مجھے میری ’سادہ‘ سی بسنت لوٹا دیجیے

پتنگ بازی تہوار سے بڑھ کر المیہ بنتی جارہی ہے، اس میں سےدھات نکال کر پھردھاگہ رکھ دیجیے، بس بسنت اتنی سی التجا کرتی ہے


شاہد کاظمی February 10, 2017
بسنت کو وہ زمانہ لوٹا دیا جائے کہ جب آواز آتی تھی اُنگلی کاٹ لی نا؟ بس اب اگلے ایک ہفتے کے لئے تمہارے پتنگ اڑانے پر پابندی۔ فوٹو: فائل

آسمان پر اُڑتی رنگ برنگی پتنگیں اور پکوانوں کی مہک، یہ پہچان تھی بسنت کے تہوار کی۔ جب سرسوں پھولنے لگتی تو موسم خوشگوار سا محسوس ہوتا اور دوکانوں پر پتنگ بازی کا سامان سج جاتا۔

عرصہ ہوا جب ایک دفعہ بسنت کا تہوار منظم کرنے کا اتفاق ہوا۔ ابھی اُس تہوار میں نہ تو رنگین پیرہن تھے، نہ ہی اُس میں دھوم دھڑکا ایسا تھا کہ باقاعدہ ساؤنڈ سسٹم بُک کئے جاتے، اور نہ ہی اُس وقت اُس تہوار میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ شامل ہوئی تھی۔ اُس وقت دیگیں چڑھانے کے بجائے بس کسی بھی مخصوص علاقے میں کچھ لڑکے ہاتھ سے لکھی ایک تحریر چسپاں کردیتے تھے، جس کے الفاظ عمومی طور پر کچھ یوں ہوتے تھے،
'فلاں دن اِس وقت سے لے کر اِس وقت تک بسنت منائی جائے گی، لہذا اُس میں شامل ہونے کے لئے تمام پتنگ بازوں کو دعوت دی جاتی ہے۔'

بس اتنے سے اعلان کے ساتھ بسنت کا تہوار شروع ہوجاتا تھا۔

 

پتنگوں کے بھی بڑے خوبصورت نام ہوا کرتے تھے۔ جیسے گڈی، گڈا، ماچس، مچھر، تکل، پھرلو، شرلی، وغیرہ وغیرہ اور بازار سے اگر پتنگ خریدنے کی استطاعت کسی کے پاس نہ ہو تو وہ مومی پتنگ بنا کر اُس تہوار میں شامل ہوجاتا تھا۔ گھروں میں کسی سے دریافت کیا جاتا کہ کہاں گم ہے تمیز الدین؟ تو ماں یا دادی مصنوعی خفگی سے کہتی تھیں کہ آج بسنت ہے نا صبح سے چھت پہ براجمان ہے، اور اکثر شام میں جس دوست کی چھت سب سے کُھلی ہوتی وہاں موجود تمام لڑکے بالوں کو اُس گھر کی بڑی بوڑھی چائے کے ساتھ پاپے یا بہت زیادہ ہوا تو پکوڑے بنا کر کِھلا دیتی تھی تو بسنت کا مزہ دوبالا ہوجاتا تھا، بس اتنی سی روداد ہوتی تھی مکمل بسنت کی۔

وقت گزرا ہم نے بسنت کو تاریخ سے ثابت کرنا شروع کردیا۔ کسی نے اُس کا تعلق قدیم چین کی روایات سے جوڑا تو کسی نے اِسے ہندوانہ تہور قرار دے دیا۔ کبھی اِس پر پابندی لگی تو کبھی منانے کی آزادی ملی۔ لیکن جیسے جیسے اِس تہوار میں سیاست شاملِ حال ہوئی اور اپوزیشن نے اِس پر پابندی کا مطالبہ کیا، تب تب اِس میں گھاگھ کھلاڑی شامل ہوتے گئے اور اِس میں ڈھول تاشے، کھابے، گولیوں کی تڑتڑ شامل ہوتی گئی۔ یوں یہ تہوار ایک عام سادہ انسان کے تہوار سے بڑھ کر امراء کا تہوار بن گیا۔

رہی سہی کسر قاتل ڈور نے پوری کردی۔ اچھی طرح یاد ہے کہ جب بسنت، بسنت تھی تب کوئی عام دھاگے کے بجائے موٹی اُون کا دھاگہ بھی استعمال کرلیتا تو سب اُس سے پیچ لڑانے کا بائیکاٹ کردیا کرتے تھے، چہ جائیکہ دھاتی ڈور کا استعمال۔۔۔۔۔

زمانے نے ترقی کی مگر بسنت کی خوبصورتی کہیں بہت پیچھے رہ گئی۔ میرے دور کا مشہور پتنگ باز عارف کہیں گم ہوگیا اور بسنت کے تہوار میں ملٹی نیشنل کمپنیاں شامل ہوتی گئیں۔ جانیں ضائع ہونے لگیں، پابندیاں لگنے لگیں، چھتوں سے گر کر ہڈیاں ٹوٹنے لگیں، بچے گاڑیوں کے نیچے کُچلے جانے لگے، بجلی کی تاروں سے اموات ہونا شروع ہوگئیں، ان دیکھی گولیاں ماؤں کی گود ویران کرنے لگیں۔ دھاتی ڈور نونہالوں کی گردنوں کو کاٹ پھینکنے لگی۔

پتنگ سازی کی صنعت دم توڑنے لگی کیوںکہ اب غیر یقینی کی صورت حال نے جنم لے لیا ہے، کچھ معلوم نہیں ہوتا کب لاکھوں روپے لگا کر سامان تیار کیا جائے اور پابندی لگ جائے۔ شیدے، گامے، مودے بے روزگار ہونے لگے۔ پتنگ بازی ایک تہوار سے آگے نکل کر ایک المیہ بننے لگی۔ لوگ دوسروں پر دھاک بٹھانے کے لئے چوری دھاتی ڈور بنوانے لگے۔ مومی پتنگ کا دور نہ جانے کہاں گم ہوتا گیا اور ہزاروں روپے مالیت کی پتنگیں مارکیٹ میں آگئیں۔ جو تہوار صرف سرسوں کے پھولنے اور لڑکے بالوں کے ایک آدھ دن چھتوں پر گزارنے پر بس ہوجاتا تھا، اُس میں پورا مافیا شامل ہوتا گیا اور آج حال یہ ہے کہ اِس تہوار پر پابندی کی تلوار منڈلا رہی ہے۔ اِس صنعت کو تباہی کے دہانے پر پہنچادیا گیا ہے۔ اِس کے حُسن کو گہنا دیا گیا ہے۔

اِس تہوار کو بچانا ہے تو اِسے تاریخ میں ڈھونڈنے کے بجائے اِس کی وہی سادگی لوٹا دی جائے کہ جس میں مغرب کے فوراً بعد چھت سے اُتر جانا لازمی ہوتا تھا ورنہ دادا ابا، نانا ابو کی لاٹھی کا خوف جان لے لیتا تھا۔ اِس کو وہ زمانہ لوٹا دیا جائے کہ جب آواز آتی تھی اُنگلی کاٹ لی نا؟ بس اب اگلے ایک ہفتے کے لئے تمہارے پتنگ اڑانے پر پابندی، پھر کبھی کچھ پیسے آپا سے لینے، کچھ ابا جی سے ڈرتے ہوئے مانگنا، ڈور اور ایک کاغذی پتنگ کا انتظام کرلینا، بس اتنی سادہ سی تھی بسنت۔۔۔ اُس میں سے گولیاں، بھنگڑے، پکوان سب الگ کردیجیئے۔ اِس میں سے دھات نکال کر پھر دھاگہ رکھ دیجیے، بس بسنت اتنی سی التجا کرتی ہے۔

[poll id="1319"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔