جامعات میں بائیں بازو کی سیاست

جمعیت اور این ایس ایف کو دو مختلف نظریات اور خیالات رکھنے والی طلبا تنظیمیں کہا جاسکتا ہے


Muhammad Ibrahim Azmi Advocate February 13, 2017
[email protected]

KARACHI: آج کل کے نوجوان نہیں جانتے کہ رائٹ اور لیفٹ کیا ہوا کرتے تھے۔ اکیسویں صدی کے طالب علم بے خبر ہیں کہ کالجوں اور جامعات میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کیا ہوتی تھی۔ ساٹھ اور ستر کے عشروں میں قومیتوں اور فرقوں کے بجائے نظریات ہوا کرتے تھے۔ اسلامی جمعیت طلبہ اور نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن اسی دور کے طلبہ و طالبات کی پسندیدہ تنظیمیں ہوا کرتی تھیں۔

پچیس تیس سال قبل کے نوجوان آج کل بزرگی کی سرحد میں داخل ہوچکے ہیں۔ ''ایکسپریس'' کے قارئین اپنے پسندیدہ قلم کاروں کی توصیف و تنقید سے جان جاتے ہوںگے کہ کس نے اپنی جوانی میں ایشیا کے سرخ ہونے کے نعرے لگائے ہوںگے اور کون ایشیا کے سبز ہونے کے نعرے لگاتے رہے ہوںگے۔

ایوب کا دور ساٹھ کا عشرہ تھا، جب کہ بھٹو کے زمانے کو ستر کی دہائی کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے دونوں حکمرانوں کے زمانے میں کالجز اور یونیورسٹیز میں یونین کے انتخابات ہوا کرتے تھے۔ یہ دونوں حکمران تحریکوں اور ہنگامہ آرائی کے ذریعے رخصت ہوئے۔ ایوب اور بھٹو کے خلاف احتجاج میں وکلا، صحافیوں اور مزدوروں کے ساتھ ساتھ طلبا کا بھی بڑا اہم کردار تھا۔ بعد میں آنے والے حکمرانوں نے جان لیا کہ اسٹوڈنٹس یونین کے الیکشن کروانا ایک خطرناک جوا ہے۔

یوں جنرل ضیا نے 84 میں طلبا سیاست پر پابندی عائد کردی۔ درجن بھر حکومتیں آکر چلی گئیں لیکن کوئی بھی اب اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کو تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل کے نوجوان نہیں جانتے کہ دایاں بازو اور بایاں بازو کیا ہوا کرتے تھے۔ انتخابات کے کیا مزے ہوتے تھے اور کامیابی کے بعد نعروں اور جلوس میں کیا سرور ملتا تھا۔

لبرل و ماڈرن طلبہ و طالبات جو سوشلزم کے حامی ہوتے تھے وہ لیفٹ کے لوگ کہلاتے، یہ آزاد خیال اور جدیدیت کے علم بردار ہوتے، روس اور چین کی ترقی سے خوش یا مرعوب یہ طلبا اپنے تعلیمی اداروں میں ایشیا سرخ ہے کا نعرہ لگاتے۔ این ایس ایف کے جھنڈے تلے ان طلبا نے ساٹھ کی دہائی میں کالجز اور یونی ورسٹیز کے انتخابات میں بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ معراج محمد خان اور شبیر رضوی جیسے طالب علم رہنما ان کی قیادت کرتے۔

ستر کا عشرہ آتے آتے این ایس ایف کمزور ہوتی گئی اور جمعیت مضبوط ہوتی گئی۔ اسلامی نظام کے نافذ اور مشرقی روایات کے حامی طلبہ رائٹ کے لوگ کہلاتے۔ مسلم ممالک کے اتحاد کے خواہش مند یہ طلبا اپنے تعلیمی اداروں میں ایشیا سبز ہے کا نعرہ لگاتے۔ جمعیت کے پرچم تلے ان طلبا نے ستر کے عشرے میں اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات میں واضح کامیابیاں حاصل کیں۔ عبدالملک مجاہد اور لیاقت بلوچ جیسے طالب علم رہنما ان کی قیادت کرتے۔

جمعیت اور این ایس ایف کو دو مختلف نظریات اور خیالات رکھنے والی طلبا تنظیمیں کہا جاسکتا ہے۔ لبرل و ماڈرن تنظیم جب انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی تو وہ جشن فتح مناتی۔ اسلامی خیالات رکھنے والے انتخابی کامیابی پر یوم تشکر مناتے۔ ہفتہ طلبہ میں ایک زمانے میں موسیقی کے پروگراموں کو اہمیت دی گئی تو ایک موقع پر مباحثوں و ادبی عدالتوں کو پروان چڑھایا گیا۔

ماڈرن طبقے کی طرف سے تکلفات کے پردے ہٹانے کی بات ہوئی تو اسلامی خیالات رکھنے والے بے تکلفی کے بجائے پردے و حجاب کی بات کرتے۔ اسے آج کل کی زبان میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ کوئی ''ویلنٹائن ڈے'' کی حوصلہ افزائی کرتا ہے تو کوئی اسے ناپسند کرتا ہے۔ یوں دونوں تنظیمیں تعلیمی اداروںمیں طلبہ و طالبات کو ایک فاصلے پر رکھنے اور قریب آجانے کے معاملے پر بھی الجھتی رہیں۔

مرد اور عورت کے تعلق کی نوعیت ہر دور میں زیر بحث رہی ہے۔ انھیں کس قدر قریب آنا چاہیے اور کس قدر فاصلے پر رہنا چاہیے؟ یہ سوال قیامت کی صبح تک موضوع بحث رہے گا۔ مخلوط تعلیمی نظام ہو اور عمر ناپختہ ہو تو سوال مزید پیچیدہ ہوجاتا ہے۔ یہی پیچیدگی ایوب و بھٹو کے زمانے میں دو طلبہ تنظیموں کے درمیان اختلاف کا باعث بنی۔ تقریباً نصف صدی گزرنے کے باوجود بھی اس دور کے طلبہ و طالبات اپنی تقریروں و تحریروں میں اس کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔

مخلوط تعلیم یا علیحدہ علیحدہ اداروں میں تعلیم حاصل کرنا ہمیشہ ایک نازک معاملہ رہا ہے۔ ساٹھ اور ستر کے عشروں میں اس موضوع پر بڑی گفتگو و مباحثے ہوتے۔ اسکولوں میں پہلے لڑکے اور لڑکیوں کو اجازت تھی کہ جہاں چاہیں بیٹھ جائیں۔ پھر طے کیا گیا کہ ایک جانب طلبہ ہوںگے تو دوسری جانب کچھ فاصلے پر لگی بینچوں پر طالبات ہوں گی۔

اب پارلیمنٹ میں بھی خواتین اراکین کے لیے ایک قطار مقرر کردی گئی ہے۔ ہر دور میں محرم، نامحرم اور قربت و دوری کے پیمانے طے ہوتے رہیںگے اور یہ سلسلہ اس قائم دنیا کے آخری دن تک جاری رہے گا۔ یوں اگر کسی دور میں کسی یونیورسٹی میں کسی رئیس جامعہ نے کوئی ضابطہ بنایا تھا کہ طلبہ و طالبات کے درمیان فاصلہ ضروری ہے تو اسے دل پر نہیں لینا چاہیے۔

لڑکیوں کی تعلیم کی کہیں سے مخالفت نہیں رہی اور نہ خواتین کے کام کرنے کا کوئی مسئلہ کبھی پاکستان رہا ہے۔ اصل تنازعہ کہاں پڑھنے اور کس کے ساتھ کام کرنے کا رہا ہے؟ اگر کوئی والدین اپنے بچوں کو مخلوط تعلیمی اداروں میں پڑھانا چاہتے ہیں تو یہ ان کی مرضی پر چھوڑدینا چاہیے۔ اگر کوئی ماں باپ اپنی اولاد کو ''صرف طلبہ کے لیے اور صرف طالبات کے لیے'' والے تعلیمی اداروں میں پڑھاناچاہتے ہیں تو ان کی رائے کا بھی احترام ہونا چاہیے۔ انسانی آزادی کا مطلب اپنی رائے دوسروں پر ٹھونسنا تو ہو ہی نہیں سکتا۔

یوں الگ ایک نظریات رکھنے والے گروہوں کو طنز و طعنوں کے بجائے باہمی احترام کی بنیاد پر اختلاف کرنا چاہیے۔ رجعت پسند اور مغرب زدہ کی اصطلاحوں کو چھوڑدینا چاہیے۔ ملا اور لبرل فاشسٹ کے نام سے مخالفین کو یاد کرنے سے پرہیز کرنا ہی مناسب ہوگا۔ ہرگزرتا دن چوبیس گھنٹے بعد ماضی بن جاتا ہے، روزانہ ڈائریوں کے ورق پلٹے جاتے ہیں اور کیلنڈروں کو اگلی تاریخ پر لایا جاتا ہے۔ ایوب اور بھٹو کے دور کے طلبہ و طالبات اب جوان بچوں کے والدین یا چھوٹے بچوں کے دادا، دادی بن چکے ہیں اب سوال ہے کہ ماضی پر نادم کون ہے؟

جوانی میں جذبات کچھ اور ہوتے ہیں اور ادھیڑ عمری و بزرگی میں معاملت کچھ اور رخ اختیار کرتے ہیں۔ کالج اور یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران جنس مخالف سے قربت بڑھانے کی کیفیت کچھ اور ہوتی ہوگی۔ دو تین عشروں کے بعد اپنی اولاد کے حوالے سے بے تکلف دوستیوں کے خیالات بالکل بدل جاتے ہیں۔ اپنی بیٹی کے حوالے سے مخلوط تعلیم کے کئی حامی ''سجدہ سہو'' کرتے دیکھے گئے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ جوانی میں اپنے لیے پیمانہ کچھ اور ہوتا ہے تو بڑھاپے میں اپنی بچیوں کے لیے پیمانہ کچھ اور۔ ٹی وی اور پاکستان فلم انڈسٹری کے کتنے ہیروز نے اپنی جوان بیٹیوں کو فلموں میں کام کرنے کی اجازت دی ہے؟ جوانی میں مرد و زن کی بے تکلفی کی وکالت کرنے والے بڑھاپے میں اپنی اولاد بالخصوص بیٹیوں پر قدغن لگانے کے سزاوار ٹھہرے ہیں۔ یورپ اور امریکا میں جوانیاں عیش و عشرت سے گزارنے والے اپنی بچیوں کو یہ حق نہیں دیتے۔

سارے جھگڑے ہی زندگی تک ہیں۔ کون مرتا ہے پھر کسی کے لیے۔ تھوڑی سے تحریف کی جائے تو کہہ سکتے ہیں کہ سارے جھگڑے صرف جوانی تک ہی محدود ہیں۔ دور شباب کے بدلنے پر خیالات بھی بدل جاتے ہیں۔ وکالت کی دنیا میں کئی ایسے ساتھی ہیں جو دور طالب علمی میں لکیر کے دوسری جانب تھے۔

''بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست'' کے علم بردار آج وہ بہت اچھے اور بے تکلف دوست ہیں۔ ان سے پوچھا کہ آپ کی صاحبزادی یونیورسٹی میں اگر قوم کے بیٹوں کے ساتھ تعلیم حاصل کررہی ہو تو آپ اسے کس جانب دیکھنا چاہیںگے؟ اپنی جانب یا ہماری جانب؟ اس سوال پر کسی کا نظریں نہ ملانا یا گردن جھکادینا یا بات بدل دینا کیا ظاہر کرتا ہے؟ یہی ناکہ کتنا وزن تھا جامعات میں بائیں بازو کی سیاست کا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔