پی ایس ایل کو فکسنگ کی دلدل سے نکالنا مشکل

دبئی بکیز کی سرگرمیوں کیلئے ’’محفوظ ‘‘ آماجگاہ

ماضی میں لگنے والے کرپشن کے داغ دھونے کے بجائے گوارا کرلئے گئے تھے، اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ فوٹو : فائل

PESHAWAR:
چند ماہ قبل لاہور کے ایک پرانے کرکٹ کلب کی نیٹ پریکٹس کے دوران کوچ نے ایک قومی کرکٹر کے ماضی سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا کہ وہ ٹینس بال میچز میں مختلف ٹیموں کی جانب سے کھیلنے کا معاوضہ وصول کرنے کے ساتھ چند ہزار روپے کے لیے جواریوں کے اشاروں پر اچھی یا بری کارکردگی دکھانے کو بھی تیار ہوجاتا، ان کا کہنا تھا کہ اسی میدان پر ہارڈ بال سے کھیل کا آغاز کرنے کے بعد خوش قسمتی سے اس کو مواقع ملتے گئے اور ملک کی نمائندگی کے قابل ہوگیا، جو لوگ اس کے ساتھ کھیل چکے،آج بھی کوئی حیران کن کارکردگی سامنے آنے پر چلانے لگتے ہیں کہ بک گیا ہوگا، مقامی کوچ کی باتیں سن کر اندازہ ہوا کہ کرکٹ میں فکسنگ کی جڑیں کتنی گہری ہیں۔

کمائی کے لیے مختصر اور آسان راستوں کی تلاش میں بدعنوانی کوذریعہ بنالینے کا رجحان قومی ناسور بن چکا،کھلاڑی بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں،سوال کیا جاسکتا ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹرز کی آمدن کم نہیں ہوتی،ان کو پر آسائش زندگی گزارنے کے لیے میچز کے ساتھ لیگز میں بھی بھاری مال بنانے کا موقع مل جاتا ہے، چند سنٹرل کنٹریکٹ کی مدد میں پی سی بی سے بھی ماہانہ لاکھوں روپے وصول کرتے ہیں، مزید کمائی کے لیے فکسنگ کا راستہ کیوں اختیار کرتے ہیں؟

اس کی سیدھی سی وجہ یہ ہے کہ ملک میں اربوں، کروڑوں کے مالک کئی سیاستدان، بیوروکریٹ اور کاروباری حضرات ضروریات زندگی پر تو عمر بھر میں چند لاکھ بھی نہیں خرچ کرسکتے،اس کے باوجود دن رات اپنی تجوریاں بھرنے اور قبریں بھاری کرنے کے لیے سرگرم رہتے ہیں،ہوس ایک نفسیاتی مرض جس کو صرف قناعت پسندی ہی ختم کرسکتی ہے لیکن اس سوچ کا رواج دم توڑتا جارہا ہے، کرکٹرز بھی اپنی ضروریات نہیں بلکہ ہوس پرستی کا شکار ہوکر فکسنگ کا گل کھلاتے اوربیچارے پرستار دل ٹوٹنے پر کڑھتے، چیختے، چلاّتے اور نفرت کے تیر برساتے نظر آتے ہیں۔

ماضی میں فکسنگ کا طوفان اٹھنے پر بڑا شور مچا، جسٹس قیوم کمیشن کی تحقیقات کے بعد 2000 سامنے آنے والی رپورٹ میں سلیم ملک اور عطاء الرحمان پر پر تاحیات پابندی عائد کر دی گئی، وسیم اکرم، وقار یونس، سعید انور،انضمام الحق اور مشتاق احمد بھی الزامات کی زد میں آئے،ان کو جرمانے کرنے کے ساتھ وارننگ بھی دی گئی، وسیم اکرم کو آئندہ قیادت سپرد نہ کرنے کی ہدایت بھی کی گئی تھی۔

جسٹس قیوم رپورٹ وقت گزرنے کے ساتھ سردخانے میں چلی گئی،شکوک کا شکار تمام کھلاڑی معتبر ہوتے گئے، پی سی بی نے ایک ایک کرکے سب کے استقبال کے لیے بانہیں پھیلا دیں۔ انضمام الحق اب چیف سلیکٹر، مشتاق احمد نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے ہیڈ کوچ، وقار یونس قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ رہ چکے۔

وسیم اکرم اسلام آباد یونائیٹڈ کے ڈائریکٹر ہیں، کرپشن کے معاملات کو آسانی سے گوارا کرنے کا ''این آر او'' ملکی کرکٹ کے لیے تباہ کن رجحانات کی حوصلہ افزائی ثابت ہوا۔ سپاٹ فکسنگ سکینڈل 2010نے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی کرکٹ کے درو دیوار ہلاکر رکھ دیئے، کروڑوں کے مالک سلمان بٹ، محمد عامر اور محمد آصف نے چند پاؤنڈز کی خاطر جان بوجھ کر نو بالز کروائیں، جیل کی سزاکاٹی اور پابندیوں کا بھی شکار ہوئے،ان میں سے محمد عامر نظریہ ضرورت کے تحت قومی ٹیم میں واپس شامل کئے جاچکے،سلمان بٹ کو بھی کم بیک کا موقع دینے کی تیاریاں جاری ہیں۔

دنیا بھر کی کرکٹ لیگز منتظمین اور کھلاڑیوں کے لیے بھاری کمائی کا ذریعہ ہیں لیکن ملکی اور غیر ملکی کرکٹرز کا امتزاج ہونے کی وجہ سے کسی ایونٹ کو بدعنوانی سے پاک رکھنا آسان نہیں ہوتا، حالیہ آئی پی ایل ایڈیشن میں بھی اس قسم کی خبریں سامنے آئی تھیں جس کے بعد بھارتی بورڈ نے سپاٹ فکسنگ کے قصوروار کھلاڑی اجیت چنڈیلا پر عمر بھر کیلیے کرکٹ کے دروازے بند کردیئے،اس سے قبل دہلی پولیس نے 16 مئی 2013 کو راجستھان رائلز کے سری سانتھ، انکیت چوہان سمیت چند کرکٹرز اور 16 سٹے بازوں کو میچ فکسنگ کے الزام میں گرفتار کیا تھا،بنگلہ دیشی پریمیئر لیگ بھی اس حوالے سے خاصی بدنام رہی ہے۔

ہرسال کرپشن کی نئی داستانیں سنائی دیتی ہیں، میڈیا کی جانب سے پاکستان سپر لیگ کے حکام،فرنچائز مالکان اور کرکٹرز سب کو باور کروایا گیا تھا کہ دبئی میں بھارتی بکیز کا جال بڑا مضبوط ہے، فکسنگ کی دلدل سے بچ نکلنا آسان نہیں ہوگا، اس حوالے سے روزنامہ ''ایکسپریس'' کے سپورٹس ایڈیٹر سلیم خالق کے کئی کالم ریکارڈ کے طور پر اب بھی دیکھے جاسکتے ہیں لیکن وہی ہوا جس کا خدشہ ہمیشہ سے موجود تھا، ابھی پی ایس ایل کی رنگا رنگ تقریب کی خوشیاں منائی جارہی تھیں کہ بدنامی کا ایک اور باب رقم ہوگیا، ماضی میں فکسنگ کو معمول کی بات کے طور پر لینے والے حکام فرنچائز مالکان، منیجرز اور کھلاڑیوں کے گرد ڈسپلن کا شکنجہ نہیں کس سکے۔


پاکستانی کرکٹرز شرجیل خان اور خالد لطیف کے بک میکرز کے ساتھ روابط کی خبر نے سب کو ہی حیران کر دیا،دونوں گزشتہ ایڈیشن میں اسلام آباد یونائیٹڈ کی ٹائٹل فتح کے اہم کردار اور اس بار بھی امیدوں کا مرکز تھے، ان کے خلاف کارروائی ایک بین الاقوامی سنڈیکیٹ سے مبینہ طور پر ان کے رابطے سامنے آنے کے بعد عمل میں آئی ہے جو پی ایس ایل کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہا تھا،اسلام آباد یونائیٹڈ کے ایک اور کھلاڑی محمد عرفان سے بھی تفتیش کی جارہی ہے۔

کراچی کنگز کے شاہ زیب حسن اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے ذوالفقار بابر بھی شکوک کی زد میں ہیں، تحقیقات کا دائرہ وسیع ہونے پر چند دیگر کرکٹرز کے نام بھی آسکتے ہیں،سٹار کرکٹرز کی تعداد میں اضافہ اور فائنل لاہور میں شیڈول کئے جانے کی وجہ سے پی ایس ایل کے دوسرے ایڈیشن میں زیادہ جوش و جذبہ نظر آرہا تھا لیکن قومی کرکٹرز پر انگلیاں اٹھنے کے بعد شائقین کی جانب سے بھی شدید رد عمل دیکھنے میں آرہا ہے، ایک خاتون نے تو سماجی رابطوں کے ویب سائٹ پر لکھا '' پاکستانی کھلاڑیوں کو بکیز سے بچانے کا واحد راستہ یہ ہے کہ انھیں کمرے میں بند کر دیا جائے اور ان کے موبائل چھین لئے جائیں۔''

یاد رہے کہ گزشتہ سال مئی میں شرجیل خان نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر اپنے ویڈیو پیغام میں بتایا کہ ''مجھے گزشتہ چند روز سے کالز موصول ہورہی ہیں،چند افراد مجھے بلیک میل کرتے ہوئے پیسے مانگ رہے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ اگر رقم نہ دی تو میری ذاتی ویڈیوز سوشل میڈیا پر جاری کردیں گے،اگر اس طرح کے کوئی شواہد سامنے آئیں تو جعلی اور میری ساکھ خراب کرنے کی کوشش ہوں گے۔''

یہ بیان مشکوک تھا، پی سی بی کے کان کھڑے ہوئے لیکن بعد ازاں مصلحت پسندی سے کام لیتے ہوئے یہ چھان بین کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ ان کو بلیک میل کرنے کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں؟کہیں یہ معاملہ بکیز سے روابط کا شاخسانہ تو نہیں، دبئی میں پی ایس ایل سے معطل کئے جانے والے شرجیل خان اور خالد لطیف بار بار فکسنگ الزامات کی زد میں آنے والی بنگلہ دیش پریمیئر لیگ کا بھی حصہ رہے ہیں۔

گزشتہ سال نومبر میں بھی مشکوک میچز کے حوالے سے طوفان اٹھا تھا، اسلام آباد یونائیٹڈ کے کوچ ڈین جونز نے کمنٹری کے دوران باریش جنوبی افریقی بیٹسمین ہاشم آملہ کو دہشت گرد کہہ دیا تھا، اس کے علاوہ بھی کئی تنازعات ان کے ماضی کا حصہ ہیں، سابق آسٹریلوی ٹیسٹ کرکٹرقومی ٹیم کی کوچنگ کے بھی امیدوار تھے لیکن متنازعہ ہونے کی وجہ سے ان کو ذمہ داریاں سونپے جانے سے قبل ہی انگلیاں اٹھنے لگی تھیں۔

ماضی کے تلخ حقائق کئی کھلاڑیوں کے ساتھ جڑے ہوئے تھے، پی ایس ایل انٹرنیشنل سرگرمیوں کے مرکز دبئی میں شروع ہورہا تھا، صورتحال انتہائی نازک ہونے کے باوجود غفلت کیوں برتی گئی؟ پی ایس ایل کی گورننگ کونسل کے چیئرمین نجم سیٹھی نے اپنے پیغام میں کہا ''کھیل کو خراب کرنے والی سرگرمیوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا، کسی بھی بڑے یا چھوٹے کو چھوٹ نہیں، ہمیں پاکستان کے اس اثاثے کا تحفظ کرنا ہے۔''

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فکسنگ کے معاملے میں حساس صورتحال ہونے کے باوجود کرکٹرز کے بین الاقوامی سنڈیکیٹ سے رابطوں کا سراغ آئی سی سی کے تفتیش کاروں نے لگایا، بی سی بی اور پی ایس ایل حکام کہاں تھے،ایک بار انکشاف ہونے پر معطلی اور کارروائیوں کی پریس ریلیز جاری کرنے کے بجائے کرکٹرز کو قابو میں رکھنے کا بندوبست کیا جاتا تو شاید یہ نوبت نہ آتی، پانی سر سے گزر جانے کے بعد ہنگامی حالات نافذ کرنے اور مذمت کی رسمی کارروائی پوری کردینے سے نقصان کی تلافی نہیں ہوسکتی،شائقین اور مبصرین اب بھی یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں کہ دبئی میں فکسنگ کے خلاف حالیہ اقدامات نے پی ایس ایل کی ساکھ بچائی ہے یا داؤ پر لگادی؟

ماضی میں لگنے والے کرپشن کے داغ دھونے کے بجائے گوارا کرلئے گئے تھے، اس بار بھی ایسا ہی ہوا، حقائق سامنے لانے کے بجائے دبا لئے گئے،ملوث کرکٹرز کو نظریہ ضرورت کے تحت دوبارہ ملک کی نمائندگی کا موقع دے دیا گیا تو ایسے واقعات آئندہ بھی شائقین کے زخموں پر نمک چھڑکتے رہیں گے۔

 
Load Next Story