میری ناکام سیاست کی کامیابیاں
آج یہ راز بھی آپ کے سامنے افشاں کردیا کہ اپنی عزت بچانے کے لیے ہمیں اغوا کا ڈرامہ بھی رچانا پڑا
گزشتہ دنوں معروف قانون دان و رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر محفوظ یار خان ایڈووکیٹ کی پانچویں کتاب ''میری ناکام سیاست کی کامیابیاں'' کی تقریب رونمائی ہوئی جس میں مہمان خصوصی پسند صوبائی وزیر نثارکھوڑو کے علاوہ ڈاکٹر فاروق ستار اورسابق ججز اوربیوروکریٹس بھی شریک تھے۔
کتاب میں مصنف نے اپنے زمانہ طالب علمی سے لے کر سیاسی زندگی میں پیش آنے والے حالات و واقعات اور اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کے علاوہ نجی و عائلی زندگی کے پہلوؤں کا ذکر بھی کیا ہے۔ بحیثیت کالم نگار ہم نے جب اس کتاب کا مطالعہ کیا اور یہ جانا کہ یہ کتاب عام قاری کے لیے بھی دلچسپ اور کار آمد ہے خاص طور پر عام شہری اورووٹرز کے لیے جو بڑے سادہ اور لاعلم ہوتے ہیں تو اس کتاب پر کالم لکھنے کا ارادہ کیا۔
یہ کتاب بظاہر توڈاکٹر محفوظ یار خان کی یاد داشتوں پر مشتمل ہے لیکن ان ہی یاد داشتوں میں انھوں نے وہ باتیں کہہ دیں ہیں جو کہ عام لوگوں کے علم میں نہیں ہوتی ہیں یعنی سیاست میں پس پردہ حقائق کو انھوں نے آشکار کرنے کی جسارت کی ہے ورنہ عموماً کتاب لکھنے والے اندرون خانہ کے سیاسی معاملات پر سمجھوتہ کرلیتے ہیں اور کھل کر لکھنے سے اجتناب برتتے ہیں۔
اس کتاب میں نہ صرف بہت سے راز فاش کیے ہیں بلکہ کھلے دل سے تسلیم کیاہے اور افسوس کا اظہار بھی کیا ہے کہ خود ان سے بہت سی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں جن پر وہ اﷲ سے توبہ کرتے ہیں اور عوام سے معافی مانگتے ہیں یہ بڑے حوصلے کی بات ہے ورنہ ایسے لوگ اب کم ملتے ہیں جو کھلے دل سے قبول کریں کہ انھوں نے غلط فیصلے کیے یا ان سے غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔
بہرکیف مصنف کی اس کتاب سے قارئین کی دلچسپی سے تعلق رکھنے والے کچھ حصوں کا ذکر یہاں اس کالم میں کیا جارہاہے۔ اپنی پہلی گرفتاری سے متعلق لکھتے ہیں کہ میرے والد شاعر اور بڑے حساس طبیعت کے مالک تھے، میری رہنمائی کرتے تھے لیکن مجھے سلاخوں کے پیچھے دیکھنا نہیں چاہتے تھے لیکن میری والدہ (جب میں 1972 میں پہلی مرتبہ پکڑا گیا) تو مٹھائی کا ڈبہ لے کر تھانے آئیں۔ مجھے گلے لگایا اور SHO چوہدری منیر سے کہنے لگیں آج میرے بیٹے کی بڑی آرزو پوری ہوگئی، وہ کہتے تھے میرے ہاتھ ہتھکڑیوں کو ترس رہے ہیں جب کہ معراج محمد خان، رضوان اور ڈاکٹر رشید حسن پکڑے جاتے ہیں میں اتنا نا اہل ہوں کہ کوئی مجھے پکڑتا ہی نہیں ہے۔ SHO کہنے لگا میری نوکری اور پولیس کی تاریخ میں پہلی خاتون ہے جو بیٹے کے پکڑے جانے پر مٹھائی لائی ہے۔
محفوظ یارخان سینیٹ کے حوالے سے 1986 کا واقعہ لکھتے ہیں کہ ''اس وقت بکنے والے ایم پی ایز کو اپنا ریٹ بھی پتا نہیں تھا، ہم بھی بریف کیس لے کر مارکیٹ میں اترے تھے۔ ایم پی ایز بڑے بڑے سردار تھے۔ ہم دو ایم پی ایز سے ملے تو انھوں نے کہا جناب ہم ووٹ کا ایک ایک لاکھ روپے لیںگے اور پرپوز اور سیکنڈ کرنے کے پانچ پانچ لاکھ روپے لیں گے۔
ہم نے کہا ٹھیک ہے پانچ پانچ لاکھ ہزار روپے کی گڈیوں کی صورت میں ان کے سامنے رکھ دیے وہ شاید بہت ضرورت مند تھے۔ انھوں نے فوراً اٹھالیے اور کاغذات پر دستخط کردیے نہ انھوں نے پوچھا نہ ہم نے بتایاکہ انھوں نے کس شخص کو پرپوز اور سیکنڈ کیا ہے۔ اپنے الیکشن لڑنے کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ''ایک الیکشن ہم نے کورنگی کراچی سے لڑا جس میں عزت بچانے کے لیے اور خبروں میں رہنے کے لیے ہم خود ہی اغوا ہوگئے۔ ہمارے جلسے کے لیے گاڑی نصرت بھٹوصاحبہ نے دی تھی اقبال حیدر ہمارے جلسوں میں شرکت کرتے تھے۔
بے نظیر صاحبہ نے کہا تھا کہ محفوظ ریلی وغیرہ نکالو میں آپ کے ساتھ چلوںگی۔ جلسوں میں نہیں آسکتی سیکیورٹی رسک ہے۔ میرے چیف پولنگ ایجنٹ عاطف خدائی انصاری نے مجھ سے کہاکہ اغوا نہیں ہونا بلکہ اس گاڑی پر ایک دو برسٹ ماردیتے ہیں یہ نصرت بھٹو کی دی ہوئی گاڑی ہے تباہ ہوجائے گی تو اخباروں کی ہیڈ لائن بن جائے گی لیکن ہم نے کہا نہیں یہ رسکی کام ہے ہم خود اغوا ہو جائیں گے یہ زیادہ بہتر ہے چنانچہ الیکشن والے دن صبح دس بجے ہمارے چیف پولنگ ایجنٹ نے میڈیا کو یہ خبر دی کہ محفوظ یار خان ہمارا امیدوار بمعہ گاڑی اور سامان کے اغوا ہوگیا ہے یوں ہم نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا آج یہ راز بھی آپ کے سامنے افشاں کردیا کہ اپنی عزت بچانے کے لیے ہمیں اغوا کا ڈرامہ بھی رچانا پڑا۔''
وکلا تحریک کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اسلام آباد سے وزیر قانون وصی ظفرکا فون آیا کہ یار وکلاء ہمارے خلاف اتنے مظاہرے کررہے ہیں کچھ کرو میں نے کہا چلو دیکھتے ہیں۔ پھر وزیراعلیٰ سندھ ارباب رحیم سے ملاقات ہوئی کہنے لگے ہماری حکومت کے حق میں وکلا کے مظاہرے کراؤ ہم تمام سہولتیں دیں گے۔ میری ان سے بڑی بے تکلفی تھی میں نے کہا میں تو غریب سا کنگلا آدمی ہوں جو کروںگا اپنے دم پر کروں گا۔ کہنے لگے مجھے رزلٹ چاہیے۔ میں نے کہا ایسا رزلٹ دیںگے آپ یاد کریں گے۔ ہم نے لنڈا سے کافی تعداد میں کالے کوٹ خرید کرکارکی ڈگی میں ڈالے، سی ایم ہاؤس گئے وہیں ان پر استری کرائی ہمارے ساتھ تو دو چار وکلا ہی تھے۔
ق لیگ کے لوگوں کو ہم نے ہدایت دی کہ سفید کرتا شلوار یا سفید پینٹ شرٹ پہن کر آئیں۔ کوٹ ٹائی انھیں ہم مہیا کردیںگے ان لوگوں کو لے کر ہم سپریم کورٹ رجسٹری کے فٹ پاتھ پرکھڑے ہوگئے پھر پریس کلب تک مارچ کیا بڑی واہ واہ ہوئی۔ پرویز مشرف سے ملاقات ہوئی تو فرمانے لگے محفوظ یار خان بھئی ہماری طرف سے اتنے وکیل کہاں سے آگئے تھے ۔ ہم نے ہنس کر کہا سر انھیں میں لنڈا بازار سے خریدکر لایا تھا کہنے لگے مطلب؟ میں نے کہا جناب ہم نے پہلا مظاہرہ کیا تو ہمارے پاس صرف 3 اصل وکیل تھے باقی لنڈا کے تھے۔
اسی طرح ایک اور انکشاف کرتے ہیں کہ ''مجھے ٹاسک دیا گیا کہ لائر موومنٹ میں منیر ملک کو شکست دینا ہے پھر ان ریشہ دوانیوں کا ذکرکیا ہے کہ کس طرح کام کیا، گویا تحریک تو کامیاب ہوگئی لیکن اس کے پیچھے ایجنسیوں کا ہاتھ تھا اور ہم ان کے آلہ کار بنے یا استعمال ہوئے۔ تمام لوگوں کی ڈوریاں طاقتور لوگوں کے ہی ہاتھ میں تھیں وہ جس طرح چاہتے تھے ہلاتے تھے۔
آج بھی ڈوریاں ان کے ہاتھ میں ہیں یہ اور بات ہے کہ کسی کوکم اور کسی کو زیادہ ڈھیل دی ہوئی ہے آج بھی سیاسی جماعتوں کے لوگ طاقتور اداروں میں جاتے ہیں کچھ پریس کانفرنس کرکے اور کچھ چپ چاپ رات کی تاریکی میں کہ رات کا اندھیرا ان کی کرتوتوں پر پردہ ڈال دے گا، وہ لکھتے ہیں کہ ''اگر ملک میں کوئی شخص یہ کہتاہے کہ وہ بغیر اسٹیبلشمنٹ سے ملے سیاست کررہاہے تو میری معلومات کے مطابق وہ بہت بڑا جھوٹا ہے۔ ارباب رحیم اور لیاقت جتوئی کی حکومت میں کسی نہ کسی طور پر شامل رہا تو میں نے ایجنسیوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے ان کے ساتھ کام بھی کیا ہے۔''
اس قسم کے بہت سارے دلچسپ واقعات اور چشم کشا انکشافات ڈاکٹرمحفوظ یارخان کی کتاب میں بھرے پڑے ہیں جو پڑھنے والے کے لیے حیرت و دلچسپی اور معلومات میں اضافے کا باعث بنیں گے ۔
کتاب میں مصنف نے اپنے زمانہ طالب علمی سے لے کر سیاسی زندگی میں پیش آنے والے حالات و واقعات اور اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کے علاوہ نجی و عائلی زندگی کے پہلوؤں کا ذکر بھی کیا ہے۔ بحیثیت کالم نگار ہم نے جب اس کتاب کا مطالعہ کیا اور یہ جانا کہ یہ کتاب عام قاری کے لیے بھی دلچسپ اور کار آمد ہے خاص طور پر عام شہری اورووٹرز کے لیے جو بڑے سادہ اور لاعلم ہوتے ہیں تو اس کتاب پر کالم لکھنے کا ارادہ کیا۔
یہ کتاب بظاہر توڈاکٹر محفوظ یار خان کی یاد داشتوں پر مشتمل ہے لیکن ان ہی یاد داشتوں میں انھوں نے وہ باتیں کہہ دیں ہیں جو کہ عام لوگوں کے علم میں نہیں ہوتی ہیں یعنی سیاست میں پس پردہ حقائق کو انھوں نے آشکار کرنے کی جسارت کی ہے ورنہ عموماً کتاب لکھنے والے اندرون خانہ کے سیاسی معاملات پر سمجھوتہ کرلیتے ہیں اور کھل کر لکھنے سے اجتناب برتتے ہیں۔
اس کتاب میں نہ صرف بہت سے راز فاش کیے ہیں بلکہ کھلے دل سے تسلیم کیاہے اور افسوس کا اظہار بھی کیا ہے کہ خود ان سے بہت سی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں جن پر وہ اﷲ سے توبہ کرتے ہیں اور عوام سے معافی مانگتے ہیں یہ بڑے حوصلے کی بات ہے ورنہ ایسے لوگ اب کم ملتے ہیں جو کھلے دل سے قبول کریں کہ انھوں نے غلط فیصلے کیے یا ان سے غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔
بہرکیف مصنف کی اس کتاب سے قارئین کی دلچسپی سے تعلق رکھنے والے کچھ حصوں کا ذکر یہاں اس کالم میں کیا جارہاہے۔ اپنی پہلی گرفتاری سے متعلق لکھتے ہیں کہ میرے والد شاعر اور بڑے حساس طبیعت کے مالک تھے، میری رہنمائی کرتے تھے لیکن مجھے سلاخوں کے پیچھے دیکھنا نہیں چاہتے تھے لیکن میری والدہ (جب میں 1972 میں پہلی مرتبہ پکڑا گیا) تو مٹھائی کا ڈبہ لے کر تھانے آئیں۔ مجھے گلے لگایا اور SHO چوہدری منیر سے کہنے لگیں آج میرے بیٹے کی بڑی آرزو پوری ہوگئی، وہ کہتے تھے میرے ہاتھ ہتھکڑیوں کو ترس رہے ہیں جب کہ معراج محمد خان، رضوان اور ڈاکٹر رشید حسن پکڑے جاتے ہیں میں اتنا نا اہل ہوں کہ کوئی مجھے پکڑتا ہی نہیں ہے۔ SHO کہنے لگا میری نوکری اور پولیس کی تاریخ میں پہلی خاتون ہے جو بیٹے کے پکڑے جانے پر مٹھائی لائی ہے۔
محفوظ یارخان سینیٹ کے حوالے سے 1986 کا واقعہ لکھتے ہیں کہ ''اس وقت بکنے والے ایم پی ایز کو اپنا ریٹ بھی پتا نہیں تھا، ہم بھی بریف کیس لے کر مارکیٹ میں اترے تھے۔ ایم پی ایز بڑے بڑے سردار تھے۔ ہم دو ایم پی ایز سے ملے تو انھوں نے کہا جناب ہم ووٹ کا ایک ایک لاکھ روپے لیںگے اور پرپوز اور سیکنڈ کرنے کے پانچ پانچ لاکھ روپے لیں گے۔
ہم نے کہا ٹھیک ہے پانچ پانچ لاکھ ہزار روپے کی گڈیوں کی صورت میں ان کے سامنے رکھ دیے وہ شاید بہت ضرورت مند تھے۔ انھوں نے فوراً اٹھالیے اور کاغذات پر دستخط کردیے نہ انھوں نے پوچھا نہ ہم نے بتایاکہ انھوں نے کس شخص کو پرپوز اور سیکنڈ کیا ہے۔ اپنے الیکشن لڑنے کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ''ایک الیکشن ہم نے کورنگی کراچی سے لڑا جس میں عزت بچانے کے لیے اور خبروں میں رہنے کے لیے ہم خود ہی اغوا ہوگئے۔ ہمارے جلسے کے لیے گاڑی نصرت بھٹوصاحبہ نے دی تھی اقبال حیدر ہمارے جلسوں میں شرکت کرتے تھے۔
بے نظیر صاحبہ نے کہا تھا کہ محفوظ ریلی وغیرہ نکالو میں آپ کے ساتھ چلوںگی۔ جلسوں میں نہیں آسکتی سیکیورٹی رسک ہے۔ میرے چیف پولنگ ایجنٹ عاطف خدائی انصاری نے مجھ سے کہاکہ اغوا نہیں ہونا بلکہ اس گاڑی پر ایک دو برسٹ ماردیتے ہیں یہ نصرت بھٹو کی دی ہوئی گاڑی ہے تباہ ہوجائے گی تو اخباروں کی ہیڈ لائن بن جائے گی لیکن ہم نے کہا نہیں یہ رسکی کام ہے ہم خود اغوا ہو جائیں گے یہ زیادہ بہتر ہے چنانچہ الیکشن والے دن صبح دس بجے ہمارے چیف پولنگ ایجنٹ نے میڈیا کو یہ خبر دی کہ محفوظ یار خان ہمارا امیدوار بمعہ گاڑی اور سامان کے اغوا ہوگیا ہے یوں ہم نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا آج یہ راز بھی آپ کے سامنے افشاں کردیا کہ اپنی عزت بچانے کے لیے ہمیں اغوا کا ڈرامہ بھی رچانا پڑا۔''
وکلا تحریک کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اسلام آباد سے وزیر قانون وصی ظفرکا فون آیا کہ یار وکلاء ہمارے خلاف اتنے مظاہرے کررہے ہیں کچھ کرو میں نے کہا چلو دیکھتے ہیں۔ پھر وزیراعلیٰ سندھ ارباب رحیم سے ملاقات ہوئی کہنے لگے ہماری حکومت کے حق میں وکلا کے مظاہرے کراؤ ہم تمام سہولتیں دیں گے۔ میری ان سے بڑی بے تکلفی تھی میں نے کہا میں تو غریب سا کنگلا آدمی ہوں جو کروںگا اپنے دم پر کروں گا۔ کہنے لگے مجھے رزلٹ چاہیے۔ میں نے کہا ایسا رزلٹ دیںگے آپ یاد کریں گے۔ ہم نے لنڈا سے کافی تعداد میں کالے کوٹ خرید کرکارکی ڈگی میں ڈالے، سی ایم ہاؤس گئے وہیں ان پر استری کرائی ہمارے ساتھ تو دو چار وکلا ہی تھے۔
ق لیگ کے لوگوں کو ہم نے ہدایت دی کہ سفید کرتا شلوار یا سفید پینٹ شرٹ پہن کر آئیں۔ کوٹ ٹائی انھیں ہم مہیا کردیںگے ان لوگوں کو لے کر ہم سپریم کورٹ رجسٹری کے فٹ پاتھ پرکھڑے ہوگئے پھر پریس کلب تک مارچ کیا بڑی واہ واہ ہوئی۔ پرویز مشرف سے ملاقات ہوئی تو فرمانے لگے محفوظ یار خان بھئی ہماری طرف سے اتنے وکیل کہاں سے آگئے تھے ۔ ہم نے ہنس کر کہا سر انھیں میں لنڈا بازار سے خریدکر لایا تھا کہنے لگے مطلب؟ میں نے کہا جناب ہم نے پہلا مظاہرہ کیا تو ہمارے پاس صرف 3 اصل وکیل تھے باقی لنڈا کے تھے۔
اسی طرح ایک اور انکشاف کرتے ہیں کہ ''مجھے ٹاسک دیا گیا کہ لائر موومنٹ میں منیر ملک کو شکست دینا ہے پھر ان ریشہ دوانیوں کا ذکرکیا ہے کہ کس طرح کام کیا، گویا تحریک تو کامیاب ہوگئی لیکن اس کے پیچھے ایجنسیوں کا ہاتھ تھا اور ہم ان کے آلہ کار بنے یا استعمال ہوئے۔ تمام لوگوں کی ڈوریاں طاقتور لوگوں کے ہی ہاتھ میں تھیں وہ جس طرح چاہتے تھے ہلاتے تھے۔
آج بھی ڈوریاں ان کے ہاتھ میں ہیں یہ اور بات ہے کہ کسی کوکم اور کسی کو زیادہ ڈھیل دی ہوئی ہے آج بھی سیاسی جماعتوں کے لوگ طاقتور اداروں میں جاتے ہیں کچھ پریس کانفرنس کرکے اور کچھ چپ چاپ رات کی تاریکی میں کہ رات کا اندھیرا ان کی کرتوتوں پر پردہ ڈال دے گا، وہ لکھتے ہیں کہ ''اگر ملک میں کوئی شخص یہ کہتاہے کہ وہ بغیر اسٹیبلشمنٹ سے ملے سیاست کررہاہے تو میری معلومات کے مطابق وہ بہت بڑا جھوٹا ہے۔ ارباب رحیم اور لیاقت جتوئی کی حکومت میں کسی نہ کسی طور پر شامل رہا تو میں نے ایجنسیوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے ان کے ساتھ کام بھی کیا ہے۔''
اس قسم کے بہت سارے دلچسپ واقعات اور چشم کشا انکشافات ڈاکٹرمحفوظ یارخان کی کتاب میں بھرے پڑے ہیں جو پڑھنے والے کے لیے حیرت و دلچسپی اور معلومات میں اضافے کا باعث بنیں گے ۔