شاہ زیب قتل کیس ملزمان ایک دن میں گرفتار پاسپورٹ منسوخ کیے جائیں سپریم کورٹ
پولیس دبائومیں آگئی،ملزمان گرفتارنہ ہوئے توپیرکوآئی جی بغیروردی عدالت آئیں،چیف جسٹس کااظہاربرہمی
KARACHI:
سپریم کورٹ آف پاکستان نے شاہ زیب قتل کیس کے ملزمان کو24 گھنٹے میں گرفتارکرکے اثاثے،بینک اکائونٹس منجمداورپاسپورٹ منسوخ کرنے کاحکم دیاہے اور واضح کیاہے ملزمان گرفتارنہ ہوئے توآئی جی پیرکوبغیروردی سپریم کورٹ میں پیش ہوں۔
جبکہ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے آئی جی جی سندھ فیاض لغاری کی عدم میں موجودگی پربرہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ ہم خود کیس کی نگرانی کریں گے، دیکھتے ہیں جلدفیصلہ کیسے نہیں ہوتا؟ کیس کوطول دے کرخراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،کسی غریب کابچہ مارا گیا،پولیس بااثر افراد کے دبائومیں آگئی،ادارے موجود ہیں مگرکسی کی عزت محفوظ نہیں۔جمعے کو سپریم کورٹ میںکراچی کے نوجوان شاہ زیب کے قتل پراز خود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں3رکنی بینچ نے کی۔
آئی جی سندھ فیاض لغاری عدالت میں حاضرنہیں ہوئے جس پر عدالت نے سخت برہمی کااظہارکرتے ہوئے حکم دیا کہ آئی جی کو عدالت میں آناپڑے گا،چاہے راکٹ پر بیٹھ کر آئیں یا پیدل آئیں۔ایڈیشنل آئی جی سندھ محمدرفیق اطہر نے عدالت کو بتایاکہ آئی جی نے صبح7بجے اسلام آباد آناتھا،دھند کے باعث فلائٹ منسوخ ہوگئی جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ وہ جان بوجھ کر نہیں آئے،رینجرز قتل کیس میں بھی انھوں نے ایسا ہی کیا تھا۔ایڈیشنل آئی جی نے کہاکہ چہلم جلوس کے سیکیورٹی معاملات کی نگرانی کے باعث وہ اسلام آباد نہیں آسکے تھے جس پر جسٹس گلزاراحمد نے کہا کہ کیا آئی جی خود جا کر جلوس کی سیکیورٹی دیکھتے ہیں؟
چیف جسٹس نے کہاکہ پیش کردہ دستاویزات سے ثابت نہیں ہوتا کہ گرفتاری کی سنجیدہ کوشش کی گئی،کراچی میں ویسے ہی حالات خراب ہیں۔ایڈیشنل آئی جی سندھ نے بتایاکہ شاہ زیب قتل کیس میں سراج تالپوراورشاہ رخ جتوئی نامزد ملزم ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ قاتلوں کو فوری گرفتار کریں ورنہ سارے نوکری سے جائیںگے۔ وقفے کے بعد سماعت جب دوبارہ شروع ہوئی تو یف جسٹس نے کہا کہ پولیس ملزموں کو(آج) ہفتے تک لازمی گرفتارکرکے چالان عدالت میں پیش کرے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ملزموں کی جائیدادیں اور بینک اکائونٹس ابھی تک کیوں منجمدنہیں کیے گئے۔ ایڈیشنل آئی جی سندھ نے کہا کہ خصوصی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے جو ملزموں کی گرفتاری کیلیے چھاپے مار رہی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیس کوطول دے کرخراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ اے آئی جی کو کیس سے متعلق کچھ معلومات نہیں۔ تفریح کیلیے اسلام آباد آگئے ہیں چیف جسٹس نے ایڈیشنل آئی جی کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ کیا آپ کو قانون کامعلوم نہیں ہے،ملزمان کی گرفتاری میں رکاوٹ بننے والوں کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا،ملزمان کی گرفتاری کے لیے کیا اقدامات کیے گئے۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ شاہ رخ جتوئی کے والد سکندرجتوئی کوکیوں شامل تفتیش نہیں کیا گیا؟۔جسٹس گلزار نے کہا کہ شہر میں اتنا بڑا جرم ہوا اور پولیس سو رہی ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ تفتیش کی فائل دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ پولیس نے غفلت کا مظاہرہ کیا،با اثر ملزمان کے ساتھ انہیں فرار کرانے والوں کو بھی گرفتار کیا جائے۔
عدالت کی ہدایت پر ملزم شاہ رخ جتوئی کے والد سکندرجتوئی کے ٹی و ی انٹرویو کاوڈیو ریکارڈ بھی پیش کیا گیاتاہم چیف جسٹس نے سکندر جتوئی کو شامل تفتیش نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ انٹرویو کی وڈیوبھی مکمل نہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا ملزمان کون ہیں ان کے نام بتائیں جس عدالت کو بتایا گیا ایک ملزم کا نام سراج تالپوراور دوسرے کاشاہ رخ جتوئی ہے۔چیف جسٹس افتخارچوہدری نے کہاکہ اتنا اہم کیس ہے اور کسی کو احساس ہی نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ قاتل کاباپ ٹی وی پر انٹرویو دے رہاہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جن لوگوں نے ملزمان کو بھگایاانہیں گرفتار کیا جائے،اگر ملزمان کو گرفتار نہ کیا گیا تو نہ آئی جی رہیں گے اورنہ ہی کوئی افسر،سب کو نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑے گا،شاہ زیب قتل کیس کی وجہ سے پوری دنیا میں بدنامی ہوئی ہے کہ ایک لڑکے کو اتنی بے دردی سے قتل کیا گیا۔چیف جسٹس نے کہاکہ اتنا بڑا واقعہ ہوگیااور پولیس ٹس سے مس نہیں ہوئی،ملزم کا بیان سننے کے بعد بھی گرفتار کیوں نہیں کیا؟پولیس بڑے لوگوں سے ڈرتی ہے۔کیس پرمزیدسماعت7جنوری تک ملتوی کردی گئی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے شاہ زیب قتل کیس کے ملزمان کو24 گھنٹے میں گرفتارکرکے اثاثے،بینک اکائونٹس منجمداورپاسپورٹ منسوخ کرنے کاحکم دیاہے اور واضح کیاہے ملزمان گرفتارنہ ہوئے توآئی جی پیرکوبغیروردی سپریم کورٹ میں پیش ہوں۔
جبکہ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے آئی جی جی سندھ فیاض لغاری کی عدم میں موجودگی پربرہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ ہم خود کیس کی نگرانی کریں گے، دیکھتے ہیں جلدفیصلہ کیسے نہیں ہوتا؟ کیس کوطول دے کرخراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،کسی غریب کابچہ مارا گیا،پولیس بااثر افراد کے دبائومیں آگئی،ادارے موجود ہیں مگرکسی کی عزت محفوظ نہیں۔جمعے کو سپریم کورٹ میںکراچی کے نوجوان شاہ زیب کے قتل پراز خود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں3رکنی بینچ نے کی۔
آئی جی سندھ فیاض لغاری عدالت میں حاضرنہیں ہوئے جس پر عدالت نے سخت برہمی کااظہارکرتے ہوئے حکم دیا کہ آئی جی کو عدالت میں آناپڑے گا،چاہے راکٹ پر بیٹھ کر آئیں یا پیدل آئیں۔ایڈیشنل آئی جی سندھ محمدرفیق اطہر نے عدالت کو بتایاکہ آئی جی نے صبح7بجے اسلام آباد آناتھا،دھند کے باعث فلائٹ منسوخ ہوگئی جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ وہ جان بوجھ کر نہیں آئے،رینجرز قتل کیس میں بھی انھوں نے ایسا ہی کیا تھا۔ایڈیشنل آئی جی نے کہاکہ چہلم جلوس کے سیکیورٹی معاملات کی نگرانی کے باعث وہ اسلام آباد نہیں آسکے تھے جس پر جسٹس گلزاراحمد نے کہا کہ کیا آئی جی خود جا کر جلوس کی سیکیورٹی دیکھتے ہیں؟
چیف جسٹس نے کہاکہ پیش کردہ دستاویزات سے ثابت نہیں ہوتا کہ گرفتاری کی سنجیدہ کوشش کی گئی،کراچی میں ویسے ہی حالات خراب ہیں۔ایڈیشنل آئی جی سندھ نے بتایاکہ شاہ زیب قتل کیس میں سراج تالپوراورشاہ رخ جتوئی نامزد ملزم ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ قاتلوں کو فوری گرفتار کریں ورنہ سارے نوکری سے جائیںگے۔ وقفے کے بعد سماعت جب دوبارہ شروع ہوئی تو یف جسٹس نے کہا کہ پولیس ملزموں کو(آج) ہفتے تک لازمی گرفتارکرکے چالان عدالت میں پیش کرے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ملزموں کی جائیدادیں اور بینک اکائونٹس ابھی تک کیوں منجمدنہیں کیے گئے۔ ایڈیشنل آئی جی سندھ نے کہا کہ خصوصی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے جو ملزموں کی گرفتاری کیلیے چھاپے مار رہی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیس کوطول دے کرخراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ اے آئی جی کو کیس سے متعلق کچھ معلومات نہیں۔ تفریح کیلیے اسلام آباد آگئے ہیں چیف جسٹس نے ایڈیشنل آئی جی کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ کیا آپ کو قانون کامعلوم نہیں ہے،ملزمان کی گرفتاری میں رکاوٹ بننے والوں کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا،ملزمان کی گرفتاری کے لیے کیا اقدامات کیے گئے۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ شاہ رخ جتوئی کے والد سکندرجتوئی کوکیوں شامل تفتیش نہیں کیا گیا؟۔جسٹس گلزار نے کہا کہ شہر میں اتنا بڑا جرم ہوا اور پولیس سو رہی ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ تفتیش کی فائل دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ پولیس نے غفلت کا مظاہرہ کیا،با اثر ملزمان کے ساتھ انہیں فرار کرانے والوں کو بھی گرفتار کیا جائے۔
عدالت کی ہدایت پر ملزم شاہ رخ جتوئی کے والد سکندرجتوئی کے ٹی و ی انٹرویو کاوڈیو ریکارڈ بھی پیش کیا گیاتاہم چیف جسٹس نے سکندر جتوئی کو شامل تفتیش نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ انٹرویو کی وڈیوبھی مکمل نہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا ملزمان کون ہیں ان کے نام بتائیں جس عدالت کو بتایا گیا ایک ملزم کا نام سراج تالپوراور دوسرے کاشاہ رخ جتوئی ہے۔چیف جسٹس افتخارچوہدری نے کہاکہ اتنا اہم کیس ہے اور کسی کو احساس ہی نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ قاتل کاباپ ٹی وی پر انٹرویو دے رہاہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جن لوگوں نے ملزمان کو بھگایاانہیں گرفتار کیا جائے،اگر ملزمان کو گرفتار نہ کیا گیا تو نہ آئی جی رہیں گے اورنہ ہی کوئی افسر،سب کو نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑے گا،شاہ زیب قتل کیس کی وجہ سے پوری دنیا میں بدنامی ہوئی ہے کہ ایک لڑکے کو اتنی بے دردی سے قتل کیا گیا۔چیف جسٹس نے کہاکہ اتنا بڑا واقعہ ہوگیااور پولیس ٹس سے مس نہیں ہوئی،ملزم کا بیان سننے کے بعد بھی گرفتار کیوں نہیں کیا؟پولیس بڑے لوگوں سے ڈرتی ہے۔کیس پرمزیدسماعت7جنوری تک ملتوی کردی گئی۔