ٹرمپ امریکی معاشرہ مسلم دنیا اورپاکستان
صدر ٹرمپ نے اپنے انتخابی منشورکو عملی جامہ پہنانے کے لیے اقدامات کا آغازکرکے پوری دنیا میں خوف کی لہر دوڑادی ہے
دنیا کی واحد سپر پاور امریکا اورموجودہ صدی کے انتہائی متنازع نومنتخب صدرڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات سے دنیا اورسب سے زیادہ خود امریکی عوام محوحیرت ہیں کہ ٹرمپ کا دورصدارت کیسے گزرے گا؟ خود امریکا اورباقی دنیا کے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟
دنیا اس سوال میں الجھ کر رہ گئی ہے، وجہ یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنے انتخابی منشورکو عملی جامہ پہنانے کے لیے اقدامات کا آغازکرکے پوری دنیا میں خوف کی لہر دوڑادی ہے۔ ٹرمپ کی دھواں دھار انتخابی تقاریراورشعلہ فشاں الیکشن مہم کو دیکھ کر ہرکوئی یہ کہہ رہا تھا کہ یہ امریکی صدر نہیں بن سکتے، لیکن وہ تمام دعوے غلط ثابت ہوئے، ٹرمپ وائٹ ہاؤس پہنچ گئے، پھر یہ کہا جانے لگا کہ امریکی صدرکا عہدہ سنبھالنے کے بعد ٹرمپ کی ترجیحات اور لب ولہجہ بدل جائے گا، غیر سنجیدگی، مدبرانہ سنجیدگی میں بدل جائے گی مگر ٹرمپ میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران،عراق، لیبیا،سوڈان، یمن، شام اورصومالیہ کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی کا انتظامی حکم نامہ جاری کیا توامریکی معاشرہ متحرک ہو گیا، امریکی عوام اورمغربی ممالک کے لوگوں نے اس حکم نامے پر جو ردعمل دیا، اس سے ثابت ہواکہ ان کا معاشرہ اعلیٰ اقدار کا حامل ہے۔ امریکی عدالت بھی حرکت میں آئی اور صدرکی راہ میں کھڑی ہوگئی، امریکی ریاست واشنگٹن کے ایک جج نے سات مسلم ممالک کے شہریوں کی امریکہ آمد پر لگائی جانیوالی پابندی کو معطل کردیا۔ عدالتی فیصلے کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کی اپیل امریکی اپیل کورٹ نے بھی مقدمے کا حتمی فیصلہ آنے تک مسترد کردی۔
ٹرمپ کی پالیسیاں بظاہر مسلمانوں کے خلاف معلوم ہوتی ہیں لیکن صورتحال کا تفصیل سے جائزہ لیا جائے تو ایک مختلف منظرنامہ سامنے آتا ہے۔ ٹرمپ ان خامیوں کو دور کرنے کے متمنی ہیں جن کے باعث داخلی سطح پرامریکا میں دہشتگردی کو فروغ مل رہا ہے۔ ٹرمپ نے تمام مسلم ممالک پر پابندی نہیں لگائی بلکہ ان چند خاص ممالک پر پابندی عائد کی ہے جن سے ان کو خطرات محسوس ہوتے ہیں۔ ٹرمپ نے میکسیکو کے باشندوں کی آمد بھی روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں، معاشی میدان میں چین کا مقابلہ کرنے کا اعلان کیا۔
ٹرمپ امریکا اور آسٹریلیا کے درمیان مہاجرین کو قبول کرنے کا معاہدہ احمقانہ قرار دے رہے ہیں، نیٹو کے حوالے سے موقف بھی سابق امریکی پالیسیوں کے برعکس ہے، وہ میکسیکوکے ساتھ دیوار تعمیرکرنا چاہتے ہیں، بحر الکاہل کے 12ملکوں کی تجارتی تنظیم ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ (ٹی ٹی پی) سے علیحدگی کا اعلان بھی منظرعام پرآیا ہے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر ملک کواپنی سلامتی کے تحفظ اوراندرونی معاملات کو بہتر بنانے کے لیے پالیسیاں بنانے کا حق حاصل ہے، ٹرمپ بھی عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی دہشتگردی سے امریکا کو محفوظ بنانے کے لیے پالیسیاں تشکیل دے رہے ہیں۔
امریکی صدر ٹرمپ نے حلف اٹھانے کے بعد سب سے پہلے امریکا کا نعرہ لگاتے ہوئے تمام معاملات میں امریکی مفادات کو ترجیح دینے اور دنیا کو اسلامی دہشتگردی سے پاک کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ دنیا کو ان کے اقدامات سے قطعی پریشان نہیں ہونا چاہیے جب وہ کہتے ہیں کہ دنیا سے اسلامی دہشتگردی کا کلی خاتمہ کرکے دم لوں گا تو ہمیں اس میں اسلام یا مسلم دشمنی کا کوئی عنصر نہیں دیکھنا چاہیے کیونکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام کا یا عامۃ المسلمین کا دہشتگردی سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس کا خاتمہ ہمارا اور ٹرمپ کا مشترکہ کاز ہونا چاہیے اگر وہ القاعدہ، داعش یا دیگر نام نہاد متشدد اسلامی دہشتگرد گروپوں کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہیں تو یہ ہمارا یعنی پوری مسلم ورلڈ کا مشترکہ کاز ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ان انتہا پسند جتھوں نے افغانستان سے سیریا تک اورکشمیر سے فلسطین تک جتنا نقصان اعتدال پسند مسلمانوں کو پہنچایا ہے اتنا جانی ومالی نقصان غیرمسلموں کو نہیں پہنچایا۔
اصل میں امریکا کی اسٹیبلشمنٹ نے گھاٹے کے سودے نہیں کیے،کیونکہ انھیں نظریات سے کہیں زیادہ ملک سے پیار ہے اور وہ جانتے ہیں کہ گلے کاٹنے والے دہشتگردوں کے لیے ٹرمپ سے بہترکوئی ٹرمپ کارڈ ہے ہی نہیں، مگر ہم کیا کررہے ہیں، ہر فورم، ہر محفل اور ہر مقام اظہار پراسلام کی سچائی کے نام پر ٹرمپ پر بجلی بن کرگر رہے ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم دفاع میں گمراہی اورجہنمی کی اسناد کے اجراء کے بجائے ٹرمپ کو اپنا بنائیں،مکالمہ کریں، قرآن کے شیریں کلام سے اس کے لیے بھی کوئی نسخہ اکسیر تجویزکریں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نہیں جانتے کہ وہ کیا کررہے ہیں وہ جو دیکھ رہے ہیں اسی کواسلام سمجھ کر اس سے متنفرہورہے ہیں، اصل میں ڈونلڈ ٹرمپ جن دہشتگردوں کے بدترین عمل کی بنیاد پر اسلام کے خلاف زہر اگل رہے ہیں، ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمارا قرآن اور پیارے نبی ﷺ کی سنت یہ سب کرنے کو کہتی ہی نہیں ہے، یہی پیغام اور فہم ہمیں ڈونلڈ ٹرمپ کو دینا ہوگا، یہ ٹرمپ کا کام نہیں کہ وہ اسلام کو سمجھے ہاں جنھیں اللہ نے ہدایت کی دولت عطا فرمائی ہے یہ ان کی ذمے داری ضرور ہے کہ وہ اس دولت کو کتب خانوں، مدرسوں اور مساجد میں چھپاکر نہیں رکھیں بلکہ خرچ کریں۔
ٹرمپ سے فاصلہ رکھ کر فاصلے نہیں بڑھائیے بلکہ غلط فہمیوں اور جہالت کی تیزی سے پھیلتی امر بیل کو کاٹ دیجیے، اس کے پاس جاکر اسے اپنے اخلاق، کردار، علم، حلم، تحمل اور بردباری سے فتح کرلیجیے کہ یہ سارے ہتھیار جو کہ کسی کو ضرر نہیں پہنچاتے بس روحانی آپریشن کرکے ضرر رساں خیالات اور فکرکو دماغ سے نکال پھینکتے ہیں آپ کو سنت مطہرہ کے چمنستان میں خوشبوؤں کے گوشوں کے پاس ہی پڑے مل جائیں گے۔نئے امریکی صدر بھی کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر امریکا اپنی سپر پاورکی حیثیت قائم رکھنا چاہتا ہے تو پھر اسے اس کی قیمت بھی چکانی پڑے گی کیونکہ امریکا اور اس کے حواریوں کی استعماری و سامراجی پالیسیوں کی وجہ سے تیسری دنیا بالخصوص اسلامی ممالک میں دہشتگردی اور انتشار کی آگ پھیلی ہے، اگر وہاں سے لوگ نقل مکانی کررہے ہیں تو اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔
دنیا کو دہشتگردی کے حوالے سے دوبارہ ایک سنجیدہ مکالمے کی ضرورت ہے اوریہ جاننے کی ضرورت بھی ہے کہ شدت پسندی اورانتہا پسندی میں اضافہ کیوں ہورہا ہے، وہ کون سے عوامل ہیں جو اس میں روز بروزشدت پیدا کررہے ہیں۔ دہشتگردی کو مسلمانوں اور اسلام سے جوڑنا انتہائی نامناسب ہے۔ اس سے شدت پسندی اور انتہا پسندی میں کمی کی بجائے اضافہ ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ مہذب دنیا کسی مہم جو کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتی کہ وہ دنیا کو آگ کے سمندر میں جھونک دے، امن انسانیت کا سب سے بڑا تحفہ ہے، آج کی دنیا میں کسی نئے ہٹلر یا مسولینی کی کوئی گنجائش نہیں۔
اور جہاں تک بات رہی پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی تو امریکا جنوبی ایشیاء میں پاکستان کے بجائے بھارت کو اپنا مستقبل کا پارٹنر بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کے لیے خوشگوار نہیں،اس سے دفاعی اور عالمی تجارت کے حوالے سے ہماری مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ چین سے ہمارے تجارتی،کاروباری یا مفاداتی تعلقات جیسے بھی ہیں وہ امریکی تعلقات کی قیمت پر ہرگز استوار نہ کیے جائیں۔ امریکا سے ہمارے قریبی تعلقات قیام پاکستان کے وقت سے چلے آرہے ہیں ہم ہمیشہ سے امریکی اتحادی گردانے گئے ہیں۔ آج اپنی جگہ سے سرک کر ہم خود انڈینز کو یہ موقع دے رہے ہیں کہ وہ بتدریج ہماری جگہ لیتے چلے جائیں۔
ہمیں اس حوالے سے ہوشمندی و دانائی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، ہم امریکی دباؤ اور پابندیوں کا سامنا نہیں کرسکتے، ہماری خارجہ پالیسی جذبات کی بنیاد پر نہیں اصولی وشعوری قومی مفاد کے تابع ہونی چاہیے۔ ٹرمپ دور میں اگر چین امریکہ تعلقات میں کوئی خرابی پڑتی ہے تو ہمیں اس خرابی کا نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔ امریکا بھی جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتا، لہذا پاکستان کو نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کی جانب توجہ دینی چاہیے۔ حالات کا تقاضا یہی ہے کہ امریکا کے ساتھ تعلقات ہر ممکن طور پر بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔
دنیا اس سوال میں الجھ کر رہ گئی ہے، وجہ یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنے انتخابی منشورکو عملی جامہ پہنانے کے لیے اقدامات کا آغازکرکے پوری دنیا میں خوف کی لہر دوڑادی ہے۔ ٹرمپ کی دھواں دھار انتخابی تقاریراورشعلہ فشاں الیکشن مہم کو دیکھ کر ہرکوئی یہ کہہ رہا تھا کہ یہ امریکی صدر نہیں بن سکتے، لیکن وہ تمام دعوے غلط ثابت ہوئے، ٹرمپ وائٹ ہاؤس پہنچ گئے، پھر یہ کہا جانے لگا کہ امریکی صدرکا عہدہ سنبھالنے کے بعد ٹرمپ کی ترجیحات اور لب ولہجہ بدل جائے گا، غیر سنجیدگی، مدبرانہ سنجیدگی میں بدل جائے گی مگر ٹرمپ میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران،عراق، لیبیا،سوڈان، یمن، شام اورصومالیہ کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی کا انتظامی حکم نامہ جاری کیا توامریکی معاشرہ متحرک ہو گیا، امریکی عوام اورمغربی ممالک کے لوگوں نے اس حکم نامے پر جو ردعمل دیا، اس سے ثابت ہواکہ ان کا معاشرہ اعلیٰ اقدار کا حامل ہے۔ امریکی عدالت بھی حرکت میں آئی اور صدرکی راہ میں کھڑی ہوگئی، امریکی ریاست واشنگٹن کے ایک جج نے سات مسلم ممالک کے شہریوں کی امریکہ آمد پر لگائی جانیوالی پابندی کو معطل کردیا۔ عدالتی فیصلے کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کی اپیل امریکی اپیل کورٹ نے بھی مقدمے کا حتمی فیصلہ آنے تک مسترد کردی۔
ٹرمپ کی پالیسیاں بظاہر مسلمانوں کے خلاف معلوم ہوتی ہیں لیکن صورتحال کا تفصیل سے جائزہ لیا جائے تو ایک مختلف منظرنامہ سامنے آتا ہے۔ ٹرمپ ان خامیوں کو دور کرنے کے متمنی ہیں جن کے باعث داخلی سطح پرامریکا میں دہشتگردی کو فروغ مل رہا ہے۔ ٹرمپ نے تمام مسلم ممالک پر پابندی نہیں لگائی بلکہ ان چند خاص ممالک پر پابندی عائد کی ہے جن سے ان کو خطرات محسوس ہوتے ہیں۔ ٹرمپ نے میکسیکو کے باشندوں کی آمد بھی روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں، معاشی میدان میں چین کا مقابلہ کرنے کا اعلان کیا۔
ٹرمپ امریکا اور آسٹریلیا کے درمیان مہاجرین کو قبول کرنے کا معاہدہ احمقانہ قرار دے رہے ہیں، نیٹو کے حوالے سے موقف بھی سابق امریکی پالیسیوں کے برعکس ہے، وہ میکسیکوکے ساتھ دیوار تعمیرکرنا چاہتے ہیں، بحر الکاہل کے 12ملکوں کی تجارتی تنظیم ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ (ٹی ٹی پی) سے علیحدگی کا اعلان بھی منظرعام پرآیا ہے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر ملک کواپنی سلامتی کے تحفظ اوراندرونی معاملات کو بہتر بنانے کے لیے پالیسیاں بنانے کا حق حاصل ہے، ٹرمپ بھی عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی دہشتگردی سے امریکا کو محفوظ بنانے کے لیے پالیسیاں تشکیل دے رہے ہیں۔
امریکی صدر ٹرمپ نے حلف اٹھانے کے بعد سب سے پہلے امریکا کا نعرہ لگاتے ہوئے تمام معاملات میں امریکی مفادات کو ترجیح دینے اور دنیا کو اسلامی دہشتگردی سے پاک کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ دنیا کو ان کے اقدامات سے قطعی پریشان نہیں ہونا چاہیے جب وہ کہتے ہیں کہ دنیا سے اسلامی دہشتگردی کا کلی خاتمہ کرکے دم لوں گا تو ہمیں اس میں اسلام یا مسلم دشمنی کا کوئی عنصر نہیں دیکھنا چاہیے کیونکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام کا یا عامۃ المسلمین کا دہشتگردی سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس کا خاتمہ ہمارا اور ٹرمپ کا مشترکہ کاز ہونا چاہیے اگر وہ القاعدہ، داعش یا دیگر نام نہاد متشدد اسلامی دہشتگرد گروپوں کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہیں تو یہ ہمارا یعنی پوری مسلم ورلڈ کا مشترکہ کاز ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ان انتہا پسند جتھوں نے افغانستان سے سیریا تک اورکشمیر سے فلسطین تک جتنا نقصان اعتدال پسند مسلمانوں کو پہنچایا ہے اتنا جانی ومالی نقصان غیرمسلموں کو نہیں پہنچایا۔
اصل میں امریکا کی اسٹیبلشمنٹ نے گھاٹے کے سودے نہیں کیے،کیونکہ انھیں نظریات سے کہیں زیادہ ملک سے پیار ہے اور وہ جانتے ہیں کہ گلے کاٹنے والے دہشتگردوں کے لیے ٹرمپ سے بہترکوئی ٹرمپ کارڈ ہے ہی نہیں، مگر ہم کیا کررہے ہیں، ہر فورم، ہر محفل اور ہر مقام اظہار پراسلام کی سچائی کے نام پر ٹرمپ پر بجلی بن کرگر رہے ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم دفاع میں گمراہی اورجہنمی کی اسناد کے اجراء کے بجائے ٹرمپ کو اپنا بنائیں،مکالمہ کریں، قرآن کے شیریں کلام سے اس کے لیے بھی کوئی نسخہ اکسیر تجویزکریں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نہیں جانتے کہ وہ کیا کررہے ہیں وہ جو دیکھ رہے ہیں اسی کواسلام سمجھ کر اس سے متنفرہورہے ہیں، اصل میں ڈونلڈ ٹرمپ جن دہشتگردوں کے بدترین عمل کی بنیاد پر اسلام کے خلاف زہر اگل رہے ہیں، ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمارا قرآن اور پیارے نبی ﷺ کی سنت یہ سب کرنے کو کہتی ہی نہیں ہے، یہی پیغام اور فہم ہمیں ڈونلڈ ٹرمپ کو دینا ہوگا، یہ ٹرمپ کا کام نہیں کہ وہ اسلام کو سمجھے ہاں جنھیں اللہ نے ہدایت کی دولت عطا فرمائی ہے یہ ان کی ذمے داری ضرور ہے کہ وہ اس دولت کو کتب خانوں، مدرسوں اور مساجد میں چھپاکر نہیں رکھیں بلکہ خرچ کریں۔
ٹرمپ سے فاصلہ رکھ کر فاصلے نہیں بڑھائیے بلکہ غلط فہمیوں اور جہالت کی تیزی سے پھیلتی امر بیل کو کاٹ دیجیے، اس کے پاس جاکر اسے اپنے اخلاق، کردار، علم، حلم، تحمل اور بردباری سے فتح کرلیجیے کہ یہ سارے ہتھیار جو کہ کسی کو ضرر نہیں پہنچاتے بس روحانی آپریشن کرکے ضرر رساں خیالات اور فکرکو دماغ سے نکال پھینکتے ہیں آپ کو سنت مطہرہ کے چمنستان میں خوشبوؤں کے گوشوں کے پاس ہی پڑے مل جائیں گے۔نئے امریکی صدر بھی کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر امریکا اپنی سپر پاورکی حیثیت قائم رکھنا چاہتا ہے تو پھر اسے اس کی قیمت بھی چکانی پڑے گی کیونکہ امریکا اور اس کے حواریوں کی استعماری و سامراجی پالیسیوں کی وجہ سے تیسری دنیا بالخصوص اسلامی ممالک میں دہشتگردی اور انتشار کی آگ پھیلی ہے، اگر وہاں سے لوگ نقل مکانی کررہے ہیں تو اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔
دنیا کو دہشتگردی کے حوالے سے دوبارہ ایک سنجیدہ مکالمے کی ضرورت ہے اوریہ جاننے کی ضرورت بھی ہے کہ شدت پسندی اورانتہا پسندی میں اضافہ کیوں ہورہا ہے، وہ کون سے عوامل ہیں جو اس میں روز بروزشدت پیدا کررہے ہیں۔ دہشتگردی کو مسلمانوں اور اسلام سے جوڑنا انتہائی نامناسب ہے۔ اس سے شدت پسندی اور انتہا پسندی میں کمی کی بجائے اضافہ ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ مہذب دنیا کسی مہم جو کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتی کہ وہ دنیا کو آگ کے سمندر میں جھونک دے، امن انسانیت کا سب سے بڑا تحفہ ہے، آج کی دنیا میں کسی نئے ہٹلر یا مسولینی کی کوئی گنجائش نہیں۔
اور جہاں تک بات رہی پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی تو امریکا جنوبی ایشیاء میں پاکستان کے بجائے بھارت کو اپنا مستقبل کا پارٹنر بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کے لیے خوشگوار نہیں،اس سے دفاعی اور عالمی تجارت کے حوالے سے ہماری مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ چین سے ہمارے تجارتی،کاروباری یا مفاداتی تعلقات جیسے بھی ہیں وہ امریکی تعلقات کی قیمت پر ہرگز استوار نہ کیے جائیں۔ امریکا سے ہمارے قریبی تعلقات قیام پاکستان کے وقت سے چلے آرہے ہیں ہم ہمیشہ سے امریکی اتحادی گردانے گئے ہیں۔ آج اپنی جگہ سے سرک کر ہم خود انڈینز کو یہ موقع دے رہے ہیں کہ وہ بتدریج ہماری جگہ لیتے چلے جائیں۔
ہمیں اس حوالے سے ہوشمندی و دانائی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، ہم امریکی دباؤ اور پابندیوں کا سامنا نہیں کرسکتے، ہماری خارجہ پالیسی جذبات کی بنیاد پر نہیں اصولی وشعوری قومی مفاد کے تابع ہونی چاہیے۔ ٹرمپ دور میں اگر چین امریکہ تعلقات میں کوئی خرابی پڑتی ہے تو ہمیں اس خرابی کا نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔ امریکا بھی جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتا، لہذا پاکستان کو نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کی جانب توجہ دینی چاہیے۔ حالات کا تقاضا یہی ہے کہ امریکا کے ساتھ تعلقات ہر ممکن طور پر بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔