ٹرمپ کی پالیسیاں
نئے امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کی پالیسیوں، حکمت عملیوں اور اقدامات عالمی سطح پر ہلچل کا باعث بنے ہوئے ہیں
ISLAMABAD:
اس وقت نئے امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کی پالیسیوں، حکمت عملیوں اور اقدامات عالمی سطح پر ہلچل کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ مسلم دنیا میں ان کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ مسلمان دشمن ہیں۔ یہ تاثر کسی حد تک غلط بھی نہیں ہے۔ لیکن ان کے اقدامات کا دائرہ صرف مسلم دشمنی تک محدود نہیں ہے، بلکہ ان کا اصل ہدف عالمگیریت یعنی گلوبلائزیشن ہے۔ کیونکہ ایک طرف وہ نیٹو پر شدید تنقید کرتے ہوئے اس کے لیے امریکی امداد میں کمی کی تجویز پیش کرتے ہیں، جب کہ دوسری طرف میکسیکو کے محنت کشوں کو امریکا آنے سے روکنے کے لیے دیوارِ چین کی طرز پر دیوار کی تعمیر کا اعلان کرتے ہیں۔ لہٰذا ان کی پالیسیوں کا عالمی سیاسی منظرنامے کے تناظر میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلے تو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ گلوبلائزیشن کیا ہے؟ اس کا آغاز کب ہوا؟ یہ عالمی سطح پر فائدہ مند ہے یا نقصان دہ؟ گلوبلائزیشن کے بارے میں تین نکتہ ہائے نظر ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ یہ مظہر ریاستوں کی تشکیل کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا، جب ممالک کے درمیان سفارتی روابط قائم ہوئے۔ دوسرا نکتہ نظر معروف ماہر معاشیات ایڈم اسمتھ کے حامیوں کا ہے، جو یہ سمجھتے ہیں کہ 15 ویں صدی میں جب یورپ نے خام مال اور اپنی مصنوعات کے لیے نئی منڈیاں تلاش کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔
تیسرا نکتہ نظر یہ ہے کہ انیسویں صدی میں کارل مارکس اور اینجلز نے کمیونسٹ مینی فیسٹو کے ذریعے ''دنیا بھرکے مزدورو! ایک ہوجاؤ''کا تصور پیش کرکے گلوبلائزیشن کو ایک نئی شکل دی۔ گلوبلائزیشن کے اولین تصور کے کوئی تاریخی شواہد نہیں ملتے، جب کہ 15 ویں صدی میں شروع ہونے والی گلوبلائزیشن کو دوسری عالمی جنگ کے خاتمہ کے بعد نوآبادیاتی نظام کے ختم ہوجانے سے دھچکا ضرور پہنچا۔ مگر عالمی مالیاتی اداروں کی تشکیل نے سرمایہ کی آزادانہ نقل وحمل کے لیے آسانیاں پیدا کرکے اسے نئی شکل دے دی۔ جو آج انتہائی طاقتور انداز میں جاری ہے۔
اب ذرا گلوبلائزیشن کی اقسام پر گفتگو کرلی جائے۔ پہلی قسم سرمایہ کی گلوبلائزیشن ہے، جو 15 ویں صدی سے جاری ہے۔ اس نے 20 ویں صدی کے دوسرے نصف کے بعد نئی شکل اختیار کرلی۔ دوسری قسم افرادی قوت کی گلوبلائزیشن کی ہے، جس کا تذکرہ کمیونسٹ مینی فیسٹو میں کیا گیا ہے۔ تیسری قسم 20 ویں صدی میں شروع ہونے والی سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی کے نتیجے میں انفارمیشن اور سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کی دریافت اور فروغ ہے۔ اس ٹیکنالوجی نے کرۂ ارض پر آباد انسانوں کو انتہائی قریب کردیا اور دنیا پر ایک بڑے گاؤں کا گماں ہونے لگا۔
GATT (جنرل ایگریمنٹ فار ٹریڈ اینڈ ٹیرف) کی جگہ WTO (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) کی تشکیل، سرمایہ کے بلاروک ٹوک نقل و حمل اور سرمایہ کاری نے جہاں ایک طرف جدید مصنوعات کو عام آدمی کی دہلیز تک پہنچایا، وہیں روزگار کے نئے مسائل بھی پیدا ہوئے۔
عالمگیر (جو ملٹی نیشنل اور ٹرانس نیشنل کمپنیاں کہلاتی ہیں) کمپنیوں نے اپنے مالیاتی مفادات کی خاطر حکومتوں پر دباؤ ڈال کر بعض ایسے فیصلے کرائے جس کے نتیجے میں ان کمپنیوں کے سرمایہ میں تو بیش بہا اضافہ ہوا، مگر عام آدمی کی مشکلات بھی بڑھیں۔ بعض نئی اصطلاحات بھی متعارف کرائی گئیں، جیسے ''وسیع تر مفاد میں کمپنیوں کا انضمام''، ''ڈاؤن سائزنگ اور رائٹ سائزنگ''اور "Outsourcing" وغیرہ۔ ان پالیسیوں نے ہنرمند اور غیر ہنرمند افرادی قوت کے مالیاتی مسائل میں کئی گنا اضافہ کیا۔
مثال کے طورپر اس وقت دنیا میں کوئی بھی مصنوعات ایسی نہیں جس میں استعمال ہونے والے تمام پرزے اسی کمپنی کے اپنے تیار کردہ ہوں، جس کے برانڈ نام سے یہ مصنوعات فروخت ہورہی ہیں۔ Outsourcing نے کمپنیوں کو یہ موقع فراہم کردیا ہے کہ جو پرزہ جہاں سے سستا ملے حاصل کرلیا جائے۔ اسی طرح سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سستی افرادی قوت کی خاطر کارخانوں اور صنعتی یونٹوں کو ترقی پذیر ممالک میں منتقل کرنے کا سلسلہ تیز تر ہوا۔ جس کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک میں بیروزگاری میں اضافہ ہوا۔
1990ء سے 2005ء کے دوران امریکی کمپنی نیشنل موٹرز نے اپنے 26 یونٹ چین، بھارت اور جرمنی کے مشرقی حصے میں منتقل کیے۔ یہ ایک مثال ہے، ایسی درجنوں مثالیں ہیں۔ جن کی وجہ سے امریکا سمیت ترقی یافتہ دنیا میں بیروزگاری میں اضافہ ہوا۔ اسی طرح میکسیکو سے بڑی تعداد میں سستی افرادی قوت کی امریکا آمد نے امریکی محنت کشوں کے لیے روزگار کے مسائل پیدا کیے ہیں۔
دوسری طرف سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا کے بڑھتے ہوئے عالمی کردار اور نیو ورلڈ آرڈر کے ذریعہ ترقی پذیر خاص طور پر قدرتی وسائل کی دولت سے مالامال دنیا کے ممالک کی تشکیل نو کی خواہش نے امریکا کی معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ امریکی اہل دانش کا بڑا حصہ اس صورتحال پر خوش نہیں ہے۔
گزشتہ کئی برسوں سے امریکا کے ذرایع ابلاغ میں ایسے مضامین شایع ہو رہے ہیں، جن میں امریکی حکومتوں کی عالمی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ان دانشوروں کا موقف ہے کہ امریکی منصوبہ ساز داخلی امور کو نظر انداز کرتے ہوئے بیرونی معاملات میں زیادہ الجھ گئے ہیں۔
اس صورتحال کی ایک مثال نیٹو (NATO) ہے، جس کا دفاعی بجٹ دنیا کے تمام ممالک کے کل دفاعی بجٹ سے دوگنا ہے۔ جس میں امریکا کا حصہ 70 فیصد ہے۔ امریکی رائے عامہ کو اس پر بھی شدید اعتراض ہے کہ امریکا اس ادارے کی دفاعی ضروریات میں زیادہ حصہ ڈال رہا ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ سرد جنگ کے بعد جب وارسا پیکٹ ختم ہوگیا، تو نیٹو کو بھی ختم ہوجانا چاہیے تھا۔
اب اس تناظر میں ڈونلڈٹرمپ کی کامیابی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ انھیں قومی سرمایہ کاروں کے علاوہ محنت کش طبقات کی بڑی اکثریت نے ووٹ دیا۔ چنانچہ ان کے 7 بڑے فیصلے جن پر وہ فوری اقدامات کرنا چاہتے ہیں، ان میں سب سے اہم گلوبلائزیشن کی جگہ قومی معیشت کو مستحکم کرنا ہے۔
میکسیکو سمیت دیگر ممالک سے سستی افرادی قوت کے امریکا میں قانونی اور غیر قانونی داخلہ کو روکنا، نیٹو کے بجٹ میں تخفیف، ٹرانس پیسیفک پارٹنر شپ اور NAFTA (نارتھ امریکن فری ٹریڈ ایگریمنٹ) کے معاہدوں میں مناسب ترامیم، چین اور ایران کے بارے میں زیادہ سخت موقف، چار دہائیوں سے جاری One China پالیسی کی جگہ تائیوان کی حیثیت کو اہمیت دینا، تاکہ چین کو عالمی تجارت میں محدود کرنا جیسی پالیسیاں شامل ہیں۔ ملکی سطح پر وہ ٹیکس کے نظام میں ردوبدل، اوباماکی صحت پالیسی میں تبدیلیاں اور امیگریشن پالیسی کو سخت کرنے کے خواہشمند ہیں، ساتھ ہی وہ عدلیہ کی تشکیل نو کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔
امریکا میں بعض ری پبلکن منصوبہ سازوں کے ذہن میں آنے والی تبدیلیوں کا اندازہ ان کے ایک سینیٹر کی جانب سے ایوان نمایندگان میں جمع کرائے جانے والے اس بل سے لگایا جاسکتا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ امریکا کو اقوام متحدہ سے نکل جانا چاہیے۔ یہ ری پبلکن پارٹی کے ایک مخصوص حلقے کی سوچ ہے۔ کیونکہ ٹرمپ کی پالیسیوں اور اقدامات کے باعث پارٹی میں تقسیم پیدا ہوگئی ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بڑے سرمایہ دار گروپس، ذرایع ابلاغ، سیاسی و سماجی تنظیمیں، تارک الوطن امریکی شہری اور طلبا ان کے خلاف عہدہ صدارت سنبھالنے کے روز سے مسلسل احتجاج کررہے ہیں۔ جب کہ امریکی مقتدر اشرافیہ ڈونلڈ ٹرمپ کی قصر ابیض میں آمد اور ان کے تندو تیز بیانات اور عجلت میں کیے گئے فیصلوں کی وجہ سے خاصی حد تک پریشان ہے۔ یہ طے ہے کہ ڈونلڈٹرمپ کی شکل میں امریکا کے عالمی تشخص کو جو نقصان پہنچ رہا ہے، اس کا ازالہ شاید کئی دہائیوں میں جاکر ہوسکے۔
لیکن یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ قوم پرستانہ رجحانات میں اضافہ صرف امریکا تک محدود نہیں، بلکہ یورپ میں بھی جڑیں پکڑ رہے ہیں۔ برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہوگیا ہے۔ یورو کا حال پتلا ہوچکا ہے اور وہ قریب المرگ ہے۔ جرمنی اور فرانس میں خارجہ پالیسیاں شدید تنقید کی زد میں ہیں۔
یورپ کے بیشتر ممالک میں اگلے انتخابات میں قیادتوں میں تبدیلی کے آثار پیدا ہوگئے ہیں۔ دوسری طرف ثقافتی گلوبلائزیشن کی وجہ سے بیشتر ترقی پذیر اقوام میں شناخت کا نیا بحران پیدا ہوگیا ہے۔ یوں دنیا میں ایک نئی تبدیلی کروٹ بدلتی نظر آرہی ہے۔ اب اس کی شکل اورسمت کیا ہوگی، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
اس وقت نئے امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کی پالیسیوں، حکمت عملیوں اور اقدامات عالمی سطح پر ہلچل کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ مسلم دنیا میں ان کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ مسلمان دشمن ہیں۔ یہ تاثر کسی حد تک غلط بھی نہیں ہے۔ لیکن ان کے اقدامات کا دائرہ صرف مسلم دشمنی تک محدود نہیں ہے، بلکہ ان کا اصل ہدف عالمگیریت یعنی گلوبلائزیشن ہے۔ کیونکہ ایک طرف وہ نیٹو پر شدید تنقید کرتے ہوئے اس کے لیے امریکی امداد میں کمی کی تجویز پیش کرتے ہیں، جب کہ دوسری طرف میکسیکو کے محنت کشوں کو امریکا آنے سے روکنے کے لیے دیوارِ چین کی طرز پر دیوار کی تعمیر کا اعلان کرتے ہیں۔ لہٰذا ان کی پالیسیوں کا عالمی سیاسی منظرنامے کے تناظر میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلے تو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ گلوبلائزیشن کیا ہے؟ اس کا آغاز کب ہوا؟ یہ عالمی سطح پر فائدہ مند ہے یا نقصان دہ؟ گلوبلائزیشن کے بارے میں تین نکتہ ہائے نظر ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ یہ مظہر ریاستوں کی تشکیل کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا، جب ممالک کے درمیان سفارتی روابط قائم ہوئے۔ دوسرا نکتہ نظر معروف ماہر معاشیات ایڈم اسمتھ کے حامیوں کا ہے، جو یہ سمجھتے ہیں کہ 15 ویں صدی میں جب یورپ نے خام مال اور اپنی مصنوعات کے لیے نئی منڈیاں تلاش کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔
تیسرا نکتہ نظر یہ ہے کہ انیسویں صدی میں کارل مارکس اور اینجلز نے کمیونسٹ مینی فیسٹو کے ذریعے ''دنیا بھرکے مزدورو! ایک ہوجاؤ''کا تصور پیش کرکے گلوبلائزیشن کو ایک نئی شکل دی۔ گلوبلائزیشن کے اولین تصور کے کوئی تاریخی شواہد نہیں ملتے، جب کہ 15 ویں صدی میں شروع ہونے والی گلوبلائزیشن کو دوسری عالمی جنگ کے خاتمہ کے بعد نوآبادیاتی نظام کے ختم ہوجانے سے دھچکا ضرور پہنچا۔ مگر عالمی مالیاتی اداروں کی تشکیل نے سرمایہ کی آزادانہ نقل وحمل کے لیے آسانیاں پیدا کرکے اسے نئی شکل دے دی۔ جو آج انتہائی طاقتور انداز میں جاری ہے۔
اب ذرا گلوبلائزیشن کی اقسام پر گفتگو کرلی جائے۔ پہلی قسم سرمایہ کی گلوبلائزیشن ہے، جو 15 ویں صدی سے جاری ہے۔ اس نے 20 ویں صدی کے دوسرے نصف کے بعد نئی شکل اختیار کرلی۔ دوسری قسم افرادی قوت کی گلوبلائزیشن کی ہے، جس کا تذکرہ کمیونسٹ مینی فیسٹو میں کیا گیا ہے۔ تیسری قسم 20 ویں صدی میں شروع ہونے والی سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی کے نتیجے میں انفارمیشن اور سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کی دریافت اور فروغ ہے۔ اس ٹیکنالوجی نے کرۂ ارض پر آباد انسانوں کو انتہائی قریب کردیا اور دنیا پر ایک بڑے گاؤں کا گماں ہونے لگا۔
GATT (جنرل ایگریمنٹ فار ٹریڈ اینڈ ٹیرف) کی جگہ WTO (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) کی تشکیل، سرمایہ کے بلاروک ٹوک نقل و حمل اور سرمایہ کاری نے جہاں ایک طرف جدید مصنوعات کو عام آدمی کی دہلیز تک پہنچایا، وہیں روزگار کے نئے مسائل بھی پیدا ہوئے۔
عالمگیر (جو ملٹی نیشنل اور ٹرانس نیشنل کمپنیاں کہلاتی ہیں) کمپنیوں نے اپنے مالیاتی مفادات کی خاطر حکومتوں پر دباؤ ڈال کر بعض ایسے فیصلے کرائے جس کے نتیجے میں ان کمپنیوں کے سرمایہ میں تو بیش بہا اضافہ ہوا، مگر عام آدمی کی مشکلات بھی بڑھیں۔ بعض نئی اصطلاحات بھی متعارف کرائی گئیں، جیسے ''وسیع تر مفاد میں کمپنیوں کا انضمام''، ''ڈاؤن سائزنگ اور رائٹ سائزنگ''اور "Outsourcing" وغیرہ۔ ان پالیسیوں نے ہنرمند اور غیر ہنرمند افرادی قوت کے مالیاتی مسائل میں کئی گنا اضافہ کیا۔
مثال کے طورپر اس وقت دنیا میں کوئی بھی مصنوعات ایسی نہیں جس میں استعمال ہونے والے تمام پرزے اسی کمپنی کے اپنے تیار کردہ ہوں، جس کے برانڈ نام سے یہ مصنوعات فروخت ہورہی ہیں۔ Outsourcing نے کمپنیوں کو یہ موقع فراہم کردیا ہے کہ جو پرزہ جہاں سے سستا ملے حاصل کرلیا جائے۔ اسی طرح سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سستی افرادی قوت کی خاطر کارخانوں اور صنعتی یونٹوں کو ترقی پذیر ممالک میں منتقل کرنے کا سلسلہ تیز تر ہوا۔ جس کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک میں بیروزگاری میں اضافہ ہوا۔
1990ء سے 2005ء کے دوران امریکی کمپنی نیشنل موٹرز نے اپنے 26 یونٹ چین، بھارت اور جرمنی کے مشرقی حصے میں منتقل کیے۔ یہ ایک مثال ہے، ایسی درجنوں مثالیں ہیں۔ جن کی وجہ سے امریکا سمیت ترقی یافتہ دنیا میں بیروزگاری میں اضافہ ہوا۔ اسی طرح میکسیکو سے بڑی تعداد میں سستی افرادی قوت کی امریکا آمد نے امریکی محنت کشوں کے لیے روزگار کے مسائل پیدا کیے ہیں۔
دوسری طرف سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا کے بڑھتے ہوئے عالمی کردار اور نیو ورلڈ آرڈر کے ذریعہ ترقی پذیر خاص طور پر قدرتی وسائل کی دولت سے مالامال دنیا کے ممالک کی تشکیل نو کی خواہش نے امریکا کی معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ امریکی اہل دانش کا بڑا حصہ اس صورتحال پر خوش نہیں ہے۔
گزشتہ کئی برسوں سے امریکا کے ذرایع ابلاغ میں ایسے مضامین شایع ہو رہے ہیں، جن میں امریکی حکومتوں کی عالمی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ان دانشوروں کا موقف ہے کہ امریکی منصوبہ ساز داخلی امور کو نظر انداز کرتے ہوئے بیرونی معاملات میں زیادہ الجھ گئے ہیں۔
اس صورتحال کی ایک مثال نیٹو (NATO) ہے، جس کا دفاعی بجٹ دنیا کے تمام ممالک کے کل دفاعی بجٹ سے دوگنا ہے۔ جس میں امریکا کا حصہ 70 فیصد ہے۔ امریکی رائے عامہ کو اس پر بھی شدید اعتراض ہے کہ امریکا اس ادارے کی دفاعی ضروریات میں زیادہ حصہ ڈال رہا ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ سرد جنگ کے بعد جب وارسا پیکٹ ختم ہوگیا، تو نیٹو کو بھی ختم ہوجانا چاہیے تھا۔
اب اس تناظر میں ڈونلڈٹرمپ کی کامیابی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ انھیں قومی سرمایہ کاروں کے علاوہ محنت کش طبقات کی بڑی اکثریت نے ووٹ دیا۔ چنانچہ ان کے 7 بڑے فیصلے جن پر وہ فوری اقدامات کرنا چاہتے ہیں، ان میں سب سے اہم گلوبلائزیشن کی جگہ قومی معیشت کو مستحکم کرنا ہے۔
میکسیکو سمیت دیگر ممالک سے سستی افرادی قوت کے امریکا میں قانونی اور غیر قانونی داخلہ کو روکنا، نیٹو کے بجٹ میں تخفیف، ٹرانس پیسیفک پارٹنر شپ اور NAFTA (نارتھ امریکن فری ٹریڈ ایگریمنٹ) کے معاہدوں میں مناسب ترامیم، چین اور ایران کے بارے میں زیادہ سخت موقف، چار دہائیوں سے جاری One China پالیسی کی جگہ تائیوان کی حیثیت کو اہمیت دینا، تاکہ چین کو عالمی تجارت میں محدود کرنا جیسی پالیسیاں شامل ہیں۔ ملکی سطح پر وہ ٹیکس کے نظام میں ردوبدل، اوباماکی صحت پالیسی میں تبدیلیاں اور امیگریشن پالیسی کو سخت کرنے کے خواہشمند ہیں، ساتھ ہی وہ عدلیہ کی تشکیل نو کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔
امریکا میں بعض ری پبلکن منصوبہ سازوں کے ذہن میں آنے والی تبدیلیوں کا اندازہ ان کے ایک سینیٹر کی جانب سے ایوان نمایندگان میں جمع کرائے جانے والے اس بل سے لگایا جاسکتا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ امریکا کو اقوام متحدہ سے نکل جانا چاہیے۔ یہ ری پبلکن پارٹی کے ایک مخصوص حلقے کی سوچ ہے۔ کیونکہ ٹرمپ کی پالیسیوں اور اقدامات کے باعث پارٹی میں تقسیم پیدا ہوگئی ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بڑے سرمایہ دار گروپس، ذرایع ابلاغ، سیاسی و سماجی تنظیمیں، تارک الوطن امریکی شہری اور طلبا ان کے خلاف عہدہ صدارت سنبھالنے کے روز سے مسلسل احتجاج کررہے ہیں۔ جب کہ امریکی مقتدر اشرافیہ ڈونلڈ ٹرمپ کی قصر ابیض میں آمد اور ان کے تندو تیز بیانات اور عجلت میں کیے گئے فیصلوں کی وجہ سے خاصی حد تک پریشان ہے۔ یہ طے ہے کہ ڈونلڈٹرمپ کی شکل میں امریکا کے عالمی تشخص کو جو نقصان پہنچ رہا ہے، اس کا ازالہ شاید کئی دہائیوں میں جاکر ہوسکے۔
لیکن یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ قوم پرستانہ رجحانات میں اضافہ صرف امریکا تک محدود نہیں، بلکہ یورپ میں بھی جڑیں پکڑ رہے ہیں۔ برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہوگیا ہے۔ یورو کا حال پتلا ہوچکا ہے اور وہ قریب المرگ ہے۔ جرمنی اور فرانس میں خارجہ پالیسیاں شدید تنقید کی زد میں ہیں۔
یورپ کے بیشتر ممالک میں اگلے انتخابات میں قیادتوں میں تبدیلی کے آثار پیدا ہوگئے ہیں۔ دوسری طرف ثقافتی گلوبلائزیشن کی وجہ سے بیشتر ترقی پذیر اقوام میں شناخت کا نیا بحران پیدا ہوگیا ہے۔ یوں دنیا میں ایک نئی تبدیلی کروٹ بدلتی نظر آرہی ہے۔ اب اس کی شکل اورسمت کیا ہوگی، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔