ملکی سلامتی کا عسکری نظریہ ازسرنو مرتب کرنا ہوگا وزیراعظم

محض فوجی کارروائی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی، سیاسی حمایت بھی لازم ہے، ڈیفنس یونیورسٹی میں خطاب

اسلام آباد:راجا پرویز اشرف کا جنرل خالد شمیم وائیں ڈیفنس یونیورسٹی پہنچنے پر استقبال کررہے ہیں۔ فوٹو: اے پی پی

وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے دہشت گردی سے جامع انداز میں نمٹنے کیلئے قومی سلامتی اداروں کو انٹیلی جنس معلومات مزید بہتر بنانے اور سول، فوجی اداروں کے درمیان مئوثر رابطہ کار استوار کرنے کی ضرورت پر زوردیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں اس مقصد کے حصول کیلیے اپنے عسکری نظریے کوازسرمرتب کرنا ہوگا۔

نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں14ویں قومی سلامتی ورکشاپ کی تقریب تقسیم اسناد سے خطاب میں انھوں نے کہاکہ پاکستان کی قومی سلامتی کو لاحق خطرات بنیادی طورپر غیرریاستی عناصر سے جنم لیتے ہیں جو اپنا ایجنڈا مسلط کرنے کیلیے ریاستی علامات اور اداروں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں بہادر سیکیورٹی فورسز، قانون نافذکرنے والے اداروں اور شہریوں نے عظیم قربانیاں دیں۔ وزیراعظم نے کہاکہ پارلیمنٹ تمام اداروں کی ماں، عوامی امنگوں اور قومی مفادات کی امین ہے۔ محض فوجی کارروائی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی، سیاسی عزم اور عوامی حمایت اس کی کامیابی کیلئے لازم ہے۔

پوری قوم اور پارلیمنٹ قوم کے بچوں کا مستقبل محفوظ بنانے کی جدوجہد میں اپنی مسلح افواج کی پشت پر کھڑے ہیں۔ جمہوری حکومت بجا طور پر فخر کرسکتی ہے کہ اس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو سیاسی تائید فراہم کی۔ انھوں نے سوات (آپریشن )ماڈل کو سیاسی حکمت عملی اور جدید جنگی طریقے کا امتزاج قراردیتے ہوئے کہا کہ قومی سلامتی کیلیے یہ ضروری ہے کہ ہر ادارہ اپنی آئینی حدود کے اندر کام کرے۔ سیاسی استحکام قومی سلامتی سے ناگزیر طور پر منسلک ہے۔ انھوں نے کہاکہ مایوسی کی قوتیں بدامنی، بے یقینی اور عدم استحکام کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں، ہمیں ایسی تمام قوتوں کے خلاف چوکس رہنا ہوگا جو طویل جدوجہد کے نتیجے میں بحال ہونے والے نظام کو پٹڑی سے اتارنے کی درپے ہیں۔




راجہ پرویز اشرف نے کہاکہ یہاں پر میڈیا کاکردار بھی پیدا ہوتا ہے، اسے قومی سلامتی کے وسیع تر خدوخال کے بارے میں اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے۔ دہشت گردی اور انتہاپسندی کا خطرہ تصورات اور دل ودماغ کی کشمکش بھی پیدا کرتا ہے، یہ نفسیاتی جنگ بھی ہے۔ ہمیں رجعت پسندانہ ذہنیت کے کھوکھلے پن کو بے نقاب کرنا ہوگا۔ میرا عوام پر غیرمتزلزل یقین ہے، ہم نے ہمیشہ کارکردگی دکھائی ہے اور ہم تاریکی کی ان قوتوں کو شکست دیں گے جو ہماری ثقافت، اقدار اور طرز زندگی کے خلاف مذموم عزائم رکھتی ہیں۔ مجھے اس بارے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔

انھوں نے کہاکہ آج قومی سلامتی بہت پیچیدہ اور کثیرالجہتی تصور بن چکا ہے اور دنیا تبدیلیوں سے گزر رہی ہے جبکہ سیکیورٹی اور خودمختاری کے روایتی تصورات بھی مسلسل تشکیل پارہے ہیں، بین الریاستی اور عالمی تعلقات میں اس جہت کے شامل ہونے کے اثرات سے نبردآزما ہونے کی ضرورت ہے۔ قومی سلامتی مقاصد کی موثر پیروی کیلیے اسٹرٹیجک فریم ورک وضع کرنے کی ضرورت ہے جو قومی قوت کے تمام عناصر کا احاطہ کرتا ہو۔ قبل ازیں این ڈی یو کے صدر لیفٹیننٹ جنرل نصیر جنجوعہ نے یونیورسٹی آمد پر وزیراعظم کا خیرمقدم کیا۔ بی بی سی کیمطابق راجہ پرویز اشرف نے ملک کی تینوں مسلح افواج سے کہا ہے کہ وہ ملکی سلامتی کو لاحق اصل خطرات کا ادراک کرتے ہوئے اپنے نظریات (ڈاکٹرائن) ازسرنو مرتب کریں۔

دنیا ایسی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے جہاں سیکیورٹی اور سالمیت کے روایتی نظریات میں مسلسل تبدیلی آرہی ہے۔ انھوں نے کہا موجودہ جمہوری حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو سیاسی ملکیت دی ہے اور سوات میں فوجی آپریشن سیاسی حکمت عملی اور جدید جنگ کے ملاپ کی بہترین مثال ہے۔ آئی این پی کے مطابق وزیراعظم نے کہا کہ سلامتی اور خود مختاری کے تقاضے روزبروز تبدیل ہورہے ہیں، ملک کے دشمن بے نام اور بے شناخت ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کیلیے حکمت عملی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ، نظام کوپٹڑی سے اتارنے کی درپے قوتوں کیخلاف اٹھ کھڑا ہونے کی ضرورت ہے ۔

Recommended Stories

Load Next Story