حیاء پرخوفناک حملہ
عورت کو سب سے زیادہ عزّت اور احترام اسلامی تہذیب نے دی ہے۔
کالم لکھا جا چکا تھا کہ لاہور میں پولیس پر خودکش حملہ ہو ا جس میں بہت سے شہریوں کے علاوہ دوسینئر پولیس افسروں نے جانوں کا نذرانہ دے دیا۔ اس حملے پر پھر لکھوںگا۔ اس بار حیا ء پر ہونے والے حملے کے بارے میں پڑھ لیں۔
میرا ایک عزیز منصوراحمد انجینئرنگ کرنے کے بعد کچھ دیر اپنے ملک میں رہا اور پھر یورپ چلا گیا جہاں وہ پچھلے بیس سالوں سے خوشحالی اور سکون کی زندگی گزار رہا تھا۔ اس کی بیٹیاں جوان ہورہی تھیں اور اُس ملک کا ماحول اسے پسند نہیں تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی بیٹیاں عریانی اور بے حیائی کے ماحول میں جوان ہوں اور پھراُنکی اور اُنکی اولاد کی زندگیاں اسی ماحول میں ڈھل جائیں۔ اس کی بیگم پڑھی لکھی اور اعلیٰ کردار کی حامل خاتون ہیں۔ اس نے بیگم سے مشورہ کرکے پاکستان شفٹ ہونے کا پروگرام بنالیا۔ اپنے وطن میں آکر وہ مجھے ملا تو اس بات پر بہت خوش تھا کہ ''اب میری بیٹیاں اسلامی اور پاکستانی ماحول میں زندگی گزاریں گی''۔
منصور مالی طور پر مضبوط تھا اس نے اسلام آباد کے بہترین سیکٹر میں رہائش اختیار کی اور مہنگے ترین اسکول میں بیٹیوں کو اے لیول میں داخل کرادیا ۔ منصور پچھلے دنوں ملا تو بہت پریشان تھا، میں نے وجہ پوچھی توکہنے لگا ''چند روز قبل میری بیگم بیٹیوں اور ان کی ٹیچرز سے ملنے ان کے اسکول چلی گئیں، واپس آئیں تو صدمے سے نڈھال تھیں، حواس بحال ہوئے تو بتانے لگیں کہ پوری کلاس میں صرف ہماری بیٹیاں پاکستانی لباس پہنے ہوئے تھیں۔ باقی تمام لڑکیاں اور ان کی ٹیچرز انتہائی بیہودہ اور نامناسب لباس میں ملبوس تھیں، یہی روزانہ کا معمول ہے۔
ہماری بیٹیاں کلاس میں بالکل isolateہوچکی ہیں اور پوری کلاس ان کا مذاق اڑاتی اور تضحیک کا نشانہ بناتی ہے۔ بچیوں نے ٹیچر سے شکایت کی تو انھوں نے بھی کوئی دھیان نہ دیا بلکہ باقی کلاس کا ساتھ دیااور ہماری بیٹیوں کو مشورہ دیا کہ "Do in Rome as Romns do" بیٹیوں نے جب کہا کہ ''میڈم یہ روم نہیں ہے پاکستان ہے'' تو اس پر وہ کہنے لگیں'ہم اسے روم بنادیں گی'۔ بیٹیاں بھی پریشان ہیں۔ اس اسکول کے ماحول سے تو یورپین اسکولوں کا ماحول بہتر تھا۔ دیکھیں میں تو بڑی چاہت سے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنے وطن آیا تھا جو ہمارے بزرگوں نے اس لیے بنایا تھا کہ یہاں ہم اپنی دینی اقدار، روایات اور مُسلم تہذیب کے مطابق زندگیاں گزاریں گے۔
پاکستان کے تعلیمی اداروں کا ماحول اسلامی تہذیب و تمدن کے بالکل منافی ہو۔ یہ قائدِاعظم ؒ کا وژن تونہیں تھا۔ اب میں اورمیری بیگم دونوں پریشان ہیں سمجھ نہیں آتا کیا کریں؟'' میں نے منصور کو تسلّی دی کہ فکر نہ کریں کوئی بہتر ماحول والا اسکول مل جائیگا۔ پرسوں منصور اور اس کی بیگم میرے گھر آئے تو اُسوقت میر ا ایک لبرل دوست پروفیسر زَیک بھی آیا ہوا تھا۔
منصور نے پھر درد بھرے لہجے میں کہا ''پاکستان کے بانی کوئی نیم خواندہ مولوی نہیں تھے، وہ بہت پڑے لکھے روشن خیال لوگ تھے لیکن وہ مسلمان قوم کے علیحدہ تشخص کے علمبردار تھے، انھوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ جس پاکستان کے لیے لاکھوں بیٹیوں کی عزّت و عصمت کی قربانیاں دی گئی ہیں اُس پاکستان میں ہماری بیٹیاں وہ لباس پہنیں گی جو یورپ میں غیر مسلم لڑکیاں پہنتی ہیں، پاکستان کے چینلوں پر وہی پروگرام چلیں گے جو دہلی اور بمبئی میں چلتے ہیں اگر ایسا ہی ہونا تھا تو علیحدہ ملک کا کیا جواز تھا؟'' پروفیسرزَیک تو بحث مباحثے کا ویسے ہی شوقین تھاباتوں کا پس منظر پوچھ کر بحث میں کود پڑا اور کہنے لگا ''منصور صاحب آپ نے بیٹیوں کو بُرقعے ہی پہنانے ہیںتو انھیں اسکول نہ بھیجیں گھر میں ہی بٹھادیں۔
دیکھیں اب ہم ایک عالمی گاؤں میں رہ رہے ہیں۔ لڑکیاں ماڈرن دور کے ساتھ چلنا چاہتی ہیں، وہ یورپین لباس پہننے کی شوقین ہیں تو انھیں پہننے دیں اُن پر سختی یا جبر نہ کریں نئی نسل پرانے دور کی چیزیں قبول نہیں کرتی'' ۔ منصور نے جواباً کہا ''پروفیسر صاحب عریانی اور بے حیائی ماڈرن دور کی ایجادات نہیں ہیں۔ یہ تو دورِ جہالت کا کلچر ہے حضرت محمد ؐ کے عظیم انقلاب سے پہلے عورتیں میلوں ٹھیلوں اور Public gatheringsمیں عریاں پھرتی تھیں حتیّٰ کہ خانہ کعبہ کا طواف بے لباس ہوکر کرتی تھیں۔
ہر تہذیب کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، رسولِ خدا نے انسانوں کوجب ایک نئی تہذیب سے متعارف کرایا تو زندگی کے ہر شعبے کے لیے گائیڈ لائنز اور Dos اور Dontsبتائے ۔ خالقِ کائنات نے انسانوں کے حقوق، رہن سہن، شادی، خاندان، وراثت، خوراک اور لباس کے بارے میں بھی واضح احکامات دیے ہیں۔ اگر ہم مسلمان ہیں اور حضرت محمدؐ کے پیروکار کی حیثیت سے ہی اپنی پہچان کرانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اﷲاور رسولؐ کے واضح احکامات کی پابندی کرنا ہوگی۔ لباس کے بارے میں تو خود مالکِ کائنات نے واضح طور پر ہدایات دی ہیں:۔
'اے نبیؐ مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجزاس کے جو خود بخودظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں'۔
مردوں کے لیے بھی علیحدہ ہدایات دی گئی ہیں:۔
'اے نبیؐ مومن مردوں سے کہو اپنی نظریں بچا کررکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں '۔
اگر ہم نے خدا کے واضح احکامات کی خلاف ورزی کرنی ہے تو پھر ہمت کرکے یہ بھی اعلان کردیں کہ اب ہم اﷲ اور رسولؐ پر ایمان نہیں رکھتے اور حضرت محمد ؐ کے پیروکار نہیں رہے''۔
پروفیسر زَیک نے کہا ''منصور صاحب ! آپ عورتوں کو برقعوں میں چھپا دیں گے تو معاشرہ بے رنگ اور بے کیف ہوجائیگا ۔ آپ کے علامہّ اقبال صاحب نے بھی کہا ہے کہ وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ یعنی کائنات عورت کی وجہ سے ہی کلرفل بنی ہے۔۔ عورت کی فطرت ہے کہ وہ اپنی خوبصورتی اور حسن نمایاں کرنا چاہتی ہے اُسے کرنے دیں یہ رنگ ورو نق کیوں ختم کرنا چاہتے ہیں''۔
اب منصورکی بیگم نے بحث میں حصّہ لیتے ہوئے کہا ''بھائی صاحب! خالق نے عورت کی فطرت میں دو چیزیں کوٹ کوٹ کر بھر دی ہیں ۔۔اولاد سے محبّت اور حیاء۔۔ عورت کی فطرت میں حیا ء ہے، حسن کی نمائش نہیں۔ یہ تو کیپیٹل اکانومی کے کارنامے ہیں۔ یہ کنزیومر مارکیٹ اور فیشن انڈسٹری اور ان کی اشتہاری مہمّات کے کرشمے ہیں۔ عورت دوسروں کے سامنے نہیں گھر میں اپنے شوہر کے سامنے اپنے حسن کی نمائش کرے ، غیر مردوں کے سامنے کریگی تو اس کے حسن پرحملے ہونگے ۔کہیں ھَوسناک نظروں سے اور کہیں ہاتھوں سے ۔ اس سے معاشرے کا اپنا توازن اور حسن درھم برھم ہوجائیگا''۔
زَیک کہنے لگا '' آج کی لڑکی جب برقع پہننے پر تیار ہی نہیں ہے تو پھر آپ ایک ناقابلِ عمل بات پر اصرار کیوں کرتے ہیں؟''
اس پر مسز منصور نے کہا ''قرآن میں برقع پہننے کا ذکر نہیں۔ ایسا لباس پہننے کی ہدایات ہیں جس سے جسم کا ستر چھپایا جاسکے۔ یعنی ایسا لباس ہو جس سے عورت کے جسم کے فیچرز نمایاں نہ ہوں۔ اگر عورت اپنے جسم کے ان فیچرز کو نمایاں کرے جس سے مخالف صنف کے جنسی جذبات برانگیختہ ہوں تو ایسا لباس بے حیائی کے زمرے میں آئیگا۔ کوئی مذہب اور کوئی تہذیب ایسے نامناسب لباس کو approveنہیں کرتی۔
عورت کو سب سے زیادہ عزّت اور احترام اسلامی تہذیب نے دی ہے اس لیے عورت کے لیے ایسے باوقار لباس پر سب سے زیادہ زور اسلام نے دیا ہے جس سے اُسے مردوں کی ھَوسناک نگاہوں سے محفوظ کیا جائے اور تنگ کرنے والے فقروں اور آوازوں سے بچایا جائے۔ یورپ کے کئی ممالک میں بھی دفتروں اور تعلیمی درسگاہوں کے لیے ڈریس کوڈ مقرر کیے گئے ہیں جنکے مطابق ٹائٹ جینز پہننے اور سینے نمایاں کرکے پھرنے کی ممانعت ہے۔
یورپ اور امریکا میں پڑھی لکھی مسلم اور نومسلم خواتین سمجھتی ہیں کہ حجاب عورتوں کو جنسی استحصال سے محفوظ رکھتا ہے وہ سر اور سینہ ڈہانپ کر وہاں دفتروں میں کام بھی کرتی ہیں اور اپنے اسلامی لباس پر فخر محسوس کرتی ہیں وہ اپنے آپ کو مسلم تہذیب کا نمائیندہ اور حجاب کو اپنے لیے وقار اور افتخار کا باعث سمجھتی ہیں۔
پاکستانی قوم احساسِ کمتری کی ماری ہوئی ہے اس لیے یہاں کی خواتین اپنے آپ کو مغرب کی غلام اور کمّیں سمجھ کر ہر کام میں گوروں کی پیروی کرتی ہیں یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوا ہے کہ مسلم تشخص کے تحفظ کے نام پر بنائے گئے پاکستان میں مسلم تہذیب کے قلعے یعنی عورت کی حیاء پر خوفناک حملہ ہوچکا ہے جس کے نتیجے میں حیاء کے قلعے میں شگاف پڑگئے ہیں۔ ماؤںنے اپنی بیٹیوں کے دوپٹے اتروا دیے ہیں۔ جوان بیٹیاں اپنے سَتر ڈھانپنے کے بجائے سینے تان کر پھرتی ہیں۔
کتنے دکھ کی بات ہے کہ مائیں جو بیٹیوں کو شرم و حیا سکھاتی تھیں، لباس کے بارے میں Sensitise کرتی تھیں۔۔ وہ بیٹیوں کی حیاء چھن جانے پر خاموش بلکہ خوش ہیں ۔ محض اس لیے کہ ان کی بیٹیاں یورپی خواتین کی طرح لگیں۔ یہ احساسِ کمتری کی بدترین صورت ہے، آپ یورپ کی تاریخ پڑھ لیں ان کے Declassified Documents پڑھ لیں، انھوں نے مسلمان مردوں کو اخلاق باختہ بنانے اور عورتوں کو حیاء سے محروم کرنے پر بہت investکیا ہے، مسلم خواتین کو حیاء کی دولت سے محروم کرنا ان کا سب سے بڑا ہدف رہا ہے۔
چند سال پہلے تک سَتر نمایاں کرنے اور بیہودہ لباس پہننے والی عورتوںکو ہمارے معزز گھرانے نفرت کی نظروں سے دیکھتے تھے، انھیں بازاری اور گھٹیا سمجھا جاتا تھا۔ مگر اب وہی بازاری اور گھٹیا کلچر ہر گھر میں داخل ہوگیا ہے۔ ہم لباس کے معاملے میں کسی کی نقالی کیوں کریں ۔ کیا ہماری اپنی علیحدہ شناخت اور علیحدہ تہذیب کوئی نہیں ہے؟ ۔
(جاری ہے)
میرا ایک عزیز منصوراحمد انجینئرنگ کرنے کے بعد کچھ دیر اپنے ملک میں رہا اور پھر یورپ چلا گیا جہاں وہ پچھلے بیس سالوں سے خوشحالی اور سکون کی زندگی گزار رہا تھا۔ اس کی بیٹیاں جوان ہورہی تھیں اور اُس ملک کا ماحول اسے پسند نہیں تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی بیٹیاں عریانی اور بے حیائی کے ماحول میں جوان ہوں اور پھراُنکی اور اُنکی اولاد کی زندگیاں اسی ماحول میں ڈھل جائیں۔ اس کی بیگم پڑھی لکھی اور اعلیٰ کردار کی حامل خاتون ہیں۔ اس نے بیگم سے مشورہ کرکے پاکستان شفٹ ہونے کا پروگرام بنالیا۔ اپنے وطن میں آکر وہ مجھے ملا تو اس بات پر بہت خوش تھا کہ ''اب میری بیٹیاں اسلامی اور پاکستانی ماحول میں زندگی گزاریں گی''۔
منصور مالی طور پر مضبوط تھا اس نے اسلام آباد کے بہترین سیکٹر میں رہائش اختیار کی اور مہنگے ترین اسکول میں بیٹیوں کو اے لیول میں داخل کرادیا ۔ منصور پچھلے دنوں ملا تو بہت پریشان تھا، میں نے وجہ پوچھی توکہنے لگا ''چند روز قبل میری بیگم بیٹیوں اور ان کی ٹیچرز سے ملنے ان کے اسکول چلی گئیں، واپس آئیں تو صدمے سے نڈھال تھیں، حواس بحال ہوئے تو بتانے لگیں کہ پوری کلاس میں صرف ہماری بیٹیاں پاکستانی لباس پہنے ہوئے تھیں۔ باقی تمام لڑکیاں اور ان کی ٹیچرز انتہائی بیہودہ اور نامناسب لباس میں ملبوس تھیں، یہی روزانہ کا معمول ہے۔
ہماری بیٹیاں کلاس میں بالکل isolateہوچکی ہیں اور پوری کلاس ان کا مذاق اڑاتی اور تضحیک کا نشانہ بناتی ہے۔ بچیوں نے ٹیچر سے شکایت کی تو انھوں نے بھی کوئی دھیان نہ دیا بلکہ باقی کلاس کا ساتھ دیااور ہماری بیٹیوں کو مشورہ دیا کہ "Do in Rome as Romns do" بیٹیوں نے جب کہا کہ ''میڈم یہ روم نہیں ہے پاکستان ہے'' تو اس پر وہ کہنے لگیں'ہم اسے روم بنادیں گی'۔ بیٹیاں بھی پریشان ہیں۔ اس اسکول کے ماحول سے تو یورپین اسکولوں کا ماحول بہتر تھا۔ دیکھیں میں تو بڑی چاہت سے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنے وطن آیا تھا جو ہمارے بزرگوں نے اس لیے بنایا تھا کہ یہاں ہم اپنی دینی اقدار، روایات اور مُسلم تہذیب کے مطابق زندگیاں گزاریں گے۔
پاکستان کے تعلیمی اداروں کا ماحول اسلامی تہذیب و تمدن کے بالکل منافی ہو۔ یہ قائدِاعظم ؒ کا وژن تونہیں تھا۔ اب میں اورمیری بیگم دونوں پریشان ہیں سمجھ نہیں آتا کیا کریں؟'' میں نے منصور کو تسلّی دی کہ فکر نہ کریں کوئی بہتر ماحول والا اسکول مل جائیگا۔ پرسوں منصور اور اس کی بیگم میرے گھر آئے تو اُسوقت میر ا ایک لبرل دوست پروفیسر زَیک بھی آیا ہوا تھا۔
منصور نے پھر درد بھرے لہجے میں کہا ''پاکستان کے بانی کوئی نیم خواندہ مولوی نہیں تھے، وہ بہت پڑے لکھے روشن خیال لوگ تھے لیکن وہ مسلمان قوم کے علیحدہ تشخص کے علمبردار تھے، انھوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ جس پاکستان کے لیے لاکھوں بیٹیوں کی عزّت و عصمت کی قربانیاں دی گئی ہیں اُس پاکستان میں ہماری بیٹیاں وہ لباس پہنیں گی جو یورپ میں غیر مسلم لڑکیاں پہنتی ہیں، پاکستان کے چینلوں پر وہی پروگرام چلیں گے جو دہلی اور بمبئی میں چلتے ہیں اگر ایسا ہی ہونا تھا تو علیحدہ ملک کا کیا جواز تھا؟'' پروفیسرزَیک تو بحث مباحثے کا ویسے ہی شوقین تھاباتوں کا پس منظر پوچھ کر بحث میں کود پڑا اور کہنے لگا ''منصور صاحب آپ نے بیٹیوں کو بُرقعے ہی پہنانے ہیںتو انھیں اسکول نہ بھیجیں گھر میں ہی بٹھادیں۔
دیکھیں اب ہم ایک عالمی گاؤں میں رہ رہے ہیں۔ لڑکیاں ماڈرن دور کے ساتھ چلنا چاہتی ہیں، وہ یورپین لباس پہننے کی شوقین ہیں تو انھیں پہننے دیں اُن پر سختی یا جبر نہ کریں نئی نسل پرانے دور کی چیزیں قبول نہیں کرتی'' ۔ منصور نے جواباً کہا ''پروفیسر صاحب عریانی اور بے حیائی ماڈرن دور کی ایجادات نہیں ہیں۔ یہ تو دورِ جہالت کا کلچر ہے حضرت محمد ؐ کے عظیم انقلاب سے پہلے عورتیں میلوں ٹھیلوں اور Public gatheringsمیں عریاں پھرتی تھیں حتیّٰ کہ خانہ کعبہ کا طواف بے لباس ہوکر کرتی تھیں۔
ہر تہذیب کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، رسولِ خدا نے انسانوں کوجب ایک نئی تہذیب سے متعارف کرایا تو زندگی کے ہر شعبے کے لیے گائیڈ لائنز اور Dos اور Dontsبتائے ۔ خالقِ کائنات نے انسانوں کے حقوق، رہن سہن، شادی، خاندان، وراثت، خوراک اور لباس کے بارے میں بھی واضح احکامات دیے ہیں۔ اگر ہم مسلمان ہیں اور حضرت محمدؐ کے پیروکار کی حیثیت سے ہی اپنی پہچان کرانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اﷲاور رسولؐ کے واضح احکامات کی پابندی کرنا ہوگی۔ لباس کے بارے میں تو خود مالکِ کائنات نے واضح طور پر ہدایات دی ہیں:۔
'اے نبیؐ مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجزاس کے جو خود بخودظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں'۔
مردوں کے لیے بھی علیحدہ ہدایات دی گئی ہیں:۔
'اے نبیؐ مومن مردوں سے کہو اپنی نظریں بچا کررکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں '۔
اگر ہم نے خدا کے واضح احکامات کی خلاف ورزی کرنی ہے تو پھر ہمت کرکے یہ بھی اعلان کردیں کہ اب ہم اﷲ اور رسولؐ پر ایمان نہیں رکھتے اور حضرت محمد ؐ کے پیروکار نہیں رہے''۔
پروفیسر زَیک نے کہا ''منصور صاحب ! آپ عورتوں کو برقعوں میں چھپا دیں گے تو معاشرہ بے رنگ اور بے کیف ہوجائیگا ۔ آپ کے علامہّ اقبال صاحب نے بھی کہا ہے کہ وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ یعنی کائنات عورت کی وجہ سے ہی کلرفل بنی ہے۔۔ عورت کی فطرت ہے کہ وہ اپنی خوبصورتی اور حسن نمایاں کرنا چاہتی ہے اُسے کرنے دیں یہ رنگ ورو نق کیوں ختم کرنا چاہتے ہیں''۔
اب منصورکی بیگم نے بحث میں حصّہ لیتے ہوئے کہا ''بھائی صاحب! خالق نے عورت کی فطرت میں دو چیزیں کوٹ کوٹ کر بھر دی ہیں ۔۔اولاد سے محبّت اور حیاء۔۔ عورت کی فطرت میں حیا ء ہے، حسن کی نمائش نہیں۔ یہ تو کیپیٹل اکانومی کے کارنامے ہیں۔ یہ کنزیومر مارکیٹ اور فیشن انڈسٹری اور ان کی اشتہاری مہمّات کے کرشمے ہیں۔ عورت دوسروں کے سامنے نہیں گھر میں اپنے شوہر کے سامنے اپنے حسن کی نمائش کرے ، غیر مردوں کے سامنے کریگی تو اس کے حسن پرحملے ہونگے ۔کہیں ھَوسناک نظروں سے اور کہیں ہاتھوں سے ۔ اس سے معاشرے کا اپنا توازن اور حسن درھم برھم ہوجائیگا''۔
زَیک کہنے لگا '' آج کی لڑکی جب برقع پہننے پر تیار ہی نہیں ہے تو پھر آپ ایک ناقابلِ عمل بات پر اصرار کیوں کرتے ہیں؟''
اس پر مسز منصور نے کہا ''قرآن میں برقع پہننے کا ذکر نہیں۔ ایسا لباس پہننے کی ہدایات ہیں جس سے جسم کا ستر چھپایا جاسکے۔ یعنی ایسا لباس ہو جس سے عورت کے جسم کے فیچرز نمایاں نہ ہوں۔ اگر عورت اپنے جسم کے ان فیچرز کو نمایاں کرے جس سے مخالف صنف کے جنسی جذبات برانگیختہ ہوں تو ایسا لباس بے حیائی کے زمرے میں آئیگا۔ کوئی مذہب اور کوئی تہذیب ایسے نامناسب لباس کو approveنہیں کرتی۔
عورت کو سب سے زیادہ عزّت اور احترام اسلامی تہذیب نے دی ہے اس لیے عورت کے لیے ایسے باوقار لباس پر سب سے زیادہ زور اسلام نے دیا ہے جس سے اُسے مردوں کی ھَوسناک نگاہوں سے محفوظ کیا جائے اور تنگ کرنے والے فقروں اور آوازوں سے بچایا جائے۔ یورپ کے کئی ممالک میں بھی دفتروں اور تعلیمی درسگاہوں کے لیے ڈریس کوڈ مقرر کیے گئے ہیں جنکے مطابق ٹائٹ جینز پہننے اور سینے نمایاں کرکے پھرنے کی ممانعت ہے۔
یورپ اور امریکا میں پڑھی لکھی مسلم اور نومسلم خواتین سمجھتی ہیں کہ حجاب عورتوں کو جنسی استحصال سے محفوظ رکھتا ہے وہ سر اور سینہ ڈہانپ کر وہاں دفتروں میں کام بھی کرتی ہیں اور اپنے اسلامی لباس پر فخر محسوس کرتی ہیں وہ اپنے آپ کو مسلم تہذیب کا نمائیندہ اور حجاب کو اپنے لیے وقار اور افتخار کا باعث سمجھتی ہیں۔
پاکستانی قوم احساسِ کمتری کی ماری ہوئی ہے اس لیے یہاں کی خواتین اپنے آپ کو مغرب کی غلام اور کمّیں سمجھ کر ہر کام میں گوروں کی پیروی کرتی ہیں یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوا ہے کہ مسلم تشخص کے تحفظ کے نام پر بنائے گئے پاکستان میں مسلم تہذیب کے قلعے یعنی عورت کی حیاء پر خوفناک حملہ ہوچکا ہے جس کے نتیجے میں حیاء کے قلعے میں شگاف پڑگئے ہیں۔ ماؤںنے اپنی بیٹیوں کے دوپٹے اتروا دیے ہیں۔ جوان بیٹیاں اپنے سَتر ڈھانپنے کے بجائے سینے تان کر پھرتی ہیں۔
کتنے دکھ کی بات ہے کہ مائیں جو بیٹیوں کو شرم و حیا سکھاتی تھیں، لباس کے بارے میں Sensitise کرتی تھیں۔۔ وہ بیٹیوں کی حیاء چھن جانے پر خاموش بلکہ خوش ہیں ۔ محض اس لیے کہ ان کی بیٹیاں یورپی خواتین کی طرح لگیں۔ یہ احساسِ کمتری کی بدترین صورت ہے، آپ یورپ کی تاریخ پڑھ لیں ان کے Declassified Documents پڑھ لیں، انھوں نے مسلمان مردوں کو اخلاق باختہ بنانے اور عورتوں کو حیاء سے محروم کرنے پر بہت investکیا ہے، مسلم خواتین کو حیاء کی دولت سے محروم کرنا ان کا سب سے بڑا ہدف رہا ہے۔
چند سال پہلے تک سَتر نمایاں کرنے اور بیہودہ لباس پہننے والی عورتوںکو ہمارے معزز گھرانے نفرت کی نظروں سے دیکھتے تھے، انھیں بازاری اور گھٹیا سمجھا جاتا تھا۔ مگر اب وہی بازاری اور گھٹیا کلچر ہر گھر میں داخل ہوگیا ہے۔ ہم لباس کے معاملے میں کسی کی نقالی کیوں کریں ۔ کیا ہماری اپنی علیحدہ شناخت اور علیحدہ تہذیب کوئی نہیں ہے؟ ۔
(جاری ہے)