ایک بار پھر سرکاری نااہلی کی سزا عوام کو ملی

کیا اِس عظیم نقصان پر مذمت کی چادر چڑھا کر حکمران اپنا فرض پورا کرسکتے ہیں؟


فرخ شہباز وڑائچ February 14, 2017
جب خطرہ پہلے سے موجود تھا تو مظاہرین کی اتنی بڑی تعداد کو کیوں جمع ہونے دیا گیا؟ کیا مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کی کوئی صورت پیدا نہیں کی جاسکتی تھی؟ فوٹو: آئی این پی

یہ لاہور ہے زندہ دل والوں کا شہر، اِس شہر کی رونقوں اور کھابوں کی روایات سات سمندر پار تک مشہور ہیں۔ آپ دنیا کے کسی کونے میں چلے جائیں لاہوریے دور سے پہچانے جاتے ہیں، لاہوریے اپنے کھابوں کے مزاج اور ''ڑ'' سے پکڑے جاتے ہیں۔ لاہور کو پاکستان کا دل کہا جاتا ہے، اور اگر سچ پوچھیے تو یہ شہر واقعی دل کا کردار ادا کررہا ہے۔

لاہور کی راتیں جاگتی ہیں، بلکہ یوں کہہ لیجیئے چہکتی ہیں، گاتی ہیں۔ یہاں کی رونقیں لوگوں کو اپنی طرف کھینچنا جانتی ہیں، مگر یہ کیا اِس دل پر دشمن نے ایک بار پھر شدید ضرب لگادی۔ اگر لاہور کو پاکستان کا دل سمجھا جاتا ہے تو مال روڈ کو لاہور کا دل تصور کیا جاتا ہے جس کو گزشتہ روز ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ جی ہاں ہے یہ مال روڈ چئیرنگ کراس کا علاقہ ہے جہاں کیمسٹ ایسوسی ایشن والے اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کر رہے تھے۔ اِس احتجاج میں سینکڑوں افراد شریک تھے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق خود کش حملہ آور الفلاح بینک کی جانب سے آیا، جس کا ہدف پولیس کے سینئر افسران تھے۔ کہا جارہا ہے کہ حملہ آور نے جب ایسوسی ایشن کے نمائندگان سے کامیاب مذاکرات کے بعد ڈی آئی جی کیپٹن (ر) مبین کو آتے دیکھا تو اُن کی جانب بڑھا اور ڈی آئی جی کی سیکورٹی پر مامور گن مین نے جیسے ہی حملہ آور کو روکنے کی کوشش کی تو حملہ آور قریب کھڑی آج ٹی وی کی گاڑی کے پاس گیا اور خود کو دھماکے سے اُڑا لیا، جس کے نتیجے میں ڈی آئی جی ٹریفک کیپٹن مبین اور ایس ایس پی آپریشن زاہد گوندل سمیت 13 افراد شہید اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے۔ دھماکے کی خبر نے زندہِ دلان کے شہر کو سوگوار کردیا۔

ٹھہرئیے، یاد کیجیئے! دہشت گردی کی یہ واردات پہلی نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی 27 مارچ 2016ء کو لاہور میں گلشن اقبال پارک میں ایسٹر کے موقع پر دھماکا کیا گیا، جس میں 72 لوگوں نے اپنی جانیں گنوائیں، 17 فروری 2015ء کو قلعہ گوجر سنگھ میں واقع پولیس لائنز خودکش حملے کا نشانہ بنی جس میں 8 افراد ہلاک ہوئے۔ 2010ء میں دو خودکش حملہ آوروں نے داتا دربار پر حملہ کردیا اور دربار کے احاطے کے اندر خود کو دھماکے سے اُڑا لیا۔ دھماکے کی زد میں آکر 42 افراد شہید جبکہ 200 کے قریب شدید زخمی ہوگئے۔

لاہور ہی میں ایک بار پھر سے 3 مارچ 2009ء کو قذافی اسٹیڈیم کے قریب دہشتگردوں نے سری لنکن کرکٹ ٹیم کی بس پر فائرنگ کی، گولیوں کی زد میں آکر ایک ٹریفک پولیس اہلکار موقع پر شہید ہوگیا جبکہ سری لنکن ٹیم کے کھلاڑی اِس کارروائی میں زخمی بھی ہوئے۔ 2009ء میں مناواں پولیس اکیڈمی کو نشانہ بنایا گیا جس کے باعث 14 سکیورٹی اہلکاروں سمیت 38 افراد شہید اور 20 زخمی ہوئے۔ جنوری 2008ء میں شدت پسندوں نے لاہور ہائی کورٹ کے باہر دھماکہ کردیا، دھماکے کی زد میں آکر 24 افراد شہید اور 73 زخمی ہوئے جبکہ حملہ آور کا ہدف سکیورٹی پر مامور پولیس اہلکار کے جوان تھے۔ مارچ 2008ء میں امن مخالف دہشت گردوں نے نیوی وار کالج مال روڈ کو نشانہ بنایا جس میں 8 افراد شہید اور 24 زخمی ہوئے اور اسی مہینے میں 11 مارچ کو ایف آئی اے کی بلڈنگ پر حملہ کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں 16 پولیس اہلکاروں سمیت 21 افراد شہید ہوگئے تھے۔

اِس بار وزارت داخلہ اور سیکیورٹی اداروں کی جانب سے کئی روز پہلے الرٹ جاری کردیا گیا تھا کہ لاہور میں دہشت گرد کارروائیوں کا خدشہ ہے، اِس لئے کسی بھی ناخوشگوار واقع سے بچنے کے لئے سیکیورٹی بڑھادی جائے، مگر افسوس کہ پہلے سے جاری ہونے والے الرٹ کے باوجود بھی حملے کو نہ روکا جاسکا۔



اِس صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے، جب خطرہ پہلے سے موجود تھا تو مظاہرین کی اتنی بڑی تعداد کو کیوں جمع ہونے دیا گیا؟ کیا مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کی کوئی صورت پیدا نہیں کی جاسکتی تھی؟ اگر حکومت کے اِس دعوے کو بھی تسلیم کرلیا جائے کہ مظاہرین کو روکنے کے باوجود وہ آگے بڑھتے رہے تو سوال پھر یہ بھی اٹھتا چاہیئے کہ کیا ریاست کی رٹ کی دیوار اتنی کمزور تھی کہ مظاہرین کے سامنے کھڑی نہ رہ سکی؟ کیا مظاہرین کو روکنا ناممکن ہوچکا تھا؟ جب سیاسی دھرنوں کے لیے کنٹینروں کی دیواریں کھڑی کی جاسکتی ہیں تو لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کے لئے یہ قدم کیوں نہیں اٹھایا گیا؟

اِس پوری صورتحال میں ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ ہم نے قیمتی جانیں اور بہترین افسر کھودیئے، کیا اِس عظیم نقصان پر مذمت کی چادر چڑھا کر حکمران اپنا فرض پورا کرسکتے ہیں؟ حکومتوں کو معاملات اُلجھانے کے بجائے حل کرنے چاہیں۔ اِس مرتبہ عوام کے ساتھ ساتھ دشمن کا نشانہ ہماری پولیس فورس تھی اور ٹائمنگ بھی بہت خوفناک تھی۔

2009ء میں سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد سے پاکستان کے لئے کرکٹ کے دروازے بند ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) اور حکومتوں نے ہر جتن کرلئے کہ کسی طرح یہاں انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہوجائے، مگر ہر بار سیکیورٹی خدشات آڑے آجاتے تھے۔ گزشتہ برس پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے اختتام پر جب پی سی بی نے یہ اعلان کیا پوری کوشش ہوگی کہ اگلے برس پی ایس ایل کا فائنل پاکستان میں کروایا جائے تو لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ پڑی، لیکن خدشہ یہی تھا کہ شاید غیر ملکی کھلاڑی نہ مانیں، مگر شائقینِ کرکٹ کی خوشی کا اُس وقت کوئی ٹھکانہ نہیں رہا جب گزشتہ ہفتے اُن کو معلوم ہوا کہ چند ایک کے علاوہ تمام ہی کھلاڑی پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کھیلنے کے لئے تیار ہوگئے ہیں۔ جہاں ایک طرف یہ خوشی کی خبر تھی وہیں یہ خوف بھی بڑھ گیا تھا کہ پاکستان میں کرکٹ کے کُھلتے دروازوں کی خوشی دشمن کو شاید پسند نہ آئے اور وہ کوئی ایسی حرکت کرجائیں جس سے معاملات پھر پیچھے کی طرف چلے جائیں۔ میں حیران و پریشان ہوں کہ جب یہ خدشات عوامی سطح پر جگہ بناسکتے ہیں تو پھر سیکیورٹی اداروں اور حکومت نے اِس حوالے سے کوئی تیاری کیوں نہ کی؟ کیوں لاہور میں کچھ دنوں کے لیے سیکیورٹی کا خصوصی پلان ترتیب نہیں دیا گیا؟

انسانی جان کا نقصان کبھی پورا نہیں ہوسکتا، اِس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے اور افسوس سے ہوتا بھی کیا ہے؟ کوئی اُن سے جاکر پوچھے جن کا کوئی اپنا گزر گیا۔ ہم تو باتیں کرتے ہیں، لیکن اِس بار تو دوہری ضرب لگی، ایک طرف جانی نقصان ہوا تو دوسری طرف ایک بار پھر پاکستان کی سیکیورٹی پر سوالیہ نشانات اُٹھ گئے۔ ذرا تصور تو کیجیئے کہ غیر ملکی میڈیا پر اِس وقت کیا باتیں چل رہی ہوں گی؟ پاکستان کے حوالے سے کس قدر زہر اُگلا جارہا ہوگا؟ اس لئے اِس حادثے کے بعد اب حکومت کا چیلنچ مزید بڑھ گیا ہے، سیکیورٹی اداروں کو مل بیٹھ کر اس پر غور کرنا ہوگا، عملی طور پر سخت سے سخت اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ دشمن کے ناپاک عزائم کو ملیا میٹ کیا جاسکے۔

لوگ کہہ رہے ہیں کہ انسانی جان کھیل سے زیادہ اہم ہے، اِس لیے چھوڑیے کھیل کو۔ اِس لیے ہم ایسے لوگوں سے کہنا چاہتے ہیں کہ یقیناً انسانی جان کی اہمیت سے بڑھ کر کچھ اہم نہیں ہے لیکن معاملہ یہاں دشمن کی سازش کا ہے۔ اگر لاہور کا حملہ محض اِس لئے کیا گیا ہے کہ یہاں کھیلوں کے دروازے مزید بند رہیں تو ہمیں اِس سازش کو ناکام بنانا ہوگا۔ ہمیں ہر صورت میں پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں ہی کروانا ہوگا، پھر چاہے کوئی غیر ملکی کھلاڑی یہاں آئے یا نہیں، کیونکہ یہ پاکستان کا معاملہ ہے اور ہمارے لئے پاکستان سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں