ایف بی آر کی حکمت عملی ذیلی اداروں نے ناقابل عمل قرار دیدی
کمشنرزآئی آر کولیگل ایڈوائزرنامزد کرنے اور پاور آف اٹارنی کے اختیارات حاصل ہیں، دستاویز
فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر)کے ماتحت اداروں نے ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز کی طرف سے مختلف ایپلٹ ٹربیونلز، عدالتوں اوردیگر قانونی فورمز میں اربوں روپے کے ریونیو کے مقدمات کی مانیٹرنگ و پیروی کیلیے متعارف کروائی جانے والی حکمت عملی کو ناقابل عمل قراردیدیا ہے اور ایف بی آر کو 2015 میں قائم کیے جانیوالے ڈائریکٹر جنرل لا کے دفاتر کو مزید مضبوط بنانے اورڈائریکٹوریٹ جنرل لا کے تحت ایف بی آر کے مقدمات کی موثر پیروی کیلیے کنٹریکٹ پر اچھی ساکھ کے حامل پروفیشنل وکلا کی خدمات حاصل کرنے کی تجویز دیدی ہے۔
ایف بی آر ذرائع نے بتایا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے کچھ عرصہ قبل لیٹیگیشن اسٹریٹجی کی ری ویمپنگ کرتے ہوئے خصوصی پالیسی متعارف کروائی تھی جس پر عمل درآمدکیلیے ایف بی آر کے ملک بھر میں قائم تمام ماتحت ادارون کو ہدایات پر مبنی خطوط بھی ارسال کیے گئے تھے لیکن اب ماتحت اداروں کے چیف کمشنرز سے واپسی خطوط موصول ہونا شروع ہوگئے ہیں جن میں اس پالیسی سے مسائل پیدا ہونے کی نشاندہی کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس سے قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی جس سے تکینکی گراؤنڈ پر ریونیو کا نقصان ہوگا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کی طرف سے نئی پالیسی کے تحت ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام ماتحت اداروں میں خصوصی لیٹیگیشن سیل قائم کرنے کا کہا گیا تھا جس کیلیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے تمام ماتحت اداروں کو خصوصی ہدایات جاری کی گئی تھیں جن میں کہا گیا ہے کہ ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز اور ریجنل ٹیکس آفسز و لارج ٹیکس پیئر یونٹس سمیت ڈائریکٹوریٹس میں خصوصی لیٹیگیشن سیل قائم کیے جائیں اور چیف کمشنرز لارج ٹیکس پیئر یونٹس و ریجنل ٹیکس آفسز(آر ٹی اوز) و چیف کلکٹرزاورڈائریکٹر جنرلز ان لٹیگیشن سیل کے سربراہان ہوں گے۔
ذرائع کے مطابق بعض فیلڈ فارمشنز کی جانب سے ایف بی آر کو لکھے جانے والے جوابی لیٹر میں کہا گیا ہے کہ لیٹیگیشن مینجمنٹ فیلڈ آفسز کی اہم ترین ذمے داری ہے اور ریاستی ریونیو کا تحفظ اور عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات میں ڈپارٹمنٹ کی جانب سے بھرپور و موثر نمائندگی کرنا اور ادارے کا موقف بھرپور انداز میں پیش کرنا ایل ٹی یوز و آر ٹی اوز کی اولین ترجیح ہے جبکہ ایکسپریس کو دستیاب مذکورہ لیٹر پر مبنی دستاویز میں مزید بتایا گیا ہے کہ ایپلٹ فورم کے سامنے اپیلیں اور ریفرنس دائر کرنا انکم ٹیکس آرڈینس2001، سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 اور فیڈرل ایکسائز ایکٹ 2005کی متعلقہ شقوں کے تحت کمشنرز کا جوڈیشل فنکشن ہے۔
علاوہ ازیں کمشنرزان لینڈ ریونیو کو لیگل ایڈوائزر نامزد کرنے اور پاور آف اٹارنی جاری کرنے کے بھی اختیارات حاصل ہیں لیکن چیف کمشنرز ان لینڈ ریونیو کو ان پروسیڈنگز میں مداخلت کرنے کا کوئی قانونی اختیار حاصل نہیں ہے اور چیف کمشنرز کو یہ اختیارات دینے کیلیے قانون میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہوگی جوکہ فیلڈ آفسز کے محض انتظامی ہیڈز ہیں اس اقدام سے قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی جس سے تکینکی گراؤنڈ پر ریونیو کا نقصان ہوگا۔ اس کے علاوہ کمشنر ان لینڈ ریونیو کا کیسوں پر قانونی جوریزڈکشن کے لحاظ سے بھی ہولڈ ہوتا ہے اور اسے فزیکل و الیکٹرانک ریکارڈ تک بھی رسائی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ مقدمہ بازی کے حوالے سے ڈیٹا بھی انہی کی طرف سے سنبھالا جاتا ہے۔
مذکورہ لیٹر میں ایف بی آر کو تجویز دی گئی ہے کہ ایف بی آر نے مختلف ایپلٹ ٹربیونلز، عدالتوں اوردیگر قانونی فورمز میں اربوں روپے کے ریونیو کے مقدمات کی مانیٹرنگ اور موثر پیروی کیلیے 2015 میں ڈائریکٹوریٹ جنرل لاقائم کیا تھا جس کے ماتحت ڈائریکٹرز بھی تعینات کیے گئے تھے مگر ان ڈائریکٹرز کو مطلوبہ ہیومن ریسورس و دیگر وسائل فراہم نہیں کیے گئے لہذا ایف بی آر کو تجویز دی جاتی ہے کہ اس ڈائریکٹویٹ جنرل لا کو مضبوط کیا جائے اوران ڈائریکٹوریٹ میں ضرورت کے مطابق افسران و اہلکاروں کی تعیناتی کے ذریعے انہیں مضبوط بنا کر موثر استعمال کے ذریعے لٹیگیشن پالیسی کی نہ صرف بہتر ری ویمپنگ کی جاسکتی ہے بلکہ مختلف قانونی فورمز پر زیر التوا مقدمات کی موثر پیروی کو بھی یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
اس کے علاوہ یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ اس ڈائریکٹوریٹ جنرل لا کے تحت مختلف قانونی فورمز پر مقدمات کی سمات کے لیے کنٹریٹ بنیادوں پر اچھی ساکھ کے حامل پروفیشنل وکلا کی خدمات حاصل کی جائیں اور ان وکلا کومارکیٹ میں رائج کمپنسیشن(ریٹ)کے مطابق فیسوں کی ادائیگی کی جائے یہ وکلا ایف بی آر کے کیسوں کا موثر دفاع کرینگے۔
مذکورہ لیٹر کے آخر میں ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز سے درخواست کی گئی ہے کہ مذکورہ تجاویز کو مد نظر رکھتے ہوئے ایف بی آرکی طرف سے لیگل کیسوں میں چیف کمشنرز ان لینڈ ریونیو کے کردار کے حوالے سے بھجوائی جانے والی پالیسی پر نظر ثانی کی جائے کیونکہ اس سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔
ایف بی آر ذرائع نے بتایا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے کچھ عرصہ قبل لیٹیگیشن اسٹریٹجی کی ری ویمپنگ کرتے ہوئے خصوصی پالیسی متعارف کروائی تھی جس پر عمل درآمدکیلیے ایف بی آر کے ملک بھر میں قائم تمام ماتحت ادارون کو ہدایات پر مبنی خطوط بھی ارسال کیے گئے تھے لیکن اب ماتحت اداروں کے چیف کمشنرز سے واپسی خطوط موصول ہونا شروع ہوگئے ہیں جن میں اس پالیسی سے مسائل پیدا ہونے کی نشاندہی کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس سے قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی جس سے تکینکی گراؤنڈ پر ریونیو کا نقصان ہوگا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کی طرف سے نئی پالیسی کے تحت ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام ماتحت اداروں میں خصوصی لیٹیگیشن سیل قائم کرنے کا کہا گیا تھا جس کیلیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے تمام ماتحت اداروں کو خصوصی ہدایات جاری کی گئی تھیں جن میں کہا گیا ہے کہ ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز اور ریجنل ٹیکس آفسز و لارج ٹیکس پیئر یونٹس سمیت ڈائریکٹوریٹس میں خصوصی لیٹیگیشن سیل قائم کیے جائیں اور چیف کمشنرز لارج ٹیکس پیئر یونٹس و ریجنل ٹیکس آفسز(آر ٹی اوز) و چیف کلکٹرزاورڈائریکٹر جنرلز ان لٹیگیشن سیل کے سربراہان ہوں گے۔
ذرائع کے مطابق بعض فیلڈ فارمشنز کی جانب سے ایف بی آر کو لکھے جانے والے جوابی لیٹر میں کہا گیا ہے کہ لیٹیگیشن مینجمنٹ فیلڈ آفسز کی اہم ترین ذمے داری ہے اور ریاستی ریونیو کا تحفظ اور عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات میں ڈپارٹمنٹ کی جانب سے بھرپور و موثر نمائندگی کرنا اور ادارے کا موقف بھرپور انداز میں پیش کرنا ایل ٹی یوز و آر ٹی اوز کی اولین ترجیح ہے جبکہ ایکسپریس کو دستیاب مذکورہ لیٹر پر مبنی دستاویز میں مزید بتایا گیا ہے کہ ایپلٹ فورم کے سامنے اپیلیں اور ریفرنس دائر کرنا انکم ٹیکس آرڈینس2001، سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 اور فیڈرل ایکسائز ایکٹ 2005کی متعلقہ شقوں کے تحت کمشنرز کا جوڈیشل فنکشن ہے۔
علاوہ ازیں کمشنرزان لینڈ ریونیو کو لیگل ایڈوائزر نامزد کرنے اور پاور آف اٹارنی جاری کرنے کے بھی اختیارات حاصل ہیں لیکن چیف کمشنرز ان لینڈ ریونیو کو ان پروسیڈنگز میں مداخلت کرنے کا کوئی قانونی اختیار حاصل نہیں ہے اور چیف کمشنرز کو یہ اختیارات دینے کیلیے قانون میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہوگی جوکہ فیلڈ آفسز کے محض انتظامی ہیڈز ہیں اس اقدام سے قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی جس سے تکینکی گراؤنڈ پر ریونیو کا نقصان ہوگا۔ اس کے علاوہ کمشنر ان لینڈ ریونیو کا کیسوں پر قانونی جوریزڈکشن کے لحاظ سے بھی ہولڈ ہوتا ہے اور اسے فزیکل و الیکٹرانک ریکارڈ تک بھی رسائی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ مقدمہ بازی کے حوالے سے ڈیٹا بھی انہی کی طرف سے سنبھالا جاتا ہے۔
مذکورہ لیٹر میں ایف بی آر کو تجویز دی گئی ہے کہ ایف بی آر نے مختلف ایپلٹ ٹربیونلز، عدالتوں اوردیگر قانونی فورمز میں اربوں روپے کے ریونیو کے مقدمات کی مانیٹرنگ اور موثر پیروی کیلیے 2015 میں ڈائریکٹوریٹ جنرل لاقائم کیا تھا جس کے ماتحت ڈائریکٹرز بھی تعینات کیے گئے تھے مگر ان ڈائریکٹرز کو مطلوبہ ہیومن ریسورس و دیگر وسائل فراہم نہیں کیے گئے لہذا ایف بی آر کو تجویز دی جاتی ہے کہ اس ڈائریکٹویٹ جنرل لا کو مضبوط کیا جائے اوران ڈائریکٹوریٹ میں ضرورت کے مطابق افسران و اہلکاروں کی تعیناتی کے ذریعے انہیں مضبوط بنا کر موثر استعمال کے ذریعے لٹیگیشن پالیسی کی نہ صرف بہتر ری ویمپنگ کی جاسکتی ہے بلکہ مختلف قانونی فورمز پر زیر التوا مقدمات کی موثر پیروی کو بھی یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
اس کے علاوہ یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ اس ڈائریکٹوریٹ جنرل لا کے تحت مختلف قانونی فورمز پر مقدمات کی سمات کے لیے کنٹریٹ بنیادوں پر اچھی ساکھ کے حامل پروفیشنل وکلا کی خدمات حاصل کی جائیں اور ان وکلا کومارکیٹ میں رائج کمپنسیشن(ریٹ)کے مطابق فیسوں کی ادائیگی کی جائے یہ وکلا ایف بی آر کے کیسوں کا موثر دفاع کرینگے۔
مذکورہ لیٹر کے آخر میں ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز سے درخواست کی گئی ہے کہ مذکورہ تجاویز کو مد نظر رکھتے ہوئے ایف بی آرکی طرف سے لیگل کیسوں میں چیف کمشنرز ان لینڈ ریونیو کے کردار کے حوالے سے بھجوائی جانے والی پالیسی پر نظر ثانی کی جائے کیونکہ اس سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔