سب اندھے ہیں…
سواں کا پل پار کرتے ہی ٹریفک کا اژدہام بڑھ جاتا ہے
KARACHI:
سواں کا پل پار کرتے ہی ٹریفک کا اژدہام بڑھ جاتا ہے کیونکہ سڑک کو وسعت دینے کی خاطر باری باری اس کی لین بند کر کے ناطقہ تقریبا بند ہی کیا ہوتا ہے- کچھ تو سڑک کی حالت ایسی، پھر اس پر ہر کوئی اپنے ٹھکانے پر جلد پہنچنے کے خبط میں مبتلا- مسافروں سے بھری اس ویگن کا ڈرائیور اپنی سواری کو اڑا رہا تھا- ہم دل ہی دل میں کئی آیتوں اور سورتوں کا ورد کر رہے تھے اور اس وقت نہ ترتیب یاد تھی نہ مشکل حالات میں پڑھی جانے والی دعائیں-
بحریہ ٹاؤن کا مین گیٹ پار کرنے ہی والے تھے کہ اچانک ایک موٹر سائیکل والا، راکٹ کی رفتار سے بحریہ ٹاؤن کے اندر سے نکلا اور آؤ دیکھا نہ تاؤ... نہ اشارہ نہ رفتار پر کوئی کنٹرول!! نظر آ رہا تھا کہ وہ ہمارے والی ویگن کے نیچے آ کر کچلا جانے والا تھا- ڈرائیور نے شاید آنکھیں بند کر کے، اپنی پوری طاقت سے بریک لگانے کی بھر پور کوشش کی اور ویگن کو اتنا دائیں طرف لے گیا کہ پیچھے آ نے والی درجنوں گاڑیوں کے بریک چیخے- ہماری وین کے ٹائروں سے اس بھر پور بریک کی نتیجے میں ٹائر جلنے کی بواور دھواں پھیل گیا۔
یہ موٹر سائیکل بھی حسب معمول کسی قسم کے آئینے سے محروم تھا اور اسے چلانے والے نے اتنی تیز رفتار سے آنے والی گاڑیوں کی سڑک پر قدم رنجہ فرمانے سے پہلے رک کر یہ دیکھنے کی زحمت بھی نہ کی تھی کہ اسے سڑک پرآنا بھی چاہیے کہ نہیں- موٹر سائیکل عوام کے لیے سستی سواری جہاں ایک سہولت ہے مگر اسے چلانے والے اپنی زندگی جیسے گروی رکھ کر اور گھر والوں کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ کر نکلتے ہیں- جیسے ان کے لیے ٹریفک قوانین موجود ہی نہیں ہیں- ایسے میں جب انھیں کسی گاڑی، وین، بس یا ٹرک سے ٹکرا کر کچھ ہو ہوا جاتا ہے تو لوگ سارا مدعا گاڑیوں کے ڈرائیوروں پر ڈال کر انھیں سڑک پر ہی زد و کوب کرنا شروع کر دیتے ہیں... انتہائی نقصان ہو جانے کے بعد، لواحقین حادثے کی ذمے دار گاڑی کے علاوہ باقی گاڑیوں اور دوسری املاک کی توڑ پھوڑ کرنے اور سڑک کو بند کر دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
مذکورہ موٹر سائیکل سوار... ویگن کے انتہائی بائیں جانب زور سے ٹکرایا، دھماکہ نما آواز پیدا ہوئی!!! ٹکرا کر وہ خود موٹر سائیکل سمیت سڑک پر اور اس کا ہیلمٹ اس کے سر سے اتر کر، اڑتا ہوا کئی گز دور جا گرا۔ ہماری سانسیں اوپر کی اوپر اورنیچے کی نیچے رہ گئیں، ہم سب سوچنے سے بھی مفلوج ہو گئے تھے کہ کیا کریں- اس صورت حال میں جس کا دماغ کام کر رہا تھا وہ غالباً صرف اس ویگن کا ڈرائیور تھا جس نے اپنی سمت کا دروازہ کھولا، گاڑی سے باہر چھلانگ لگائی اور گولی کی رفتار سے یہ جا وہ جا۔ کسی کو سمجھ میں ہی نہ آیا تھا کہ اسے روکتا، کیونکہ پیچھے آنے والی گاڑیوں کے ڈرائیور انجانے میں ہارن پر ہارن بجا رہے تھے- ویگن کے سڑک پر عمودی انداز میں آ جانے سے وہ ڈرائیور حضرات یہ دیکھنے سے محروم تھے کہ آگے کا منظر کیا ہے۔
چھوٹے بچوں کی شرارتوں میں بڑی سادگی اور معصومیت ہوتی ہے... شرارتی بچوں کا پورا گروپ محلے کے کسی گھر کی گھنٹی بجا کربھاگنے کا منصوبہ بناتا تھا، ایک بچے کی ذمے داری ہوتی تھی کہ وہ گھنٹی بجائے اور باقی سارے ارد گرد موجود ہوتے- لوگوں کے آرام کا وقت ہوتا تو تیز تیز اور باربار گھنٹی بجا کر اندر کی چاپ پر کان لگا دیے جاتے- جونہی قدموں کی چاپ بیرونی دروازے کے قریب آتی تو باہر کھڑے سب بچے نعرہ مار کر بھاگ کھڑے ہوتے۔ اندر سے چڑے ہوئے غصیلے انکل مغلظات کا طوفان منہ سے نکالتے باہر نکلتے، بھاگتے ہوئے بچوں میں سے جس کی بھی گردن ہاتھ میں آ جاتی اسی کا بھرکس نکال دیتے۔ بچپن سے ہی سکھایا جاتا ہے کہ جہاں کسی کی غلطی سے کچھ ہو جائے وہاں سے دائیں بائیں دیکھ کر نکل لو... جو پکڑے گئے تو پھر نجات نہیں۔
اس ڈرائیور سے ان حالات میں اور کیا توقع کی جا سکتی ہے جس ملک میں بڑے بڑے عہدوں پر اور حکومتی عہدوں پربراجمان لوگ جب دیکھتے ہیں کہ گھیرا تنگ ہو رہا ہے اور اگلے لمحے پکڑے جا سکتے ہیں، فورا کسی بیماری کا بہانہ کرتے ہیں اور اگلی پرواز سے کسی ایسے ملک میں جا بسیرا کرتے ہیں جو ان کی میزبانی کرنے کو مرا جا رہا ہوتا ہے۔
'' اوئے کوئی اس کو روکو...
اوہ نس گیا جے...
کوئی پکڑو اس ... کو!!
اندر بیٹھے مسافر چیخ رہے تھے کیونکہ صرف انھی کو سمجھ میں آیا تھا کہ وین کا ڈرائیور بھاگا کیوں تھا- باہر سے لوگ اپنی اپنی گاڑیوں سے نکل کر متاثرہ موٹر سائیکل والے کی طرف بھاگے، اسے موٹر سائیکل کے نیچے سے نکالا، اٹھایا اور تقریبا گھسیٹتے ہوئے اسے سڑک کے کنارے کی طرف لے جانے لگے- ہم ویگن کے مسافر بے بسی سے بیٹھے کے بیٹھے رہ گئے، ہمارا قصور یہ تھا کہ ہم اس ویگن میں تھے جس سے ابھی چند لمحے پہلے اس نوجوان کی موٹر سائیکل ٹکرائی تھی- اللہ کا شکر ہے کہ اس کی جان بچ گئی تھی، مگر وہ ڈرائیور تو یہ سمجھ کر بھاگ گیا تھا کہ ہو نہ ہو بندہ گیا۔
اگر خدا نخواستہ اس موٹر سائیکل والے کو اس کی اپنی غلطی ہی کے نتیچے میں کچھ ہو ہوا جاتا تووہ لوگ جو گاڑیوں میں تھے یا سڑک پر، کسی نے یہ نہ سوچنا تھا کہ قصور کس کا تھا اور ویگن کے ڈرائیور نے اسے بچانے کے لیے کیا کوشش کی ہو گی، سب نے مل کر اس ڈرائیور کا بھرکس نکال دینا تھا ۔
'' شکر ہے کہ بندہ بچ گیا ہے...'' ہماری ویگن کے اندرسے پہلا کلمہ شکر بلند ہوا تو سب نے شکر کا کلمہ پڑھا۔
'' ہمیں کہاں یوں بیچ سڑک کے لاوارث چھوڑ کر چلاگیا ہے یہ مائی کا لال؟؟'' ایک اور آواز آئی۔
''( یہ تو یوں بھاگا ہے جس طرح باجی مریم اپنے باپ کو چھوڑکر اپنے شوہر اور بچوں سمیت لندن بھاگ گئی ہے)'' کسی من جلے نے تبصرہ کیا تو وین کے اندرہنسی کا فوارہ چھوٹا۔
''جب اپنی جان اور اپنی دولت بچانے کا معاملہ ہو تو سارے رشتے اور رشتے دار پس پشت چلے جاتے ہیں!!''
'' فکر نہ کریں جناب، کوئی کسی کو چھوڑ کر نہیں بھاگا- پہلے سے سارا منصوبہ تیار ہو گا، سامان جا چکا ہو گا، دولت پہلے سے ہی ملک سے باہر ہے... قسط وار سارے ہی بھاگ جائیں گے!!'' ایک اور تبصرہ۔
سارے ہی ماہر تبصرہ نگار اس وین میں بیٹھے تھے- ان کی بد قسمتی یا ہماری خوش قسمتی کہ ان میں سے کسی کو بھی ٹیلی وژن پر آنے کا موقع نہ ملا تھا۔
گھر پہنچ کر بھی رات گئے تک اس حادثے کا منظر مجھے بار بار یاد آتا رہا- میں ان والدین کی غفلت کا سوچتی ہوں جنہوں نے چھوٹے چھوٹی عمروں کے بچوں کو یہ خطرناک سواری لے دی ہے- بہت سے منچلے شوقینی اور مستی کے لیے اس سواری کا استعمال کرتے اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا عمر بھر کے لیے کسی محتاجی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
کسی بھی سواری کا اسٹیرنگ جب آپ کے ہاتھ میں آتا ہے تو نہ صرف آپ کی اپنی بلکہ آپ کے علاوہ سڑک پر پیدل چلنے والوں، دوسری گاڑیوں کے ڈرائیوروں اور مسافروں کی زندگیوں کی ضمانت کا راز آپ کی محتاط ڈرائیونگ میں مضمر ہے۔ہمارے ڈرائیونگ کے استاد کہتے تھے کہ جب تم گاڑی لے کر سڑک پر آنا تو سمجھنا کہ صرف تمہارے پاس آنکھیں ہیں، باقی سب اندھے ہیں!! یہ اتنا پرانا سبق میں آج تک نہیں بھولی۔ مگر اب لگتا ہے کہ جو کچھ انھوں نے سڑک پردوسری گاڑیوں کے چلانے والوں کے لیے تصور کرنے کو کہا تھا... وہ واقعی ایک حقیقت بن گیا ہے!!