پرامن بقائے باہمی کا سمجھوتہ
مسلم لیگ ن کی قیادت اور پارلیمنٹ میں ان کے ساتھی عوام کے ووٹوں سے برسر اقتدار آئے ہیں
MULTAN:
باخبر ذرایع سے معلوم ہوا ہے کہ ہماری قومی سیاست میں بظاہر ایک دوسرے کے کٹر دشمن سمجھے جانے والے قومی رہنما ایک اہم دستاویز پر دستخط کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں، جسے آپ مفاہمت کی یادداشت ''میمورنڈم آف انڈر اسٹینڈنگ'' بھی کہہ سکتے ہیں اور پرامن بقائے باہمی کا سمجھوتہ بھی۔
ہم آپ کو پہلے ہی خبردار کردیں کہ ہمارے یہ باخبر ذرایع بے خبر بھی ہوسکتے ہیں اور غلط بھی، تاہم چاہے یہ مفروضہ ہی کیوں نہ ہو اسے بہت سے ایسے لوگ اہمیت دے رہے ہیں جو دل سے ملک میں ایک ایسا خوشگوار منظر دیکھنا چاہتے ہیں جس میں شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پی رہے ہوں۔ اگرچہ ان باخبر ذرایع نے ان رہنماؤں کا نام نہیں بتایا مگر قدرتی طور پر لوگوں کا دھیان وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کے کٹر حریف عمران خان پر گیا ہے اور اب تک جارہا ہے۔
ان دونوں کو باہم شیر و شکر دیکھنے کے آرزومند زیادہ تر وہ ہیں جو بنیادی طور پر امن پسند واقع ہوئے ہیں، جن کو اپنے قومی رہنماؤں کا آپس میں بچوں کی طرح لڑنا جھگڑنا کچھ اچھا نہیں لگتا اور جو ان میں صلح صفائی کرانا چاہتے ہیں۔ پھر وہ لوگ بھی ہیں جو بیک وقت دونوں کے چاہنے والے اور دونوں کو پسند کرتے ہیں یا جو دونوں میں سے اپنی فائنل چوائس کے بارے میں ابھی کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔ ان کے خیال میں دونوں میں بیک وقت خوبیاں بھی ہیں اور خامیاں بھی۔ ان کی شخصیتوں میں مثبت پہلو بھی ہیں اور منفی بھی۔ دونوں کا قریب آنا ملک سے انتشار کے اندھیرے بھگانے اور ترقی کا ایک روشن باب شروع کروانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
اب بہتر یہ ہے کہ پہلے معذرت کے ساتھ مسلم لیگ ن کی قیادت کا تذکرہ ہوجائے، مبینہ کرپشن کے تمام تر الزامات کے باوجود جن میں سے زیادہ تر ثابت نہیں ہوسکے ہیں، ان کو عوام میں خاصی مقبولیت حاصل ہے، پاناما لیکس کیس کا بھی، جس کا خاصا ڈھنڈورا پیٹا گیا ہے، سچی بات ہے ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے۔ ذاتی سطح پر دشمن بھی اعتراف کرتے ہیں کہ وہ دل کے برے نہیں ہیں بلکہ بڑے عوام دوست اور دوست نواز واقع ہوئے ہیں۔
ماضی میں خواہ انھوں نے کتنے ہی اچھے برے کام کیے ہوں اب کافی عرصے سے ان کے شب و روز ملک کو ترقی و خوشحالی کے راستے پر گامزن کرنے میں صرف ہو رہے ہیں، جس کا ایک بہت بڑا ثبوت سی پیک کا منصوبہ ہے، جسے اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک بھی زبردست مقبولیت اور پذیرائی حاصل ہو رہی ہے، وہ بھارت ہو یا روس، ایران ہو یا افغانستان، ہر ایک اس منصوبے میں شریک ہونا چاہتا ہے۔
اگرچہ بیشتر لوگوں کو اس منصوبے کے فوائد اور نقصانات کا بہت زیادہ علم نہیں ہے اور نہ یہ شعور کہ سی پیک ان کی زندگیوں میں کیا تبدیلیاں لے کر آئے گا مگر ماہرین اسے الٰہ دین کا ایک ایسا چراغ سمجھ رہے ہیں جسے جب کبھی بھی حکمراں حضرات رگڑیں گے تو ایک دیو یا جن آ کھڑا ہوگا اور وہ زبان سے نکلی ہوئی ہر خواہش پوری کردے گا۔
خیر یہ ساری باتیں اور دعوے تو اپنی جگہ، مگر یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت اور پارلیمنٹ میں ان کے ساتھی عوام کے ووٹوں سے برسر اقتدار آئے ہیں اور انھیں ووٹوں کے ذریعے ہی اقتدار سے ہٹایا جاسکتا ہے اور اس کے لیے ان کے مخالفین کو 2018 کے اگلے انتخابات تک انتظار کرنا ہوگا۔ جہاں تک ان پر لگائے جانے والے کرپشن کے الزامات کا تعلق ہے کامن سینس پر مبنی عام خیال یہ ہے کہ جتنا بے تحاشا بینک بیلنس ممکن تھا وہ اپنے کاروبار کے ذریعے بنا چکے ہیں اور انھیں اب مزید دولت کی ضرورت نہیں رہی ہے اور وہ اپنی زندگی کا باقی حصہ عوام کی خدمت میں صرف کرنا چاہتے ہیں اور جب تک انھیں ووٹ دیے جا رہے ہیں ان کے پاس عوام کی خدمت کا یہ قانونی و اخلاقی جواز موجود ہے اور جیسے ہی لوگوں نے انھیں ووٹ دینے بند کیے، وہ اس کے بعد ایک لمحے کے لیے بھی عوام کے حاکم نہیں رہیں گے۔
اب کچھ تذکرہ مسلم لیگ ن کی قیادت کے کٹر حریف عمران خان کا ہوجائے جن میں بعض خامیاں بھی ہیں اور خوبیاں بھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بنیادی طور پر ایماندار اور مخلص ہیں، انھیں عوام کے ایک بڑے طبقے کی تائید اور حمایت حاصل ہے، خاص طور پر نوجوانوں اور خواتین کے طبقے کو ان کا انداز سیاست سب سے الگ اور منفرد لگتا ہے اور ان کے خیال میں عمران واقعی ملک و قوم کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں اور اس بات کے مستحق ہیں کہ اب کسی نہ کسی طرح ''تیسری باری'' انھیں دے دی جائے، اور ایک بار کم ازکم انھیں بھی آزمالیا جائے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی بہت سے لوگ بجا طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ عمران کا انداز خاصا منفی اور جارحانہ ہے، مثلاً ان کی سوئی جیسے کرپشن پر اٹکی ہوئی ہے۔
حالانکہ یہ انسانی نفسیات ہے کہ ایک ہی بات چاہے وہ کتنی ہی صحیح کیوں نہ ہو بار بار کہنے سے اپنی قدر و قیمت اور کشش کھو بیٹھتی ہے اور اسے سن سن کر لوگوں کے کان پکنے لگتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا مشورہ یہ ہے کہ فی الحال عمران خان 2018 کا انتظار کریں اور الیکشن سے چند ماہ پہلے ٹھوس ثبوت کے ساتھ حکمرانوں کے خلاف نکلیں تو بہتر ہوگا۔
اس کے بعد اگر انھوں نے بھرپور انتخابی مہم چلائی، لوگوں کے لیے قابل قبول اچھے امیدوار کھڑے کیے اور لوگوں نے ایسے امیدواروں کو ووٹ دے دیے تو عمران پارلیمنٹ میں اکثریت کی بدولت برسر اقتدار آسکتے ہیں، لیکن اس سے پہلے عمران خان کو اپنے رویے میں سنجیدگی اور بردباری لانی ہوگی اور دشمنوں کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ عمران اور ان کی پارٹی کے جیتنے سے کوئی قیامت نہیں آجائے گی، ان کا مزاج ہرگز انتقامی نہیں ہے اور وہ برسراقتدار آتے ہی اپنے مخالفین سے جیلیں نہیں بھریں گے۔
اس لیے جو لوگ بھی قومی سیاست میں یہ خوشگوار تبدیلی دیکھنے کے خواہش مند ہیں، وہ بجا طور پر یہ سن کر خوش ہوئے ہیں کہ شریف برادران اور عمران خان نے ایک سمجھوتے پر دستخط کیے ہیں، جس کے تحت دونوں ایک دوسرے کا وجود برداشت کرنے اور سیاست میں رواداری کا مظاہرہ کرنے پر تیار ہوگئے ہیں۔ یہ لوگ اس بات پر بھی آمادہ ہوگئے ہیں کہ ایک دوسرے کو برا بھلا نہیں کہیں گے، تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کو مخاطب ہوں گے اور ایک دوسرے کا اچھے الفاظ میں تذکرہ کریں گے۔ اور یہ پالیسی محض پارٹیوں کی ٹاپ لیڈر شپ ہی نہیں بلکہ دوسرے درجے کے رہنما بھی اپنائیں گے۔
رویوں میں تبدیلی کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ بعض بزرگ رہنماؤں نے شریف برادران اور عمران خان سے مل کر انھیں اس بات سے آگاہ کیا تھا کہ وہ اور ان کے ساتھی جس طرح لڑ جھگڑ رہے ہیں اور جس طرح کی زبان استعمال کر رہے ہیں اس کا نئی نسل خاص طور پر بچوں پر بہت برا اثر پڑ رہا ہے اور وہ ایسے گھٹیا جملے اور الفاظ استعمال کرنے لگے ہیں جو ان کے آباؤ اجداد نے بھی کبھی استعمال نہیں کیے تھے، کیونکہ ٹی وی دیکھنے والوں میں بچے اور عورتیں بھی خاصی بڑی تعداد میں شامل ہوتی ہیں اور وہ ٹی وی بھی بڑی پابندی سے دیکھتے ہیں، اس لیے حکمرانوں اور حزب اختلاف کے جھگڑوں کا گھر کے بچوں اور خواتین پر بڑا برا اثر پڑ رہا ہے۔
اگرچہ مائیں بچوں کو قومی رہنماؤں کی تقریروں اور بیانات سے دور رکھنے کی اپنی سی پوری کوشش کرتی ہیں مگر اس کے باوجود کچھ نہ کچھ الفاظ بچوں کے کانوں میں پڑ جاتے ہیں اور وہ لاشعوری طور پر یہ قابل اعتراض جملے اور الفاظ استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ صورتحال اس لیے اور سنگین ہوئی ہے کہ ٹیلی ویژن پر بچوں کے پروگرام ٹیلی کاسٹ نہیں ہوتے اور بچے بڑوں کے پروگرام دیکھنے اور اچھی بری باتیں سیکھنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
ادھر اگر قومی رہنماؤں کے درمیان اچھے ہمسایوں کی طرح رہنے کا سمجھوتہ کامیاب رہا تو ایک دن وہ بھی آسکتا ہے کہ اس مرتبہ کی تیسری باری عمران خان کو مل جائے اور مسلم لیگ ن والے اگر سمجھداری کا مظاہرہ کریں تو عمران کے اقتدار میں آنے کو طویل میعاد میں اپنے حق میں استعمال کرسکتے ہیں۔
اگر اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان نے مسلم لیگ ن کی قیادت کے بارے میں انکوائری کروائی اور کچھ ثابت نہیں ہوسکا تو انکو صحیح معنوں میں ایماندار ہونے کی سند مل جائے گی اور اس بات پر خود عمران کی سبکی ہوجائے گی کہ کرپشن، خاص طور پر پاناما لیکس کے حوالے سے ان کے تمام تر دعوے غلط اور بے بنیاد نکلے۔ تو آئیے دعا کرتے ہیں کہ دونوں کے درمیان ایسے کسی سمجھوتے پر دستخط ہوجائیں اور اس پر عملدرآمد بھی ہوجائے۔