لبرل جمہوریت کے نام پر ظلم کا جواز آخری حصہ
ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ لبرل جمہوریت کی خیالیات عقل کا غلط استعمال کرتے ہوئے انسانیت کو نقصان دے رہی ہے۔
لاہور:
اس کی ایک زندہ مثال موجودہ وقت کی نام نہاد ''دہشت گردی'' پر مبنی جنگ ہے جس کے لیے ایک طرف تو مذہبی خیالات کا غلط استعمال کیا جارہا ہے تودوسری طرف تعقلی فلسفوں کا سہارا لے کر غلط کو صحیح ثابت کیا جارہا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ لبرل جمہوریت درحقیقت معیشت کی خیالیات ہے جو امریکا نے اپنی معاشی اورسیاسی طاقت میں اضافے کی خواہش کے تحت متعارف کرائی تھی اور یہ مغربی سیاسی انسان کی تاریخ بتاتی ہے ۔
اس کی سچائی جاننے کے لیے کسی بھی شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسری جنگ عظیم کے اسباب اور سرد جنگ کے حوالے سے بنیادی مگر ضروری علوم حاصل کرے، کہ در اصل سرد جنگ کیا تھی اور کیا ہے؟جس کے نتیجے میں کئی دوسرے ممالک کے علاوہ خصوصاً افغانستان میدان جنگ بنا ہوا ہے، عام ذہن کے لیے اس کا جواب یوں ہے کہ روس اور امریکا دونوں بڑی طاقتوں نے دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے ساتھ یہ فیصلہ کیا تھا کہ دونوں بڑی طاقتیں بلاواسطہ جنگ نہیں کریں گی، بلکہ اس کے لیے پسماندہ ریاستیں جن کے غلام ذہن حکمران آسانی سے آلہ کار بن سکیں میدان جنگ کے طور پر استعمال ہوں گی، ان جنگوں کا مقصد کنڈیوں کا حصول تھا جو لبرل جمہوریت کی آزادی منڈی کی معیشت کے لیے بنیادی ضرورت ہیں۔
فوکو یامہ نے جب تاریخ کے خاتمے کا نعرہ لگایا تھا تو اس سے اس کی مراد یہ تھی کہ اب مذہب کے نام پر مغربی یورپ اور امریکا و برطانیہ میں جنگ نہیں ہوگی۔یعنی عیسائی ریاستوں اور ان کے فرقوں کے درمیان جنگ نہیں ہوگی۔ یہ الگ بات ہے کہ پروٹیسٹنٹ اور کیتھولک ابھی بھی برطانیہ سمیت مغربی یورپ میں فسادات کا شکار ہوتے رہتے ہیں جن کو مختلف طبقات کی آویزش کہہ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور مابعد جدیدیت کے فلسفیانہ شعور سے کام لیتے ہوئے کسی ڈسکورس کا حصہ ہی نہیں بنایا جاتا، جیسا کہ مابعد جدیدیت دعویٰ کرتی ہے کہ تاریخی ڈسکورس کا حصہ بننے والے یعنی لکھا ہوا ہی آنے والی نسلوں کے لیے سچ ہوگا ، اس کے علاوہ سب قصے اور کہانی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھے گا۔
اسی سوچ کے تحت مغربی میڈیا ان فسادات کو کبھی اپنا موضوع ہی نہیں بناتا جس طرح ہمارے ہاں آئے دن فرقہ ورانہ فسادات کا تماشا بھی ہو رہا ہوتا ہے ، جس کے نتیجے میں باہر والی دشمن طاقتیں اس کا ناجائز فائدہ آسانی سے اُٹھاتی بھی ہیں اور اپنے تاریخی ڈسکورس کا حصہ بھی بناتی ہیں۔ لبرل جمہوریت کا جواز پیش کرتے ہوئے فوکویامہ نے کہا تھا کہ جب ایک کتے کو جی بھر کر کھانے کو ملے گا تو وہ دوسرے کتوں پر نہ تو بھونکے گا اور نہ ہی اس کو اس بات کی فکر ہوگی کہ دنیا میں کہاں کہاں پر دوسرے کتے بھوک کا شکار ہیں جن کے لیے جدو جہد کی جائے ، کیونکہ وہ جی بھر کر کھانے کے بعد ایک پرسکون اچھی نیند کو ترجیح دے گا۔
( یہاںخیال رہے کہ کتا مغربی سماج میں اہم حیثیت رکھتا ہے، مشرقی سماج کی طرح نفرت کی نہیں، بلکہ محبت کی عکاسی کرتا ہے)یعنی جب لبرل جمہوریت عقل کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو بنیادی ضروری سہولتیں فراہم کردے گی تو لوگوں کو اس بات کی فکر نہیں ہوگی کہ دنیا میں کہاں کہاں انسان بھوک کا شکار ہیں اور نہ ہی یہ بات ان کے لیے پریشان کن ہوگی کہ سرمایہ دار کس طرح سے انسانیت کا استحصال کر رہے ہیں۔
اس کا مطلب یہ تھا کہ مذہب اور رنگ و نسل کی بنیاد پر ہونے والی لڑائیوں کی بنیاد صرف اور صرف معیشت ہے اور لبرل جمہوریت ان تمام وجوہات کو ختم کردے گی جو فسادات کا سبب ہیں یعنی انسانی زندگی کی بنیادی ضرورتیں جو معیشت سے وابستہ ہیں جب کہ مذہب اور رنگ و نسل کی بنیاد پر ہونے والی تاریخی لڑائیوں کی بنیادی وجہ معیشت تھی۔ معیشت جو کسی بھی ریاست کو اتنا طاقت ور بناتی ہے کہ وہ دوسرے ممالک سے اپنی ہرجائزوناجائز خواہشات اور مطالبات کو منوا سکے، مثال کے طور پرجیسے پاکستان کے حکمرانوں سے عطیات کے عوض امریکا نے افغانستان پر نہ صرف حملے کے لیے مدد مانگی بلکہ خود پاکستان کے اندر بھی امن کے نام پر بد امنی پھیلائی ہے، یہ الگ بات ہے کہ ان عطیات سے ایک خاص طبقہ ہی مستفید ہو رہا ہے ۔
تاریخ کے خاتمے کے اعلان کے بعد روس اور امریکا نے خصوصاََ ان ممالک کا رخ کیا جو قدرتی وسائل سے تو مالا مال تھے مگر ابھی ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہوئے تھے۔ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد روس اور امریکا اپنی طاقت کا دنیا بھر میں سکہ جمانے کے لیے مل کر ہی آگے بڑھ رہے تھے، مگر ان دونوں عظیم طاقتوں کے درمیان اختلاف رائے کی وجہ آزاد منڈی کی معیشت کے پھیلائو کے لیے روس کا عطیات نہ دینے کا فیصلہ اور اپنا قومی معاشی پلان کے استحکام کا ارادہ تھا جو ان دونوں کے درمیان تنازعہ کی وجہ بنا۔
یہ تاریخ بتاتی ہے کہ عقل کے تمام تر ہتھیاروں کے استعمال کی وجہ معیشت ہے، مغربی جرمنی اورمشرقی جرمنی کے درمیان 'اُٹھائی جانے والی دیوار کی اصل وجہ بھی لبرل جمہوریت تھی، چرچل نے'آئرن کرٹن' کے ذریعے ان ان ممالک کو الگ کیا جو سوویت بلاک میں تھے یا ذرا سا بھی اس کی طرف جکھائو رکھتے تھے۔'آئرن کرٹن' نے مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی ہی کو جدا نہیں کیے رکھا بلکہ یہ دیوار آزاد منڈی کی معیشت اور پلانڈ معیشت کے زیر اثر آنیوالی ریاستوں کے درمیان یعنی دو معاشی نظاموں کے درمیان دیوار اُٹھائی گئی تھی۔
لبرل جمہوریت کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس نے دنیا کے ہر ملک میں کسی نہ کسی انسانی بھلائی کے نعرے کے تحت در اندازی کی ہے، مثال کے طور پر امریکا نے پاکستان سے کہا کہ روس ایک کافر ریاست ہے اور افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد پاکستان پر بھی قبضہ کر لے گی لہذا پاکستان کے لیے یہ بہتر ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ مل کر روسی افواج کو افغانستان میں ہی شکست سے دو چار کر دے تاکہ پاکستان محفوظ رہے، اس مقصد کے لیے ضیا الحق کو استعمال کیا گیا اور مذہب کے نام پر بہت جہادی اکٹھے کیے گئے، اس وقت امریکا نے اسلام کے جہاد کے تصور کو اپنے حق میں مثبت انداز سے استعمال کیا۔
جب روس کی طاقت ختم ہوگئی تو وہی مجاہدین جہادیوں سے دہشت گرد بن گئے کیونکہ امریکا کی منڈی کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے افغانستان میں مجاہدین کا کنٹرول امریکا کو کسی صورت قبول نہیں تھا، اب بدلتی ہوئی صورتحال کے تحت امریکا نے مشرف کی خدمات لیں اور ماضی کے ''مجاہدین'' کو ''دہشت گردوں'' کا نام دیا، یعنی تعقلی فلسفوں کو اپنے حق کے لیے غلط استعمال کرکے ایک اور جنگ برپا کردی۔ 'جہاد' سے 'دہشت گردی' کا سفر درحقیقت عقلی فلسفوں کا سفر ہے جو لبرل جمہوریت نے معاشی مقاصد کے لیے کیا۔
ہمیں ان تاریخی واقعات پر غور کرنے کی ضرورت ہے تب ہی ہم سمجھ سکتے ہیں کہ کس طرح مجرم اذہان علم اور فلسفے کا غلط استعمال کرتے ہیں ، اس کا یہ مطلب نہیں کہ عقل یا تعقلاتی فلسفے فسطائیت کا درس دیتے ہیں یا بربریت کا سبب ہیں یہ تو انسان ہے جس کے اندر ارسطو کے سیاسی انسان کے ساتھ ساتھ غیر سیاسی یعنی sub-human بھی موجود ہے جو اس کو جنگ اور جھگڑے کی طرف مائل کرتا ہے، ارسطو کا سیاسی انسان بھی عقلی انسان ہے مگر وہ اس کے سماجی انسان ہونے کی بھی شرط رکھتا ہے جو سماج میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون پر مبنی زندگی گزارنے کا اہل ہو۔
لہذا ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ لبرل جمہوریت کی خیالیات عقل کا غلط استعمال کرتے ہوئے انسانیت کو نقصان دے رہی ہے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم شعوری اور تعقلی فلسفوں کے علم کا حصول ترک کردیں ، بلکہ ہمیں اپنے چالاک دشمن کی سیاسی اور فسطائی چالوں کو سمجھنے کے لیے وہی علم حاصل کرنا چاہیے جس نے اس کو طاقتور بنایا ہے، ہمارے سماج کا شعور بلند کرنے کے لیے تعقلی فلسفوں کی بہت ضرورت ہے ۔