باس ہمیشہ درست نہیں ہوتے
سیاسی جماعتوں میں تحصیل سے مرکز تک عہدیدار نامزد ہوتے ہیں
ایک نجی ادارے کے افسر کے کمرے میں ملازمین کی ہدایت کے لیے دو رول تحریری طور پر آویزاں دیکھے گئے، جن میں پہلا رول یہ ہے کہ باس ہمیشہ رائٹ ہوتا ہے اوراگر نہ بھی ہو تو پہلے رول پر ہی عمل کیا جائے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے ہر ادارے اورخاص طور پر سیاست میں اپنے سیاسی قائد کو باس کا درجہ ملا ہوا ہے اور سیاسی پارٹیوں کو بھی ذاتی نجی اداروں کی طرح متعلقہ باس چلا رہے ہیں۔ جہاں یہ اصول نافذ ہے کہ باس ہمیشہ درست ہوتا ہے جس سے کبھی کوئی غلطی نہیں ہوسکتی اور باس کی ہر بات کو ماننا ضروری ہی نہیں بلکہ لازمی ہے وگرنہ باس کی ناراضگی یقینی ہے۔
دنیا میں کہا جاتا ہے کہ جمہوریت عوام کے لیے ہوتی ہے۔ عوام کے ذریعے ہوتی ہے اور عوام کے مجموعی مفاد کے لیے ہوتی ہے مگر اپنے ملک میں یہ باتیں صرف کہنے کی حد تک ہیں اور جمہوریت کے نام پر جو سیاسی اورذاتی آمریت چل رہی ہے، اسے دیکھ کر ملک میں واحد ایک ہی سیاسی پارٹی جماعت اسلامی ہی ہے جس کے متعدد امیر تبدیل ہوچکے ہیں اور جماعت کے بانی مولانا مودودی کے انتقال کے بعد جماعت کی سربراہی موروثیت کے طور پر مولانا مرحوم کے صاحبزادوں کو منتقل نہیں ہوئی اور جماعت کے اپنے آئین کے تحت امیرکا انتخاب ہوتا آرہا ہے۔
پاکستان میں ساڑھے تین سو سے زیادہ سیاسی جماعتیں ہزاروں مختلف رفاحی ادارے اور لاکھوں بڑے تجارتی، کاروباری مختلف قسم کے غیر سرکاری ادارے موجود ہیں اور ملک بھر کی قومی وصوبائی حکومتوں کے مختلف سرکاری محکموں کے دفاتر ہیں، جہاں ہر سطح پر باس موجود ہیں، جنھیں سرکاری تحفظ حاصل ہے۔
ہر شہر میں موجود سرکاری اداروں کے باس پر ہر سطح تک اوپر باس بھی موجود ہیں اگر نیچے والا باس عملے یا عوام کے ساتھ زیادتی وناانصافی کرے تو اوپر موجود باس تک رسائی کرکے دادرسی کی جاسکتی ہے اور سرکاری باس کے ہر غیر قانونی کاموں کو عدالت میں چیلنج کرکے حقوق حاصل کیے جاسکتے ہیں، مگر سیاسی پارٹیوں اور نجی اداروں میں کسی کو بھی سرکاری اداروں جیسی سہولیات میسر ہیں اور نہ باس کی غلط بات یا احکام سے انحراف ممکن ہے اور نہ باس کی کہیں شکایت کی جاسکتی ہے۔
سیاسی جماعتوں میں تحصیل سے مرکز تک عہدیدار نامزد ہوتے ہیں اور نچلی سطح کے باس کی شکایت اس کے باس کے پاس کی جاسکتی ہے اور ناانصافی اور غلط فیصلے کی شکایت اوپرکے باس نہ سنیں تو مرکزی باس سے انصاف کے لیے رجوع کیا جاسکتا ہے اور پھر مرکزی باس جو سربراہ ہوتا ہے کی مرضی ہے کہ وہ جس کے حق میں چاہے فیصلہ دے مگر سربراہ کا غلط فیصلہ کرنے والے کی حمایت ضروری ہے اگر وہ اس کا من پسند ہو جیسے جہانگیر ترین اور وزیر اعلیٰ کے پی کے، کے پرویز خٹک عمران خان کے پسندیدہ ہیں۔
عمران خان نے اپنی ہی پارٹی کی اچھی ساکھ کے حامل سابق جج جسٹس وجیہہ کا فیصلہ قبول کرنے سے انکار کیا تھا جنھوں نے دو بڑے رہنماؤں کے خلاف فیصلہ دیا تھا مگر تحریک انصاف کے مرکزی باس عمران خان نے ناپسندیدہ جج کے فیصلے کو نہیں مانا اور باس جیسی من مانی برقرار رکھی۔ حیرت ہے کہ جمہوریت کے دعویدار رہنماؤں نے جسٹس وجیہہ کا ساتھ نہیں دیا تاکہ مرکزی چیئرمین ناراض نہ ہوں۔
کسی دور میں نجی اداروں میں ملازمین کی یونینیں بااثر ہوتی تھیں جو اپنے ساتھیوں کے مفادات کا تحفظ کرتی تھیں اورکسی ورکرکے ساتھ زیادتی کی صورت میں باس سے غلط فیصلہ تبدیل کرا لیتی تھیں۔ سرکاری اداروں میں بھی ملازمین کی مختلف یونین ہوتی ہیں اور سی بی اے یونین کو ہی نمایندگی کا حق ہوتا ہے پھر ہر جگہ باسوں نے پاکٹ یونین بنوا کر اپنے ملازمین کوکمزورکردیا اور اپنی بات ماننے والی یونین کے عہدیداروں کو ہاتھ میں رکھا جنھوں نے ساتھیوں کی بجائے باس کا ساتھ دیا کیونکہ مفادات باس سے حاصل ہوسکتے ہیں ساتھیوں سے نہیں۔ جو ان کے ساتھیوں کی برطرفی کا اختیار رکھتا ہے اور ویسے بھی اکثر یونینوں کو عہدیدار اپنے ساتھیوں کے لیے کم بلکہ ذاتی مفاد کے لیے زیادہ استعمال کرتے ہیں اوراگر باس حکومت ہو تو وہی حال ہوتا ہے جو وفاقی حکومت نے پی آئی اے ملازمین اور ان کی مختلف یونینوں کے ساتھ ہڑتال ناکام بناکر کیا تھا اور چند کو ساتھ ملاکر اور دوسری ایئرلائن بنانے کی دھمکی دے کر کر دکھایا تھا۔ جس کے بعد پی آئی اے ملازمین ہڑتال کی دوبارہ ہمت نہ کرسکے اورکامیاب باس کے آگے پرانی تنخواہ پر ہی کام پر مجبور ہیں کیونکہ باس باس ہوتا ہے اورکبھی غلط نہیں ہوتا۔
سیاست سمیت اگر ہر ادارے میں باس کو ہمیشہ درست قرار دینے والے موجود ہوں اور اگر باس سو فیصد غلط بھی ہو تو پہلے رول پر عمل کرنے پر مجبور ہوں تو وہاں ناانصافیاں، اقربا پروری، میرٹ کی پامالی، خوشامدیوں کی حوصلہ افزائی ، غلط کام، من مانیاں اورکرپشن کبھی ختم نہیں ہوسکتی اور باس کے ہر غلط کام کی تائید ہی ہمارا وہ المیہ ہے جس نے صاف ستھری سیاست، اچھے کاموں کی حوصلہ افزائی، جائز حقوق کے حصول اور ترقی کو ناممکن بنا رکھا ہے اور نیچے سے اوپر تک باس کے غلط اقدامات کو کوئی برا قرار نہیں دیتا اور باس کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہے تاکہ باس خوش رہے۔
آئی جی سندھ نے شکوہ کیا ہے کہ پولیس والوں کو مارنے والے ایوانوں میں بیٹھے تھے تو اس وقت سندھ پولیس کی اسپیشل برانچ نے حکومت کو آگاہ کیوں نہیں کیا اور اس وقت کی حکومتوں نے ایسے لوگوں کو اپنے ساتھ شامل رکھا کیونکہ وہ سب مصلحت کا شکار تھے ۔ حکومتی باس کو ایسے لوگوں کے خلاف شکایت نہیں کرسکتے تھے تاکہ اس وقت کے سربراہ ناراض نہ ہوجائیں۔
موجودہ حکومتوں کے خلاف اپوزیشن کو سیکڑوں شکایات ہیں جن میں کچھ جائز بھی ہوں گی جو حکومتی وزیر نجی طور پر تسلیم بھی کرتے ہوں گے مگرکسی میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہے کہ وہ اپنے باس کو درست حقائق اور حکومتی غلطیوں سے آگاہ کرسکے۔کہا جاتا ہے کہ مخالف کی غلط باتوں پر توجہ واقعی نہ دی جائے مگر درست بات تو مان لینی چاہیے۔ غلطیاں ہر جگہ اور ہر باس سے ہوسکتی ہیں کیونکہ باس بھی انسان ہوتے ہیں فرشتے نہیں۔"Boss is not always right"۔
ماضی میں ایسا ہوتا رہا کہ بعض وزرا، سیاستدانوں اور اعلیٰ افسروں نے اپنے باس کے غلط فیصلوں کی نشاندہی کی اور باس کے نہ ماننے پر اصولی طور پر مستعفی ہوگئے مگر اب ایسا برائے نام رہ گیا ہے اور کوشش ہوتی ہے کہ باس خفا نہ ہوں اور باس کی خوشی کے لیے اس کا غلط کام بھی تسلیم کرلیا جائے۔
دنیا میں کہا جاتا ہے کہ جمہوریت عوام کے لیے ہوتی ہے۔ عوام کے ذریعے ہوتی ہے اور عوام کے مجموعی مفاد کے لیے ہوتی ہے مگر اپنے ملک میں یہ باتیں صرف کہنے کی حد تک ہیں اور جمہوریت کے نام پر جو سیاسی اورذاتی آمریت چل رہی ہے، اسے دیکھ کر ملک میں واحد ایک ہی سیاسی پارٹی جماعت اسلامی ہی ہے جس کے متعدد امیر تبدیل ہوچکے ہیں اور جماعت کے بانی مولانا مودودی کے انتقال کے بعد جماعت کی سربراہی موروثیت کے طور پر مولانا مرحوم کے صاحبزادوں کو منتقل نہیں ہوئی اور جماعت کے اپنے آئین کے تحت امیرکا انتخاب ہوتا آرہا ہے۔
پاکستان میں ساڑھے تین سو سے زیادہ سیاسی جماعتیں ہزاروں مختلف رفاحی ادارے اور لاکھوں بڑے تجارتی، کاروباری مختلف قسم کے غیر سرکاری ادارے موجود ہیں اور ملک بھر کی قومی وصوبائی حکومتوں کے مختلف سرکاری محکموں کے دفاتر ہیں، جہاں ہر سطح پر باس موجود ہیں، جنھیں سرکاری تحفظ حاصل ہے۔
ہر شہر میں موجود سرکاری اداروں کے باس پر ہر سطح تک اوپر باس بھی موجود ہیں اگر نیچے والا باس عملے یا عوام کے ساتھ زیادتی وناانصافی کرے تو اوپر موجود باس تک رسائی کرکے دادرسی کی جاسکتی ہے اور سرکاری باس کے ہر غیر قانونی کاموں کو عدالت میں چیلنج کرکے حقوق حاصل کیے جاسکتے ہیں، مگر سیاسی پارٹیوں اور نجی اداروں میں کسی کو بھی سرکاری اداروں جیسی سہولیات میسر ہیں اور نہ باس کی غلط بات یا احکام سے انحراف ممکن ہے اور نہ باس کی کہیں شکایت کی جاسکتی ہے۔
سیاسی جماعتوں میں تحصیل سے مرکز تک عہدیدار نامزد ہوتے ہیں اور نچلی سطح کے باس کی شکایت اس کے باس کے پاس کی جاسکتی ہے اور ناانصافی اور غلط فیصلے کی شکایت اوپرکے باس نہ سنیں تو مرکزی باس سے انصاف کے لیے رجوع کیا جاسکتا ہے اور پھر مرکزی باس جو سربراہ ہوتا ہے کی مرضی ہے کہ وہ جس کے حق میں چاہے فیصلہ دے مگر سربراہ کا غلط فیصلہ کرنے والے کی حمایت ضروری ہے اگر وہ اس کا من پسند ہو جیسے جہانگیر ترین اور وزیر اعلیٰ کے پی کے، کے پرویز خٹک عمران خان کے پسندیدہ ہیں۔
عمران خان نے اپنی ہی پارٹی کی اچھی ساکھ کے حامل سابق جج جسٹس وجیہہ کا فیصلہ قبول کرنے سے انکار کیا تھا جنھوں نے دو بڑے رہنماؤں کے خلاف فیصلہ دیا تھا مگر تحریک انصاف کے مرکزی باس عمران خان نے ناپسندیدہ جج کے فیصلے کو نہیں مانا اور باس جیسی من مانی برقرار رکھی۔ حیرت ہے کہ جمہوریت کے دعویدار رہنماؤں نے جسٹس وجیہہ کا ساتھ نہیں دیا تاکہ مرکزی چیئرمین ناراض نہ ہوں۔
کسی دور میں نجی اداروں میں ملازمین کی یونینیں بااثر ہوتی تھیں جو اپنے ساتھیوں کے مفادات کا تحفظ کرتی تھیں اورکسی ورکرکے ساتھ زیادتی کی صورت میں باس سے غلط فیصلہ تبدیل کرا لیتی تھیں۔ سرکاری اداروں میں بھی ملازمین کی مختلف یونین ہوتی ہیں اور سی بی اے یونین کو ہی نمایندگی کا حق ہوتا ہے پھر ہر جگہ باسوں نے پاکٹ یونین بنوا کر اپنے ملازمین کوکمزورکردیا اور اپنی بات ماننے والی یونین کے عہدیداروں کو ہاتھ میں رکھا جنھوں نے ساتھیوں کی بجائے باس کا ساتھ دیا کیونکہ مفادات باس سے حاصل ہوسکتے ہیں ساتھیوں سے نہیں۔ جو ان کے ساتھیوں کی برطرفی کا اختیار رکھتا ہے اور ویسے بھی اکثر یونینوں کو عہدیدار اپنے ساتھیوں کے لیے کم بلکہ ذاتی مفاد کے لیے زیادہ استعمال کرتے ہیں اوراگر باس حکومت ہو تو وہی حال ہوتا ہے جو وفاقی حکومت نے پی آئی اے ملازمین اور ان کی مختلف یونینوں کے ساتھ ہڑتال ناکام بناکر کیا تھا اور چند کو ساتھ ملاکر اور دوسری ایئرلائن بنانے کی دھمکی دے کر کر دکھایا تھا۔ جس کے بعد پی آئی اے ملازمین ہڑتال کی دوبارہ ہمت نہ کرسکے اورکامیاب باس کے آگے پرانی تنخواہ پر ہی کام پر مجبور ہیں کیونکہ باس باس ہوتا ہے اورکبھی غلط نہیں ہوتا۔
سیاست سمیت اگر ہر ادارے میں باس کو ہمیشہ درست قرار دینے والے موجود ہوں اور اگر باس سو فیصد غلط بھی ہو تو پہلے رول پر عمل کرنے پر مجبور ہوں تو وہاں ناانصافیاں، اقربا پروری، میرٹ کی پامالی، خوشامدیوں کی حوصلہ افزائی ، غلط کام، من مانیاں اورکرپشن کبھی ختم نہیں ہوسکتی اور باس کے ہر غلط کام کی تائید ہی ہمارا وہ المیہ ہے جس نے صاف ستھری سیاست، اچھے کاموں کی حوصلہ افزائی، جائز حقوق کے حصول اور ترقی کو ناممکن بنا رکھا ہے اور نیچے سے اوپر تک باس کے غلط اقدامات کو کوئی برا قرار نہیں دیتا اور باس کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہے تاکہ باس خوش رہے۔
آئی جی سندھ نے شکوہ کیا ہے کہ پولیس والوں کو مارنے والے ایوانوں میں بیٹھے تھے تو اس وقت سندھ پولیس کی اسپیشل برانچ نے حکومت کو آگاہ کیوں نہیں کیا اور اس وقت کی حکومتوں نے ایسے لوگوں کو اپنے ساتھ شامل رکھا کیونکہ وہ سب مصلحت کا شکار تھے ۔ حکومتی باس کو ایسے لوگوں کے خلاف شکایت نہیں کرسکتے تھے تاکہ اس وقت کے سربراہ ناراض نہ ہوجائیں۔
موجودہ حکومتوں کے خلاف اپوزیشن کو سیکڑوں شکایات ہیں جن میں کچھ جائز بھی ہوں گی جو حکومتی وزیر نجی طور پر تسلیم بھی کرتے ہوں گے مگرکسی میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہے کہ وہ اپنے باس کو درست حقائق اور حکومتی غلطیوں سے آگاہ کرسکے۔کہا جاتا ہے کہ مخالف کی غلط باتوں پر توجہ واقعی نہ دی جائے مگر درست بات تو مان لینی چاہیے۔ غلطیاں ہر جگہ اور ہر باس سے ہوسکتی ہیں کیونکہ باس بھی انسان ہوتے ہیں فرشتے نہیں۔"Boss is not always right"۔
ماضی میں ایسا ہوتا رہا کہ بعض وزرا، سیاستدانوں اور اعلیٰ افسروں نے اپنے باس کے غلط فیصلوں کی نشاندہی کی اور باس کے نہ ماننے پر اصولی طور پر مستعفی ہوگئے مگر اب ایسا برائے نام رہ گیا ہے اور کوشش ہوتی ہے کہ باس خفا نہ ہوں اور باس کی خوشی کے لیے اس کا غلط کام بھی تسلیم کرلیا جائے۔