سماجی ذرائع اِبلاغ۔۔۔ احتیاط ضروری ہے
بلیک میلنگ کے بعد لڑکیاں زندہ درگور ہو جاتی ہیں
جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں سماجی ذرائع اِبلاغ (سوشل میڈیا) باہمی رابطے کا ایک موثر ذریعہ بن چکا ہے، یہاں تک کہ اسے ایک متبادل ذریعہ اِبلاغ قرار دیا جا رہا ہے۔
عام ذرائع اِبلاغ سے جو خبریں اورمعلومات سامنے نہیں آ پاتیں، وہ اس وسیلے سے سامنے آجاتی ہیں، اور کبھی تو اس قدر اہمیت اختیار کرتی ہیں کہ اخبارات اور ریڈیو ٹی وی کا موضوع بھی بن جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج 'سوشل میڈیا' کا استعمال عام ہو چکا ہے۔ ایک شخص دنیا کے ایک کونے میں بیٹھ کر اپنا پیغام چند لمحوں میں دوسروں تک نہ صرف پہنچا سکتا ہے، بلکہ اپنے ہم خیال لوگوں سے مشترکہ طور پر تبادلۂ خیال بھی کر سکتا ہے۔ گویا انگلی کی پوروں پر ہر آدمی کی ہم خیال دنیا موجود ہے۔ جب سے اسمارٹ فون مارکیٹ میں آئے ہیں، تب سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ شناختی کارڈ کی طرح کی کوئی اہم ضرورت بن گئی ہے۔
ہر شخص خواہ کسی بھی عمر کا ہو، کسی بھی صنف اور شعبے سے ہو، وہ سماجی ذرائع اِبلاغ پر بہت زیادہ متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ ایک پاکستان میں اس وقت تین کروڑ صارفین موجود ہیں، جن میں سے نصف تعداد اسمارٹ فون کے ذریعے سماجی ذرائع اِبلاغ (سوشل میڈیا) سے منسلک ہے۔ اس سے جہاں لوگ ایک دوسرے کے قریب آئے، وہیں کچھ مسائل بھی سامنے آئے، جس میں خواتین کو ہراساں اور بلیک میل کرنا ایک عام سی بات ہو گئی ہے۔ اس سے خواتین اور لڑکیوں کی زندگیوں میں منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
فیس بک ایک ایسی سوشل ویب سائٹ ہے، جو بہت سی نوجوان لڑکیوں اور خواتین کی زندگی کو متاثر کر رہی ہے۔ پہلے لڑکے، لڑکیوں کے نام سے آئی ڈی بناتے ہیں اور پھر لڑکیوں سے دوستی کرتے ہیں۔ کچھ لڑکے تو اپنی اصل آئی ڈی سے ہی لڑکیوں سے دوستی کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ انہیں اعتماد میں لے کے ان کی تصاویر حاصل کرتے ہیں، یا نجی معلومات حاصل کرتے ہیں۔ اور وقت آنے پر ان لڑکیوں کو اُن کی تصاویر کے ذریعے بلیک میل کرنے لگتے ہیں۔ یہ خواتین کو ہراساں کرنے کی ایک قسم ہے، جو ذہنی تشدد ہے۔
لڑکیاں اور خواتین اس کا بہت گہرا صدمہ لیتی ہیں۔ مفادات کے حصول کے لیے خواتین کو تنگ کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی لڑکی کسی لڑکے سے شادی سے انکار کر دیتی ہے، تو اسے بد نام کرنے کے لیے 'سوشل میڈیا' کا سہارا لیا جاتا ہے۔ جس سے لڑکیوں اور شادی شدہ خواتین کی زندگیاں برباد ہو رہی ہیں۔
معاشرے میں ملزمان انتقام کی آگ میں جل کر لڑکیوں اور خواتین سے بدلہ لینے کی کوششوں میں سوشل میڈیا پر من گھڑت پروپیگنڈہ شروع کر دیتے ہیں، جس سے صرف لڑکیاں ہی نہیں، بلکہ اُن کے والدین اور اہل خانہ سمیت خاندان کا ہرفرد شدید کوفت اور شرمندگی سے دوچار ہوتا ہے۔ لوگ طرح طرح کی باتیں بنانے لگتے ہیں۔ جس کا خمیازہ لڑکی اور اس کے اہل خانہ کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اس طرح کی جھوٹی سچی باتوں کے بعد اس لڑکی کی شادی کے لیے سنگین مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، جہاں جاتی ہے، لوگ طعنے دیتے ہیں، عجیب وغریب نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ایسے ماحول اور سخت ذہنی دباؤ سے تنگ آکر بہت سی لڑکیاں خود کو نقصان پہنچانے جیسے اقدام کا سوچنے لگتی ہیں۔
متاثرہ لڑکی اگر شادی شدہ ہو تو یہ اور طرح سے زندگی میں زہر گھولنے لگتا ہے۔ ایسے الزامات کے بعد ازدواجی زندگی شدید خطرات سے دوچار ہو جاتی ہے۔ جھگڑالو اور لگائی بجھائی کرنے والے ایسے موقع پر مزید ہوا دیتے ہیں۔ اس کے بعد چاہے ازدواجی زندگی دھیرے دھیرے واپس پہلی جیسی ہو جائے، لیکن زندگی بھر کے لیے یہ ناحق کی ''بدنامی'' اس لڑکی کے لیے طعنہ بن کر ساتھ رہتی ہے۔
اپنے مذموم مقاصد کے لیے کسی بھی لڑکی کو بدنام کرنے والے تو شاید یہ احساس بھی نہیں رکھتے کہ اُن کی اس حرکت سے ایک لڑکی زندہ درگور ہو رہی ہے۔ اس لیے ہر لڑکی کو چاہیے کہ وہ محتاط رویہ اپنائے، اپنی نجی زندگی کی معلومات، مصروفیات اور تصاویر وغیرہ کی تشہیر سے گریز کریں یا اگر کریں، تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ کسی بھی اجنبی کی دست رَس سے محفوظ رہ سکے۔ اس کے لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اپنے شناسا لوگوں کی الگ فہرست بنائیں، اور نجی مصروفیات اور مواد صرف اس فہرست تک محدود رکھیں۔ کسی اکاؤنٹ پر کسی جاننے والے کا نام یا تصویر بھی ہو، تب بھی اس کی کسی اور ذریعے سے تصدیق ضرور کریں۔
سماجی ذرائع اِبلاغ کے ذریعے مثبت چیزوں کے فروغ کے ساتھ اس کے ناپسندیدہ اور مجرمانہ استعمال کے پیش نظر حکومت کی جانب سے قانون سازی کی گئی ہے، جس کے ذریعے ایسے اوچھے ہتھ کنڈے استعمال کرنے والے ملزمان کو قانون کی گرفت میں لایا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود بھی ہمیں چاہیے کہ صورت حال اس نہج پر نہ پہنچنے پائیں۔ صرف خود ہی نہیں، بلکہ اپنے اردگرد تمام خواتین بالخصوص چھوٹی بچیوں کو اس سے خبردار کریں۔
بہت سی نوعمر لڑکیاں نادانی میں اجنبیوں کی چکنی چپڑی باتوں میں آجاتی ہیں اور ذاتی طور پر 'براہ راست پیغامات' میں بھی ایسی غلطی کر جاتی ہیں، جب کہ ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ وہ بہت محفوظ طریقے سے 'سوشل میڈیا' استعمال کر رہی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ انہیں باقاعدہ تنبیہ کی جائے ، تاکہ کسی بھی مشکل صورت حال سے بچا جا سکے۔
عام ذرائع اِبلاغ سے جو خبریں اورمعلومات سامنے نہیں آ پاتیں، وہ اس وسیلے سے سامنے آجاتی ہیں، اور کبھی تو اس قدر اہمیت اختیار کرتی ہیں کہ اخبارات اور ریڈیو ٹی وی کا موضوع بھی بن جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج 'سوشل میڈیا' کا استعمال عام ہو چکا ہے۔ ایک شخص دنیا کے ایک کونے میں بیٹھ کر اپنا پیغام چند لمحوں میں دوسروں تک نہ صرف پہنچا سکتا ہے، بلکہ اپنے ہم خیال لوگوں سے مشترکہ طور پر تبادلۂ خیال بھی کر سکتا ہے۔ گویا انگلی کی پوروں پر ہر آدمی کی ہم خیال دنیا موجود ہے۔ جب سے اسمارٹ فون مارکیٹ میں آئے ہیں، تب سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ شناختی کارڈ کی طرح کی کوئی اہم ضرورت بن گئی ہے۔
ہر شخص خواہ کسی بھی عمر کا ہو، کسی بھی صنف اور شعبے سے ہو، وہ سماجی ذرائع اِبلاغ پر بہت زیادہ متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ ایک پاکستان میں اس وقت تین کروڑ صارفین موجود ہیں، جن میں سے نصف تعداد اسمارٹ فون کے ذریعے سماجی ذرائع اِبلاغ (سوشل میڈیا) سے منسلک ہے۔ اس سے جہاں لوگ ایک دوسرے کے قریب آئے، وہیں کچھ مسائل بھی سامنے آئے، جس میں خواتین کو ہراساں اور بلیک میل کرنا ایک عام سی بات ہو گئی ہے۔ اس سے خواتین اور لڑکیوں کی زندگیوں میں منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
فیس بک ایک ایسی سوشل ویب سائٹ ہے، جو بہت سی نوجوان لڑکیوں اور خواتین کی زندگی کو متاثر کر رہی ہے۔ پہلے لڑکے، لڑکیوں کے نام سے آئی ڈی بناتے ہیں اور پھر لڑکیوں سے دوستی کرتے ہیں۔ کچھ لڑکے تو اپنی اصل آئی ڈی سے ہی لڑکیوں سے دوستی کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ انہیں اعتماد میں لے کے ان کی تصاویر حاصل کرتے ہیں، یا نجی معلومات حاصل کرتے ہیں۔ اور وقت آنے پر ان لڑکیوں کو اُن کی تصاویر کے ذریعے بلیک میل کرنے لگتے ہیں۔ یہ خواتین کو ہراساں کرنے کی ایک قسم ہے، جو ذہنی تشدد ہے۔
لڑکیاں اور خواتین اس کا بہت گہرا صدمہ لیتی ہیں۔ مفادات کے حصول کے لیے خواتین کو تنگ کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی لڑکی کسی لڑکے سے شادی سے انکار کر دیتی ہے، تو اسے بد نام کرنے کے لیے 'سوشل میڈیا' کا سہارا لیا جاتا ہے۔ جس سے لڑکیوں اور شادی شدہ خواتین کی زندگیاں برباد ہو رہی ہیں۔
معاشرے میں ملزمان انتقام کی آگ میں جل کر لڑکیوں اور خواتین سے بدلہ لینے کی کوششوں میں سوشل میڈیا پر من گھڑت پروپیگنڈہ شروع کر دیتے ہیں، جس سے صرف لڑکیاں ہی نہیں، بلکہ اُن کے والدین اور اہل خانہ سمیت خاندان کا ہرفرد شدید کوفت اور شرمندگی سے دوچار ہوتا ہے۔ لوگ طرح طرح کی باتیں بنانے لگتے ہیں۔ جس کا خمیازہ لڑکی اور اس کے اہل خانہ کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اس طرح کی جھوٹی سچی باتوں کے بعد اس لڑکی کی شادی کے لیے سنگین مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، جہاں جاتی ہے، لوگ طعنے دیتے ہیں، عجیب وغریب نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ایسے ماحول اور سخت ذہنی دباؤ سے تنگ آکر بہت سی لڑکیاں خود کو نقصان پہنچانے جیسے اقدام کا سوچنے لگتی ہیں۔
متاثرہ لڑکی اگر شادی شدہ ہو تو یہ اور طرح سے زندگی میں زہر گھولنے لگتا ہے۔ ایسے الزامات کے بعد ازدواجی زندگی شدید خطرات سے دوچار ہو جاتی ہے۔ جھگڑالو اور لگائی بجھائی کرنے والے ایسے موقع پر مزید ہوا دیتے ہیں۔ اس کے بعد چاہے ازدواجی زندگی دھیرے دھیرے واپس پہلی جیسی ہو جائے، لیکن زندگی بھر کے لیے یہ ناحق کی ''بدنامی'' اس لڑکی کے لیے طعنہ بن کر ساتھ رہتی ہے۔
اپنے مذموم مقاصد کے لیے کسی بھی لڑکی کو بدنام کرنے والے تو شاید یہ احساس بھی نہیں رکھتے کہ اُن کی اس حرکت سے ایک لڑکی زندہ درگور ہو رہی ہے۔ اس لیے ہر لڑکی کو چاہیے کہ وہ محتاط رویہ اپنائے، اپنی نجی زندگی کی معلومات، مصروفیات اور تصاویر وغیرہ کی تشہیر سے گریز کریں یا اگر کریں، تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ کسی بھی اجنبی کی دست رَس سے محفوظ رہ سکے۔ اس کے لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اپنے شناسا لوگوں کی الگ فہرست بنائیں، اور نجی مصروفیات اور مواد صرف اس فہرست تک محدود رکھیں۔ کسی اکاؤنٹ پر کسی جاننے والے کا نام یا تصویر بھی ہو، تب بھی اس کی کسی اور ذریعے سے تصدیق ضرور کریں۔
سماجی ذرائع اِبلاغ کے ذریعے مثبت چیزوں کے فروغ کے ساتھ اس کے ناپسندیدہ اور مجرمانہ استعمال کے پیش نظر حکومت کی جانب سے قانون سازی کی گئی ہے، جس کے ذریعے ایسے اوچھے ہتھ کنڈے استعمال کرنے والے ملزمان کو قانون کی گرفت میں لایا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود بھی ہمیں چاہیے کہ صورت حال اس نہج پر نہ پہنچنے پائیں۔ صرف خود ہی نہیں، بلکہ اپنے اردگرد تمام خواتین بالخصوص چھوٹی بچیوں کو اس سے خبردار کریں۔
بہت سی نوعمر لڑکیاں نادانی میں اجنبیوں کی چکنی چپڑی باتوں میں آجاتی ہیں اور ذاتی طور پر 'براہ راست پیغامات' میں بھی ایسی غلطی کر جاتی ہیں، جب کہ ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ وہ بہت محفوظ طریقے سے 'سوشل میڈیا' استعمال کر رہی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ انہیں باقاعدہ تنبیہ کی جائے ، تاکہ کسی بھی مشکل صورت حال سے بچا جا سکے۔