فیض کا یوم پیدائش
37 برس قبل وفات پانے والے فیض احمد فیض کا کلام آج بھی سننے والوں کا لہوگرم کرنے کو کافی ہے۔
زمانہ کوئی بھی ہو ماضی قریب یا ماضی بعید،ایک حقیقت سے انحراف نہیں کیا جاسکتا کہ جبر و استحصال ہر زمانے میں رہا ہے گوکہ اس جبرواستحصال کی اشکال مختلف رہی ہیں مگر یہ بھی صداقت ہے کہ ماضی کے ساتھ ساتھ اگر عصرحاضرکا مشاہدہ بھی کیا جائے تو تصویرکا رخ یہ سامنے آتا ہے کہ عصر حاضر اگرچہ اپنی تمام تر ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے ہر اعتبار سے اپنے جدید ترین ادوار سے گزر رہا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جبرواستحصال کے حوالے سے بھی عصر حاضر آنے والے زمانوں میں بدترین ادوار میں شمار کیا جائے گا۔
جبرواستحصال ایسی چیز نہیں کہ جس سے آزادی کوئی تھالی میں رکھے اور آزادی کے طالب کو پیش کردے چنانچہ بیسویں صدی میں ایک نمایاں ترین نام ہمیں عظیم انقلابی شاعر فیض احمد فیض کا بھی نظر آتا ہے جنھوں نے عظیم فلسفی کارل مارکس کے ترقی پسند نظریات کی روشنی میں عام انسانوں کو یہ شعور دینے کی پوری پوری کوشش کی ہے کہ انسان سب برابر ہیں۔
چنانچہ تمام وسائل پر سب انسانوں کا مساوی حق ہے۔ لہٰذا تمام محروم انسان آگے بڑھیں جدوجہد کریں اور اپنے حقوق حاصل کریں گویا عام انسانوں کو انسان ہونے کا شعور دینے کی کوشش کی۔ فیض احمد فیض کا فلسفہ تھا کہ جبر و استبداد پر خاموشی اختیار کرنا بھی گویا جبر واستبداد کرنے والوں میں خود کو شمار کرنا ہے۔ چنانچہ سچائی یہی ہے کہ فیض احمد فیض کبھی جبرکے سامنے خاموش نہیں رہے چنانچہ قیام پاکستان کے بعد جب اقتدارکی رسہ کشی حکومتی ایوانوں میں دیکھی تو پکار اٹھے:
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں ہے
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شب سست موج کا ساحل
پھر جب وطن عزیز میں آمریت مسلط ہوئی تو جناب فیض احمد فیض نے یوں لب کشائی کی کہ
مرے چارہ گر کو نوید ہو' صف دشمناں کو خبرکرو
وہ جو قرض رکھتے تھے جان پروہ حساب آج چکا دیا
البتہ جب لاہور کے شاہی قلعے میں انقلابی رہنما کو اذیت ناک تشدد کے ذریعے موت کی وادیوں میں پہنچادیا گیا، وہ انقلابی تھے حسن ناصر تو جبر کے خلاف بولنے اور لڑنے والے فیض احمد فیض نے جدوجہد پر کامل یقین رکھنے والوں کو یوں دعوت احتجاج دی کہ:
دوستو قافلہ درد کا اب کیا ہوگا؟
اب کوئی اورکرے پرورش گلشن غم
دوستو ختم ہوئی دیدہ ترکی شبنم
تھم گیا شور جنوں ختم ہوئی بارش سنگ
خاک رہ آج لیے ہے دلدارکا رنگ
کوئے جاناں میں کھلا میرے لہوکا پرچم
فیض احمد فیض کے حالات حیات پر اگر مختصر یا طائرانہ نظر ڈالی جائے تو ترتیب کچھ یوں بنتی ہے کہ ان کا حقیقی نام فیض احمد خان تھا جب کہ قلمی نام ان کا فیض احمد فیض تھا۔ ان کے والد بزرگوار کا نام سلطان محمد خان تھا۔ فیض احمد فیض کا جنم 13 فروری 1911ء کو شہر اقبال سیالکوٹ کے نواحی گاؤں میں ہوا۔ اب یہ گاؤں جناب فیض کے نام سے منسوب ہوچکا ہے۔ ابتدائی طور پر فیض احمد فیض نے مولوی ابراہیم سیالکوٹی و شمس العلما میر حسن سے تعلیم حاصل کی۔
واضح رہے کہ شمس العلما میر حسن شاعر مشرق علامہ اقبال کے بھی استاد رہے تھے۔ فیض احمد فیض نے ایک اچھے طالب علم ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہوئے 16 برس کی عمر میں سیالکوٹ میں ہی اعلیٰ درجے میں میٹرک کا امتحان پاس کیا پھر سیالکوٹ میں ہی F.A کا امتحان بھی پاس کیا اور مزید حصول تعلیم کا شوق فیض کو لاہور لے آیا جہاں 1931ء میں B.A و عربی میں آنرزکیا۔ 1933ء میں انگریزی ادب میں M.A اور 1934ء میں عربی ادب میں اسناد حاصل کیں۔
فیض احمد فیض نے گوکہ شاعری کا آغاز سیالکوٹ میں زمانہ طالب علمی کے دوران کردیا تھا لیکن شاعری میں ان کے حقیقی جوہر گورنمنٹ کالج لاہور میں حصول تعلیم کے دوران کھلے۔ فیض احمد فیض کی اولین نظم 1929ء میں فقط 19 برس کی عمر میں کالج کے مجلے میں چھپی۔ انھوں نے بہ حیثیت لیکچرار اپنی عملی زندگی کا آغاز M.A.O کالج امرتسر سے کیا۔ جب کہ 1936ء وہ زمانہ تھا جب سید سجاد ظہیر نے الٰہ آباد میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد ڈالنے کے بعد دیگر علاقوں کے ساتھ ساتھ پنجاب کا دورہ بھی کیا اور فیض احمد فیض، صوفی غلام مصطفیٰ تبسم، میاں افتخار الدین، رشید جہاں ، فیروز الدین، منصور محمود وغیرہ سے انجمن کے منشور پر دستخط لیے یوں گویا یہ کہا جاسکتا ہے کہ فیض احمد فیض انجمن ترقی پسند مصنفین ہندوستان کے بانیان میں سے تھے۔
قیام پاکستان کے بعد بھی جب انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو اس کے قیام کے سلسلے میں بھی فیض احمد فیض پیش پیش تھے۔ البتہ غالباً 1954ء ہی سال تھا جب انجمن ترقی پسند مصنفین پابندی کا شکار ہوئی جب کہ اس سے تھوڑا عرصہ قبل فیض احمد فیض کو اپنے دیگر ساتھیوں جن میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل سجاد ظہیر، جنرل اکبر خان، جنرل نذیر احمد، ایئرکموڈور جنجوعہ، برگیڈیئر لطیف، کرنل نیاز محمد خان، لیفٹیننٹ کرنل ضیا الدین، میجر اسحاق، میجر حسن خان، کیپٹن ظفر پوشنی، کیپٹن خضر حیات، محمد حسین عطا کے خلاف بغاوت کے ایک مقدمے کا سامنا کرنا پڑا جب کہ فیض احمد فیض اس وقت فوج کے شعبے تعلقات عامہ سے منسلک تھے۔
البتہ امرتسر میں ملازمت کے دوران ان کو دو قسم کا عشق ہوگیا ایک عشق کیتھرین ایلس سے جن سے ان کی شادی ہوگئی اورکیتھرین ایلس بیگم فیض ایلس سے نامور ہوئیں جب کہ فیض احمد فیض نے دوسرا عشق مارکسی نظریات سے کیا یوں ان کے دونوں عشق تاحیات قائم و دائم رہے۔ البتہ 67 برس 9 ماہ اور 7 یوم عمر پانے والے فیض احمد فیض نے 20 نومبر 1980ء کو دنیا فانی سے کوچ کیا۔ فیض احمد فیض نے 8 شاعری کی کتب و 8 دیگر کتب تحریر کیں۔
37 برس قبل وفات پانے والے فیض احمد فیض کا کلام آج بھی سننے والوں کا لہوگرم کرنے کو کافی ہے۔ جس کا مظاہرہ 2007ء سے 2009ء تک وکلا تحریک کے دوران دیکھنے میں آیا۔ یہ تحریک عدلیہ بحالی و مشرف مخالف تحریک تھی اس تحریک کے دوران جب فیض احمد فیض کا یہ کلام فضاؤں میں گونجتا کہ ''جب تاج اچھالے جائیں گے، ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے'' تو لوگ بے ساختہ گو مشرف گو کے نعرے لگاتے۔ 13 فروری 2017ء کو عظیم انقلابی شاعر فیض احمد فیض کا 107 واں یوم پیدائش تھا۔ اس موقعے پر ہم فیض احمد فیض کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ان کی جدوجہد جاری رہے گی۔
جبرواستحصال ایسی چیز نہیں کہ جس سے آزادی کوئی تھالی میں رکھے اور آزادی کے طالب کو پیش کردے چنانچہ بیسویں صدی میں ایک نمایاں ترین نام ہمیں عظیم انقلابی شاعر فیض احمد فیض کا بھی نظر آتا ہے جنھوں نے عظیم فلسفی کارل مارکس کے ترقی پسند نظریات کی روشنی میں عام انسانوں کو یہ شعور دینے کی پوری پوری کوشش کی ہے کہ انسان سب برابر ہیں۔
چنانچہ تمام وسائل پر سب انسانوں کا مساوی حق ہے۔ لہٰذا تمام محروم انسان آگے بڑھیں جدوجہد کریں اور اپنے حقوق حاصل کریں گویا عام انسانوں کو انسان ہونے کا شعور دینے کی کوشش کی۔ فیض احمد فیض کا فلسفہ تھا کہ جبر و استبداد پر خاموشی اختیار کرنا بھی گویا جبر واستبداد کرنے والوں میں خود کو شمار کرنا ہے۔ چنانچہ سچائی یہی ہے کہ فیض احمد فیض کبھی جبرکے سامنے خاموش نہیں رہے چنانچہ قیام پاکستان کے بعد جب اقتدارکی رسہ کشی حکومتی ایوانوں میں دیکھی تو پکار اٹھے:
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں ہے
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شب سست موج کا ساحل
پھر جب وطن عزیز میں آمریت مسلط ہوئی تو جناب فیض احمد فیض نے یوں لب کشائی کی کہ
مرے چارہ گر کو نوید ہو' صف دشمناں کو خبرکرو
وہ جو قرض رکھتے تھے جان پروہ حساب آج چکا دیا
البتہ جب لاہور کے شاہی قلعے میں انقلابی رہنما کو اذیت ناک تشدد کے ذریعے موت کی وادیوں میں پہنچادیا گیا، وہ انقلابی تھے حسن ناصر تو جبر کے خلاف بولنے اور لڑنے والے فیض احمد فیض نے جدوجہد پر کامل یقین رکھنے والوں کو یوں دعوت احتجاج دی کہ:
دوستو قافلہ درد کا اب کیا ہوگا؟
اب کوئی اورکرے پرورش گلشن غم
دوستو ختم ہوئی دیدہ ترکی شبنم
تھم گیا شور جنوں ختم ہوئی بارش سنگ
خاک رہ آج لیے ہے دلدارکا رنگ
کوئے جاناں میں کھلا میرے لہوکا پرچم
فیض احمد فیض کے حالات حیات پر اگر مختصر یا طائرانہ نظر ڈالی جائے تو ترتیب کچھ یوں بنتی ہے کہ ان کا حقیقی نام فیض احمد خان تھا جب کہ قلمی نام ان کا فیض احمد فیض تھا۔ ان کے والد بزرگوار کا نام سلطان محمد خان تھا۔ فیض احمد فیض کا جنم 13 فروری 1911ء کو شہر اقبال سیالکوٹ کے نواحی گاؤں میں ہوا۔ اب یہ گاؤں جناب فیض کے نام سے منسوب ہوچکا ہے۔ ابتدائی طور پر فیض احمد فیض نے مولوی ابراہیم سیالکوٹی و شمس العلما میر حسن سے تعلیم حاصل کی۔
واضح رہے کہ شمس العلما میر حسن شاعر مشرق علامہ اقبال کے بھی استاد رہے تھے۔ فیض احمد فیض نے ایک اچھے طالب علم ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہوئے 16 برس کی عمر میں سیالکوٹ میں ہی اعلیٰ درجے میں میٹرک کا امتحان پاس کیا پھر سیالکوٹ میں ہی F.A کا امتحان بھی پاس کیا اور مزید حصول تعلیم کا شوق فیض کو لاہور لے آیا جہاں 1931ء میں B.A و عربی میں آنرزکیا۔ 1933ء میں انگریزی ادب میں M.A اور 1934ء میں عربی ادب میں اسناد حاصل کیں۔
فیض احمد فیض نے گوکہ شاعری کا آغاز سیالکوٹ میں زمانہ طالب علمی کے دوران کردیا تھا لیکن شاعری میں ان کے حقیقی جوہر گورنمنٹ کالج لاہور میں حصول تعلیم کے دوران کھلے۔ فیض احمد فیض کی اولین نظم 1929ء میں فقط 19 برس کی عمر میں کالج کے مجلے میں چھپی۔ انھوں نے بہ حیثیت لیکچرار اپنی عملی زندگی کا آغاز M.A.O کالج امرتسر سے کیا۔ جب کہ 1936ء وہ زمانہ تھا جب سید سجاد ظہیر نے الٰہ آباد میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد ڈالنے کے بعد دیگر علاقوں کے ساتھ ساتھ پنجاب کا دورہ بھی کیا اور فیض احمد فیض، صوفی غلام مصطفیٰ تبسم، میاں افتخار الدین، رشید جہاں ، فیروز الدین، منصور محمود وغیرہ سے انجمن کے منشور پر دستخط لیے یوں گویا یہ کہا جاسکتا ہے کہ فیض احمد فیض انجمن ترقی پسند مصنفین ہندوستان کے بانیان میں سے تھے۔
قیام پاکستان کے بعد بھی جب انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو اس کے قیام کے سلسلے میں بھی فیض احمد فیض پیش پیش تھے۔ البتہ غالباً 1954ء ہی سال تھا جب انجمن ترقی پسند مصنفین پابندی کا شکار ہوئی جب کہ اس سے تھوڑا عرصہ قبل فیض احمد فیض کو اپنے دیگر ساتھیوں جن میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل سجاد ظہیر، جنرل اکبر خان، جنرل نذیر احمد، ایئرکموڈور جنجوعہ، برگیڈیئر لطیف، کرنل نیاز محمد خان، لیفٹیننٹ کرنل ضیا الدین، میجر اسحاق، میجر حسن خان، کیپٹن ظفر پوشنی، کیپٹن خضر حیات، محمد حسین عطا کے خلاف بغاوت کے ایک مقدمے کا سامنا کرنا پڑا جب کہ فیض احمد فیض اس وقت فوج کے شعبے تعلقات عامہ سے منسلک تھے۔
البتہ امرتسر میں ملازمت کے دوران ان کو دو قسم کا عشق ہوگیا ایک عشق کیتھرین ایلس سے جن سے ان کی شادی ہوگئی اورکیتھرین ایلس بیگم فیض ایلس سے نامور ہوئیں جب کہ فیض احمد فیض نے دوسرا عشق مارکسی نظریات سے کیا یوں ان کے دونوں عشق تاحیات قائم و دائم رہے۔ البتہ 67 برس 9 ماہ اور 7 یوم عمر پانے والے فیض احمد فیض نے 20 نومبر 1980ء کو دنیا فانی سے کوچ کیا۔ فیض احمد فیض نے 8 شاعری کی کتب و 8 دیگر کتب تحریر کیں۔
37 برس قبل وفات پانے والے فیض احمد فیض کا کلام آج بھی سننے والوں کا لہوگرم کرنے کو کافی ہے۔ جس کا مظاہرہ 2007ء سے 2009ء تک وکلا تحریک کے دوران دیکھنے میں آیا۔ یہ تحریک عدلیہ بحالی و مشرف مخالف تحریک تھی اس تحریک کے دوران جب فیض احمد فیض کا یہ کلام فضاؤں میں گونجتا کہ ''جب تاج اچھالے جائیں گے، ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے'' تو لوگ بے ساختہ گو مشرف گو کے نعرے لگاتے۔ 13 فروری 2017ء کو عظیم انقلابی شاعر فیض احمد فیض کا 107 واں یوم پیدائش تھا۔ اس موقعے پر ہم فیض احمد فیض کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ان کی جدوجہد جاری رہے گی۔