ہردل ہم سے جدا ہوگیا

ہردل کمارجسمانی طورپر ہم سے جدا ہوگئے

zb0322-2284142@gmail.com

ہردل کمارجسمانی طورپر ہم سے جدا ہوگئے۔ان کی ساری زندگی جدوجہد سے تعبیر ہے۔چونکہ ان کا محنت کش طبقے سے تعلق تھا،اس لیے والدین لکھانے پڑھانے کے اخراجات برداشت کرنے سے قاصر تھے۔ چند برس بعد وہ کراچی آگئے اور یہاں بھی مزدوری کرنے لگے اور باقاعدہ جوتے بنانے کے کام میں جت گئے ۔ان کی مادری زبان توگجرا تی تھی لیکن وہ سندھی،پنجابی، سرائیکی، بلوچی، پشتواورفارسی بول لیتے تھے۔

ہردل کمارکا تعلق ایک ہندومذہبی گھرانے سے تھا لیکن وہ ہندو مسلم کے دائرے سے بالاترانسانیت کے اعلیٰ درجے پر جا پہنچے تھے۔ وہ ذاتی کاوشوں، شعور،آگہی اورجستجوکی وجہ سے بہت آگے نکل گئے تھے۔ انھوں نے اپنی محنت سے جوتے بنانے کے کاروبارکوآگے بڑھایا اوران کے ماتحت پانچ چھ مزدورکام کرتے تھے ۔ ہردل دوسروں کے مقابلے میں اپنے مزدوروں کو زیادہ اجرت دیتے تھے اور خود بھی مزدوری کرتے تھے۔

ان کے جوتے کا کارخانہ شکیلہ جمیلہ نامی عمارت، لی مارکیٹ میں واقع ہے۔ بعد میں جوتے بنانے والے مزدوروں کی شومیکرز ورکرز یونین کے نام سے ایک یونین لی مارکیٹ میں تشکیل دی، وہ اس کے جنرل سیکریٹری تھے۔ ایک ایسا سیٹھ جو مزدوروں کے حقوق کے لیے لڑتا تھا،کبھی مزدوروں کو ساحل سمندر پہ تفریح کرواتا توکبھی بریانی کی دیگ منگواتا اورکبھی تحفے تحائف دیتا۔ساتھ ساتھ وہ سماجی شعورپرمبنی ادب کا گہرا مطالعہ بھی جاری رکھا ہوئے تھے۔

اسی محنت کی بدولت وہ کالم نویس بھی بن گئے۔ ان کے مضامین اردو اورسندھی اخبا رات میں شایع ہونے لگے ۔روزنامہ ایکسپریس اور سن ڈے میگزین میں ان کے مضامین چھپتے رہے ، ان کے مضامین محنت کش طبقے اور شہریوں میں مقبول تھے۔ زیادہ تر وہ محنت کشوں کے مسائل پر ہی لکھتے تھے لیکن خواتین کے مسا ئل پر،کمیونزم پر، چی گویرا اورفیدل کاسترو پر بھی لکھا۔

انھوں نے پاکستان اورہندوستان کے تقریبا علاقوں کشمیر، کے پی کے، بلوچستان، سندھ، گجرات اور راجستھان میں محنت کشوں کے جلوس اورمظاہروں میں شرکت کی ۔ ہردل کسی بھی شخصیت پر اگرکچھ بولنا ہوتا تو برملا تنقیدی جائزہ لیتے تھے ۔وہ کرپٹ افراد کی نشاندہی کرنا اپنا فریضہ سمجھتے تھے۔ میرا ان سے سیاسی تعلق لگ بھگ بارہ برس سے تھا ۔


ہم زیارت،راولا کورٹ،کوئٹہ، ماری پور، لاہور سمیت متعدد شہروں میں مشتر کہ سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے۔وہ ایک اچھے شیف بھی تھے۔ایک باراچانک میرے گھر آگئے اور ساتھ پکانے کا سامان ساتھ لائے،پھرآنا فانا میں کچن پرقبضہ کرلیا اورگھر بھرکاکھانا پکالیا۔ ان کے ہاتھ کے پکے ہوئے کھانے کی بہترین لذت آج بھی ہم نہیں بھلاسکے۔

بورژوا جمہوری دانشورہو، راسخ العقیدہ مذہبی سیاسی رہنما، ہرایک سے بلاہچکچاہٹ بڑے سکون سے بحث ومباحثے کے ذریعے کمیونسٹ نظام کی سچائی کو بیان کرتے تھے۔کمیونزم کا قیام ہی ان کی زندگی کا نصب العین تھا۔آج ہر دل کمارکے چاہنے والے دنیا بھر میں اور پاکستان کے ہرگوشے گوشے میں اپنی جدوجہد میں برسرپیکار ہیں۔ان کا نظر یہ سکڑا نہیں بلکہ تیزی سے دنیا میں پھیلتا جارہا ہے۔ آج ہندوستان کے راہول گا ندھی بھی یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ مودی ہندوستان کا ٹرمپ ہے ۔

لاکھوں کروڑوں امریکی عوام سڑکوں پہ نکل کر یہ نعرے لگا رہے ہیں کہ ''سرمایہ داری تمھاری موت آن پہنچی ہے'' ہندوستان میں کمیونسٹوں کی کال پر لاکھوں انسانوں کی ہڑتال میں شرکت یہ ثابت کرتی ہے کہ کمیونسٹ تحریک آ گے بڑھ رہی ہے ۔ٹرمپ کی صدارتی حلف برداری کے دوران امریکا میں لا کھوں افراد کا سڑکوں پہ نکلنا سرمایہ داری کی دکھتی رگ پہ پاؤں پڑنے کے مترادف ہے۔

''تاریخ کا خاتمہ ''کہنے والے فوکوہاما اب خودکہہ رہا ہے کہ جمہوریت پر ایک نظر ڈالنی ہوگی۔ مشرق وسطیٰ، جاپان ،چین اوریورپ میں سرمایہ داری کے خلاف بے زارگی بڑھ رہی ہے،احتجاج اور ردعمل اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام اس نظام زر سے اکتا گئے ہیں۔ وہ اب ردعمل کرتے ہو ئے کہہ رہے ہیں کہ متبادل دنیا کی تشکیل ممکن ہے۔ پاکستان میں ایک جانب موٹروے بن رہی ہے تو دوسری جانب جگہ جگہ گٹر ابل رہے ہیں۔

ایک جانب اورنج ٹرین کی تیاری ہورہی ہے تودوسری جانب شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ ناپید ہوتی جارہی ہیں۔ایک جانب سی پیک کا معاہدہ ہورہا ہے تودوسری جا نب چین سے تجارتی خساروں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ ایک جانب معاشی ترقی کی بات ہورہی ہے تو دوسری طرف بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے۔ ایک جانب کہا جارہا ہے کہ دفاع میں خودکفیل ہوگئے ہیں تو دوسری طرف اسی فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ایک جانب ارب پتی کھرب پتی بنتے جارہے ہیں تو دوسری جانب لوگ بھوک سے مررہے ہیں۔

ایک جانب لوگ رشوتیں دے دے کر تھک چکے ہیں تو دوسری طرف رقم بٹورنے کے لیے سیکریٹری رکھے جارہے ہیں۔ ان مسائل کا حل اورکامریڈ ہردل کماکے نظریے کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ ایسے معاشرے کے قیام کے لیے صف بندی کی جائے جہاں بھوک کا خاتمہ ہوجائے اورکوئی گدا گر نہ ہو ۔ یہ تب ہی ممکن ہوگا جب عوام خودکار انجمنوں کے ذریعے اپنے سارے کام انجام دیں گے۔ سچے جذبوں کی قسم وہ دن جلدآنے والا ہے۔
Load Next Story