پاکستان نے نام نہاد بھارتی شیروں کو بھیگی بلی بنا دیا

بھارت میں پاکستانی اسکواڈ کا مقابلہ صرف حریف پلیئرز سے ہی نہیں بلکہ ہزاروں شائقین سے بھی ہے


سلیم خالق January 05, 2013
بھارتی کھلاڑیوں کے برعکس پاکستانی ٹیم میں کوئی ایسا کھلاڑی نہیں جسے سپراسٹار کا درجہ حاصل ہو۔۔ فوٹو : فائل

PESHAWAR: بھارت میں سبز ہلالی پرچم سربلند کرنے کے بعد پاکستانی کرکٹ ٹیم اب آج دہلی میں تیسرا ون ڈے جیت کر کلین سوئپ کی خواہاں ہے، بی سی سی آئی حکام اب اس وقت کو کوس رہے ہوں گے جب انھوں نے گرین شرٹس کو دورے کی دعوت دی تھی۔

کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ وہ ٹیم جس کے کھلاڑی ہوم گرائونڈز پر کھیلنے سے محروم ہیں اور جنھیں آئی پی ایل سے بھی دور رکھا جاتا ہے، وہ نام نہاد بھارتی سورمائوں کا ایسا حشر کریں گے کہ انھیں منہ چھپانا پڑیں گے،پی سی بی نے بھی یہی سوچا ہو گا کہ ایک آدھ میچ جیت لیں گے مگر باہمی کرکٹ کا احیا ہونا ہی بڑی بات ہے، پاکستانی ٹیم کے پاس کوئی ایسا کھلاڑی نہیں جسے سپراسٹار کا درجہ حاصل ہو۔کسی کے پاس کروڑوں روپے کے اشتہاری معاہدے نہیں،

دوسری جانب بھارت میں دھونی، کوہلی اور سہواگ سمیت کئی کرکٹرز کو اپنے بینک بیلنس کا بھی علم نہیں ہو گا، انھیں اپنے بورڈ سے معاوضہ بھی بے تحاشا ملتا ہے مگر ایک چیز میں وہ مار کھا جاتے ہیں اور وہ ملک کیلیے کچھ کردکھانے کا جذبہ ہے، پاکستانی کرکٹرز اس سے مالا مال ہیں،اسی وجہ سے ٹی ٹوئنٹی سیریز برابر کی اور پھر ابتدائی دونوں ون ڈے میچز جیت کر سیریز اپنے نام کر لی، یہ ایسا کارنامہ ہے جسے سنہری حروف میں درج کیا جائے گا۔

دونوں ون ڈے میچز کی پاکستانی فتح میں اوپنر ناصر جمشید کی شاندار سنچریوں نے اہم کردار ادا کیا، وہ بھارتی ٹیم کے دشمن نمبر ون ثابت ہوئے ہیں اور اس کیخلاف مسلسل تین تھری فیگر اننگز داغ چکے، ناصر کی کارکردگی ابتدا میں تسلسل سے عاری تھی، آف دی فیلڈ بھی انھیں بعض مسائل کا سامنا رہا، دوست کی جگہ امتحان دینے کے سبب جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی ۔

تاہم ایسے تجربات سے انھوں نے سبق سیکھا اور صرف کرکٹ پر توجہ مرکوز کر لی، اسی کا ان کو فائدہ ہو رہا ہے، گوکہ بنگلہ دیش پریمیئر لیگ کے دوران میچ فکسنگ تنازع میں بھی ان کا نام اچھالا گیا مگر اس کا کوئی اثر نہ لیتے ہوئے انھوں نے ٹیم کیلیے عمدہ پرفارمنس کا سلسلہ جاری رکھا ہے، اب وہ ایک میچور بیٹسمین کے روپ میں ڈھل چکے، ان کے پاس عمدہ اسٹروکس کا خزانہ ہے ۔

جس کا جب چاہیں استعمال کر لیتے ہیں، ناصر اب تک صرف 21 میچز میں51سے زائد کی اوسط سے921 رنز بنا چکے جس سے صلاحیتوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اسی کے ساتھ انھیں قدم زمین پر رکھنے ہوں گے، صرف 23 برس کی عمر میں انھیں اچھا لانچنگ پیڈ مل گیا اب یہ انہی کے ہاتھ میں ہے کہ کیریئر کو کیسے آگے بڑھاتے ہیں، اگر ناصر نے صرف کھیل پر انہماک برقرار رکھا تو پاکستان کو ایک اور سعید انور مل سکتا ہے۔

آل رائونڈر محمد حفیظ نے پہلے ون ڈے میں عجیب و غریب انداز میں وکٹ گنوائی، اندر آتی گیند کو لیفٹ کرتے ہوئے وہ بولڈ ہو گئے، اس کے بعد دوسرے میچ میں وہ اچھی فارم میں دکھائی دیے اور 141 کی شراکت میں76 رنز کے ساتھ حصہ ڈالا، اظہر علی دونوں میچز میں بجھے بجھے دکھائی دیے اور ٹیم میں ان کی جگہ پر اعتراض کیا جا رہا ہے، درحقیقت یونس خان کی واپسی کے بعد اظہر کی پلیئنگ الیون میں جگہ نہیں بنتی، پاکستانی بیٹنگ کی غیریقینی کے سبب مڈل آرڈر میں ایک ایسا بیٹسمین ہونا ضروری ہے جو وکٹ محفوظ رکھتے ہوئے اسکور آگے بڑھائے۔

اس وقت ٹیم میں یونس، اظہر اور مصباح تینوں ہی احتیاط سے کھیلنے والے بیٹسمین ہیں، ایسے میں دونوں جارح مزاج اوپنرز کے اچھے آغاز کے بعد مڈل آرڈر میں رنز بننے کی رفتار سست پڑ جاتی ہے، اس صورتحال میں عمر اکمل بہترین انتخاب ہیں،وہ انتہائی باصلاحیت بیٹسمین اور تیزی سے اسکور بنانے میں مہارت رکھتے ہیں، نمبر چار میں عمر اور تین پر یونس بیٹنگ کریں تو ٹیم کیلیے زیادہ اچھا رہے گا، تجربہ کار بیٹسمین کی واپسی سے پاکستانی بیٹنگ کو استحکام حاصل ہو گیا، پہلے ون ڈے میں انھوں نے نصف سنچری بنائی اور ساتھی بیٹسمینوں کی بھی رہنمائی کی،دوسرے میچ میں بدقسمتی سے انھیں غلط آئوٹ قرار دے دیا گیا، کپتان مصباح الحق ان دنوں اچھی فارم میں نہیں ۔

مگر چونکہ ٹیم جیت رہی ہے اس لیے بیٹنگ میں ان کی ناکامیاں چھپ گئیں، دورئہ جنوبی افریقہ سے قبل مصباح کا فارم میں آنا ضروری ہے کیونکہ وہاں بھونیشور کمار، اشوک ڈینڈا نہیں بلکہ ڈیل اسٹین، فلینڈر اور مورکل جیسے بولرز موجود ہوں گے، بائونسی پچز پر ایسے خطرناک بولرز کا سامنا کرنے میں نوجوان پلیئرز کو مشکلات پیش آ سکتی ہیں، ایسے میں سارا دبائو سینئرز پر ہی ہو گا۔

گرین شرٹس کیلیے ایک اچھی بات شعیب ملک کا تسلسل سے عمدہ پرفارم کرنا ہے،32ٹیسٹ،205 ون ڈے اور 52ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلنے والے سابق کپتان کو گذشتہ کچھ عرصے سے سفارشی قرار دیا جا رہا تھا جو بدقسمتی کی بات ہے،اب انھوں نے دورہ بھارت میں عمدہ کھیل سے ناقدین کو خاموش کردیا، جس طرح دوسرے ون ڈے میں انھیں گیند تھمائی گئی تو ایشون کو آئوٹ کیا ایسے ہی اگر کپتان بولنگ میں مستقل اعتماد برقرار رکھیں تو یقیناً شعیب ملک انتہائی کارآمد آل رائونڈر ثابت ہو سکتے ہیں، ماضی کے مقابلے میں اب وہ خاصے بہتر کرکٹر اور انسان نظر آتے ہیں، شخصیت میں ٹھہرائو آنے کا کارکردگی پر بھی اچھا اثر پڑا۔

کامران اکمل کا یہ پرانا مسئلہ ہے کہ جب وہ اچھی بیٹنگ کریں تو وکٹ کیپنگ نہیں ہوتی اور اگر وکٹوں کے عقب میں چابکدستی کا مظاہرہ کریں تو رنز نہیں بنا پاتے، حالیہ ٹور میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے مگر کولکتہ میں انھوں نے جس شاندار وکٹ کیپنگ کا مظاہرہ کیا اسے دیکھ کر یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ کامران اکمل ہی ہیں، خصوصاً ڈائیو لگا کر کوہلی کا جو کیچ تھاما وہ ناقابل فراموش تھا۔

دورئہ بھارت میں محمد عرفان کا بہت ذکر ہو رہا ہے، انھیں سرپرائز پیکیج قرار دیا گیا مگر درحقیقت ایسا جنید خان کیلیے کہنا چاہیے، ماضی میں محمد عامر کی وجہ سے جنید کو زیادہ لفٹ نہ ملی، اب متواتر مواقع دیے گئے تو صلاحیتیں کھل کر آ رہی ہیں، بھارتی ٹیم اور میڈیا لمبے قد کی وجہ سے عرفان کو اہمیت دیتا رہا اور ان کا جنید نے کام تمام کر دیا، چنئی میں انھوں نے جس طرح سہواگ، کوہلی اور یوراج کو بولڈ کیا اسے دیکھ کر وسیم اکرم کی یاد تازہ ہو گئی، گوکہ نوجوان لیفٹ آرم پیسر کو اس مقام تک پہنچنے میں بہت وقت لگے گا مگر ان میں صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں لگتی، اسی طرح جیسے ماضی میں بھارتی بیٹسمین شعیب اختر سے ڈرتے تھے اس بار عرفان سے خوفزدہ دکھائی دیے، پیسر کو فٹنس مسائل کی وجہ سے وکٹیں نہیں مل سکیں، اگر وہ خود کو مکمل فٹ رکھیں تو زیادہ کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔

اسی طرح انھیں اپنی فیلڈنگ پر بھی بہت محنت کرنا ہوگی، جدید کرکٹ میں کسی کمزور فیلڈر کو برداشت نہیں کیا جا سکتا، اس کی ایک غلطی ٹیم کو میچ ہروا سکتی ہے لہذا عرفان کو بھی اس جانب توجہ دینی چاہیے۔ ماضی قریب میں پاکستان کو اسپنرز میچز جتواتے چلے آئے تھے اس بار فاسٹ بولرز نے ذمہ داری سنبھالی، سعید اجمل کو ٹرمپ کارڈ قرار دیا گیا مگر وہ اپنا اصل کھیل پیش نہ کر پائے، گوکہ دوسرے میچ کے ایک اوور میں انھوں نے تین وکٹیں لیں مگر پیسرز اس سے قبل ہی بھارتی بیٹنگ کی کمر توڑ چکے تھے، عمرگل نے بھی کولکتہ میں اچھی بولنگ کی اور اب پاکستانی پیس اٹیک حریفوں کیلیے خاصا مہلک بن چکا ہے، اسپن میں حفیظ بھی رنز روکنے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔

موجودہ پاکستانی اسکواڈ بیحد مضبوط و متوازن نظر آتا ہے، بھارت میں اس کا مقابلہ صرف حریف پلیئرز سے ہی نہیں بلکہ ہزاروں شائقین سے بھی ہے، ابتدائی چاروں میچز میں گنتی کے لوگ ہی گرین شرٹس کو سپورٹ کرتے دکھائی دیے، اس کے باوجود عمدہ کھیل پر پلیئرز ستائش کے مستحق ہیں، دوسری جانب مسلسل شکستوں نے بھارتی ٹیم کی کمر جھکا دی، ہوم گرائونڈز پر رنز کے ڈھیر لگانے والے نام نہاد شیر بھیگی بلی بنے دکھائی دیتے ہیں، سہواگ، گمبھیر، کوہلی اور یوراج پاکستان کے سامنے بیٹنگ کرنا ہی بھول چکے، کپتان دھونی نے گوکہ دونوں میچز میں اچھی اننگز کھیلیں مگر ایسا محسوس ہوا جیسے بعض مواقع پر وہ ٹیم پر اپنی ذات کو ترجیح دیتے ہیں، بھارتی بولنگ اٹیک تو ہمیشہ سے ہی خاصا کمزور ہے، ماضی میں بیٹسمین اس کی لاج رکھ لیتے تھے، اب ایسا نہ ہونے سے خامیاں واضح ہوگئیں، ایسے میں پاکستان کوگرتی ہوئی بھارتی دیوار کو ایک اور دھکا دینے کا سنہری موقع مل گیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں