم تنعم کے عادی ہیں۔ رہی سہی کسر سرمایہ دارانہ تہذیب نے پوری کردی ہے۔ خدا غارت کرے اس مصنوعی اور خدا فراموش تمدن کو کہ جب سے اس تمدن کی باد مسموم یہاں چلی ہے، تب سے قدریں ہی بدل گئی ہیں، ہر شخص عیش اور کیش چاہتا ہے، ہر دل کی اُمنگ جلد سے جلد امیرتر بننے کی ہے۔ کوٹھی، بنگلہ اور کار ہر ایک کی ضرورت ہے۔ وسائل اجازت نہیں دیتے اور خواہش کو دبانا نہیں جانتے اس لیے گندگی میں ہاتھ ڈال دیتے ہیں۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ وبا اس لیے عام ہے کہ تن خواہیں کم ہیں، مگر یہ سطحی تشخیص ہے۔ جن کی تن خواہیں زیادہ ہیں پھر انہیں تو اس لعنت سے دور ہونا چاہیے تھا، مگر وہ بھی اس گندگی میں لت پت ہیں۔ انسان کی ضرورت پوری ہوسکتی ہے اور اﷲ تعالیٰ پوری فرما دیتے ہیں مگر ہوس کسی کی پوری نہیں ہوتی، یہاں تک کہ بادشاہوں کی بھی پوری نہیں ہوتی۔ اعلیٰ افسران قومی سودوں میں، خریداریوں میں، اسکیموں، منصوبوں میں پرمٹ اور الاٹ منٹوں میں گھپلے کرتے ہیں، حالاں کہ دولت کی ان کے پاس کمی نہیں ہوتی۔

اصل وجہ وہی ہے جو بیان ہوئی کہ برائیوں کے انسداد کا اسلامی فلسفہ نہیں آزمایا جارہا۔ اسلام معاشرے کی اصلاح کے لیے صرف قانون کو کافی نہیں سمجھتا ہے بل کہ اس کے ساتھ دلوں میں خوفِ خدا اور فکر آخرت بھی پیدا کرتا ہے۔ جو دل اس دولت سے آباد ہو، وہ گنج قارون کو بھی پائے حقارت سے ٹھکرا دیتا ہے۔ ان کے لیے سامان ہفت اقلیم بل کہ ہشت بہشت کی دولت بھی رتی برابر اہمیت نہیں رکھتی۔ جس نے اﷲ و رسولؐ کی محبت کے جام پی لیے، اس کے سامنے سمرقند و بخارا کی سلطنت بھی ہیچ ہے۔

اس زمانے میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اس گندگی سے دامن بچائے ہوئے ہیں۔ یہ مٹھی بھر لوگ جو تعداد میں بہت کم مگر وزن میں بہت زیادہ ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو خوفِ خدا اور فکر آخرت رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی جو خاطر اس جہاں میں ہوگی وہ اپنی جگہ ہے، دنیا میں بھی اصل دولت اور حقیقی نعمت ان ہی کے پاس ہے، اگر بادشاہوں کو معلوم ہوجائے تو فوجیں لے کر ان پر حملہ آور ہوجائیں، وہ دولت دل کا اطمینان اور سکون ہے۔ جو لذت انہیں اِطاعت اِلٰہی اور عشق نبویؐ میں ملتی ہے اس کا موازنہ دنیا کی کسی لذت سے نہیں کیا جاسکتا۔ اگر دل کی آنکھیں کھلی ہوں تو ایسے لوگوں کے مطمین ضمیر اور تروتازہ چہرے نظر آسکتے ہیں۔
Load Next Story