بانو آپا بھی چلی گئیں
میں بانو آپا کے جانے کی خبر کے ساتھ یادیں سمیٹنے میں لگ گیا
کراچی میں گرمی لوٹ آئی تھی، فروری کے بسنتی مہینے کا آغاز بھی ہو چکا تھا، پنجاب میں ادھر بھی اور اُدھر بھی بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے ''آئی بسنت، پالا اڑنت'' یعنی بسنت آئی اور سردی (پالا) اڑ گئی، مگر کراچی میں دو دن کی گرمی کے بعد پھر یخ ہوائیں چلنے لگیں اور سردی لوٹ آئی۔ کراچی والے اسے کوئٹہ کی ہوائیں کہتے ہیں۔ پورے بلوچستان سے برف باری کی خبریں آ رہی تھیں۔
ہفتہ 4 فروری2017ء کی شام بھی سرد تھی، بظاہر سب کچھ ٹھیک تھا، کوئی پریشانی نہیں تھی، مگر دل پتہ نہیں کیوں اداس تھا، ماحول بجھا بجھا سا کہ خبر آ گئی ''بانو آپا چلی گئیں''۔ دل کیوں اداس تھا، فضا کیوں بجھی بجھی سی تھی، سبب سامنے آ گیا۔
بڑا وقت گزرا سالہا سال سے بانو آپا کی گُڈی چڑھی ہوئی تھی، بڑے پیچے لڑے مگر ساری گڈیاں کٹ کٹا گئیں، اور بانو آپا کی گڈی آسمانوں پر چڑھی رہی۔ مگر اب کی بسنت بانو آپا نے اپنی ڈور اپنے ہاتھ سے کاٹ دی۔ دور آسمانوں میں اڑتی گڈی ہواؤں کے ساتھ ساتھ ڈولتی دور بہت دور ان وادیوں کی طرف جا رہی تھی، وہاں جہاں بانو آپا کے اپنے آباد ہیں، انھی میں ان کے ''دل دا جانی'' بھی ہے۔
میں بانو آپا کے جانے کی خبر کے ساتھ یادیں سمیٹنے میں لگ گیا۔ دو تین گھنٹے اسی سمیٹا سمیٹی میں گزر گئے۔ اب میری انگلیاں فون پر چل رہی تھیں۔ ادھر سے اثیر احمد کی آواز آئی ''جی پرویز بھائی'' میں نے اثیر سے کہا ''آج اشفاق بھائی کا انتقال ہو گیا'' اثیر نے کہا جی ہاں، بالکل۔ میں نے کہا ''بانو آپا زندہ تھیں تو اک آس باقی تھی، لگتا تھا اشفاق بھائی ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔''
میں نے پرسے کی رسم نبھائی اور فون بند کر دیا۔ یادیں تھیں کہ امڈی چلی آ رہی تھیں۔ جب اشفاق بھائی کا انتقال ہوا تھا تو میں ''داستان سرائے'' (اشفاق احمد کے گھر کا نام) گیا تھا۔ ابھی داستان کا خاتمہ نہیں ہوا تھا، کہانی ابھی جاری تھی۔ بانو آپا میرے سامنے بیٹھی تھیں، پھل پہلے سے میز پر پڑے تھے۔ ساتھ خوبصورت دستے والی چھری تھی۔ آپا نے سیب کاٹ کر مجھے دیے۔ یہ آنے والوں کی تواضع کا پیار بھرا انداز تھا، ''داستان سرائے'' کا وتیرہ تھا۔ آنے والے کے لیے اپنائیت کا بے شمار بے پناہ اظہار۔ ''داستان سرائے'' نے زندگی بھر محبتیں ہی بانٹی ہیں، استقبال کے لیے مسکراہٹیں ہی پیش کی ہیں۔ دلوں کو جوڑا ہے۔ نفرتوں کو توڑا ہے، داستان سرائے والوں کے جب جب ہونٹ کھلے ہیں شہد ہی ٹپکا ہے۔ آنکھوں سے پیار کے رنگ برسے ہیں۔ عجز و انکساری ''مٹی او مٹی بشر'' یہ اور ایسے ہی اصول تھے جن پر داستان سرائے والے آخری سانس تک قائم رہے۔ محبتوں بھرا ایک اور عہد تمام ہوا۔ یہ وہ لوگ تھے جن سے مل کر زندہ رہنے کو جی چاہتا ہے۔ سرور بارہ بنکوی کمال کا شعر کہہ گئے ہیں:
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے، وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر، ایسے بھی ہیں
گئے سال لاہور گیا تھا، نومبر کا آغاز تھا، ابھی جاڑا کھل کر نہیں آیا تھا۔ رانا مجید اور آغا ارشد پکڑ کر ایک محفل میں لے گئے۔ کہا ہر ماہ زبردست ناشتے کے ساتھ ملاقات کا بہانہ تراشا جاتا ہے۔ یہ ایک بڑی درسگاہ کی عمارت تھی، بلکہ ایک بڑے قطعہ زمین پر کئی عمارتیں تھیں، ایک بڑے ہال میں تقریب کا اہتمام تھا۔ ناشتے کے لیے مہمانوں کو بلایا جا رہا تھا، ناشتے کی خاص ڈش پائے تھے۔ ''لاہوری اور سری پائے'' سو مہمانوں نے خوب انصاف کیا اور جی بھر کر کھایا۔
ناشتہ ہو چکا، اب سب کا رخ اسٹیج کی طرف تھا۔ بانو آپا اس تقریب کی مہمان خصوصی تھیں۔ اسٹیج تک وہ اپنی وہیل چیئر پر آئیں اور پھر کرسی پر بیٹھ گئیں۔ یہ ''مدرز ڈے'' تھا، ''یوم مادر'' دو چار میزبان مقررین بولے اور بس۔ بانو آپا نے اتنا زیادہ اور اعلیٰ لکھا ہے، بولا ہے کہ اب وہ محفل میں خاموش بھی رہیں تو ان کی موجودگی بولتی ہے، سامعین خاموشی کی آواز سنتے ہیں۔ بانو آپا کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا اور سب سے پہلے میری باری آ گئی۔
''یوم مادر'' کے حوالے سے میں نے گفتگو کا آغاز کیا۔ خواتین و حضرات، صاحبو! آج یوم مادر ہے، اور میرے سامنے اسٹیج پر ایک ماں بیٹھی ہے۔ آج انھی کی وساطت سے میں دو عظیم ماؤں کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ لاہور کے ادیب، شاعر اور ادب نواز بیٹھے تھے۔ چار پانچ سو کا مجمع تھا۔ میں نے کہا ''سامعین! آئیے میرے ساتھ 1942ء میں چلیں۔ یہ مشرقی پنجاب (ہندوستان) کا ضلع ہوشیار پور ہے۔ اس ضلع کی تحصیل وسوہہ کا گاؤں، میانی افغاناں (میانی پٹھاناں) آ جائیں۔ سامعین میرے ساتھ آ جائیں۔
اس گاؤں میں کچے پکے مکانات ہیں اور گاؤں کے ایک پکے مکان میں دو عورتیں آپس میں گلے لگ کر زار و قطار رو رہی ہیں۔ اسی اثنا میں ایک عورت کا چودہ پندرہ سال کا لڑکا جو نویں یا دسویں جماعت کا طالب علم ہے گھر میں داخل ہوتا ہے اور اپنی ماں کے ساتھ دوسری عورت کو روتے دیکھ کر اپنی ماں سے رونے کا سبب پوچھتا ہے، مگر اس کی اماں تو روئے جا رہی ہے حتیٰ کہ دونوں عورتیں ہچکیاں لینے لگتی ہیں۔ نوجوان مسلسل اپنی ماں سے کبھی دوسری عورت سے جسے وہ ماسی (خالہ) کہہ کر بلا رہا ہے اور رونے کا سبب پوچھ رہا ہے۔
آخر بڑی دیر کے بعد نوجوان کی اماں روتے ہوئے اپنے بیٹے کو بتاتی ہے ''وے پتر! میں تینوں کی دساں! تیری ماسی تے لُٹی گئی، ایدھا نکا پتر شیئر نکل گیا اے'' یعنی ''ارے بیٹا! میں تجھے کیا بتاؤں! تیری ماسی (خالہ) کا چھوٹا بیٹا شاعر بن گیا ہے، یہ تو لٹ گئی۔'' اتنا بتا کر وہ دونوں عورتیں پھر گلے لگ کر رونے لگیں۔
سامعین کرام! اب میں آپ کو ان دونوں عورتوں کے بارے میں بتاتا ہوں ۔ وہ دونوں عورتیں دراصل دو عظیم مائیں تھیں۔ بعد کو آنے والے زمانے میں ایک اشفاق احمد کی ماں کہلائیں اور دوسری شاعر عوام حبیب جالب کی ماں۔ واقعہ یہ تھا کہ اینگلو عربک کالج دہلی میں زیر تعلیم ساتویں جماعت کے طالب علم حبیب احمد سے اردو کے پرچے میں ''وقت سحر'' کا جملہ تو نہ بن سکا، شعر بن گیا۔
وعدہ کیا تھا آئیں گے امشب ضرور وہ
وعدہ شکن کو دیکھتے ''وقت سحر'' ہوا
یہ شعر کہنے پر حبیب احمد کی اماں دہلی سے اپنے گاؤں میانی افغاناں روانہ ہوئیں تا کہ اپنے پیر و مرشد بابا حسین شاہ صاحب سے اپنے بچے کے بھٹکنے اور شعر کہہ کر مجنوں بننے پر دعا کی درخواست کرے۔ اپنے پیر صاحب کی خدمت میں حاضری سے پہلے وہ اپنی ہمدرد و خیر خواہ حمیدہ بی بی کے گھر گئیں جو اشفاق احمد کی سگی خالہ تھیں اور نوجوان اشفاق اپنی اماں کے ساتھ خالہ کے گاؤں آیا ہوا تھا۔یہ قصہ اشفاق احمد صاحب نے حبیب جالب صاحب کی پچاسویں سالگرہ کی تقریب منعقدہ فلیٹیر ہوٹل لاہور (1978ء) میں بڑے مزے لے لے کر سنایا تھا۔
ہم سب جانتے ہیں کہ اشفاق صاحب بہت بڑے داستان گو بھی تھے۔جب میں نے بانو آپا کے سامنے یہ قصہ سنایا تھا اور ''یوم مادر'' بھی تھا، تو تادیر اشفاق صاحب اور جالب صاحب کے لیے موجود سامعین تالیاں بجاتے رہے۔ اشفاق صاحب نے ایک جگہ سہیل وڑائچ صاحب کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ کہا تھا ''حبیب جالب کے والد بہت نیک، پنج وقتی نمازی تھے اور بہت خوش خط تھے۔ خوش خط لکھنا میں نے ان سے سیکھا۔'' اسی انٹرویو میں انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ''میں اور حبیب دریائے بیاس پر مچھلیاں پکڑنے جایا کرتے تھے۔''
آج داستان سرائے والوں کی داستان اپنے اختتام کو پہنچی۔ صوفی تبسم کا مصرعہ ''کیا کیا ہمیں یاد آیا جب یاد تری آئی'' آخر میں، میں یہ بھی ضرور کہنا چاہوں گا کہ بانو آپا کا نام ادب میں اشفاق بھائی سے پہلے لکھا جائے گا۔ حق مغفرت کرے (آمین)