ٹرمپ پالیساں امریکا تقسیم ہو رہا ہے

سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں اور ماہرین امور خارجہ کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو


ٹرمپ کے اقدامات کی وجہ سے امریکا میں مظاہرے جاری ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران جو دعوے کیے تھے حلف اٹھاتے ہی ان پر کام شروع کردیا ہے۔

امیگریشن، ٹیکسیشن و دیگر حوالوں سے نہ صرف امریکی عوام پرسختیاں کی جارہی ہیں بلکہ 7اسلامی ممالک کے لوگوں پر امریکامیں داخلے پر پابندی لگادی گئی ہے۔ ٹرمپ کے اقدامات کی وجہ سے امریکا میں مظاہرے جاری ہیں جبکہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرف سے بھی ان کے خلاف ردعمل آرہا ہے۔

اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ''ایکسپریس فورم'' میں ''ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیاں اور ان کے اثرات'' کے موضوع پر ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذ ر قارئین ہے۔

ڈاکٹر فاروق حسنات (ماہر امور خارجہ)

ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران بہت ساری باتیں کیں۔ ان میں سے کچھ باتیںمسلمانوں کے حوالے سے تھیں جن سے ہمیں معلوم ہورہا تھا کہ ان کا اثر پاکستان پر بھی پڑے گا۔ بہت سی باتیں امریکا کے اندرونی معاملات کے حوالے سے بھی تھیں جن میں اوباما کیئر ، ٹیکسیشن کے مسائل، میکسیکو کی دیوار بنانا و دیگر شامل ہیں۔ ٹرمپ کی جانب سے اوباما کیئر ختم کردی گئی ہے جس کے بعد 30ملین امریکی بغیر میڈیکل سہولیات کے ہوں گے۔

سوال یہ ہے کہ جب اتنی بڑی تعداد میں لوگ میڈیکل سے محروم ہوں گے تو امریکا سپر پاور کیسے کہلائے گا۔ان کے خلاف امریکا میں مظاہرے شروع ہوچکے ہیں جبکہ ٹرمپ نے میڈیا کے ساتھ بھی لڑائی شروع کرلی ہے۔ یہ امریکا کے اپنے مسائل ہیں اور امریکی خود ان سے نمٹ لیں گے۔ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران اسلامی ممالک پر پابندی کی جو بات کررہے تھے وہ انہوں نے پوری کردی۔ ٹرمپ نے اسلامی ممالک کو ٹارگٹ کرکے اسلامی تہذیب کی توہین کی ہے کیونکہ پابندی 7اسلامی ممالک پر نہیں بلکہ وہاں کے مسلمانوں پر لگائی گئی ہے جبکہ ان ممالک کے غیر مسلموں کو امریکا میں داخلے کی اجازت ہے۔

کہا جاتا ہے کہ جن ممالک میں خانہ جنگی ہے امریکا نے صرف ان پر پابندی لگائی ہے۔ ایران میں تو خانہ جنگی نہیں ہے لیکن اس پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ عراق میںامریکی فوج عراقی فوج کے ساتھ ملکر کام کررہی ہے، اس کے علاوہ 12عراقی پائلٹ ٹیکساس میں زیر تربیت ہیں جنہیں داعش کے ساتھ لڑنے کی ٹریننگ دی جارہی ہے، اب ان کا کیا ہوگا؟ کیا انہیں بھی نکال دیا جائے گا؟

ٹرمپ نے نفرت کی فضا پیدا کردی ہے، کینیڈا کی مسجد میں 12لوگوں کو شہید کردیا گیا، ٹیکساس میں مسجد کو آگ لگا دی گئی جبکہ روزانہ اس طرح کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ امریکا میں اب گرین کارڈ ہولڈر اور دوہری شہریت رکھنے والے لوگوں کے لیے بھی مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔اگر امریکا نے پاکستان پر پابندی لگائی تو ہمارے وہ شہری جو اب امریکا کے شہری ہیں انہیں بھی واپس آنا پڑے گا کیونکہ ان کی پیدائش پاکستان میں ہوئی ہے۔

امریکا کی پابندی کے ردعمل میں ایران نے امریکیوں کا داخلہ بند کردیا جبکہ عراق کی پارلیمنٹ نے اس حوالے سے قرارداد پاس کی ہے کہ امریکا پر پابندی لگائی جائے۔ اگر ایسا ہوگیا تو عراق میں امریکا کی کہانی ختم ہوجائے گی۔ وہاں داعش کے خلاف گھمسان کی لڑائی ہورہی ہے، اگر پابندی لگ گئی تو امریکی افواج کو وہاں سے نکلنا پڑے گا۔ ٹرمپ کی حرکتوں سے دنیا میں خلاء پیدا ہورہا ہے جبکہ روس اور چین اس خلاء کو پر کرنے کیلئے تیار ہیں اور امریکا سے متاثرہ ممالک میں اپنا کردار بڑھا رہے ہیں۔

قازقستان میں شام کے حوالے سے گزشتہ دنوں جو میٹنگ ہوئی ہے اس میں ایران، روس اور چین شامل تھے جبکہ امریکا اس میں شامل نہیں تھا۔ اگر شام میں امریکا کی پابندی کے خلاف ردعمل آتا ہے تو امریکی فوج کو وہاں سے بھی نکلنا پڑے گا۔ اگر امریکا پاکستان پر پابندی لگاتا ہے تو یہاں عوامی دباؤ اتنا زیادہ ہوگا کہ ہمیں بھی امریکا پر پابندی لگانا پڑے گی۔

ایران پہلے ہی امریکا پر پابندی لگا چکا ہے، اگر ہم نے بھی لگا دی تو افغانستان میں موجود امریکی فوج کے لیے وہاں رہنا اور وہاں سے نکلنا مشکل ہوجائے گا۔ دنیا میں نئے الائنس بن رہے ہیں۔ کیا ہم کبھی سوچ سکتے تھے کہ ماسکو میں افغانستان کے حوالے سے امریکا کے بغیر میٹنگ ہواور اس میں روس، چین اور پاکستان شامل ہوں۔ چین نے الائنس کا حصہ بننے کے لیے ہمیں درخواست کی۔ سیریا کے معاملے پر ترکی اور ایران کا موقف مختلف رہا ہے لیکن اب یہ دونوں ملک آپس میں تعاون کررہے ہیں۔

روس، چین اور پاکستان کے درمیان تعلقات آگے بڑھ رہے ہیں جبکہ امریکا خود کو تنہا کررہا ہے جس کا اسے نقصان اٹھانا پڑے گا۔ٹرمپ کہہ رہے ہیں کہ ہر چیز اب امریکا میں بنے گی حالانکہ امریکا کی لیبر سب سے مہنگی ہے، سوال یہ ہے کہ مہنگی پراڈکٹس کون خریدے گا؟ ٹرمپ افراتفری کے صدر ہیں اور وہ دنیا میں افراتفری پھیلا رہے ہیں ۔ ٹرمپ نے امریکی اقدار کو پامال کیا ہے، وہ آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں جس کی وجہ سے وہاں ادارے ٹوٹ رہے ہیں، وہاں بغاوت ہوگئی ہے جبکہ امریکا دوحصوں میں تقسیم ہورہا ہے۔

جنرل (ر) زاہد مبشر شیخ (دفاعی تجزیہ نگار)

اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا ایک سپر پاور ہے اور ٹرمپ امریکا کے صدر منتخب ہوچکے ہیں ۔ انتخابات کے دوران امریکی رائے عامہ کے تمام تقاضے غلط ثابت ہوگئے اور کوئی بھی یہ توقع نہیں کررہا تھا کہ ٹرمپ امریکا کے صدر بنیں گے۔ عام لوگوں میں تو برائیوں کو برداشت کرلیا جاتا ہے لیکن لیڈر میں برائی کو لوگ برداشت نہیں کرتے مگر امریکیوں نے ٹرمپ کی خامیوں کو نظر انداز کردیا اوردور حاضر میں وہ واحد لیڈر ہیں جو تمام تر خرابیوں کے باوجود ایک بڑے ملک صدر بن گئے۔

امریکی صدر کا اثر نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا پر ہوتا ہے لیکن اس وقت ٹرمپ کی پالیسیوں سے سب سے زیادہ متاثر خود امریکا ہورہا ہے۔ وہاں کی بڑی کمپنیاں فکر مند ہیں کہ اگر ٹرمپ نے یہی رویہ اپنائے رکھا تو ان کا کاروبار تباہ ہوجائے گا۔ 16 کے قریب سابق امریکی اٹارنی جرنیلوں نے ٹرمپ کے خلاف مقدمے دائر کیے ہیں جبکہ حاضر سروس اٹارنی جنرل کو اختلاف کرنے پر امریکی صدر نے برطرف کردیا۔ ایسے اقدامات ترقی پذیر ممالک میں تو نظر آتے تھے لیکن امریکا میں پہلی مرتبہ دیکھنے میں آرہے ہیں۔ امریکی نظام میں ادارے مضبوط ہوتے تھے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے اپنی ذاتی رائے کو سب پر مسلط کیا جا رہا ہے۔

امریکی سینیٹرز کے ایک گروپ نے یہ مہم بھی چلائی ہے کہ نیوکلیئر بٹن کے صدارتی اختیار کو سینیٹ کے ساتھ مشروط کردیا جائے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خود ا مریکا کے اپنے لوگ ٹرمپ سے خوفزدہ ہیں۔ ٹرمپ نے حکومتی عمل میں ذاتیات کو شامل کیا ہے جو پہلے دیکھنے میں نہیں آیا۔ لوگ ان کا موازنہ سابق صدر باراک اوباما سے کرتے ہیں۔ وہ انتہائی مہذب تھے، وہ قانون دان بھی تھے اور بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں لیکچر بھی دیتے رہے جبکہ ٹرمپ نے صرف رئیل اسٹیٹ اور اکنامکس میں گریجوایشن کی ہے۔صدارتی آفس ان کا پہلا پبلک آفس ہے جو دنیا کا سب سے بڑا آفس ہے۔ انہیں دفتری امور کا تجربہ نہیں ہے اور اب یہ باتیں بھی چل رہی ہیں کہ وہ اپنی مدت حکومت پوری کرپائیں گے یا نہیں۔ ٹرمپ نے 7اسلامی ملکوں پر پابندی لگائی ہے۔

اسلامی امہ میں ایران اور عراق کا امریکا کے خلاف ردعمل بہترین ہے، ایران نے امریکیوں کے داخلے پر پابندی لگا دی ہے جبکہ عراق کی اسمبلی میں اس حوالے سے قرارداد جمع ہوچکی ہے۔پاکستان کی بات کریں تو ہمارے ہاں پلاننگ کا فقدان ہے اور ہم وقت سے پہلے منصوبہ بندی نہیں کرتے۔ ہمارا دفتر خارجہ کام نہیں کررہا،اسے وقت سے پہلے ہی لابنگ کرنی چاہیے تھی لیکن اس حوالے سے کوئی کام نہیں کیا گیا۔

حکومت سمجھ رہی ہے کہ چند جماعتوں یا لوگوں کو پکڑنے سے معاملات ٹھیک ہوجائیں گے مگر ایسا نہیں ہے۔ ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں، ہمیں اپنے فیصلے خود کرنے چاہئیں، ہم قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں لہٰذا ہم کبھی بھوکے نہیں مریں گے۔ ہمیں امریکا کو دشمن بنانے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی اسے للکارنا چاہیے لیکن اگر وہ کوئی سخت اقدامات اٹھائے تو ہمیں اس کا بھرپور جواب ضرور دینا چاہیے۔ اگر پاکستانیوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی لگتی ہے تو ہمیں بھی امریکیوں کے لیے پابندی کا اعلان کرنا چاہیے۔ اگر امریکا نے افغانستان میں کوئی آپریشن کرنا ہے تو اسے پاکستان کی ضرورت ہے۔

سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کے دور میں جب نیٹو سپلائی روک دی گئی تو امریکا نے ہمارا کیا بگاڑ لیا بلکہ اسے جھکنا اور معافی مانگنا پڑا۔امریکا کو ہماری ضرورت ہے، دنیا میں ہماری جغرافیائی اہمیت ہے لہٰذا ہمیں اسے استعمال کرنا چاہیے۔اِس وقت 10ہزار کے قریب امریکی پاکستان میں قائم امریکی ایمبیسی میں موجود ہیں۔ یہ ایمبیسی دنیا کی سب سے بڑی ایمبیسی ہے، وہاں 7منزلہ ہوٹل بنایا گیا جس میں تقریباََ10ہزار لوگوں کے رہنے کی گنجائش ہے۔ ہمیں ملک کو غیر ملکیوں کی چراہ گاہ نہیں بنانا چاہیے بلکہ دانشمندی کے ساتھ امریکا کا اثر و نفوذ کم کیا جائے۔

ڈاکٹر ارم خالد (پروفیسر شعبہ سیاسیات، جامعہ پنجاب)

امریکی نظام میں تمام جمہوری خصوصیات موجود تھیں جس میں تمام لوگوں کے لیے بلاتفریق رنگ و نسل جگہ تھی لیکن ٹرمپ کے آنے سے امریکا کا یہ کلچر ختم ہوتا ہوانظر آرہا ہے اور اب امریکا کی خامیاں دنیا کے سامنے آرہی ہیں حالانکہ اس سے قبل ان تمام خرابیوں کو ان کے نظام نے احسن طریقے سے چھپا رکھا تھا۔ میرے نزدیک ٹرمپ کی پالیسیاں امریکی جمہوریت کے حسن کو گہنانے کے لیے کافی ہیں۔ ٹرمپ دنیا کو خراب کرنا چاہتے ہیں جبکہ زلزلہ خود امریکا کے اندر آرہا ہے۔

امریکا نے پوری دنیا کے لوگوں کو خوش آمدید کہا، نوکریاں دیں، رہنے کی جگہ دی اور انہیں روزگار کمانے کے بہترین مواقع فراہم کیے لیکن اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکا کی اکثریت کا خوف ، عفریت کی شکل اختیار کررہا ہے جو امریکی نظام کی خوبصورتی کو کھانے کیلئے تیار نظر آتا ہے۔

امریکا نے جن 7 اسلامی ممالک پر پابندی لگائی ان میں عراق شامل ہے۔ حالانکہ 9/11کے حملوں سے لے کر اب تک جتنی بھی دہشت گردی کی کارروائیاں ہوئیں ان میں کوئی عراقی ملوث نہیں تھا ۔ جن ممالک پر پابندی لگائی گئی وہاں مسائل امریکا نے خود پیدا کیے،ان ملکوں کو تباہ کیااور اب پابندی بھی خود ہی لگا رہا ہے۔ میرے نزدیک ٹرمپ دنیا کو ایسے رد عمل کی طرف لیجا رہا ہے جسے امریکا سمیت پوری دنیا کے لیے قابو کرنا مشکل ہوجائے گا بلکہ دنیا اس طرف سوچنے پر مجبور ہوجائے گی کہ کیا دہشت گردی کا ذمہ دار امریکی نظام ہے؟

پاکستانی حکومت کے پاس تیاری کیلئے وقت موجود رہا لیکن سوال یہ ہے کہ ہم نے ٹرمپ کی جیت سے اب تک کیا پلاننگ کی ؟ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں جو کہا تھا وہ اس پر کام کر رہے ہیں لیکن کیا ہماری حکومت نے ان کی پالیسیوں کے اثرات سے بچنے کے لیے لابنگ کی؟ ہم نے تو اپنے سفارتکاروں کو متحرک ہی نہیں کیا اور نہ ہی اپنے ملک میں اس حوالے سے کوئی لائحہ عمل تیار کیا کہ اگر امریکا کی جانب سے کوئی ڈکٹیشن دی جائے گی تو ہمارا ردعمل کیا ہوگا؟

اگر ہم صرف کچھ تنظیموں اورافراد کو بند کرکے یہ سمجھیں کہ امریکا کو مطمئن کرلیں گے تو ایسا نہیں ہوگا۔ امریکا کی پالیسی اور صدر کا ردعمل ایک طرف، حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے خود کو تیار ہی نہیں کیا البتہ وزیراعظم نے ٹرمپ کو جو فون کیا اس پر ہماری جگ ہنسائی ہوئی۔

ہمیں حکومتی سطح پر ٹرمپ کے حوالے سے کوئی حکمت عملی نظر نہیں آئی اور نہ ہی ایسا کوئی بیان سامنے آیا جس سے اپنے لوگوں کو مطمئن کیا جاسکے۔ لاکھوں پاکستانی امریکا میں رہائش پذیر ہیں، بے شمار پاکستانی بچے وہاں تعلیم حاصل کررہے ہیں، لوگ وہاں ملازمت کررہے ہیں جو پریشانی کا شکار ہیں، حکومت کو منصوبہ بندی کے ساتھ امریکا میں مقیم پاکستانیوں کو تحفظ دینا چاہیے۔

ڈاکٹر عاصم اللہ بخش (سیاسی تجزیہ نگار)

ڈونلڈ ٹرمپ امریکی سیاسی نظام میں ایک نئی مثال اور منفرد شخصیت ہیں۔ کچھ لوگ انہیں جرمن شنہشاہ ویلیم کائزردوئم سے ملاتے ہیں اور بعض لوگ انہیں ایڈولف ہٹلر سے تشبیہ دیتے ہیں۔ ایوان صدر ٹرمپ کا پہلا پبلک آفس ہے، اس سے پہلے وہ سیاست کا حصہ نہیں رہے لہٰذا ان کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کیسے آگے بڑھیں گے۔ بطور کاروباری شخصیت اخلاقیات کے حوالے سے ان کی ساکھ اچھی نہیں ہے۔

ٹرمپ کا ایجنڈا دائیں بازو کا ہے، اسی لیے انہوں نے ریپبلکن پارٹی کا انتخاب کیا۔ ٹرمپ تیزی سے فیصلے کررہے ہیں، وہ اپنا ایجنڈہ جلد از جلد لوگوں پر واضح کرنا چاہتے ہیں اورایسا لگتا ہے کہ وہ 4سال نہیں بلکہ 4ماہ کیلئے صدر بنے ہیں۔ سیاست، کاروبار سے مختلف ہوتی ہے۔ کاروبار میں بہادری کے ساتھ فوری فیصلہ لینا ہوتا ہے لیکن سیاست میں تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے ساتھ فیصلہ سازی کی جاتی ہے اور یہاں جلد بازی نہیں ہوتی۔

ایسے فیصلوں سے ہیجانی سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے، امریکا میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے جبکہ ٹرمپ نے اختلاف کرنے پر قائم مقام اٹارنی جنرل کو برطرف کردیا۔ 7ممالک پر پابندی، میکسیکو کی دیوار والی بات و اس طرح کے دیگر اقدامات سے وہ اپنے لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ٹرمپ کو جس حلقے نے جتوایا وہ اسے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ میں تو اپنے ایجنڈے پر کام کررہا ہوں لیکن اس میں بہت ساری رکاوٹیں ہیں۔

ٹرمپ اپنے استحکام کیلئے امریکا اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی کو استعمال کرنے کا پورا ارادہ رکھتے ہیں کیونکہ یہ ان کے معاشی اور سیاسی ایجنڈے کیلئے ضروری ہے۔ ماسکو کی طرف ان کا رجحان نظر آرہا ہے۔ وہ ماسکو کے ساتھ تعلقات بڑھا کر چین کے کردار کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے یورپی اتحادیوںکو "with us or without us" کا پیغام دیا ہے۔ وہ کھل کر اپنی پالیسیوں کا اظہار کررہے ہیں۔

اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ روس بالکل الگ جبکہ فرانس بھی کچھ ایسا ہی کرے گا لیکن برطانیہ، امریکا کے ساتھ چلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔9/11کے بعد جو منظر نامہ تبدیل ہوا تھا اب اس کا دوسرا باب شروع چکا ہے۔ٹرمپ اسلامی ممالک پر پابندیاں لگا رہے ہیں اورانہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اسلامی دہشت گردی کو دنیا سے ختم کردیں گے۔

متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں انہوں نے سرمایہ کاری بھی کی جس سے وہ یہ پیغام دے رہے ہیں کہ جو ہمارے ساتھ چلے گا ہم اس کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے۔ ٹرمپ اپنے ابتدائی 6ماہ میں پوری دنیا پر اپنی پالیسیاں واضح کردینا چاہتے ہیںجس کے بعد مختلف ممالک کے ساتھ مذاکرات کا دور شروع ہوگا۔ پاکستان نے حافظ سعید کو اس لیے نظر بند کیا ہے کہ بھارت کو منفی پراپیگنڈہ نہ کرنے دیا جائے اور وہ کسی ایسی چیز کے خلاف امریکا کو آن بورڈ لے کر پاکستان کے لیے مشکلات پیدا نہ کردے۔

تیسری عالمی جنگ کے حوالے سے باتیں کی جارہی ہیں، میرے نزدیک تیسری عالمی جنگ تو شروع ہوچکی ہے۔ بڑی معیشتوں کا آپس میں ٹکراؤ ہے، ہر جگہ سے اچانک باغی نکل آتے ہیں اور یہ اسی جنگ کا حصہ ہے۔اب چونکہ بڑی طاقتوں کے مفادات زیادہ ہے تو اس لیے باضابطہ جنگ نہیں ہورہی لیکن ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کا عمل سیاسی، سفارتی اور بغاوتی طریقے سے جاری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں