آمریتوں کے دن گئے
جب تک سرد جنگ جاری رہی دنیا بھر میں آمریتوں اور ان کے حامیوں نے خوب مزے اڑائے۔
ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اٹھتے بیٹھتے جمہوریت کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں اور عوام میں مقبول اور منتخب سیاسی رہنما ان کے خاص ہدف پر ہوتے ہیں۔ جمہوری نظام اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی منتخب حکومتوں کو برا بھلا کہتے ہوئے ہر حد عبور کرلی جاتی ہے اور اکثر یہ مرحلہ بھی آجاتا ہے جب اعلیٰ عدلیہ کو مداخلت کرکے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی، اس حق کو استعمال کرنے والے شہری پر بعض ذمے داریاں بھی عائد کرتی ہے، یعنی یہ کہ تنقید کی آڑ میں کسی کی کردارکُشی نہ کی جائے، اپنے مخالفین کی ذاتی زندگی اور ان کے خاندان پر رکیک اور بے بنیاد حملے نہ کیے جائیں، ثبوت کے بغیر حریف پر سنگین نوعیت کے الزامات نہ عائد کیے جائیں، لوگوں کو تشدد اور انتہا پسندی پر نہ اکسایا جائے اور جن لوگوں سے سیاسی اور نظریاتی اختلافات ہوں ان کے ایمان اور حب الوطنی کو چیلنج کرنے سے گریز کیا جائے۔
دلچسپ امر ہے کہ جمہوری حکومتوں اور عوامی نمایندوں کے خلاف اظہار رائے کی آزادی کے حق کو استعمال کرتے ہوئے جو لوگ تہذیب اور سیاسی اقدار کو روندتے چلے جاتے ہیں اور اسے اپنی بے باکی اور جرأت مندی سے تعبیر کرتے ہیں ان کی اکثریت فوجی آمریتوں کے دور میں نہ صرف تنقید سے پرہیز کرتی ہے بلکہ آمروں کی مدح سرائی میں خطابت اور لفاظی کے وہ جو ہر دکھلاتی ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب معلومات کا حصول بہت مشکل تھا۔
لائبریری میں جاکر پرانے اخبارات اور رسائل کھنگالنے پڑتے تھے جب کہیں جاکر یہ معلوم ہوتا تھا کہ کس موقعے پر کس نے کس کے بارے میں کیا کہا تھا۔ اب گوگل سمیت کئی ذرایع موجود ہیں اور ہم سب کے ہاتھوں میں اسمارٹ فونز ہیں۔ ایک لمحے میں ماضی کی ہر خبر کا بیان اور وڈیو آپ کے سامنے آجاتی ہے۔ کچھ اور نہ کریں صرف گوگل پر جاکر یہ دیکھیں کہ پاکستان کی تاریخ کے چار ''عظیم'' آمروں، ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی شان میں کتنے عظیم الشان قصیدے پڑھے جاتے تھے اور قصیدہ گو حضرات میں کیسے کیسے نامی گرامی شامل تھے۔
ان چاروں آمروں کے دور میں پاکستان کا جغرافیہ یا تو کم ہوا یا ریاست کی سلامتی شدید خطرات سے دوچار رہی، پاکستان کے عوام، وفاق میں شامل اکائیوں اور ملک کی تشکیل کرنے والی قومیتوں کو ان کے سیاسی، سماجی اور جمہوری حقوق سے مسلسل محروم رکھ کر ملک کی بنیادوں میں بے اعتمادی اور نفرت کا بارود بچھایا گیا، ترقی کی ''دہائی'' دھوم دھام سے منائی گئی لیکن درحقیقت جعلی ترقی کے شور میں پاکستان کو امریکا کی طفیلی ریاست بنا دیا گیا۔ ہر آمر نے پاکستان کی منڈیوں کو امریکا اور یورپ کے سرمایہ داروں اور تاجروں کے لیے کھول دیا اور معاشی اور سماجی ڈھانچے کی تعمیر سے پہلو تہی کی تاکہ بنیادی صنعتیں نہ لگ سکیں اور ملک مغرب کے لیے صارفین کی منڈی بنا رہے۔
جب تک سرد جنگ جاری رہی دنیا بھر میں آمریتوں اور ان کے حامیوں نے خوب مزے اڑائے۔ دنیا میں مختلف طرز کی غیر جمہوری استبدادی قوتوں کا راج تھا۔ کہیں فوجی ڈکٹیٹر مسلط تھے، کہیں شخصی آمریت تھی، کہیں بادشاہ سلامت رعایا کی خدمت میں شب و روز کوشاں تھے تو کہیں کسی واحد جماعت کی نظریاتی آمریت دنیا کو جنت میں بدلنے کا مژدہ سناتی تھی اور کہیں مذہبی آمریتیں لوگوں کو بعد از مرگ جنت میں داخلے کی ضمانت فراہم کرتی تھیں۔ ان غیر جمہوری اور سخت گیر آمرانہ حکومتوں کو بین الاقوامی سطح پر دو عالمی طاقتوں میں سے کسی ایک کی مکمل حمایت حاصل ہوا کرتی تھی۔
مختلف نوع کے آمروں کا ایک گروہ سوویت یونین کا حلقہ بگوش تھا جب کہ دوسرا گروہ امریکا کی چاپلوسی میں مصروف تھا۔ استبدادی حکومتوں، آمروں اور ان سے فیض یاب ہونے والوں کے خوب مزے ہوا کرتے تھے۔ پورا سوویت بلاک اپنے حامی آمروں کو تیل، اسلحہ، صنعتی اشیاء، اجناس اور مشینری برائے نام قیمتوں پر فراہم کرتا تھا، کثیر مالی امداد کی فراہمی اس کے سوا تھی۔ دوسری جانب جن آمروں کے سر پر امریکی بلاک کا ہاتھ تھا ان کے بھی ٹھاٹھ تھے۔
سوویت بلاک کے برعکس امریکی بلاک یہ تمام چیزیں بھاری قیمت پر اپنے حامی ملکوں کو فروخت کرتا تھا کیونکہ اس کے ملکوں میں ہرشے نجی شعبے میں پیدا ہوتی تھی لہٰذا اسے مفت فراہم کرنا ممکن نہ تھا۔ امریکا اس مقصد کے لیے اپنی حامی آمرانہ حکومتوں کو بے دریغ قرضے اور امداد دیا کرتا تھا تاکہ وہ اس کی مصنوعات باآسانی درآمد کرسکیں۔ دو بلاکوں کی یہ ایک ایسی جنگ تھی جس میں فتح کسی بھی فریق کے نصیب میں نہیں تھی۔
دنیا کو اپنے اپنے حلقہ اثر میں رکھنے اور اپنے حامی آمروں، جابروں اور بادشاہوں کو پالنے کی اصل قیمت سوویت یونین اور امریکا دونوں کو ادا کرنی پڑی۔ دونوں عظیم طاقتیں رفتہ رفتہ معاشی اور سیاسی بحران کا شکار ہوتی چلی گئیں۔ سوویت یونین دیوالیہ ہوکر بکھر گیا، امریکا بد ترین کساد بازاری اور بے روزگاری کے گرداب میں پھنس کر شکست وریخت سے دوچار تو نہیں ہوا البتہ اس پر تیسری دنیا کی ابھرتی ہوئی معاشی طاقتوں نے غلبہ پا لیا۔ صیاد اپنے دام میں آگیا، شکاری خود شکار ہوگیا۔
انسانی تاریخ کے یہ دو طاقت ور ترین ملک دنیا پر اپنی بالادستی کی جنگ اور اپنے زیر اثر ملکوں میں استبدادی آمرانہ حکومتوں کی سرپرستی کے نتیجے میں ایک ایسی افسوس ناک صورتحال میں مبتلا ہیں جس کا تصور وہ تو کیا ان کے مخالف تک نہیں کرسکتے تھے۔ روس عالمی طاقت کے منصب سے گر کر اب تقریباً تیسری دنیا کے ایک ملک کی صورت اختیار کرگیا ہے ، اپنی معاشی بقا کے لیے چین کی طرف بھاگتا ہے اور کبھی اس ہندوستان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتا ہے جس پر اس نے کبھی کھربوں روپے نچھاور کیے تھے اور جواب بھی اس کا کئی ارب ڈالر کا مقروض ہے۔
حد تو یہ ہے کہ روس سی پیک کے بعد پاکستان کی ناز برادری پر بھی آمادہ نظر آتا ہے حالانکہ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب روس پشاور کے گرد سرخ دائرہ لگا کر امریکا کے حلیف پاکستان پر مسلط فوجی آمر کو ڈرایا کرتا تھا۔ آج اس کی پریشانی کا عالم یہ ہے کہ وہ فوجی طاقت کے زور پر یورپی یونین سے مراعات حاصل کرنا چاہتا ہے۔ بے چارگی کی اس سے بڑی انتہا اور کیا ہوگی کہ روس سرد جنگ میں اپنے دشمن اول امریکا کی خوشنودی کے لیے نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر ڈورے ڈال رہا ہے۔
امریکا کا معاشی انجام سابق سوویت یونین کی طرح نہیں ہوا لیکن اُسے بھی اقوام عالم پر اپنی سیاسی برتری اور کمیونسٹ بلاک کی مخالفت کا بدترین خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔ وہ امریکا جو گلوبلائزیشن کا بڑا حامی ہوا کرتا تھا آج اس کا سخت مخالف ہے اور دنیا سے خود کو کاٹ کر اپنے گرد ایک حفاظتی حصار قائم کررہا ہے۔
میکسیکو جیسے پس ماندہ ملک کے تارکین وطن سے خائف ہوکر ہزاروں کلو میٹر طویل سرحدی دیوار تعمیر کرنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں اور اپنی صنعتوں کو تباہی اور امریکی کارکنوں کو بے روزگاری سے بچانے کے لیے درآمدات پر پابندیاں ہورہی ہیں اور مہاجرین اور تارکین وطن کے لیے امریکا کے دروازے مقفل کیے جارہے ہیں۔ ابھی تو ابتدا ہے، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
بات کا آغاز ہوا تھا ان لوگوں سے جو آمروں اور ماضی میں ان کے سرپرست امریکا کے گن گایا کرتے تھے اور آج بھی جمہوریت اور منتخب جمہوری حکومتوں کے خلاف اس امید پر مہم چلاتے ہیں کہ گیا وقت شاید واپس آجائے اور ایک بار دوبارہ ان کے وارے نیارے ہوجائیں۔ ایسے لوگوں سے بصد ادب گزارش ہے کہ وہ اس مہم جوئی میں اپنا وقت برباد نہ کریں، جمہوری حکومتوں کو بدترین تنقید کا ہدف ضرور بنائیں لیکن یہ امید نہ رکھیں کہ وہ اب جمہوریت عمل کو پٹری سے اتارنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔
یہ وہ دنیا نہیں جس پر کبھی دو عالمی طاقتیں اور ان کے حلیف آمر راج کیا کرتے تھے۔ وقت بہت آگے بڑھ گیا ہے۔ جب ماضی کے سوویت یونین اور امریکا جیسی عظیم طاقتوں کو پسپا ہونا پڑا ہے تو ترقی پذیر دنیا میں آمرانہ اور استبدادی حکومتوں کے دن بھی گنے جاچکے ہیں۔ جن خطوں میں اس طرح کی چند ریاستیں باقی بچ گئی ہیں وہ بھی اب اپنی آخری سانسیں لے رہی ہیں۔
دنیا میں غیر جمہوری حکومتوں کے سب سے بڑے حامی اور سرد جنگ کے مرکزی حریف روس اور امریکا اب تھک ہار کر خود اپنے ملکوں کو بچانے کی فکر میں غلطاں ہیں۔ اب یہ ان کے مفاد میں ہے اور نہ ان کے ان کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ تیسری دنیا میں فوجی انقلابات برپا اور آمروں کی پرورش کریں۔ پاکستان کے عوام کو بھی تجربہ ہے کہ ہمارے آمروں نے پاکستان کو سرد جنگ میں جھونک کر انھیں کتنا نقصان پہنچایا ہے۔ لہٰذا جمہوری عمل کے خلاف کسی بھی اقدام کو ان کی پذیرائی حاصل نہیں ہوگی۔ بہتر یہ ہوگا کہ پاکستان کا راستہ نہ روکا جائے اور اُسے آگے بڑھنے دیا جائے۔
دلچسپ امر ہے کہ جمہوری حکومتوں اور عوامی نمایندوں کے خلاف اظہار رائے کی آزادی کے حق کو استعمال کرتے ہوئے جو لوگ تہذیب اور سیاسی اقدار کو روندتے چلے جاتے ہیں اور اسے اپنی بے باکی اور جرأت مندی سے تعبیر کرتے ہیں ان کی اکثریت فوجی آمریتوں کے دور میں نہ صرف تنقید سے پرہیز کرتی ہے بلکہ آمروں کی مدح سرائی میں خطابت اور لفاظی کے وہ جو ہر دکھلاتی ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب معلومات کا حصول بہت مشکل تھا۔
لائبریری میں جاکر پرانے اخبارات اور رسائل کھنگالنے پڑتے تھے جب کہیں جاکر یہ معلوم ہوتا تھا کہ کس موقعے پر کس نے کس کے بارے میں کیا کہا تھا۔ اب گوگل سمیت کئی ذرایع موجود ہیں اور ہم سب کے ہاتھوں میں اسمارٹ فونز ہیں۔ ایک لمحے میں ماضی کی ہر خبر کا بیان اور وڈیو آپ کے سامنے آجاتی ہے۔ کچھ اور نہ کریں صرف گوگل پر جاکر یہ دیکھیں کہ پاکستان کی تاریخ کے چار ''عظیم'' آمروں، ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی شان میں کتنے عظیم الشان قصیدے پڑھے جاتے تھے اور قصیدہ گو حضرات میں کیسے کیسے نامی گرامی شامل تھے۔
ان چاروں آمروں کے دور میں پاکستان کا جغرافیہ یا تو کم ہوا یا ریاست کی سلامتی شدید خطرات سے دوچار رہی، پاکستان کے عوام، وفاق میں شامل اکائیوں اور ملک کی تشکیل کرنے والی قومیتوں کو ان کے سیاسی، سماجی اور جمہوری حقوق سے مسلسل محروم رکھ کر ملک کی بنیادوں میں بے اعتمادی اور نفرت کا بارود بچھایا گیا، ترقی کی ''دہائی'' دھوم دھام سے منائی گئی لیکن درحقیقت جعلی ترقی کے شور میں پاکستان کو امریکا کی طفیلی ریاست بنا دیا گیا۔ ہر آمر نے پاکستان کی منڈیوں کو امریکا اور یورپ کے سرمایہ داروں اور تاجروں کے لیے کھول دیا اور معاشی اور سماجی ڈھانچے کی تعمیر سے پہلو تہی کی تاکہ بنیادی صنعتیں نہ لگ سکیں اور ملک مغرب کے لیے صارفین کی منڈی بنا رہے۔
جب تک سرد جنگ جاری رہی دنیا بھر میں آمریتوں اور ان کے حامیوں نے خوب مزے اڑائے۔ دنیا میں مختلف طرز کی غیر جمہوری استبدادی قوتوں کا راج تھا۔ کہیں فوجی ڈکٹیٹر مسلط تھے، کہیں شخصی آمریت تھی، کہیں بادشاہ سلامت رعایا کی خدمت میں شب و روز کوشاں تھے تو کہیں کسی واحد جماعت کی نظریاتی آمریت دنیا کو جنت میں بدلنے کا مژدہ سناتی تھی اور کہیں مذہبی آمریتیں لوگوں کو بعد از مرگ جنت میں داخلے کی ضمانت فراہم کرتی تھیں۔ ان غیر جمہوری اور سخت گیر آمرانہ حکومتوں کو بین الاقوامی سطح پر دو عالمی طاقتوں میں سے کسی ایک کی مکمل حمایت حاصل ہوا کرتی تھی۔
مختلف نوع کے آمروں کا ایک گروہ سوویت یونین کا حلقہ بگوش تھا جب کہ دوسرا گروہ امریکا کی چاپلوسی میں مصروف تھا۔ استبدادی حکومتوں، آمروں اور ان سے فیض یاب ہونے والوں کے خوب مزے ہوا کرتے تھے۔ پورا سوویت بلاک اپنے حامی آمروں کو تیل، اسلحہ، صنعتی اشیاء، اجناس اور مشینری برائے نام قیمتوں پر فراہم کرتا تھا، کثیر مالی امداد کی فراہمی اس کے سوا تھی۔ دوسری جانب جن آمروں کے سر پر امریکی بلاک کا ہاتھ تھا ان کے بھی ٹھاٹھ تھے۔
سوویت بلاک کے برعکس امریکی بلاک یہ تمام چیزیں بھاری قیمت پر اپنے حامی ملکوں کو فروخت کرتا تھا کیونکہ اس کے ملکوں میں ہرشے نجی شعبے میں پیدا ہوتی تھی لہٰذا اسے مفت فراہم کرنا ممکن نہ تھا۔ امریکا اس مقصد کے لیے اپنی حامی آمرانہ حکومتوں کو بے دریغ قرضے اور امداد دیا کرتا تھا تاکہ وہ اس کی مصنوعات باآسانی درآمد کرسکیں۔ دو بلاکوں کی یہ ایک ایسی جنگ تھی جس میں فتح کسی بھی فریق کے نصیب میں نہیں تھی۔
دنیا کو اپنے اپنے حلقہ اثر میں رکھنے اور اپنے حامی آمروں، جابروں اور بادشاہوں کو پالنے کی اصل قیمت سوویت یونین اور امریکا دونوں کو ادا کرنی پڑی۔ دونوں عظیم طاقتیں رفتہ رفتہ معاشی اور سیاسی بحران کا شکار ہوتی چلی گئیں۔ سوویت یونین دیوالیہ ہوکر بکھر گیا، امریکا بد ترین کساد بازاری اور بے روزگاری کے گرداب میں پھنس کر شکست وریخت سے دوچار تو نہیں ہوا البتہ اس پر تیسری دنیا کی ابھرتی ہوئی معاشی طاقتوں نے غلبہ پا لیا۔ صیاد اپنے دام میں آگیا، شکاری خود شکار ہوگیا۔
انسانی تاریخ کے یہ دو طاقت ور ترین ملک دنیا پر اپنی بالادستی کی جنگ اور اپنے زیر اثر ملکوں میں استبدادی آمرانہ حکومتوں کی سرپرستی کے نتیجے میں ایک ایسی افسوس ناک صورتحال میں مبتلا ہیں جس کا تصور وہ تو کیا ان کے مخالف تک نہیں کرسکتے تھے۔ روس عالمی طاقت کے منصب سے گر کر اب تقریباً تیسری دنیا کے ایک ملک کی صورت اختیار کرگیا ہے ، اپنی معاشی بقا کے لیے چین کی طرف بھاگتا ہے اور کبھی اس ہندوستان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتا ہے جس پر اس نے کبھی کھربوں روپے نچھاور کیے تھے اور جواب بھی اس کا کئی ارب ڈالر کا مقروض ہے۔
حد تو یہ ہے کہ روس سی پیک کے بعد پاکستان کی ناز برادری پر بھی آمادہ نظر آتا ہے حالانکہ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب روس پشاور کے گرد سرخ دائرہ لگا کر امریکا کے حلیف پاکستان پر مسلط فوجی آمر کو ڈرایا کرتا تھا۔ آج اس کی پریشانی کا عالم یہ ہے کہ وہ فوجی طاقت کے زور پر یورپی یونین سے مراعات حاصل کرنا چاہتا ہے۔ بے چارگی کی اس سے بڑی انتہا اور کیا ہوگی کہ روس سرد جنگ میں اپنے دشمن اول امریکا کی خوشنودی کے لیے نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر ڈورے ڈال رہا ہے۔
امریکا کا معاشی انجام سابق سوویت یونین کی طرح نہیں ہوا لیکن اُسے بھی اقوام عالم پر اپنی سیاسی برتری اور کمیونسٹ بلاک کی مخالفت کا بدترین خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔ وہ امریکا جو گلوبلائزیشن کا بڑا حامی ہوا کرتا تھا آج اس کا سخت مخالف ہے اور دنیا سے خود کو کاٹ کر اپنے گرد ایک حفاظتی حصار قائم کررہا ہے۔
میکسیکو جیسے پس ماندہ ملک کے تارکین وطن سے خائف ہوکر ہزاروں کلو میٹر طویل سرحدی دیوار تعمیر کرنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں اور اپنی صنعتوں کو تباہی اور امریکی کارکنوں کو بے روزگاری سے بچانے کے لیے درآمدات پر پابندیاں ہورہی ہیں اور مہاجرین اور تارکین وطن کے لیے امریکا کے دروازے مقفل کیے جارہے ہیں۔ ابھی تو ابتدا ہے، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
بات کا آغاز ہوا تھا ان لوگوں سے جو آمروں اور ماضی میں ان کے سرپرست امریکا کے گن گایا کرتے تھے اور آج بھی جمہوریت اور منتخب جمہوری حکومتوں کے خلاف اس امید پر مہم چلاتے ہیں کہ گیا وقت شاید واپس آجائے اور ایک بار دوبارہ ان کے وارے نیارے ہوجائیں۔ ایسے لوگوں سے بصد ادب گزارش ہے کہ وہ اس مہم جوئی میں اپنا وقت برباد نہ کریں، جمہوری حکومتوں کو بدترین تنقید کا ہدف ضرور بنائیں لیکن یہ امید نہ رکھیں کہ وہ اب جمہوریت عمل کو پٹری سے اتارنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔
یہ وہ دنیا نہیں جس پر کبھی دو عالمی طاقتیں اور ان کے حلیف آمر راج کیا کرتے تھے۔ وقت بہت آگے بڑھ گیا ہے۔ جب ماضی کے سوویت یونین اور امریکا جیسی عظیم طاقتوں کو پسپا ہونا پڑا ہے تو ترقی پذیر دنیا میں آمرانہ اور استبدادی حکومتوں کے دن بھی گنے جاچکے ہیں۔ جن خطوں میں اس طرح کی چند ریاستیں باقی بچ گئی ہیں وہ بھی اب اپنی آخری سانسیں لے رہی ہیں۔
دنیا میں غیر جمہوری حکومتوں کے سب سے بڑے حامی اور سرد جنگ کے مرکزی حریف روس اور امریکا اب تھک ہار کر خود اپنے ملکوں کو بچانے کی فکر میں غلطاں ہیں۔ اب یہ ان کے مفاد میں ہے اور نہ ان کے ان کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ تیسری دنیا میں فوجی انقلابات برپا اور آمروں کی پرورش کریں۔ پاکستان کے عوام کو بھی تجربہ ہے کہ ہمارے آمروں نے پاکستان کو سرد جنگ میں جھونک کر انھیں کتنا نقصان پہنچایا ہے۔ لہٰذا جمہوری عمل کے خلاف کسی بھی اقدام کو ان کی پذیرائی حاصل نہیں ہوگی۔ بہتر یہ ہوگا کہ پاکستان کا راستہ نہ روکا جائے اور اُسے آگے بڑھنے دیا جائے۔