علامہ کی پیش گوئیاں
وہ اپنا دھندا جاری رکھتے تو آج شیخ الاسلام ہوتے۔ ان کی مٹھی میں کینیڈا کی شہریت ہوتی۔
نئے برس کے بارے میں پیش گوئی ہے کہ جون کے بعد ملک میں سب کچھ اچھا ہو جائے گا۔ لیکن میں کچھ اور سوچ رہا ہوں۔ احمد آباد بھارت سے آیا ہوا میرا ایک دوست ایک روز کہنے لگا کہ ہمارے منہ سے اگر کوئی فالتو خرچے کی بات نکل جائے تو زبان باہر نکال کے اس پر جوتا مارتے ہیں۔ میں جو کچھ سوچ رہا ہوں اس کے بعد اس کم بخت بھیجے کو باہر نکال کر جوتا کیسے ماروں؟
نیو ایئر نائٹ پر پیش گوئیاں کرنے والی مستورات یوں زرق برق اور لوڈڈ تھیں کہ سراپے کی ذرا سی سرسراہٹ بھی جھلمل فائر ورکس پیش کررہی تھی۔ ایسے میں ملک کی قسمت سے زیادہ اپنے نصیب کی فکر دامن گیر ہوتی ہے اور میں جون کی تاریخ سُن کے سوچتا ہوں کہ ہائے ری ستم ظریفی اس وقت تک تو عالم موجودگی یہ نصف مزید چھ ماہ معمر ہوجائے گی۔ قدرت اپنے شاہکاروں کو دھیرے دھیرے برباد کرتی ہے۔ لمحہ بہ لمحہ قسمت کے بھید بتانے کا دھندا کرنے والی ان شہکاروں سے پوچھا گیا کہ ان کی کامیابی کا حساب کیا ہے؟ جواب میں انھوں نے بہت سی ایسی باتیں بتائیں جو کہ پوری ہوگئیں اور یقیناً وہ سیکڑوں نہیں بتائیں جو پوری نہ ہوسکیں۔ میں پیش گوئیوں پر ہمیشہ فوراً یقین کرلیتا ہوں۔ بلکہ میرا خیال ہے کہ دنیا کہ بیشتر اہم واقعات صرف پیش گوئیوں کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ ان پر میرے یقین کا عالم یہ ہے کہ میں خود اپنی پیش گوئیوں کا بھی دل و جان سے معترف ہوں۔
1979 کے آغاز پر ایک روز ہم لوگوں نے فیصلہ کیا کہ اپنے رسالے کے خاص نمبر میں آنے والے سال کے لیے پیش گوئیاں بھی شامل کی جائیں۔ یہ کام ہم شرارت کے طور پر کررہے تھے، لہٰذا ہم نے سارے اسٹاف کی ایک میٹنگ طلب کی اور سب سے کہا کہ جلدی جلدی ہر شخص کم از کم پانچ پیش گوئیاں تخلیق کرے۔ ان میں ایڈیٹر سے لے کر کاتب اور کاپی پیسٹر تک شامل تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں آٹھ دس درجن پیش گوئیاں تیار تھیں۔ سیاست، فلم، کھیل، تجارت، ادب، موسم غرضیکہ ہر شعبہ موجود تھا، یہ مزاحیہ بھی تھیں اور سنجیدہ بھی۔ چھانٹی کرکے ان میں سے ساٹھ ستر پیش گوئیاں فائنل کرلی گئیں۔ اب سوال اٹھا کہ ایسی لاجواب اور ماہرانہ پیش گوئیاں کس نے کیں؟ اس کے لیے کئی نام تجویز کیے گئے۔ آخر ایک پر سب کا اتفاق ہو گیا۔ یہ نام تھا ''علامہ سبحان علی گیاری''۔
ان خیالی علامہ صاحب کے نام سے انھیں شائع کردیا گیا اور ہم بھول بھال گئے۔
سال ختم ہونے کے بعد اچانک ہم میں سے کسی کی ان پیش گوئیوں پر نظر پڑی تو اس کی چیخ نکل گئی۔ ان میں سے بہت سی سو فیصد درست ثابت ہوچکی تھیں۔ ان میں بھٹو کی پھانسی کی اور الیکشن کے التوا کی پیش گوئیاں بھی شامل تھیں۔ اس کے علاوہ بھارتی وزیراعظم مرار جی ڈیسائی کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ اس سال کے آخر تک وزیراعظم نہیں رہیں گے۔ 28 جولائی 79 کو واقعی ان کی سال بھر کی وزارت عظمیٰ ختم ہو گئی۔ افغان صدر 'نور محمد ترہ کی' کے بارے میں لکھا گیا تھا کہ ان کا تختہ الٹ دیا جائے گا اور ان کی جان کو بھی خطرہ ہے۔ ہوا بھی ایسا ہی۔ اسی سال 14 ستمبر کو ان کا تختہ الٹ دیا گیا اور ان کا مرڈر ہوگیا۔
اب میں آپ کو سب سے حیران کن پیش گوئی بتاتا ہوں۔ ہم نے مزاحاً لکھ دیا تھا کہ اس سال جاپان کے دو وزرا اسلام قبول کرلیں گے۔ اور واقعی اس سال وہاں کے دو وزیر مسلمان ہوگئے۔
میں جب ہر سال نو اور دیگر اہم مواقع پر دلکش خواتین، باریش نوجوانوں اور لمبی لمبی زلفوں والے بزرگوں کو ٹی وی پر مستقبل بینی کرتے دیکھتا ہوں تو انھیں بہت دلچسپی اور غور سے سنتا ہوں۔ یہ ٹوٹکا، استخارہ اور تعویز کرنے والوں سے ایک الگ مخلوق ہے، بے ضرر مگر بے ثمر۔ بس رونق شونق اور میلہ ویلہ لگانے کے لیے۔ لوگ انھیں بڑے شوق سے سنتے ہیں اور بھلا دیتے ہیں یوں جیسے مارننگ شوز میں سجے ہوئے نقلی شادیوں کے پنڈال۔ اسی طرح میں نے بھی آج آپ کے لیے بڑی محنت سے نمونے کی چند پیش گوئیاں جمع کی ہیں۔ آئیے ملاحظہ فرمائیں۔ مجھے امید ہے کہ ان کے درست ہونے کی شرح اوروں سے بہتر ہوگی۔
اس برس ''ریٹائر'' ہونے والے تین بڑوں میں سے ایک ریٹائر نہیں ہوگا۔
اسٹاک مارکیٹ کا انڈیکس اٹھارہ ہزار سے تجاوز کر جائے گا۔
پاکستان سے ترکی کی سیاحت کو جانے والے افراد کی تعداد میں ہوشربا اضافہ ہو جائے گا۔
ایک معروف سیاسی کنوارہ اس سال بھی کنوارہ ہی رہ جائے گا۔
کالا باغ ڈیم پر اتفاق رائے ہوجائے گا مگر اس کا نام اور جگہ بدل دی جائے گی۔
مولا بخش سومرو پیپلزپارٹی کی قیادت سنبھال لیں گے۔
قادری صاحب کو یکایک کینیڈا کی یاد ستانے لگے گی۔
خدا چیف الیکشن کمشنر کی عمر دراز کرے۔
عمران خان وزیراعظم بن جائیں گے۔
عمران خان وزیراعظم نہیں بنیں گے۔
علامہ سبحان علی گیاری ابھی تک بقید حیات ہیں۔ یہ پیش گوئیاں انہی کی ہیں۔ یہ تو آپ نے دیکھ ہی لیا ہے کہ علامہ صاحب کتنے بڑے مستقبل شناس ہیں، آج کل وہ گوشہ نشین ہیں اور میں نے انھیں بڑی مشکل سے تلاش کیا ہے۔ وہ اپنا دھندا جاری رکھتے تو آج شیخ الاسلام ہوتے۔ ان کی مٹھی میں کینیڈا کی شہریت ہوتی۔ پیروکار اور پرستار پوری دنیا میں پھیلے ہوتے اور جب کبھی وہ وہاں کی سردی سے بریک کے لیے اپنے سابقہ وطن عزیز تشریف لاتے تو انھوں نے مینار پاکستان کے سائے تلے ''گھڑس'' مچایا ہوتا۔
وہ خود کو ملک کا سب سے معتبر شخص گردانتے۔ انتہائی دانا، پاپولر اور حکومت الٹنے کو تیار۔ کوئی انھیں یہ بتانے کی جرأت نہ کرتا کہ جناب اس طرح کے مذہبی اجتماع اگر سیاسی طاقت کا مظہر ہوتے تو تبلیغی جماعت والے مولانا طارق جمیل گزشتہ بیس برس سے اس ملک کے وزیراعظم ہوتے۔ لیکن وائے حسرت کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ بس وہ ضعف کے مارے ایک کونے میں بیٹھے دہی کھا رہے ہیں اور یہ دلچسپ منظر دیکھ رہے ہیں کہ باری باری ہر سیاسی جماعت کا کٹا کھل کے اسلام آباد کی طرف دوڑ رہا ہے اور وہاں کی کھرلی میں سجے، اَن دیکھے لوازمات کی مہک نے اس کی دم کھڑی کردی ہے۔