پیش رفت
افغانستان کی سیاست میں تبدیلی کے آثار نظر آنے لگے ہیں
افغانستان کی سیاست میں تبدیلی کے آثار نظر آنے لگے ہیں، جس کی ایک جھلک گلبدین حکمت یار پر سے اقوام متحدہ کی جانب سے ہٹائی جانے والی پابندی ہے۔ حکمت یار وہ شخصیت ہیں جو افغانستان کو غیرملکی قابضین سے آزاد کرانے میں ہمیشہ پیش پیش رہے اور ان کی جماعت حزب اسلامی اس سلسلے میں ہر اول دستے کا کردار ادا کرتی رہی۔ اس نے روس کے افغانستان پر قبضے کے خلاف سب سے پہلے علم جہاد بلند کیا تھا۔اس کے بعد جب امریکا نے افغانستان پر قبضہ کیا تو حکمت یار امریکا کے خلاف بھی برسر پیکار رہے۔
امریکی سفارش پر اقوام متحدہ نے 2003ء میں انھیں القاعدہ سے تعلقات رکھنے کے الزام اورانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذمے دار ٹھہراکر دہشت گرد قرار دے دیا تھا۔امریکی حکومت نے ان سے متعلق معلومات فراہم کرنے والے کو لاکھوں ڈالرکا انعام بھی مقرر کیا تھا۔ اقوام متحدہ اورامریکا نے حکمت یارکی حزب اسلامی اور افغان حکومت کے درمیان گزشتہ سال ستمبر میں ہونے والے امن معاہدے کو افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں ایک اہم پیش رفت قرار دے کر حزب اسلامی پر سے اپنی پابندیاں ہٹالی ہیں۔
واضح ہوکہ حزب اسلامی کی پالیسی میں اس اچانک تبدیلی سے افغان جنگجو گروپوں میں حیرت کا اظہار کیا جارہاہے۔ جہاں اس تبدیلی سے افغان حکومت کو تقویت ملی ہے وہاں طالبان کے لیے یہ شدید جھٹکا ثابت ہوئی ہے۔ تاہم اگر افغانستان میں امن کے حوالے سے دیکھا جائے تو حکمت یارکا یہ اقدام انتہائی دانشمندانہ ہے۔
حزب اسلامی ایک ایسا افغان گروپ ہے جس کے پاکستان کی جماعت اسلامی سے گہرے تعلقات قائم ہیں۔ جماعت اسلامی نے حکمت یارکے افغان حکومت کے ساتھ امن معاہدے کو اہم پیش رفت قراردیا ہے۔ جماعت اسلامی کے اس موقف کو اس کی افغان پالیسی میں اہم تبدیلی کہا جارہاہے کیونکہ جماعت اسلامی حریت پسندگروپوں کی جانب سے غیرملکی قابضین کے ساتھ کسی بھی قسم کی مفاہمت کے خلاف تھی۔
دراصل معاملہ یہ ہے کہ امریکی حکومت افغان حکومتوں کی ناقص کارکردگی سے تنگ آچکی ہے پہلے کرزئی اپنے طویل دور میں افغانستان میں امن قائم کرنے میں قطعی ناکام رہے،اس کے بعد اشرف غنی بھی غیرموثر ثابت ہوئے ہیں۔ دراصل وہ دونوں اپنی اصل ذمے داریوں سے ہٹ کر بھارت کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کی معاونت میں مصروف رہے ہیں۔کرزئی اور اشرف غنی کی شکست خوردگی کی وجہ سے ہی امریکا اور نیٹوکو افغانستان سے اپنی افواج کو طالبان کے ہاتھوں ہلاک ہونے سے بچانے کے لیے واپس بلانا پڑا تھا۔
اس وقت افغان فوجی طالبان کا مقابلہ کرنے میں قطعی ناکام ہیں۔ خود مغربی میڈیا بہ بانگ دہل اعلان کررہاہے کہ افغانستان کے 80 فی صد حصے پر طالبان کی عمل داری قائم ہے، افغان حکومت صرف کابل اور اطراف کے علاقوں تک محدود ہے۔ چنانچہ ناچار امریکا افغانستان سے اپنی جان چھڑانے کے لیے طالبان سے مذاکرات کرکے اپنی شرائط پر انھیں حکومت لوٹانا چاہتا ہے مگر طالبان اپنی شرائط کو منوانے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ طالبان اور امریکی حکام کے درمیان قطر میں دو دفعہ خفیہ مذاکرات ہوچکے ہیں مگر ہر دفعہ طالبان اپنی شرائط کو منوانے پر بضد رہے ہیں۔
ایسے حالات میں امریکی حکومت نے حزب اسلامی کو اس کی شرائط پر اپنے ساتھ ملالیا ہے اور یہ پیش رفت انتہائی اہم ہے۔ خبروں کے مطابق حزب اسلامی نے طالبان کو بھی امن مذاکرات کی طرف لانے کی کوششیں شروع کردی ہیں چونکہ حزب اسلامی اور طالبان کے درمیان دیرینہ تعلقات قائم ہیں چنانچہ طالبان کی صفوں میں بھی اب امن کی خواہش ظاہرکی جارہی ہے۔
اطلاعات کے مطابق طالبان کے امیر ملا ہیبت اﷲ نے ایک سیاسی کمیشن بنانے کا اعلان کردیا ہے اس کے لیے موزوں افراد کو تلاش کیا جارہاہے یہ کمیشن خالص سیاسی شخصیات پر مشتمل ہوگا جو آیندہ مذاکراتی عمل میں حصہ لے گا۔ حزب اسلامی نے حقانی گروپ کو افغان حکومت میں شمولیت کے لیے تقریباً راضی کرلیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں سیاسی عمل کے ذریعے ہی نہ صرف وہاں مقامی لوگوں کی حکومت قائم ہوسکتی ہے بلکہ غیر ملکیوں کو وہاں سے فارغ کیا جاسکتا ہے۔
افغان مسئلے کے حل کے سلسلے میں پاکستان شروع سے ہی قربانیاں دیتا چلا آرہاہے مگر اس کے خلوص اور بھاگ دوڑ کو بھارتی حکمرانوں نے افغان حکمرانوں کے ذریعے بے اثر بنادیا ہے۔ اوباماحکومت در اصل اسرائیل کے دباؤکی وجہ سے افغانستان میں بھارتی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستان سے بے رخی برتتی رہی ہے۔
اوباما کے دور میں بھارت کو افغانستان میں کھلی چھوٹ دے دی گئی تھی وہ وہاں افغان تعمیرکے بہانے ڈیرے ڈال چکا ہے اور وہاں سے پاکستان کو دہشت گردی کا نشانہ بنارہا ہے۔ ملک کے مسلسل دہشت گردی کے گرداب میں پھنسنے کی وجہ سے افغان مسئلہ پاکستان کے لیے زندگی اورموت کا مسئلہ بن چکا ہے۔ جبتک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوتا پاکستان امن کو ترستا رہے گا، گوکہ ضرب عضب آپریشن کے ذریعے افغان دہشت گردوں کو بڑی حد تک ٹھکانے لگادیا گیا ہے بقیہ دہشت گرد اپنے ملک افغانستان واپس لوٹ چکے ہیں مگر بھارت اور افغان حکومتوں کی شہ پر یہ اب بھی پاکستان میں کہیں نہ کہیں دہشت گردانہ وارداتیں کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
یہ دہشت گردانہ وارداتیں در اصل یہ ثابت کرنے کے لیے کرائی جاتی ہیں کہ پاکستان میں بدامنی ہے۔ چنانچہ اسے دباؤ میں رکھا جائے اور اس کی ترقی کو روکا جائے مگر خیر سے اب دنیا سمجھ چکی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کون کرارہا ہے اور کیوں کرارہاہے۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ امریکا کی سابق حکومت بھارت کی بہی خواہ بنی رہی ہے ۔اوباما نے اپنے دور میں بھارت کی اہمیت بڑھانے کے لیے دو دورے کیے اور وہاں کے حکمرانوں سے ذاتی تعلقات کا تاثر ابھارا۔اس ہمت افزائی کی وجہ سے بھارتی حکمران مغروریت میں چور مست ہاتھی بن چکے تھے۔ انھوں نے پڑوسی ممالک پر خوب رعب جمایا اور خود کو علاقے کا تھانیدار سمجھنے لگے تھے۔ نیپال، بھوٹان اور بنگلہ دیش نے ضرور بھارت کی برتری کو تسلیم کرلیا مگر پاکستان نے کبھی بھارت کی برتری کو تسلیم نہیںکیا ۔ اب وقت آگیا ہے کہ بھارتی حکمران خوش فہمیوں سے باہر نکل کر بدلی ہوئی دنیا کے نئے حالات کو سامنے رکھیں۔
اب اوباما کی جگہ ٹرمپ نے لے لی ہے وہ بظاہر بھارت کے دوست نظر آرہے ہیں مگر لگتا ہے وہ بھارت کو ان کے دائرے میں رہنے پر مجبورکردیںگے اور اس کی افغان معاملات میں مداخلت کو بھی ختم کرائیں گے، کیونکہ افغان مسئلے کو طول دینے میں بھارت کا گھناؤنا کردار اب سب پر ظاہرہوچکا ہے، اس کا یہ گھناؤنا کردار محض پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے ہے۔اب افغان سیاست میں حکمت یارکے داخلے کے بعد بھی بھارت کو پاکستان مخالف سرگرمیوں سے باز آنا پڑے گا۔ چنانچہ ہم پاکستانیوں کو کھلے دل سے حکمت یارکی افغان حکومت میں شمولیت کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔
امریکی سفارش پر اقوام متحدہ نے 2003ء میں انھیں القاعدہ سے تعلقات رکھنے کے الزام اورانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذمے دار ٹھہراکر دہشت گرد قرار دے دیا تھا۔امریکی حکومت نے ان سے متعلق معلومات فراہم کرنے والے کو لاکھوں ڈالرکا انعام بھی مقرر کیا تھا۔ اقوام متحدہ اورامریکا نے حکمت یارکی حزب اسلامی اور افغان حکومت کے درمیان گزشتہ سال ستمبر میں ہونے والے امن معاہدے کو افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں ایک اہم پیش رفت قرار دے کر حزب اسلامی پر سے اپنی پابندیاں ہٹالی ہیں۔
واضح ہوکہ حزب اسلامی کی پالیسی میں اس اچانک تبدیلی سے افغان جنگجو گروپوں میں حیرت کا اظہار کیا جارہاہے۔ جہاں اس تبدیلی سے افغان حکومت کو تقویت ملی ہے وہاں طالبان کے لیے یہ شدید جھٹکا ثابت ہوئی ہے۔ تاہم اگر افغانستان میں امن کے حوالے سے دیکھا جائے تو حکمت یارکا یہ اقدام انتہائی دانشمندانہ ہے۔
حزب اسلامی ایک ایسا افغان گروپ ہے جس کے پاکستان کی جماعت اسلامی سے گہرے تعلقات قائم ہیں۔ جماعت اسلامی نے حکمت یارکے افغان حکومت کے ساتھ امن معاہدے کو اہم پیش رفت قراردیا ہے۔ جماعت اسلامی کے اس موقف کو اس کی افغان پالیسی میں اہم تبدیلی کہا جارہاہے کیونکہ جماعت اسلامی حریت پسندگروپوں کی جانب سے غیرملکی قابضین کے ساتھ کسی بھی قسم کی مفاہمت کے خلاف تھی۔
دراصل معاملہ یہ ہے کہ امریکی حکومت افغان حکومتوں کی ناقص کارکردگی سے تنگ آچکی ہے پہلے کرزئی اپنے طویل دور میں افغانستان میں امن قائم کرنے میں قطعی ناکام رہے،اس کے بعد اشرف غنی بھی غیرموثر ثابت ہوئے ہیں۔ دراصل وہ دونوں اپنی اصل ذمے داریوں سے ہٹ کر بھارت کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کی معاونت میں مصروف رہے ہیں۔کرزئی اور اشرف غنی کی شکست خوردگی کی وجہ سے ہی امریکا اور نیٹوکو افغانستان سے اپنی افواج کو طالبان کے ہاتھوں ہلاک ہونے سے بچانے کے لیے واپس بلانا پڑا تھا۔
اس وقت افغان فوجی طالبان کا مقابلہ کرنے میں قطعی ناکام ہیں۔ خود مغربی میڈیا بہ بانگ دہل اعلان کررہاہے کہ افغانستان کے 80 فی صد حصے پر طالبان کی عمل داری قائم ہے، افغان حکومت صرف کابل اور اطراف کے علاقوں تک محدود ہے۔ چنانچہ ناچار امریکا افغانستان سے اپنی جان چھڑانے کے لیے طالبان سے مذاکرات کرکے اپنی شرائط پر انھیں حکومت لوٹانا چاہتا ہے مگر طالبان اپنی شرائط کو منوانے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ طالبان اور امریکی حکام کے درمیان قطر میں دو دفعہ خفیہ مذاکرات ہوچکے ہیں مگر ہر دفعہ طالبان اپنی شرائط کو منوانے پر بضد رہے ہیں۔
ایسے حالات میں امریکی حکومت نے حزب اسلامی کو اس کی شرائط پر اپنے ساتھ ملالیا ہے اور یہ پیش رفت انتہائی اہم ہے۔ خبروں کے مطابق حزب اسلامی نے طالبان کو بھی امن مذاکرات کی طرف لانے کی کوششیں شروع کردی ہیں چونکہ حزب اسلامی اور طالبان کے درمیان دیرینہ تعلقات قائم ہیں چنانچہ طالبان کی صفوں میں بھی اب امن کی خواہش ظاہرکی جارہی ہے۔
اطلاعات کے مطابق طالبان کے امیر ملا ہیبت اﷲ نے ایک سیاسی کمیشن بنانے کا اعلان کردیا ہے اس کے لیے موزوں افراد کو تلاش کیا جارہاہے یہ کمیشن خالص سیاسی شخصیات پر مشتمل ہوگا جو آیندہ مذاکراتی عمل میں حصہ لے گا۔ حزب اسلامی نے حقانی گروپ کو افغان حکومت میں شمولیت کے لیے تقریباً راضی کرلیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں سیاسی عمل کے ذریعے ہی نہ صرف وہاں مقامی لوگوں کی حکومت قائم ہوسکتی ہے بلکہ غیر ملکیوں کو وہاں سے فارغ کیا جاسکتا ہے۔
افغان مسئلے کے حل کے سلسلے میں پاکستان شروع سے ہی قربانیاں دیتا چلا آرہاہے مگر اس کے خلوص اور بھاگ دوڑ کو بھارتی حکمرانوں نے افغان حکمرانوں کے ذریعے بے اثر بنادیا ہے۔ اوباماحکومت در اصل اسرائیل کے دباؤکی وجہ سے افغانستان میں بھارتی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستان سے بے رخی برتتی رہی ہے۔
اوباما کے دور میں بھارت کو افغانستان میں کھلی چھوٹ دے دی گئی تھی وہ وہاں افغان تعمیرکے بہانے ڈیرے ڈال چکا ہے اور وہاں سے پاکستان کو دہشت گردی کا نشانہ بنارہا ہے۔ ملک کے مسلسل دہشت گردی کے گرداب میں پھنسنے کی وجہ سے افغان مسئلہ پاکستان کے لیے زندگی اورموت کا مسئلہ بن چکا ہے۔ جبتک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوتا پاکستان امن کو ترستا رہے گا، گوکہ ضرب عضب آپریشن کے ذریعے افغان دہشت گردوں کو بڑی حد تک ٹھکانے لگادیا گیا ہے بقیہ دہشت گرد اپنے ملک افغانستان واپس لوٹ چکے ہیں مگر بھارت اور افغان حکومتوں کی شہ پر یہ اب بھی پاکستان میں کہیں نہ کہیں دہشت گردانہ وارداتیں کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
یہ دہشت گردانہ وارداتیں در اصل یہ ثابت کرنے کے لیے کرائی جاتی ہیں کہ پاکستان میں بدامنی ہے۔ چنانچہ اسے دباؤ میں رکھا جائے اور اس کی ترقی کو روکا جائے مگر خیر سے اب دنیا سمجھ چکی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کون کرارہا ہے اور کیوں کرارہاہے۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ امریکا کی سابق حکومت بھارت کی بہی خواہ بنی رہی ہے ۔اوباما نے اپنے دور میں بھارت کی اہمیت بڑھانے کے لیے دو دورے کیے اور وہاں کے حکمرانوں سے ذاتی تعلقات کا تاثر ابھارا۔اس ہمت افزائی کی وجہ سے بھارتی حکمران مغروریت میں چور مست ہاتھی بن چکے تھے۔ انھوں نے پڑوسی ممالک پر خوب رعب جمایا اور خود کو علاقے کا تھانیدار سمجھنے لگے تھے۔ نیپال، بھوٹان اور بنگلہ دیش نے ضرور بھارت کی برتری کو تسلیم کرلیا مگر پاکستان نے کبھی بھارت کی برتری کو تسلیم نہیںکیا ۔ اب وقت آگیا ہے کہ بھارتی حکمران خوش فہمیوں سے باہر نکل کر بدلی ہوئی دنیا کے نئے حالات کو سامنے رکھیں۔
اب اوباما کی جگہ ٹرمپ نے لے لی ہے وہ بظاہر بھارت کے دوست نظر آرہے ہیں مگر لگتا ہے وہ بھارت کو ان کے دائرے میں رہنے پر مجبورکردیںگے اور اس کی افغان معاملات میں مداخلت کو بھی ختم کرائیں گے، کیونکہ افغان مسئلے کو طول دینے میں بھارت کا گھناؤنا کردار اب سب پر ظاہرہوچکا ہے، اس کا یہ گھناؤنا کردار محض پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے ہے۔اب افغان سیاست میں حکمت یارکے داخلے کے بعد بھی بھارت کو پاکستان مخالف سرگرمیوں سے باز آنا پڑے گا۔ چنانچہ ہم پاکستانیوں کو کھلے دل سے حکمت یارکی افغان حکومت میں شمولیت کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔