ہربھجن کور کا ناقابل یقین قصہ
فسادات کی جگہ پر واپس آکر دھرم کور نے اپنے رشتہ داروں کی لاشیں دیکھیں
تقسیم کو 70 برس گزر گئے۔ ایسے میں خیال بھی نہیں آتا کہ اس عظیم نقل مکانی کے اتنے دنوں بعد بھی اس خونیں اتھل پتھل کا شکار ہونے والی کچھ عورتیں ابھی زندہ ہوں گی اور جن رشتوں اور گھروں سے وہ بچھڑ گئی تھیں، اس صدمے کی گرم راکھ ابھی تک ان کے سینوں کو جلاتی ہوگی۔ یہ خیال اکثر آتا ہے لیکن پھر میں اسے جھٹک دیتی ہوں۔ ہمارے یہاں کی بھی کئی عورتیں اسی بلائے ناگہانی کا شکار ہوئیں اور ان آفت زدوں کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا، کون جان سکتا ہے۔
چند دنوں پہلے انگریزی کے ایک معاصر میں ایک ایسی ہی داستان نظر سے گزری جسے سعدیہ قمر نے ڈھونڈا۔ ہربھجن کور جو ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئی، کم عمری میں ہی ایک سردار سے بیاہی گئی۔ تقسیم ہوئی تو وہ اس وقت لاہور میں تھی، گھر والوں کے ساتھ کارواں کی شکل میں امرتسر کی طرف گرتی پڑتی چلی، راستے میں حملہ ہوا، ساتھ والے مارے گئے، ہربھجن کور اور چند سکھ لڑکیاں قتل ہونے سے بچ گئیں۔
مال غنیمت میں آنے والی لڑکیوں اور عورتوں کا جو حشر ہوتا ہے، وہ ان کا بھی ہوا۔ ہربھجن کور کو مسلمان کرکے نام شہناز بیگم رکھا گیا اور کوہاٹ میں اس کا نکاح 16 برس بڑے ایک شخص افضل خان سے پڑھوا دیا گیا۔ شادی کے فوراً بعد دونوں میاں بیوی کراچی کے علاقے کوئیلہ گودام میں آگئے۔
اس دوران شہناز کے چھ بچے ہوئے۔ 1962ء میں ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں نے جب ویزا کی پابندیاں نرم کیں تو افضل خان، شہناز بیگم (ہربھجن کور) کو لے کر اس کے آبائی قصبے گیا۔ باپ اور بیٹی کی ملاقات ہوئی تو باپ نے یہ ماننے سے انکار کردیا کہ اس کی بیٹی شہناز کے نام سے کسی مسلمان کے گھر میں رہ سکتی ہے۔ جھگڑا اتنا بڑھا کہ افضل خان کو اپنے بچے لے کر پاکستان واپس آنا پڑا۔
شہناز بیگم نے بہت کوشش کی کہ وہ دو سالہ بیٹے رضوان کو اپنے پاس رکھ سکے لیکن افضل خان اس کے لیے راضی نہ ہوا اور وہ بیٹا لے کر پاکستان واپس چلا گیا۔ اب شہناز بیگم کے سامنے ایک اور عذاب کھڑا تھا۔ وہ باپ اور برادری کے رحم و کرم پر تھی، ایک بار پھر وہ ہربھجن کور بن گئی اور اس کی شادی ایک سکھ شاعر گربچن سنگھ سے ہوگئی، جس کا پہلی شادی سے ایک پانچ سالہ بیٹا رومی تھا۔ ہربھجن کور نے اسے اپنے رضوان کا نعم البدل سمجھا اور کلیجے سے لگا لیا۔ وہ کہتی ہے کہ میں ہر رات سونے سے پہلے اپنے بچوں کو نام بہ نام یاد کرتی جیسے تسبیح پڑھی جاتی ہے لیکن میرے دل کو قرار نہ آتا۔
رومی پڑھ لکھ کر 1989ء میں امریکا چلا گیا اور کچھ ہی دنوں بعد اس نے اپنے باپ اور سوتیلی ماں کو امریکا بلالیا۔ یہ گھرانا امریکا میں رہتا رہا کہ 2007ء میں گربچن سنگھ کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد رومی نے اپنی سوتیلی ماں سے کہا کہ وہ اس کے کھوئے ہوئے بچوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کرسکتا ہے۔ یہ ایسی ہی بات تھی جیسے کوئی اندھے کو بینائی بخش دینے کی پیشکش کرے۔
رومی نے پاکستان کے ایک اردو اخبار میں اشتہار دیا۔ تقدیر اس مرتبہ ہربھجن کور پر مہربان تھی۔ وہ اشتہار رضوان کے باس کی نظر سے گزرا اور چونکہ وہ رضوان کی کہانی جانتا تھا اس لیے اس نے فوراً رضوان کو اس اشتہار کے بار ے میں بتایا۔ آخرکار 9 فروری 2013ء کو سکائپ کے ذریعے ہربھجن کور کی اپنے چند بچوں سے ملاقات ہوئی۔
ہم تصور کرسکتے ہیں کہ اکیاون برس بعد ماں نے جب اپنے بچوں کو دیکھا ہوگا تو اس کی اور بچوں کی کیا حالت ہوئی ہوگی۔ ہربھجن کور کا اپنے بچوں سے ملنا قصہ سوتے جاگتے کا ہے جس پر یقین نہیں آتا۔ لیکن سچ یہی ہے۔ ہربھجن کور کے بارے میں خبر ہے کہ وہ کراچی آئے گی، کتابوں کے ایک جشن میں اپنی ناقابلِ یقین کہانی سنائے گی۔ وہ بہت خوش نصیب ہے۔ لیکن لاکھوں بچھڑنے والیوں کے حصے میں ایسی خوش بختی نہ آئی۔
کتابوں کے اس میلے میں جہاں ہربھجن سنگھ کے ہونے کا امکان ہے، وہیں امکانی طور پر ہمارے برصغیر کی ایک معروف لکھنے والی اروشی بٹالیہ بھی ہوں گی۔ میں نے ''امکانی طور پر'' اس لیے لکھا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان بروقت ویزا کا مل جانا جوئے شیر نکالنے کے مترادف ہوتا ہے۔ اروشی بٹالیہ کا میں اس لیے ذکر کررہی ہوں کہ انھوں نے اب سے کئی برس پہلے ایک کتاب The Other Side of Silence لکھی تھی جو برصغیر کی تقسیم کے وقت بچھڑ جانے والی عورتوں پر ایک سند ہے۔
اروشی نے 350 صفحوں کی اس کتاب کے آخر میں لکھا ہے کہ ابھی تک بہت کچھ پردۂ اسرار میں ہے۔ سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ کیمپوں میں چھوڑے جانے والے بچوں میں اکثریت بچیوں کی تھی اور کام کی زیادتی سے انھیں اپنانے والوں کی جانچ پڑتال کرنا مشکل تھا۔ چنانچہ بہت سی نوجوان لڑکیوں کو یا تو گھریلو نوکرانیاں بننا پڑا یا طوائف۔ اس طرح اس ساری نسل کی تعداد بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے جو مصنفہ کرشنا سوبتی کے بقول تقسیم پر قربان کر دی گئی۔
گھر اور تعلیمی ادارے لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے بنائے گئے لیکن جب وہاں سے رخصت ہونے اور اپنی آزاد زندگی بنانے کا وقت آیا تو یہ لڑکے تھے جو لڑکیوں کی نسبت آسانی سے ایسا کرسکنے میں کامیاب رہے۔ لڑکیوں میں سے بعض کی شادی آشرم کے حکام نے کروا دی اور وہ اپنی زندگی آپ گزارنے کے قابل ہوگئیں، لیکن بہت سوں کی زندگی کی تو شکل ہی تقسیم نے بدل ڈالی۔
اپنے بچوں کو کھودینے والے بہت سے والدین نے اس وقت انھیں تلاش کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے درخواستیں دیں۔ رپورٹیں درج کرائیں۔ پیغامات بھیجے۔ ان میں سے کچھ کورو کشیتر کے گاؤں ڈیرہ دھوپ سڑی کی دھرم کور کی طرح خوش نصیب تھے۔ تقسیم کے فسادات میں اس کے کئی رشتہ دار مارے گئے۔
فسادات کی جگہ پر واپس آکر دھرم کور نے اپنے رشتہ داروں کی لاشیں دیکھیں مگر ان میں اس کی بیٹی مہندر کور کی لاش نہیں تھی۔ اسے پتہ نہیں تھا کہ مہندر کور کو ایک نیک دل کرسچن عورت گریس نامی نرس اٹھا کر لے گئی ہے اور ایک یتیم خانے میں داخل کرا دیا ہے۔ وہاں وہ انور صدیقہ کے نام سے رہ رہی تھی۔ کئی برس بعد جب اس کی شادی ہوئی تو گریس نے اس 'صدیقہ' کی کہانی سنا دی۔
ایک دن اپنی لڑکی عظمت کے ساتھ بس میں سفر کرتے ہوئے صدیقہ نے خود کو ایک سکھ کے پاس بیٹھے ہوئے پایا۔ جس طرح کہ بچوں کی عادت ہے، بچی نے سکھ کو چھوا اور کسی نامعلوم وجہ کے باعث اسے ماموں کہہ کر پکارا۔ اس موقع پر صدیقہ سے رہا نہ جاسکا اور اس نے اس بوڑھے کو اپنی کہانی سنادی۔ نرنجن سنگھ جسے ایسے لگا تھا کہ اس کی طویل عرصے سے لاپتہ بہن اسے مل گئی ہے، اس نے مدد کا وعدہ کیا۔ بھارت واپسی پر اسے پتہ چلا کہ لوبان والا کے مہاجر کورو کشیتر میں آکر آباد ہوئے ہیں جو اس کے گھر کے قریب تھا۔
نرنجن ہر روز بس پر سوار ہوتا اور اعلان کرتا: ''میں پاکستان سے آیا ہوں، جہاں ایک عورت اپنی ماں کو بہت یاد کرتی ہے۔ اگر آپ میں سے کوئی لوبان والا کا سکھ ہے تو مہربانی کرکے کھڑا ہوجائے۔'' یہ ترکیب کامیاب رہی۔ ڈھنڈورچیوں کے ذریعے، جس کی وجہ سے تقسیم کے بعد بہت سے بچھڑے ہوؤں کا ملاپ ہوا، نرنجن کو معلوم ہوا کہ صدیقہ کے والدین تقسیم کے فسادات میں بچ گئے تھے اور ڈیرہ دھوپ سڑی میں جابسے تھے جو کوروکشیتر کے مضافات میں ایک چھوٹی سی بستی ہے۔
نرنجن سنگھ وہاں ایک رات کوئی اعلان کیے بغیر صدیقہ کا ایک خط لے کر دھرم کور کے گھر جا پہنچا۔ خط میں لکھا ہوا تھا: ''میں مہندر کور دختر جاوند سنگھ زندہ ہوں...''، پھر کچھ برس بعد صدیقہ دھوپ سڑی پہنچنے میں کامیاب ہوگئی اور اپنی ماں سے ملی۔ اس کی ماں نے پاکستان جاکر اپنی نواسی کی شادی میں شرکت کی لیکن دھرم کور اور صدیقہ کی طرح ہر کوئی خوش نصیب نہیں تھا۔
اروشی کی کتاب 350 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میںوہ واقعات ہیں جنھیں پڑھ کر دل کے ٹکڑے ہوتے ہیں۔ دو برس کے بچے، آٹھ، دس اور بارہ برس کی بچیاں جن کے سرپر آسمان نہ تھا اور زمین انھیں ایک باعزت زندگی گزارنے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ ان ہزاروں لاکھوں پر جو گزری ہم اس سے منہ موڑ کر گزر جاتے ہیں۔ پھر بھی ہم شاید یہ تو کرسکتے ہیں کہ دونوں طرف کے پارلیمانی لیڈر، سوشل ورکر، صحافی اور دل میں درد رکھنے والے مل کر بیٹھیں اور اپنی اپنی حکومتوں سے التجا کریں کہ وہ 47ء کی نقل مکانی میں برباد ہوجانے والیوں اور مردوں کو اس بات کی اجازت دیں کہ اگر ایسے لوگ اپنے خاندان یا اپنے بچھڑنے والے بچوں کو ڈھونڈنے کے لیے ادھر یا اُدھر جانا چاہتے ہیں تو انسانی ہمدردی کی بنا پر دونوں حکومتیں فراخ دلی کا مظاہرہ کریں اور ا ن لوگوں کے لیے سرحدوں کی پابندیاں ختم یا کم از کم نرم کردیں۔ موت بیشتر کو نوالہ بنا چکی، اب چند ہزار لوگ ہی بچ گئے ہوں گے۔ آخری سانسوں میں ان کی آنکھیں دروازے کو نہ تک رہی ہوں۔ دم واپسیں ان کی آنکھوں میں کسی عزیز رشتے کا چہرہ ہو۔