مسلم حکمرانوں کی بے حسی
نہتے کشمیری نوجوانوں کو دن دہاڑے اغوا کرکے ان پر بہیمانہ تشدد کیا جاتا ہے
اُمتِ مسلمہ کے حکمرانو! ذرا اپنے افکارواعمال پرنظرثانی کے لیے تھوڑا سا وقت نکال کر سوچیں کہ آپ کے مسلمان بھائی کفارونصاریٰ کے ہاتھوں ظلم کی چکی میں پسے جارہے ہیں ہر روز انھیں آگ میں جھونکا جاتا ہے۔ان کی کھال جل رہی ہے اور ہڈیاں چٹخ چٹخ کر آپ کو آواز دے رہی ہیں، المدد، المدد کی صدائیں بلند ہورہی ہیں، ننھے بچے ماؤں سے بچھڑچکے ہیں، ان کے حلق خشک ہوچکے ہیں اور وہ بے یارومددگار موت کی وادیوں میں اترگئے ہیں۔
بے شمار بے گوروکفن لاشے جانوروں کی غذا بن گئے ہیں، یہ لاشیں ان پھول جیسے بچوں کی ہیں جوکبھی موسم بہارکا حصہ تھے۔ان کے گھراورآنگن ان کی شرارتوں اورمترنم قہقہوں سے گونجتے تھے، وہ اپنے والدین کے دل کا قرار اورآنکھوں کی ٹھنڈک تھے۔
اپنی ماں کی محبت بھری چھاؤں اور بابا کے تحفظ اور شفقت کے پیڑ تلے جیون کے دن بسرکرتے ہوئے عمر اور تعلیم کے اعتبار سے آگے ہی آگے بڑھتے جارہے تھے لیکن ان ننھی جانوں کو مقتل میں لے جایا گیا، لے جانے اورانھیں ذبح کرنے والے بھی انسان اور حضرت آدمؑ کے بیٹے تھے اگر مذہب، نسل جدا تھی توکیا ہوا خون تو سب کا سرخ اور جذبات و احساسات یکساں تھے لیکن نفرت و تعصب کے اس جذبے نے جو انھیں اپنے آبا واجداد سے ورثے میں ملا تھا انھیں درندہ بنادیا۔
ان درندوں نے مسلمانوں کے سروں کی فصلیں کاٹنی شروع کردیں اور انسانوں کے بہتے ہوئے لہوکو پوری دنیا نے دیکھا ان میں کثرت سے مسلمان بھی شامل ہیں اور یہ مسلمان کمزور اور بے بس ہیں اورجو مسلم حکمران طاقتور ہیں لیکن افسوس طاقت ہونے کے باوجود خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ بھائی، بھائی اور اخوت و اتحاد کا سبق بھلا بیٹھے ہیں۔
سعودی فرمانرواں شاہ فیصل اور ذوالفقارعلی بھٹو کے دور حکومت میں اسلامی سربراہ کانفرنسیں منعقد ہوا کرتی تھیں۔ اس عمل سے غیر مسلموں پر خوف طاری ہوجانا فطری بات تھی وہ غیر منصفانہ اور ظالمانہ رویہ اپناتے ہوئے بارہا سوچتے تھے لیکن مظالم اور نفرت کی بیل پھیلتی ہی رہی جب سے دنیا وجود میں آئی ہے چھوٹی، بڑی جنگیں جاری ہیں۔ سپر پاور اپنی طاقت کا مظاہرہ بے بس ومجبور لوگوں کے سروں پر بم گرا کر کرتی ہیں، ایسے واقعات ہر صدی میں رونما ہوئے ہیں۔
عراق، افغانستان میں اور ذرا دور چلے جائیں تو عالمی جنگیں اور ان کی تباہی اور آگے بڑھیں تو ہلاکو خان مسلمانوں کی ہلاکت کا استعارہ بن کر آگے بڑھتا چلا گیا۔ اس نے بغداد کے آخری تاجدار معتصم باﷲ کو گھوڑے کے پاؤں تلے روند کر قتل کروایا تھا۔ اس کے بعد بغداد میں 90 ہزار مسلمانوں کا باقاعدہ قتل کیا گیا۔ صلیبی جنگیں، بغاوتیں، اسلامی فتوحات، واقعہ کربلا، شام ودمشق الغرض دنیا کے ہرخطے میں مسلمانوں پر مصائب کا طوفان انھیں غرقاب کرتا اور شہادت کے درجے پر پہنچاتا رہا۔
پچھلے سالوں سے بلکہ صدیوں سے روہنگیا (برما) میں مسلمانوں کی نسل کشی اوران کی جان و مال، عزت ووقارکا جنازہ سرِ راہ وسر بازار نکالا جارہا ہے۔ دنیا کی مظلوم و بے کس اقلیت میں ان کا شمارہوتا ہے اوریہ ستم 1559ء سے جاری وساری ہے۔ 1782ء میں ظالم بادشاہ بودھایا نے مسلم آبادی کے مسلمان علمائے کرام کو حرام گوشت کھانے کا حکم دیا اور انکار پر سب کو قتل کرادیا۔
اس وقت بھی مسلم حکمران خاموش رہے، جیسے ان مقتولین سے ان کا دور دورکا واسطہ بھی نہیں ہے۔ جب کہ مسلم حکمرانوں کے برعکس ہلاکو خان کا دور اقتدار دیکھتے ہیں تو وہ اور اس کے دستے جہاں سے گزرتے مساجدکو آگ لگاتے اورگرجاؤں کا احترام کرتے، اس کی وجہ ہلاکو خان کی ملکہ دوقوز کا تعلق عیسائی مذہب سے تھا۔
بہر حال برما کی تاریخ سے ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ علمائے دین کے قتل کے بعد برما میں سات روز تک سورج نہیں نکلا اور اس وقت طلوع ہوا جب بدبخت بادشاہ نے اپنے گناہوں کا اعتراف کرکے معافی مانگی اور برما کو برطانیہ سے جنگ کے بعد آزادی نصیب ہوئی تو مسلمانوں کو غدار قرار د ے کر ان کا قتل عام شروع کر دیا گیا اور 1962ء سے 1982ء تک وقفے وقفے سے تقریباً ایک لاکھ مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔
یہ سلسلہ آج تک جاری ہے لیکن مسلم خواتین کی عزت کو تار تارکیا جاتا ہے اپنے حقوق کے حصول کے لیے اگر برمی مسلمان آواز اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کے گھروں کو جن کی تعداد10 ہزار سے تجاوزکرگئی ہے جلادیا جاتا ہے ان حالات میں لاکھوں لوگ دوسرے خطوں میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ ایسا ہی حال کشمیریوں کے ساتھ ہندوستان کی حکومت نے روا رکھا ہوا ہے۔
نہتے کشمیری نوجوانوں کو دن دہاڑے اغوا کرکے ان پر بہیمانہ تشدد کیا جاتا ہے، بربریت کی انتہا ان کشمیری شہزادوں کو اجل کے حوالے کردیتی ہے بے شمار ماؤں کے لعل وگوہر شہادت کی منزل پر پہنچ چکے ہیں۔ معصوم بچیوں کا اغوا اور ان کی عصمت کو داغدارکرنے سے بھی ہندوستانی فوجیں پیچھے نہیں ہیں۔ البتہ ہندوستان فوجیوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو جوان جسموں پر گولیاں چلاتے اور پھولوں بھری وادی میں آگ لگاتے لگاتے تھک چکے ہیں۔اسی لیے سفاکی سے بچنے کے لیے وہ خودکشی کو ترجیح دیتے ہیں۔
اگر مسلمان حکمران جاگ جائیں اور عیش وعشرت کی زندگی کو طرز اسلامی میں بدل لیں تو یقینا ان کے سوئے ہوئے احساسات جاگ اٹھیں۔ انھیں اپنے مسلمان بہن بھائیوں کی تکلیف و بے بسی اور ان پر ڈھائے جانے والے ظلم کا احساس ہوگا۔ یقینا وہ حدیث پاک صلی اﷲ علیہ وسلم بھی یاد آجائے گی کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اگر جسم میں جہاں بھی تکلیف ہوگی اس کا احساس ہر مسلمان کو ہوگا۔
آج پوری دنیا میں مسلمان اپنے ہی اعمال کی وجہ سے پستی میں پہنچ گئے ہیں، مسلمانوں کی مساجد کو آگ لگائی جا رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے برسر اقتدار آتے ہی مسلمانوں اور مسلم ممالک پر ویزے کی پابندی لگادی گئی ہے۔ ایئرپورٹ پر ہی شامی مسلمانوں کو امریکا میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا لیکن مظاہروں اور دوسری کاوشوں کی بدولت 120 روز کے لیے نرمی کردی گئی ہے، ساتھ میں امریکا اور برطانیہ میں شرپسندوں نے مساجد کو نذر آتش کیا گیا نمازیوں نے مسجد کے باہر نماز ادا کی۔
امریکا میں اور دنیا بھر میں ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف ہر روز احتجاج کیا جارہاہے اور جلوس نکالے جارہے ہیں، امریکیوں کو بھی حالات کے تحت اس بات کا احساس ہوچکا ہے کہ انھوں نے ٹرمپ کو ووٹ دے کر سنگین غلطی کی ہے۔
مسلم حکمران اپنے اس زریں دورکو یاد کریں جب خلیفہ وقت کو اپنی ضرورتوں کا احساس نہ تھا صرف اور صرف اﷲ کی رضا اور عوام کی خدمت لیکن آج ہر ملک نے اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنالی ہے اور اس میں ہی مقید ہوگیا ہے۔ اسے اس بات کی فکر کہ مسلم دنیا میں لگائی جانے والی آگ اس کے خیمے تک بھی پہنچ سکتی ہے ۔اس لیے اسے احتیاطی تدابیراختیار کرنی ہی چاہیے۔