پاکستان کے خلاف شکست دھونی ہیرو سے زیرو بن گئے
دھونی، چند سابق بھارتی کرکٹرز اور میڈیا نئے ون ڈے قوانین کو بھی اپنی ناکامی کا سبب قرار دیتے رہے ہیں۔
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے، زیادہ عرصہ نہیں گزرا بھارتی کپتان مہندرا سنگھ دھونی دیگر کھلاڑیوں کے کندھوں پر سوار ورلڈکپ ہاتھوں میں اٹھائے ہوم کرائوڈ کے سامنے مسکراہٹیں بکھیر رہے تھے۔
فاتح ٹیم کی ریلی کے دوران سچن ٹنڈولکر کا کہنا تھا کہ اپنے طویل کیریئر کے دوران جتنے کپتانوں کی قیادت میں کھیلا دھونی سب سے بہتر ہیں۔ منظرنامہ بدلا، گرین شرٹس کے ہاتھوں کولکتہ میں رسوائی نظر آتے ہی ناقدین کی توپوں کا رخ کپتان کی طرف ہو گیا، شکست کے بعد دھونی ہیرو سے زیرو بن گئے۔
سابق کرکٹرز اور مبصرین ''بے کار اننگزکھیلی، چیلنج قبول کرتے ہوئے خود ون ڈاؤن پوزیشن پر کھیلنے کے لیے آتے، ہٹ دھرمی لے ڈوبی، ٹیم سلیکشن غلط تھی، تبدیلی کا وقت آگیا، جان چھڑا لی جائے تو بہتر ہوگا'' جیسے تنقید کے گولے برساتے رہے۔ دھونی کے ساتھ بغض رکھنے والوں نے پاکستان کی شاندار کارکردگی پر تحسین کے چند جملے کہنے سے بھی گریز کرتے ہوئے یہی ثابت کرنے کی کوشش جاری رکھی کہ گرین شرٹس کی فتوحات اچھے کھیل کی بجائے بھارت کی ناقص حکمت عملی اور غلطیوں کا نتیجہ تھیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے نوجوان کھلاڑیوں نے بڑی سیریز اور ہوم کراؤڈ کا دباؤ برداشت کرتے ہوئے پرفارمنس پر توجہ مرکوز رکھی اور صلہ بھی پایا، بھارت کے نامی گرامی پلیئر بھی اپنا تمام تر تجربہ بروئے کار لانے میں کامیاب نہ ہو سکے، میزبانوں کی ناقص کارکردگی صرف دھونی ہی نہیں بلکہ بھارتی تھنک ٹینک کی ناکامی ہے، ٹیم سال بھر تجربات سے گزرتی رہی جن کے کوئی خاص فوائد بھی حاصل نہ ہوئے، روہت شرما اور رویندرا جڈیجا کو مسلسل ناکامیوں کے باوجود مواقع دیے گئے۔
ایشانت شرما آسٹریلیا میں فلاپ ہونے کے بعد ڈومیسٹک سیزن میں واجبی کارکردگی کی بدولت ٹیم میں واپس آئے، دھونی سے محاذآرائی میں پیش پیش سہواگ کے ساتھی اوپنر گوتم گھمبیر بھی فارم کیلیے ترستے رہے، ظہیرخان آف کلر اور فٹنس مسائل سے دوچار نظر آئے، اجنکیا راہنے کو طویل عرصے انتظار کے بعد اسکواڈ میں شامل کیا گیا، کبھی ٹاپ تو کبھی مڈل آرڈر ڈگمگاتی رہی، پجارا،امیش یادیو اور پاکستان کے خلاف سیریز میں بھونیشور کمار کی صورت میں مستقبل میں بہتری کے کچھ امکانات ضرور نظر آئے مگر مجموعی طور پر دھونی کو کند ہتھیاروں یا ناتجربہ کارپلیئرز پر انحصار کرنا پڑا۔ دیکھا جائے تو پاکستانی بولرز کی عمدہ کارکردگی کا کریڈٹ مونٹی پنیسر کو بھی جاتا ہے۔
انگلش اسپنر نے گریم سوان کے ساتھ مل کر سلو بولنگ کھیلنے کے چیمپئن بھارتی بیٹسمینوں کی قلعی کھول دی، ہوم گرائونڈ پر ایک ہزیمت اٹھانے کے بعد بھارتی ٹیم روایتی حریف کے خلاف سیریز سے قبل دہری مشکل میں پڑ گئی۔ فاسٹ وکٹیں بنانے کا سوچتے تو عمر گل، جنید خان، محمد عرفان اور وہاب ریاض کی دہشت طاری ہو جاتی، ٹرننگ ٹریک کی تیاری کا خیال آتا تو سعید اجمل، محمد حفیظ اور شعیب ملک جیسے ٹاپ بولرز کی صورت نظروں کے سامنے گھوم جاتیں۔ بہر حال پچز جیسی بھی بنائی گئیں۔
پاکستان کے ہر ہتھیار نے موقع ملتے ہی فائدہ اٹھایا، کسی نے ڈرایا تو کسی نے پویلین بھجوایا۔ بھارت کی کمزور بولنگ کے بارے میں تو دنیا جانتی ہے، گرین شرٹس نے اپنی کئی انفرادی غلطیوں کے باوجود اتنے رنز ضرور اسکور کر لیے کہ بولرز فائٹ کر سکتے لیکن بھارتی بیٹنگ لائن کا اس قدر بُرا حشر ہونے کی توقع نہیں کی جا رہی تھی۔
دھونی، چند سابق بھارتی کرکٹرز اور میڈیا نئے ون ڈے قوانین کو بھی اپنی ناکامی کا سبب قرار دیتے رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ دائرے کے اندر زیادہ فیلڈرز اور دو بائونسرز کی اجازت پاکستان کے لیے نہیں فارمیٹ کی بہتری کے لیے دی گئی، ماضی میں کمزور تکنیک کے حامل بیٹسمین بھی بولرز پر حاوی ہو جاتے تھے مگر اب ایسا کرنا آسان نہیں، روایتی حریفوں کے فاسٹ بولنگ وسائل میں ہمیشہ سے ہی زمین آسمان کا فرق رہا جسے حالیہ سیریز میں جنید خان، عمر گل اور محمد عرفان نے ایک بار پھر نمایاں کر دیا۔
دھونی کی2 محتاط اور یوراج کی ٹوئنٹی 20 میچ میں ایک جارحانہ اننگز کے سوا بھارتی بیٹسمین قدموں پر کھڑے ہونے میں ناکام رہے۔ طویل عرصے سے ہوم سیریز نہ کھیلنے والی پاکستانی ٹیم سال بھر میں 6ٹیسٹ، 18 ون ڈے اور 16 ٹوئنٹی 20 کھیل کر بھی اپنے ترکش میں کئی مہلک تیر جمع کرنے میں کامیاب رہی جبکہ انٹرنیشنل مصروفیات کے علاوہ لیگز میں بھاری مال پر ہاتھ صاف کرنے والے بھارتی کچھ نہ کر سکے۔
اب وقت آگیاکہ بھارتی سابق کرکٹرز اور میڈیا کو بھی تعصب کی عینک اتار کر حقیقی مسائل کو سامنے لانے پر توجہ دینا ہوگی، ایسا نہ کیا گیا تو زوال کی جانب سفر کسی کپتان کی تبدیلی سے نہیں رک سکتا۔ کولکتہ میں پاکستان کی فتح کے بعد ایک چینل نے گرین شرٹس بولرز کی پرفارمنس کو سراہنے پر دھونی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ''ہمارے کپتان کو اپنی ٹیم کی کارکردگی میں بہتری لانے کے بجائے حریف بولرز کی تعریف کرنے سے ہی فرصت نہیں، ٹیم کیا جیتے گی'' سیریز بڑے اچھے ماحول میں ہوئی مگر بھارتی میڈیا کے اسی طرح کے غیر ذمہ دارانہ رویے نے نہ صرف اپنی ٹیم بلکہ پاکستان کے لیے بھی مشکلات کھڑی کیں۔
کولکتہ میں میچ کے دوران ہی مختلف چینلز کھیل سے زیادہ جاوید میانداد کو ویزا دینے کا معاملہ اچھال رہے تھے،شیوسینا تو ایک طرف حکمران جماعت کانگریس نے بھی سابق کپتان کی آمد کو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، بھارتی وزارت خارجہ کے حکام وضاحتیں دینے پر مجبور تھے کہ میانداد کو دائود ابراہیم سے رشتہ داری کے باوجود پاکستان کرکٹ بورڈ کا ڈائریکٹر جنرل ہونے کی بنا پر دہلی میں میچ دیکھنے کے لیے ویزا دیا جا رہا ہے۔
اس قدر کھچڑی پکنے کے بعد بالاخر سابق کپتان نے متنازع دورہ نہ کرنے میں ہی عافیت جانی، فیصلہ بورڈ کے ایما پر کیا گیا یا انھوں نے خود کیا خوش آئند ہے۔ اب تک کے تمام مقابلے بہترین ماحول میں ہوئے، دہلی میں آخری معرکہ باقی ہے، سیریز کی کامیابی کے نتیجے میں مستقبل کے لیے بہتری کی راہیں کھلنے کے امکانات روشن ہوئے ہیں، ایک چھوٹی سی قربانی دے کر بدمزگی سے بچ نکلنا ہی وقت کا تقاضا تھا۔
فاتح ٹیم کی ریلی کے دوران سچن ٹنڈولکر کا کہنا تھا کہ اپنے طویل کیریئر کے دوران جتنے کپتانوں کی قیادت میں کھیلا دھونی سب سے بہتر ہیں۔ منظرنامہ بدلا، گرین شرٹس کے ہاتھوں کولکتہ میں رسوائی نظر آتے ہی ناقدین کی توپوں کا رخ کپتان کی طرف ہو گیا، شکست کے بعد دھونی ہیرو سے زیرو بن گئے۔
سابق کرکٹرز اور مبصرین ''بے کار اننگزکھیلی، چیلنج قبول کرتے ہوئے خود ون ڈاؤن پوزیشن پر کھیلنے کے لیے آتے، ہٹ دھرمی لے ڈوبی، ٹیم سلیکشن غلط تھی، تبدیلی کا وقت آگیا، جان چھڑا لی جائے تو بہتر ہوگا'' جیسے تنقید کے گولے برساتے رہے۔ دھونی کے ساتھ بغض رکھنے والوں نے پاکستان کی شاندار کارکردگی پر تحسین کے چند جملے کہنے سے بھی گریز کرتے ہوئے یہی ثابت کرنے کی کوشش جاری رکھی کہ گرین شرٹس کی فتوحات اچھے کھیل کی بجائے بھارت کی ناقص حکمت عملی اور غلطیوں کا نتیجہ تھیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے نوجوان کھلاڑیوں نے بڑی سیریز اور ہوم کراؤڈ کا دباؤ برداشت کرتے ہوئے پرفارمنس پر توجہ مرکوز رکھی اور صلہ بھی پایا، بھارت کے نامی گرامی پلیئر بھی اپنا تمام تر تجربہ بروئے کار لانے میں کامیاب نہ ہو سکے، میزبانوں کی ناقص کارکردگی صرف دھونی ہی نہیں بلکہ بھارتی تھنک ٹینک کی ناکامی ہے، ٹیم سال بھر تجربات سے گزرتی رہی جن کے کوئی خاص فوائد بھی حاصل نہ ہوئے، روہت شرما اور رویندرا جڈیجا کو مسلسل ناکامیوں کے باوجود مواقع دیے گئے۔
ایشانت شرما آسٹریلیا میں فلاپ ہونے کے بعد ڈومیسٹک سیزن میں واجبی کارکردگی کی بدولت ٹیم میں واپس آئے، دھونی سے محاذآرائی میں پیش پیش سہواگ کے ساتھی اوپنر گوتم گھمبیر بھی فارم کیلیے ترستے رہے، ظہیرخان آف کلر اور فٹنس مسائل سے دوچار نظر آئے، اجنکیا راہنے کو طویل عرصے انتظار کے بعد اسکواڈ میں شامل کیا گیا، کبھی ٹاپ تو کبھی مڈل آرڈر ڈگمگاتی رہی، پجارا،امیش یادیو اور پاکستان کے خلاف سیریز میں بھونیشور کمار کی صورت میں مستقبل میں بہتری کے کچھ امکانات ضرور نظر آئے مگر مجموعی طور پر دھونی کو کند ہتھیاروں یا ناتجربہ کارپلیئرز پر انحصار کرنا پڑا۔ دیکھا جائے تو پاکستانی بولرز کی عمدہ کارکردگی کا کریڈٹ مونٹی پنیسر کو بھی جاتا ہے۔
انگلش اسپنر نے گریم سوان کے ساتھ مل کر سلو بولنگ کھیلنے کے چیمپئن بھارتی بیٹسمینوں کی قلعی کھول دی، ہوم گرائونڈ پر ایک ہزیمت اٹھانے کے بعد بھارتی ٹیم روایتی حریف کے خلاف سیریز سے قبل دہری مشکل میں پڑ گئی۔ فاسٹ وکٹیں بنانے کا سوچتے تو عمر گل، جنید خان، محمد عرفان اور وہاب ریاض کی دہشت طاری ہو جاتی، ٹرننگ ٹریک کی تیاری کا خیال آتا تو سعید اجمل، محمد حفیظ اور شعیب ملک جیسے ٹاپ بولرز کی صورت نظروں کے سامنے گھوم جاتیں۔ بہر حال پچز جیسی بھی بنائی گئیں۔
پاکستان کے ہر ہتھیار نے موقع ملتے ہی فائدہ اٹھایا، کسی نے ڈرایا تو کسی نے پویلین بھجوایا۔ بھارت کی کمزور بولنگ کے بارے میں تو دنیا جانتی ہے، گرین شرٹس نے اپنی کئی انفرادی غلطیوں کے باوجود اتنے رنز ضرور اسکور کر لیے کہ بولرز فائٹ کر سکتے لیکن بھارتی بیٹنگ لائن کا اس قدر بُرا حشر ہونے کی توقع نہیں کی جا رہی تھی۔
دھونی، چند سابق بھارتی کرکٹرز اور میڈیا نئے ون ڈے قوانین کو بھی اپنی ناکامی کا سبب قرار دیتے رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ دائرے کے اندر زیادہ فیلڈرز اور دو بائونسرز کی اجازت پاکستان کے لیے نہیں فارمیٹ کی بہتری کے لیے دی گئی، ماضی میں کمزور تکنیک کے حامل بیٹسمین بھی بولرز پر حاوی ہو جاتے تھے مگر اب ایسا کرنا آسان نہیں، روایتی حریفوں کے فاسٹ بولنگ وسائل میں ہمیشہ سے ہی زمین آسمان کا فرق رہا جسے حالیہ سیریز میں جنید خان، عمر گل اور محمد عرفان نے ایک بار پھر نمایاں کر دیا۔
دھونی کی2 محتاط اور یوراج کی ٹوئنٹی 20 میچ میں ایک جارحانہ اننگز کے سوا بھارتی بیٹسمین قدموں پر کھڑے ہونے میں ناکام رہے۔ طویل عرصے سے ہوم سیریز نہ کھیلنے والی پاکستانی ٹیم سال بھر میں 6ٹیسٹ، 18 ون ڈے اور 16 ٹوئنٹی 20 کھیل کر بھی اپنے ترکش میں کئی مہلک تیر جمع کرنے میں کامیاب رہی جبکہ انٹرنیشنل مصروفیات کے علاوہ لیگز میں بھاری مال پر ہاتھ صاف کرنے والے بھارتی کچھ نہ کر سکے۔
اب وقت آگیاکہ بھارتی سابق کرکٹرز اور میڈیا کو بھی تعصب کی عینک اتار کر حقیقی مسائل کو سامنے لانے پر توجہ دینا ہوگی، ایسا نہ کیا گیا تو زوال کی جانب سفر کسی کپتان کی تبدیلی سے نہیں رک سکتا۔ کولکتہ میں پاکستان کی فتح کے بعد ایک چینل نے گرین شرٹس بولرز کی پرفارمنس کو سراہنے پر دھونی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ''ہمارے کپتان کو اپنی ٹیم کی کارکردگی میں بہتری لانے کے بجائے حریف بولرز کی تعریف کرنے سے ہی فرصت نہیں، ٹیم کیا جیتے گی'' سیریز بڑے اچھے ماحول میں ہوئی مگر بھارتی میڈیا کے اسی طرح کے غیر ذمہ دارانہ رویے نے نہ صرف اپنی ٹیم بلکہ پاکستان کے لیے بھی مشکلات کھڑی کیں۔
کولکتہ میں میچ کے دوران ہی مختلف چینلز کھیل سے زیادہ جاوید میانداد کو ویزا دینے کا معاملہ اچھال رہے تھے،شیوسینا تو ایک طرف حکمران جماعت کانگریس نے بھی سابق کپتان کی آمد کو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، بھارتی وزارت خارجہ کے حکام وضاحتیں دینے پر مجبور تھے کہ میانداد کو دائود ابراہیم سے رشتہ داری کے باوجود پاکستان کرکٹ بورڈ کا ڈائریکٹر جنرل ہونے کی بنا پر دہلی میں میچ دیکھنے کے لیے ویزا دیا جا رہا ہے۔
اس قدر کھچڑی پکنے کے بعد بالاخر سابق کپتان نے متنازع دورہ نہ کرنے میں ہی عافیت جانی، فیصلہ بورڈ کے ایما پر کیا گیا یا انھوں نے خود کیا خوش آئند ہے۔ اب تک کے تمام مقابلے بہترین ماحول میں ہوئے، دہلی میں آخری معرکہ باقی ہے، سیریز کی کامیابی کے نتیجے میں مستقبل کے لیے بہتری کی راہیں کھلنے کے امکانات روشن ہوئے ہیں، ایک چھوٹی سی قربانی دے کر بدمزگی سے بچ نکلنا ہی وقت کا تقاضا تھا۔