نظام تعلیم قوم دوراہے پر
یہ اتفاقیہ بات نہیں تھی کہ اتنی بڑی تقریب سے پہلے باقاعدہ ایک پروگرام تشکیل دیا جاتا ہے
جناح کے نام پر بننے والے ایک اسکول کی تقریب میں جانے کا اتفاق ہوا جس میں طلبا نے سائنسی اور تخلیقی پروجیکٹ نمائش میں رکھے تھے۔ پروگرام میں اسکول کے ٹرسٹی، انتظامیہ، میڈیا اورسول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ معلوم نہیں یہ بات کسی نے نوٹ کی یا نہیں مگر ہمارے لیے حیرت کا باعث تھی کہ پروگرام میں مہمانوں کو متاثر کرنے کے لیے اسکول کی پرنسپل اور بچوں نے انگریزی میں تقاریر کیں مگر افسوس کی بات یہ تھی کہ پروگرام کو بغیر تلاوت قرآن پاک اور حمد و نعت کے شروع کیا گیا۔
یہ اتفاقیہ بات نہیں تھی کہ اتنی بڑی تقریب سے پہلے باقاعدہ ایک پروگرام تشکیل دیا جاتا ہے اور اس کی کاپی انتظامیہ بورڈ اور دیگر ذمے داران کو دی جاتی ہے تاکہ کسی غلطی کا احتمال ہو تو نشان دہی کردی جائے اور پروگرام میں کوئی ضروری چیز رہ نہ جائے۔ ضروری مشاورت کے بعد پروگرام کو مرتب کیا جاتا ہے تو ایسا نہیں ہوسکتا کہ بھول گئے ہوں یا خیال نہ رہا ہو کیونکہ کسی پروگرام کی ابتدا تلاوت قرآن پاک سے کرنا ہماری روایت بن چکا ہے۔
اس سے انحراف کو پھر کسی اور نظر سے دیکھا جائے گا کیونکہ آج کل نام نہاد روشن خیالی اوراسلام کی روح کے مطابق چلنے والوں میں ایک واضح لکیر نظر آتی ہے۔ روشن خیالی، لبرل ازم یا پھر سیکولرازم کو پروان چڑھانے میں کچھ قوتیں سر دھڑ کی بازی لگا رہی ہیں۔ اس سے بحث نہیں کہ سیکولرازم اور لبرل ازم کی تعریف کیا ہے کیونکہ روشن خیالی کی اعلیٰ مثال ہی اسلام ہے اگر باقاعدہ اس کا مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ اسلام تو ایک ضابطہ حیات دیتا ہے زندگی کے طریقے سکھاتا ہے کسی بھی چیز میں قدغن نہیں لگاتا نہ ہی خواتین کو ترقی کرنے سے روکتا ہے بلکہ ہر معاملے میں خواتین کو آگے بڑھنے ہر شعبے میں کام کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
اسلام کو دین فطرت اسی لیے کہا جاتا ہے کہ یہ انسانی جبلتوں کا خیال رکھتا ہے آگے بڑھنے میں مدد دیتا ہے۔ انسانوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ تخلیقی صلاحیتوں سے کام لے ، ترقی کرے ، آسمانوں کی وسعتوں کو پہنچے اور زمین کی تہ میں موجود نعمتوں سے مستفید ہو بلکہ اسلام تو وہ دین ہے جس نے تمام انسانوں کی تعلیم کو ایک بنیادی ضرورت قرار دیا۔ دنیا میں کوئی مذہب یا تمدن ایسا موجود نہیں مگرکچھ نام نہاد مسلمانوں نے دین اسلام کی صحیح تصویر ہی پیش نہ کی جس کی وجہ سے اسلام کا چہرہ مسخ کردینے کی مذموم کوشش جاری ہے۔اور رہی سہی کسر وہ لوگ پوری کر رہے ہیں جو دین اور دنیا میں فرق کرتے ہیں۔
اسکولوں اورکالجوں میں تعلیم کے نام پربیشتر وہ مواد پڑھایا جا رہا ہے جوکسی بھی طرح تربیت فراہم نہیں کر رہا۔ تعلیم کے ذریعے ڈگریاں تو ضرور فراہم ہورہی ہیں مگر اختلافات کیا ہیں، سماج کے سدھار کے طریقے کیا ہیں۔
ملک و قوم کی ترقی کے لیے کون سی باتیں اہم ہیں ان باتوں سے نابلد ہیں اس تربیت کے فقدان کا نتیجہ یہ ہے کہ آج رشتوں کا احترام ختم ہوتا جا رہا ہے، مگر جب کوئی طالب علم کسی ٹیچر کے فراق میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور خودکشی کرلے اور وہ بھی اس عمر میں جب کہ وہ ابھی باشعور نہ ہو تو معاشرے کے لیے ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے کہ ہم تعلیم کے نام پر بچوں کوکیا چیز فراہم کر رہے ہیں۔
سوچنے کی بات ہے کہ آزادی کے نام پر ان کی بربادی کے سامان تو نہیں کیے جا رہے، طلبا قوم کا سرمایہ ہیں آنے والی نسلوں کے امین اور ملک و قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والے ہیں مگر جب یہ طلبا ہی ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہوجائیں یا نصاب کے نام پر ایسی آرا سے مستفید ہوں جوکہ کسی ملک کی تہذیب، مذہب، رہن سہن، روایات سے متصادم ہو تو پھر اس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے۔ 70 سال گزر جانے کے بعد بھی ہم یہ طے نہ کرسکے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا کہ سیکولر ریاست؟ تو پھر ہم کیسے ایک مشن ایک وژن کی بات کرسکتے ہیں۔
مقصد حیات متعین کرنے کے بعد ہی لائحہ عمل کا تعین کیا جاتا ہے ابھی تو ہم اپنے ملک کے مقصد حیات سے ہی نابلد ہیں، دوراہے پر کھڑی ہوئی قوم کوئی درمیانہ راستہ ہی نہیں نکال سکی ہے۔ دونوں راہوں کے مسافر اپنی اپنی جگہ پر جمے ہوئے ہیں جب کہ اسلام اعتدال کا سبق دیتا ہے وہ نہ کسی کے حقوق سلب کرتا ہے اور نہ ہی اپنے حقوق سلب کرنے کی اجازت دیتا ہے مگر ہم ہیں کہ مغربی تہذیب میں بغیر سوچے سمجھے رنگے جا رہے ہیں کہ کہیں ہم پر تنگ نظری کا دھبہ نہ لگ جائے اس سے بدتر کیا بات ہوگی کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے سات اسلامی ممالک کے لوگوں پر پابندی لگائی تو کسی اسلامی ملک نے ماسوائے ایران کے کوئی احتجاج نہیں کیا بلکہ ڈھکے چھپے الفاظ میں اس فیصلے کی حمایت ہی کی گئی کہ شاید اس بہانے ڈونلڈ ٹرمپ کی گڈ بک میں نام آجائے مگر آفرین ہے مغربی عوام و سول سوسائٹی، خواتین کی تنظیموں نے اس فیصلے کو مسترد کردیا مگر مسلمان گو مگو میں ہیں، قوت فیصلہ کے فقدان نے ہی مسلمانوں کو دنیا میں ذلیل وخوار کیا ہے۔
سیاستدان ہیں تو وہ آپس میں لڑائیوں اور دولت کو ٹھکانے لگانے میں اتنے مصروف ہیں کہ انھیں قوم کے نونہالوں کے مستقبل کے متعلق سوچنے سمجھنے کی فرصت ہی نہیں، تاریخ کو بھی مسخ کیا جا رہا ہے مگر کسے فرصت ہے جو ان چیزوں کو بغور دیکھے اور پھر ان کا نفاذ کرے یہاں تو تعلیمی ادارے بھی الگ الگ نظام تعلیم کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بھی طلبا کی سوچ بدل رہی ہے۔
اکثر تعلیمی اداروں میں مطالعہ پاکستان کے نام پر جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے وہ بہت تکلیف دہ اس لیے ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریز کی غلامی پر موت کو ترجیح دی تھی۔ ٹیپوسلطان ایک عظیم فاتح اورہندوستانیوں کے لیے عظیم ہیرو تھا جس کا قول تھا کہ:
''شیرکی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔''
اسی لیے ٹیپو سلطان کو Niget Kelly کی لکھی کتاب The History and Culture of Pakistan میں میسور کے بھوت کے نام سے منسوب کیا گیا ہے اور ایسی کتابیں او لیول کے طلبا کو پاکستانی تعلیمی اداروں میں کھلے عام پڑھائی جا رہی ہیں۔ اسی طرح اکثر ایسی کتب تاریخ کے نام پر طلبا کو پڑھائی جا رہی ہیں جس میں محمد بن قاسم کو حملہ آور اور راجہ داہرکو دھرتی ماتا کی حفاظت کرنے والا بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
بے شک یہ تسلیم ہے کہ ہر شخص کو اپنی رائے دینے کا حق ہے مگر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ہمارے ہی طلبا کو ہماری ہی تاریخ غلط پڑھائی جائے اس کے لیے بہت غوروفکر کی ضرورت ہے۔ کوشش کی جائے کہ قومی نصاب کو مرتب کرنے والے فکری طور پر بھی نظریہ پاکستان، دوقومی نظریہ اور اسلام کو سمجھنے والے ہوں اگر طلبا کے کچے ذہنوں کو متاثر نہ کیا جاسکے علامہ اقبال نے اس تناظر میں کیا خوب فرمایا ہے کہ:
ہے اگر مجھ کو خطرکوئی تو اس امت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرار آرزو
خال خال اپنی قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشک سحرگاہی سے جو ظالم وضو
جانتا ہے جس پہ روشن باطن ایام ہے
مزدکیت فتنہ فردا نہیں' اسلام ہے
کیونکہ علوم کی تعلیم طلبا کی تربیت اس کے سیرت وکردار اور شخصیت کی تعمیر کی اہم ذمے داری استاد کی ہوتی ہے تو اس پر بڑی بھاری ذمے داری عائد ہوجاتی ہے کہ وہ ملک و ملت کے ان چراغوں کو درست سمت میں ڈال سکیں ۔ ہارون الرشید کے بیٹوں کا استاد مقررکرتے ہوئے عبدالصمد کو امام شافعی نے نصیحت کی کہ ان کی تعلیم و تربیت سے پہلے ضروری ہے کہ تم اپنے حالات کی اصلاح کرو، ان بچوں کی لگامیں تمہارے منہ کے ساتھ بندھی ہیں، خیر وہ ہے جسے تم خیر بناکر پیش کروگے اور شر وہ ہے جسے تم شر بناؤگے ،اس لیے یاد رکھو کہ تم غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط بنا کر نہ پیش کردو۔
یہ اتفاقیہ بات نہیں تھی کہ اتنی بڑی تقریب سے پہلے باقاعدہ ایک پروگرام تشکیل دیا جاتا ہے اور اس کی کاپی انتظامیہ بورڈ اور دیگر ذمے داران کو دی جاتی ہے تاکہ کسی غلطی کا احتمال ہو تو نشان دہی کردی جائے اور پروگرام میں کوئی ضروری چیز رہ نہ جائے۔ ضروری مشاورت کے بعد پروگرام کو مرتب کیا جاتا ہے تو ایسا نہیں ہوسکتا کہ بھول گئے ہوں یا خیال نہ رہا ہو کیونکہ کسی پروگرام کی ابتدا تلاوت قرآن پاک سے کرنا ہماری روایت بن چکا ہے۔
اس سے انحراف کو پھر کسی اور نظر سے دیکھا جائے گا کیونکہ آج کل نام نہاد روشن خیالی اوراسلام کی روح کے مطابق چلنے والوں میں ایک واضح لکیر نظر آتی ہے۔ روشن خیالی، لبرل ازم یا پھر سیکولرازم کو پروان چڑھانے میں کچھ قوتیں سر دھڑ کی بازی لگا رہی ہیں۔ اس سے بحث نہیں کہ سیکولرازم اور لبرل ازم کی تعریف کیا ہے کیونکہ روشن خیالی کی اعلیٰ مثال ہی اسلام ہے اگر باقاعدہ اس کا مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ اسلام تو ایک ضابطہ حیات دیتا ہے زندگی کے طریقے سکھاتا ہے کسی بھی چیز میں قدغن نہیں لگاتا نہ ہی خواتین کو ترقی کرنے سے روکتا ہے بلکہ ہر معاملے میں خواتین کو آگے بڑھنے ہر شعبے میں کام کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
اسلام کو دین فطرت اسی لیے کہا جاتا ہے کہ یہ انسانی جبلتوں کا خیال رکھتا ہے آگے بڑھنے میں مدد دیتا ہے۔ انسانوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ تخلیقی صلاحیتوں سے کام لے ، ترقی کرے ، آسمانوں کی وسعتوں کو پہنچے اور زمین کی تہ میں موجود نعمتوں سے مستفید ہو بلکہ اسلام تو وہ دین ہے جس نے تمام انسانوں کی تعلیم کو ایک بنیادی ضرورت قرار دیا۔ دنیا میں کوئی مذہب یا تمدن ایسا موجود نہیں مگرکچھ نام نہاد مسلمانوں نے دین اسلام کی صحیح تصویر ہی پیش نہ کی جس کی وجہ سے اسلام کا چہرہ مسخ کردینے کی مذموم کوشش جاری ہے۔اور رہی سہی کسر وہ لوگ پوری کر رہے ہیں جو دین اور دنیا میں فرق کرتے ہیں۔
اسکولوں اورکالجوں میں تعلیم کے نام پربیشتر وہ مواد پڑھایا جا رہا ہے جوکسی بھی طرح تربیت فراہم نہیں کر رہا۔ تعلیم کے ذریعے ڈگریاں تو ضرور فراہم ہورہی ہیں مگر اختلافات کیا ہیں، سماج کے سدھار کے طریقے کیا ہیں۔
ملک و قوم کی ترقی کے لیے کون سی باتیں اہم ہیں ان باتوں سے نابلد ہیں اس تربیت کے فقدان کا نتیجہ یہ ہے کہ آج رشتوں کا احترام ختم ہوتا جا رہا ہے، مگر جب کوئی طالب علم کسی ٹیچر کے فراق میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور خودکشی کرلے اور وہ بھی اس عمر میں جب کہ وہ ابھی باشعور نہ ہو تو معاشرے کے لیے ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے کہ ہم تعلیم کے نام پر بچوں کوکیا چیز فراہم کر رہے ہیں۔
سوچنے کی بات ہے کہ آزادی کے نام پر ان کی بربادی کے سامان تو نہیں کیے جا رہے، طلبا قوم کا سرمایہ ہیں آنے والی نسلوں کے امین اور ملک و قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والے ہیں مگر جب یہ طلبا ہی ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہوجائیں یا نصاب کے نام پر ایسی آرا سے مستفید ہوں جوکہ کسی ملک کی تہذیب، مذہب، رہن سہن، روایات سے متصادم ہو تو پھر اس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے۔ 70 سال گزر جانے کے بعد بھی ہم یہ طے نہ کرسکے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا کہ سیکولر ریاست؟ تو پھر ہم کیسے ایک مشن ایک وژن کی بات کرسکتے ہیں۔
مقصد حیات متعین کرنے کے بعد ہی لائحہ عمل کا تعین کیا جاتا ہے ابھی تو ہم اپنے ملک کے مقصد حیات سے ہی نابلد ہیں، دوراہے پر کھڑی ہوئی قوم کوئی درمیانہ راستہ ہی نہیں نکال سکی ہے۔ دونوں راہوں کے مسافر اپنی اپنی جگہ پر جمے ہوئے ہیں جب کہ اسلام اعتدال کا سبق دیتا ہے وہ نہ کسی کے حقوق سلب کرتا ہے اور نہ ہی اپنے حقوق سلب کرنے کی اجازت دیتا ہے مگر ہم ہیں کہ مغربی تہذیب میں بغیر سوچے سمجھے رنگے جا رہے ہیں کہ کہیں ہم پر تنگ نظری کا دھبہ نہ لگ جائے اس سے بدتر کیا بات ہوگی کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے سات اسلامی ممالک کے لوگوں پر پابندی لگائی تو کسی اسلامی ملک نے ماسوائے ایران کے کوئی احتجاج نہیں کیا بلکہ ڈھکے چھپے الفاظ میں اس فیصلے کی حمایت ہی کی گئی کہ شاید اس بہانے ڈونلڈ ٹرمپ کی گڈ بک میں نام آجائے مگر آفرین ہے مغربی عوام و سول سوسائٹی، خواتین کی تنظیموں نے اس فیصلے کو مسترد کردیا مگر مسلمان گو مگو میں ہیں، قوت فیصلہ کے فقدان نے ہی مسلمانوں کو دنیا میں ذلیل وخوار کیا ہے۔
سیاستدان ہیں تو وہ آپس میں لڑائیوں اور دولت کو ٹھکانے لگانے میں اتنے مصروف ہیں کہ انھیں قوم کے نونہالوں کے مستقبل کے متعلق سوچنے سمجھنے کی فرصت ہی نہیں، تاریخ کو بھی مسخ کیا جا رہا ہے مگر کسے فرصت ہے جو ان چیزوں کو بغور دیکھے اور پھر ان کا نفاذ کرے یہاں تو تعلیمی ادارے بھی الگ الگ نظام تعلیم کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بھی طلبا کی سوچ بدل رہی ہے۔
اکثر تعلیمی اداروں میں مطالعہ پاکستان کے نام پر جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے وہ بہت تکلیف دہ اس لیے ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریز کی غلامی پر موت کو ترجیح دی تھی۔ ٹیپوسلطان ایک عظیم فاتح اورہندوستانیوں کے لیے عظیم ہیرو تھا جس کا قول تھا کہ:
''شیرکی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔''
اسی لیے ٹیپو سلطان کو Niget Kelly کی لکھی کتاب The History and Culture of Pakistan میں میسور کے بھوت کے نام سے منسوب کیا گیا ہے اور ایسی کتابیں او لیول کے طلبا کو پاکستانی تعلیمی اداروں میں کھلے عام پڑھائی جا رہی ہیں۔ اسی طرح اکثر ایسی کتب تاریخ کے نام پر طلبا کو پڑھائی جا رہی ہیں جس میں محمد بن قاسم کو حملہ آور اور راجہ داہرکو دھرتی ماتا کی حفاظت کرنے والا بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
بے شک یہ تسلیم ہے کہ ہر شخص کو اپنی رائے دینے کا حق ہے مگر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ہمارے ہی طلبا کو ہماری ہی تاریخ غلط پڑھائی جائے اس کے لیے بہت غوروفکر کی ضرورت ہے۔ کوشش کی جائے کہ قومی نصاب کو مرتب کرنے والے فکری طور پر بھی نظریہ پاکستان، دوقومی نظریہ اور اسلام کو سمجھنے والے ہوں اگر طلبا کے کچے ذہنوں کو متاثر نہ کیا جاسکے علامہ اقبال نے اس تناظر میں کیا خوب فرمایا ہے کہ:
ہے اگر مجھ کو خطرکوئی تو اس امت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرار آرزو
خال خال اپنی قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشک سحرگاہی سے جو ظالم وضو
جانتا ہے جس پہ روشن باطن ایام ہے
مزدکیت فتنہ فردا نہیں' اسلام ہے
کیونکہ علوم کی تعلیم طلبا کی تربیت اس کے سیرت وکردار اور شخصیت کی تعمیر کی اہم ذمے داری استاد کی ہوتی ہے تو اس پر بڑی بھاری ذمے داری عائد ہوجاتی ہے کہ وہ ملک و ملت کے ان چراغوں کو درست سمت میں ڈال سکیں ۔ ہارون الرشید کے بیٹوں کا استاد مقررکرتے ہوئے عبدالصمد کو امام شافعی نے نصیحت کی کہ ان کی تعلیم و تربیت سے پہلے ضروری ہے کہ تم اپنے حالات کی اصلاح کرو، ان بچوں کی لگامیں تمہارے منہ کے ساتھ بندھی ہیں، خیر وہ ہے جسے تم خیر بناکر پیش کروگے اور شر وہ ہے جسے تم شر بناؤگے ،اس لیے یاد رکھو کہ تم غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط بنا کر نہ پیش کردو۔