ہر سیکنڈ 258 بچے
اعداد وشمار کے ذریعے وہ بتاتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی آبادی اور بھوک کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔
دنیا میں ہر ہر سیکنڈ میں 258 نفوس کا اضافہ ہو رہا ہے۔ گویا ہر ایک گھنٹے میں دنیا کی آبادی 228125 افراد سے بڑھ رہی ہے۔ اِس برس کے آخر تک دنیا کی آبادی ساڑھے سات ارب تک پہنچ جائے گی۔ ہر برس دھرتی پر 83,000,000 افراد کا اضافہ ہوتا ہے۔
اب سے کچھ عرصہ قبل تک یعنی اٹھارویں صدی کے اختتام تک ایک اندازے کے مطابق دنیا کی کل آبادی ایک ارب سے کم تھی۔ 1940ء تک یہ بڑھ کر سوا دو ارب سے زائد ہو گئی۔ 1950ء میں اِس میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا۔ یعنی ایک اعشاریہ آٹھ فیصد سے زائد کی شرح سے۔ 1964ء تک اِس میں مزید اضافہ ہوا۔ اب شرح نمو 2.1 فی صد سالانہ سے بھی بڑھ گئی۔ مثال کے طور پر انڈونیشیا کی آبادی 1961ء میں 97 ملین تھی جو 2010ء میں بڑھ کر 237.6 ملین ہو گئی تھی۔ 49 برس میں 149 فی صد اضافہ۔ بھارت کی آبادی 1951ء میں 361.1 ملین تھی جو 2011ء میں حیران کُن رفتار سے بڑھ کر ایک ارب دو کروڑ ہو گئی۔ 60 برس میں 235 فی صد اضافہ۔ بی بی سی کے ایک گوشوارے کے مطابق 1804ء میں دنیا کی آبادی ایک ارب تھی۔ 1927ء میں 2 ارب۔ 1959ء، 3 ارب۔ 1974، 4 ارب۔ 1987، 5 ارب۔ 1999،6 ارب۔ 2011،7 ارب۔ 2020 میں یہ آبادی 7.7 ارب ہو جائے گی جو بڑھتے بڑھتے اِس صدی کے آخر تک 27 ارب تک جا پہنچے گی۔ اِس میں کچھ استثناء بھی ہوں گے مثلاً جرمنی اور ہالینڈ کی آبادی نصف رہ جائے گی۔ مثلاً چین جہاں تخفیف آبادی کے بعد 500 ملین افراد رہ جائیں گے۔
سوال یہ ہے کہ آخر آبادی بڑھنے سے نقصان کیا ہے؟ خدشات ہیں کہ آبادی کے اضافے کی بنا پر زمین پر رہنے کی جگہ تنگ پڑ جائے گی۔ دنیا کی آبادی سے متعلق گزشتہ دنوں ایک رپورٹ شایع کی گئی۔ اقوامِ متحدہ کے حوالوں سے مزین اِس رپورٹ میں بھی آبادی میں مسلسل اضافے کو ایک بُری خبر سے تعبیر کیا گیا ہے، اِن کا بھی کہنا ہے کہ جگہ کم پڑ رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اگر آج دنیا کے تمام افراد ترقی پذیر ممالک کے متوسط طبقے کی سی زندگی بسر کرنے لگیں تو وسائل کے حصول کے لیے ہمیں ایسی ہی ایک اور زمین درکار ہو گی۔ یعنی زمین تنگ ہونے کے ساتھ بڑا خطرہ قحط اور بھوک کا۔ رپورٹ کے مطابق جہاں چند دہائیوں میں دنیا کی آبادی 8 ارب تک پہنچنے کا خطرہ ہے، وہیں یہ خدشہ بھی ہے کہ اشیائِ خورو نوش کی قیمتیں دُگنی ہو جائیں گی۔ 2030ء تک اہم فصلوں کی اوسط قیمت میں 183 فی صد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔
''یوں لگتا ہے کہ قحط دائمی ہو جائے گا۔ قحط جو فطرت کا سب سے خوفناک مظہر ہے۔ انسانی قوتِ نمو زمینی قوتِ نمو سے کہیں زیاد ہ برتر ہے کہ باعث بنے ایک یا دوسری طرح کی قبل از وقت نوع ِ انسان کی تباہی کا۔ انسانی اغلاط تباہی کا ہر اول دستہ ہیں۔ اکثر وہ خود ہی بھیانک تباہی کا باعث بھی ثابت ہوئے ہیں، لیکن کیا وہ نسلِ انسانی کے استحصال کی جنگ میں ناکامیاب ہوں گے۔ امراض، طاعون، وبائیں کمال ہلاکت خیزی سے حملہ آور ہیں، وہ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں افراد کا صفایا کیے دے رہی ہیں۔ کیا کامیابی ادھوری ہی رہے گی۔ قحط کا مہیب عفریب پچھواڑے ہی میں چنگھاڑ رہا ہے۔ وہ ایک ہی وار میں غذا اور انسانیت کے خاتمے کے درپے ہے۔
تھامس مالتھس ((1766 - 1834 تخفیف آبادی کے اولین نقیب تھے۔ آپ کی مشہور کتاب کا مندرجہ بالا اقتباس ایک لحاظ سے انسانی تاریخ میں آغاز ہے آبادی سے اور شرح پیدائش سے خوف دِلانے کا۔ اِس کے بعد تو یہ سلسلہ چل پڑا تھا۔ 1798ء تا ایں دم قحط سے تمام دنیا کے خاتمے کی بار ہا پیش گوئیاں کی گئیں۔
برطانوی اخبار ڈیلی میل نے کئی برس قبل (7 نومبر 2011ء) کو ایک طنزیہ مضمون شایع کیا تھا۔ لارا پاویل لکھتی ہیں ''جب ریورند تھامس مالتھس 1798ء میں دنیا کو بڑھتی ہوئی آبادی کے عذاب سے سہمارہے تھے قحط اور وباؤں کے خوف سے ڈرا رہے تھے تو اُنھیں قطعی اندازہ نہ تھا کہ وہ کتنے غلط ثابت ہونے والے ہیں۔ 2 صدیاں بیتیں آبادی 7 ارب کو جا پہنچی، اُن کی سوچ مکمل طور پر غلط ثابت ہوئی۔ دنیا تو ختم نہیں ہوئی اُن کی نسل البتہ ختم ہو گئی۔
آبادی پر لکھے گئے مضمون کے محض 86 برس بعد اِن کے خاندان کی آخری چشم وچراغ ایمیلی کے انتقال کے ساتھ ہی تھامس مالتھس کی نسل بھی ختم ہوئی۔'' بعینہٖ 1968ء میں اسٹینفورڈ یونیورسٹی پال آر ایھرلک ایک کتاب لکھتے ہیں۔ پاپولیشن بم۔ کتاب کے سرورق پر تحریر ہے۔ جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہیں تو اِسی دوران بھوک سے 4 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اِن میں سے بیش تر بچے ہیں۔ یہ کتاب بہت مقبول ہوئی۔
کتاب کا نام اور یہ اقتباس ہی ظاہر کرتا ہے کہ کتاب میں آبادی میں اضافے سے خوف دِلایا گیا ہے۔ یعنی اِسی رفتار سے آبادی میں اضافہ ہوا تو زمین رہنے کے لیے تنگ پڑجائے گی، اجناس کم پڑ جائیں گی، لوگ بھوک مرنے لگیں گے۔ قحط، وبائیں اور امراض عام ہو جائیں گے۔
اب سے کچھ عرصہ قبل کچھ افراد نے چند دل چسپ اعداد وشمار جمع کیے۔ دنیا میں اندازاً 7,268,730,000 افراد رہتے ہیں۔ امریکا کی صرف ایک ریاست ٹیکساس کا رقبہ 268,820 اسکوائر میل ہے۔ 7,494,271,488,000 اسکوائر فٹ۔ اگر ہم دنیا کی کُل آبادی 7,494,271,488,000 کو صرف ٹیکساس کے رقبے یعنی 7,268,730,000 سے تقسیم کر دیں تو جواب آتا ہے۔ 1031 اسکوائر فیٹ فی فرد۔ یعنی آج اگر پوری کی پوری انسانیت صرف ٹیکساس میں جا بسے تو یقین جانیے ہر فرد کے پاس اتنی اتنا بڑا گھر ہو گا کہ جس کا آج 80 فی صد آبادی خواب بھی نہیں دیکھتے۔ آج آدھے سے زیادہ انسان شہروں میں آن بسے ہیں۔ اِس لیے ہمیں شہروں میں آبادی کا دباؤ دکھتا ہے۔ صنعتی انفجار سے قبل ایسا نہیں تھا۔
دنیا کے دو بڑے ادارے، اقوام ِ متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن، ایف او اے اور ورلڈ فوڈ پروگرام ڈبلیو ایف پی۔ ہمیں بتاتا ہے کہ ہر برس دنیا میں پیدا ہونے والا غلہ ہماری ضروریات سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق تو دُگنے سے بھی زیادہ۔ 1989ء میں ایک کتاب شایع ہوئی، فوڈ اینڈ نیچرل ریسورسزیہ کتاب ڈیوڈپیمنٹل اور کارل ڈبلیو ہال نے ترتیب دی ہے۔ (اِس کا تیسرا ایڈیشن 2009ء میں فوڈ، انرجی اینڈ سوسائٹی کے نام سے آ چکا ہے) کتاب میں عمرانیات کے ماہر فریڈرک بُٹل اور لارا رینالڈ کے مطالعے ہیں۔
اعداد وشمار کے ذریعے وہ بتاتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی آبادی اور بھوک کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ یہ غیر مساویانہ تقسیم ہے جو فاقوں کی ذمے دار ہے۔ آج دنیا کا 80 فیصد غلہ 20 فی صد کے تصرف میں ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک جتنا اناج ضایع کرتے ہیں صرف اگر وہی تیسری دنیا میں تقسیم کر دیں تو کوئی بھوک سے نہ مرے۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اصلاً خطرہ کوئی نہیں ہے، اگر کوئی خطرہ ہے تو صرف سرمایہ داریت۔ سرمایہ داریت کو ختم کر دیں کوئی بھوکا نہیں مرے گا۔ مغرب ایک طرف آبادی میں اضافے کا خطرہ بتاتا ہے۔ دوسری طرف آزادی میں کمی کا خطرہ بتاتا ہے۔ تیسری طرف بیماری کا خطرہ بتا کر بچوں کو مرنے سے بچاتا ہے۔ چوتھی طرف زندوں کو بھوک کا خطرہ بتاتا ہے۔ ہر خطرے سے سرمایہ داری محفوظ اور وسیع ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ درست کیا ہے؟ آخر لوگ کب تک سرمایہ داری کے جھانسے میں رہیں گے؟