تھر میں پاکستان کے روشن مستقبل کی تعمیر  دوسرا حصہ

کسی بھی ملک میں ہونے والی معاشی ترقی کے ثمرات معاشرے کے ہرطبقے تک پہنچنے چاہییں

ISLAMABAD:
کسی بھی ملک میں ہونے والی معاشی ترقی کے ثمرات معاشرے کے ہرطبقے تک پہنچنے چاہییں۔ ایسا نہ کیاجائے تو معاشرے میں اونچ نیچ بڑھتی ہے اورکئی سماجی اور ثقافتی خصوصیات بھی ماند پڑنے لگتی ہیں۔ ابتداء سے ہی درست پلاننگ کرلی جائے تو انڈسٹری کے فروغ اورمعاشی ترقی کے دیگر ذرایع، قوم کی سماجی اور ثقافتی خصوصیات کے لیے مددگار ہوتے ہیں۔

دوسری عالمی جنگ میں تباہ ہوجانے کے بعد جاپان کی تیز رفتارترقی کی مثال ساری دنیا کے سامنے ہے۔ معاشی ترقی جاپانی تمدن کے استحکام وترقی اورجاپانی کلچر،اعلیٰ اقداروزبان کے تحفظ کا ذریعہ بنی ہے۔ پاکستان میں ترقیاتی منصوبے بناتے وقت یہ نکتہ پالیسی سازوں کے لیے شاید اہم نہیں تھا۔ معاشی ترقی کی وجہ سے پاکستان کے مختلف علاقوں کے سماجی اور ثقافتی تانے بانے متاثر ہوں تو ایسی ترقی قوم کے چند فیصد لوگوں کے لیے مالی خوشحالی تو لے آئے گی لیکن قوم کی مجموعی فلاح کا ذریعہ نہیں بنے گی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایسی ترقی قوم کے مختلف طبقات کے درمیان غلط فہمیوں اور دوریوں کا سبب بن جائے۔

مجھے یہ جان کر اطمینان ہوا کہ تھرکے بلاک IIمیں ترقیاتی عمل شروع کرتے ہوئے ان اہم نکات کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ دوران بریفنگ انجینئر شمس الدین شیخ نے بتایا کہ اس پروجیکٹ کے لیے افرادی قوت زیادہ تر تھر سے ہی لی جا رہی ہے۔اس مقصد کے لیے دس کروڑ روپے کی لاگت سے ایک تھر ٹرینی انجینئر پروگرام بھی شروع کیا گیا ہے۔

اس پروگرام میں تھر سے میٹرک پاس کرکے پاکستان کی کسی بھی ریکگنائز یونیورسٹی سے بی ای کرنے والے پچیس نوجوانوں کے ایک بیچ کو دو سال تک ٹریننگ دینے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔پہلے سال چھ مہینے آئی بی اے، چھ مہینے مہران یونیورسٹی اوردوسرے سال بارہ ماہ تک سائٹ پر مختلف شعبوں میں آن جاب ٹریننگ کے بعد انھیں مائنزیا پلانٹ پر بطورانجینئر ملازمت دی جائے گی۔

تھرپارکر تعلیمی لحاظ سے پاکستان کا پسماندہ ترین علاقہ ہے۔ یہاں عورتوں کی شرح خواندگی صرف 8فیصد ہے۔ تھر میں فروغ تعلیم کے لیے SECMC پاکستان کے معروف تعلیمی ادارےTCF کے ساتھ اشتراک کررہی ہے۔ منصوبہ یہ ہے کہ 2017ء میں اسلام کوٹ میں ایک ہزار بچوں کا اسکول فعال ہوجائے گا۔ مٹھی اور بلاک II میں ایک ایک ہزار بچوں کے لیے دو اسکول 2018ء تک قائم ہوجائیں گے۔ ان کے بعد تھرپارکرکی دیگر چار تحصیلوں میں ایک ایک ہزار بچوں کے لیے چار مزید اسکول قائم کیے جائیں گے۔

تھرپارکر میں صحت کے حوالے سے بھی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ تھرکے عوام کو صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے SECMCنے پاکستان کے معتبر فلاحی طبی ادارے انڈس اسپتال کے ساتھ کام کرنے کا عزم کیا ہے۔ انڈس اسپتال تھر میں 100بستروں پر مشتمل اسپتال قائم کرے گا۔ انڈس اسپتال کے بانی منتظم ڈاکٹر عبدالباری اور SECMCکے سی ای او شمس الدین شیخ MoUپر دستخط کرچکے ہیں۔ ماں اور بچے کی صحت کے لیے ایک ڈے کیئر میڈیکل سینٹر نے پہلے ہی کام شروع کردیا ہے۔

کسی علاقے میں ترقیاتی کام ہونے پر وہاں موجود کئی درختوں کو بھی کاٹ دیا جاتا ہے۔ تھر کے صحرائی علاقے میں تو درخت پہلے ہی کم ہیں۔ ماحولیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ ایک درخت کاٹا جائے تو اس کے متبادل تین تا پانچ نئے درخت لگانے چاہئیں۔ مائننگ اور پاور پلانٹ کی تعمیر کے لیے تقریباً تین ہزار درخت کاٹنا پڑے ہیں۔ SECMCنے کاٹے گئے درختوں کے بدلے تین یا پانچ درخت لگانے کے بجائے دس نئے درخت لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یعنی تیس ہزارنئے درخت لگائے جائیں گے۔ اب تک بارہ ہزار سے زائد درخت لگائے جاچکے ہیں۔

نئی شجر کاری میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ یہ درخت اس علاقے کے ماحول سے مطابقت رکھتے ہوں۔ چنانچہ کانوکارپس اور سفیدے کے درخت اس شجرکاری میں شامل نہیں کیے گئے ہیں۔ ماحولیات کے تحفظ کے لیے پاور پلانٹ میں 180میٹر بلند چمنی تعمیرکی جارہی ہے۔ یہ پاکستان میں سول اسٹرکچر کی بلند ترین تعمیر ہوگی۔ پاور پلانٹ کے لیے خام مال پلانٹ کے قریب سے ہی دستیاب ہونے کی وجہ سے دور دراز علاقوں سے ٹرانسپورٹیشن نہیں ہوگی اس لیے بھی آلودگی کے مسائل کم ترین ہوں گے۔

بلاک IIتقریباً 100مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔اس بلاک میں کئی چھوٹے چھوٹے گاؤں بھی آباد ہیں۔ شمس الدین شیخ نے اس پروجیکٹ کی تکنیکی تفصیلات سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا کہ مائننگ اور پلانٹ کی جگہ پر آباد لوگوں کو ان کے اطمینان کے مطابق متبادل جگہ پر منتقل کیا جارہا ہے۔ ہر متاثرہ خاندان کوکمپنی کی جانب سے تقریباً 1200مربع گز زمین پر ان کی طرز رہائش اور ضروریات کے مطابق مکان تعمیرکرکے دیے جارہے ہیں۔ صرف مکانات ہی تعمیر نہیں کیے جارہے بلکہ سنیہڑی درس کا پورا گاؤں نئے سرے سے بسایا جارہا ہے۔ اس علاقے میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ ہرگاؤں میں ان کے محلے بھی الگ ہیں۔گاؤں والوں کی نو آبادکاری میں بھی اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ دونوں کمیونٹیزکے لیے الگ الگ علاقے ہوں اور علاقے کی روایت کے مطابق ہر برادری کے لیے مکانات بھی ایک ساتھ ہوں۔


پروجیکٹ کے ابتدائی مرحلے میں یہاں دو ہزار سے زائد افراد براہ راست اور دو ہزار بلواسطہ برسرروزگارہوگئے ہیں۔ پاور پلانٹ سے بجلی کی پیداوار شروع ہونے پراس پروجیکٹ پر براہ راست اور بلواسطہ برسرروزگار افراد کی تعداد بیس ہزار سے تجاوزکرجائے گی۔

پاکستان کے غریب ترین خطے تھرپارکر میں قدرت کی نعمتیں ایک بہت بڑے خزانے کی صورت میں زمین میں پوشیدہ تھیں۔ان نعمتوں سے فیض پانے میں ہم نے ہی تاخیرکی۔ تھر میں کوئلے کا ذخیرہ کتنا بڑا ہے تکنیکی اصطلاحات سے ناواقف حضرات اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ یہ ذخیرہ سعودی عرب اور ایران کے توانائی کے وسائل (TOE) سے زیادہ بڑا ہے۔ اس کوئلے میں سلفر اورکاربن ڈائی آکسائیڈکی شرح کم ہونا بھی پاکستان پر قدرت کی مہربانیوں کا ایک اور اظہار ہے۔

کوئلے کی کان اور پاور پلانٹ ایک ہی جگہ ہونے کا فائدہ یہ ہے کہ خام مال کی نقل وحمل کے لیے وسائل اوروقت درکار نہیں ہوں گے۔ مستقبل میں یہاں لگنے والے سب پاور پلانٹس مقامی طور پر دستیاب خام مال سے بجلی پیدا کریں گے۔ چنانچہ فرنس آئل، ایل این جی یا درآمدی کوئلے پر انحصار نہیں ہوگا۔ اس طرح قیمتی زرمبادلہ کی بھی بہت بچت ہوگی۔

غربت، بیماریاں، انتہائی کم شرح خواندگی تھرکے معروف حوالے ہیں۔ ہمیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہSECMCان حوالوں کو معاشی خوشحالی، صحت اور بہتر شرح خواندگی میں تبدیل کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ تھرپارکر میں ایک اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ پاکستان کا بہترین ویلفیئر ماڈل بھی تشکیل پارہا ہے۔

تھر میں بارش نہ ہوتو خشک سالی کی وجہ سے غربت اورمحرومیوں میں مزید اضافہ ہوتا ہے، لیکن اچھی نیت اور بہتر حکمت عملی کے ساتھ حکومت سندھ اوراینگرو پاکستان کی مشترکہ کمپنی SECMC کا کثیرالجہتی کام پایہ تکمیل تک پہنچ جائے تو یقین ہے کہ دس پندرہ سال بعد تھر ایک تعلیم یافتہ، صحت مند اورخوشحال خطہ ہوگا۔ تاہم اس منزل تک پہنچنے کے لیے نہ صرف عملی طور پر بلکہ فکری طور پر بھی کئی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ خاص طور پراہل قلم، اہل صحافت،اساتذہ اور دانشوروں کی جانب سے قوم میں مثبت افکارکے فروغ اور منفی سوچ کے انسدادکے لیے بھی جہد مسلسل کی ضرورت ہے۔

.....................

بانو قدسیہ۔ ایک عہد تمام ہوا۔

اردو زبان کی ممتازشخصیت،انسانی رویوں سے بخوبی واقف، پاکستان یا برصغیر کے سماج کی ایک نباض،ایک حقیقت شناس اورحق گوادیبہ، ایک نہایت شفیق ومہربان ہستی، ممتازادیب اشفاق احمد کی اہلیہ بانو قدسیہ 4 فروری کولاہور میں انتقال کرگئیں۔

(انا للہ وانا الیہ راجعون)

دعا ہے کہ بانو قدسیہ مرحومہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا ہو۔ان کی اولاد، ان کے شاگردوں اوران کے متعلقین کوصبرعطا ہو۔ (آمین)
Load Next Story